”ابھی جس طرح گزر رہی ہے گزرنے دو۔ آرام سے مل بیٹھ کر کچھ سوچیں گے۔ پہلے تمہیں اچھی جاب ڈھونڈ نی ہوگی۔”
”میں تو خوابوں میں رہنے والی تھی۔ مگر اب یہی خواب عذاب ناک ہوگئے ہیں۔”
”تم سناؤ کیسی ہو…؟ یہ اطلاع تھی کہ تمہاری شادی کسی مقامی سیاستدان سے ہوگئی ہے۔”
”ہاہاہاہا…”طاہرہ نے قہقہہ لگایا۔
”یہاں اتنے عرصے میں کسی ہم وطن سے دوستی نہیں کی؟”
”ہم وطن تو یہاں کتنے ہیں۔ صرف ساتھ کھانے پینے کے لئے تیار ہوتے ہیں ہر وقت۔”
”ویسے بھی یہ کڑی نظر رکھتا ہے۔ اس کے حساب سے تو میں ان برسوں میں بیس پچیس دوستیاں گانٹھ چکی ہوں۔ ویسے آج کل ایک بار کا نیا ملازم مجھے کھلی آنکھوں سے سپنے دکھلانے میں لگا ہوا ہے۔ مگر مجھے اب خواب دیکھ کر کیا کرنا ہے مجھے تو تعبیر چاہیے۔”
جاوید اور مہران کے گھر میں داخل ہوتے ہی دونوں نے اپنا مزاج ہی بدل لیا۔ صبا بتانے لگی کہ کہاں کہاں شاپنگ کرنے جانا ہے۔ مہران کو کس پارک میں ضرور جانا چاہیے اور کیا کیا مصروفیات رکھنی چاہیے۔ اسی طرح ہنسی مذاق میں تین گھنٹے گزار کر وہ واپس چلی گئی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”جب سے تمہارا ساتھ نصیب ہوا ہے زندگی بہت دلکش ہوگئی ہے۔ بس چاہتا ہوں تمہاری بندگی کرتے ہوئے آخری سانس لوں۔”
”پروردگار آپ کی زندگی طویل کرے تاکہ میں آپ کی محبت کی جنت میں طویل عرصے گم رہوں۔”
”کیا غضب کی رفاقت ہے تمہاری۔ کیا مزہ ہے تمہاری قربت میں۔ ایک شاعر کو اور کیا چاہیے۔ ایک حسین معصوم، سادہ دل، مہرباں آشنا۔ جس کی محبت میں کبھی کوئی شراکت ہی نہ ہو۔ زندگی کتنی بامقصد اور اہم ہے۔ جانے کیوں لوگ اسے ضائع کردیتے ہیں۔”
”میرے پاس جو کچھ بھی ہے سب آپ کے عشق کا صدقہ ہے۔ چاہے یہ ننھی ہنی ہو ، چاہے میری لبوں کی تازگی، میری رعنائی، زندہ دلی، سب آپ سے ملی ہے مجھے۔ آپ کی محبت نے سرشار کررکھا ہے۔ مجھے سر سے پاؤں تلک۔ کیا نشہ ہے آپ کی باتوں میں اور کتنا سرور ہے آپ کی سپردگی میں۔ جب آپ پاس نہیں ہوتے تب بھی میں اسی نشے میں شرابور رہتی ہوں۔ سارے حسین لمحے آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہیں۔ ”نورین بولتی ہوئی لمحے بھر کو رکی۔ تو وہ گنگنانے لگا۔ اس کی آواز نہایت دھیمی تھی مگر سر بہت واضح تھے۔ وہ بولی۔ ”کیا شعر موزوں ہورہا ہے؟ اس کا نقرئی قہقہہ درو دیوار نے بھی سنا۔
شہزاد نے کہا۔ ”کہاں… ! غزل تو میرے پہلو میںموجود ہے۔ جسے تم اپنی مخمور نگاہوں سے لکھتی ہو، اپنے رسیلے ہونٹوں سے سناتی ہو، تمہاری دلکشی اس میں رنگ بھرتی ہے۔ میں تو صرف اسے اپنے ذہن کے کاغذ پر ترتیب دیتا ہوں۔”
وہ کہتے کہتے ٹھہر گیا۔ عالمِ مدہوشی اور بھلا کیا ہوگی، اس نے دوبارہ کہا۔ ”اپنا خمار مجھے بخش دو جانی… کہ یہی مجھے توانائی بخشتی ہے۔ میری شب و روز کو رنگین بناتی ہے۔ میری زندگی کے دن بڑھاتی ہے۔ میری ساری تھکن اتارتی ہے۔ میری راہوں میں مشعلیں روشن کرتی ہے۔ یہی محبت ہے۔”
٭…٭…٭
”ایک تو سارے زمانے کا غم تم نے ہی لے رکھا ہے۔ اپنے بیٹے کو بھی پالتی پوستی ہو۔ میری رہبری کرتی ہو۔ بھیا کا خیال رکھتی ہو۔ بھابھی کو پوچھتی رہتی ہو اور پھر ہنی بے بی کی فکر اوپر سے اس میں ایک اور اضافہ صبا بیگم کا ہوگیا ہے… یار … ذرا مجھے بھی تو بتاؤ۔ یہ تمہاری کس زمانے کی سہیلی ہے۔” جاوید نے پوچھا۔
”بچپن کی محلے دار ۔” طاہرہ نے مختصراً بتایا۔
”اچھا سنو، اسے ہماری کہانی یعنی ”لو اسٹوری” کا معلوم ہے؟” جایود نے اپنی ایک آنکھ کو دباتے ہوئے پوچھا۔
”تم کیا ڈھنڈھورا پیٹتے رہتے تھے کہ سارے زمانے کو پتہ ہوگا؟” طاہرہ نے الٹا سوال کردیا۔
”اچھا… سنو! صبا کے گھر چل کے دیکھیں تو سہی۔ اس نے جو کچھ کہا کتنا سچ ہے۔ تم باہر کھڑے رہنا۔ میں اندر جاؤں گی۔ کہتی ہے اس کا شوہر ظالم ہے۔” طاہرہ نے آج کا شیڈول بیان کرتے ہوئے بتایا۔
شام سے پہلے ہی وہ جاوید کے ہمراہ صبا کے بتائے پتے کی طرف روانہ ہو گئی۔ گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ آسانی سے مل گیا۔ اس نے جاوید کو دور کھڑا کیا اور خود کال بیل پر انگلی رکھ دی۔ اندر چڑیا کے چہچہانے کی آواز آئی اور کچھ دیر بعد ایک تقریباً پچاس برس کا خبطی سا شخص جمائیاں لیتا ہوا باہر آیا۔
”گڈ ایوننگ۔ میں صبا کی سہیلی طاہرہ ہوں۔ قریب ہی رہتی ہوں۔”
متعارف سن کر آدمی نے سرہلایا اور اندر چلا گیا۔ تقریباً دس منٹ بعد وہ اپنا حلیہ درست کرکے نکلا اور خاموشی سے گیٹ سے باہر چلا گیا۔ اس کے پیچھے صبا برآمد ہوئی اور طاہرہ کو اندر لے گئی۔ اس کا پورا گھر ایسے بکھرا تھا جیسے کسی نے تلاشی لی ہو۔
”یہ شخص؟”
”یہی میرا شوہر ہے۔” طاہرہ کے سوال کے مکمل ہونے سے قبل ہی صبا نے بتادیا۔ ابھی وہ کمرے کا مزید جائزہ لے ہی رہی تھی کہ اس کا سیل فون بج اٹھا۔ ریسیو کیا۔ جاوید کہہ رہا تھا۔ ”جلدی باہر آؤ۔”
وہ اسی لمحے واپس پلٹی۔
ارے! رکو تو سہی ، اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ پہلی بار آئی ہو۔ میرے شوہر سے ڈر گئی ہو کیا؟”
نہیں… نہیں… بس تمہارا گھر دیکھ لیا… وہ تو ہم ادھر سے گزر رہے تھے سوچا تمہیں پوچھ لوں۔ویسے بھی جاوید کو کہیں جانا ہے۔ اب تمہارا گھر دیکھ لیا نا۔ پھر کبھی سہی… طاہرہ نے مسکراتی آنکھوں کے ساتھ کہا اور ہاتھ ہلاتی ہوئی واپس پلٹی۔ صبا نے خدا حافظ کہہ کر دروازہ بند کرلیا۔
٭…٭…٭
واپسی میں فون کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے جاوید نے کہا کہ صبا کے گھر سے نکلنے والے آدمی کو اس نے کہیں دیکھا ہے۔ بلکہ ایک پاکستانی بزنس مین ہے۔ جو وہاں عوام کو لوٹ کر بھاگا ہے اور یہاں پیسہ لٹا رہا ہے۔”
”او نو! یہ تو دو نمبر آدمی نکلا… تم تو اس سے نہیں ملے نا۔” طاہرہ نے پوچھا۔
”پاگل تھوڑی ہی ہوں۔ یہاں مجھے لوٹ کر بھاگ گیا تو کہاں ڈھونڈتا پھروں گا۔ اتنے بڑے امریکا میں۔” جاوید ہنسا
”ہاں… یہی تا خاص بات ہے تم میں وفاداری کے ساتھ ساتھ سمجھداری بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔”
طاہرہ اپنے شوہر کی تعریف کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اور اس ذرا سی تعریف سے اس وقت جاوید کا سیروں خون بڑھ گیا۔
دوسرے دن صبا کافون آیا۔
”میرا ہز بینڈ ایک ہفتے کے لئے بنکاک جارہا ہے۔ تم چاہو تو ہم خوب انجوائے کرسکتے ہیں۔ صبا نے خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا۔ بہت دنوں بعد میں نے گھر کو سجایا ہے تمہارے لئے۔”
”تم تو ایسے خوش ہورہی ہو جیسے وہ ہمیشہ کے لئے بنکاک چلا گیا ہو؟” طاہرہ نے پوچھا۔
”چلا ہی جائے تو اچھا ہے۔” صبا نے کہا۔
”ویسے وہ بنکاک کس لئے جارہا ہے۔” طاہرہ نے پوچھا۔
”پیسے لٹانے اور کس لئے۔” صبا نے برجستہ کہا۔
”زیادہ دیر نہیں… البتہ تھوڑی دیرکے لئے آجاؤں گی۔ تمہارا دل رکھنے کے لئے۔ کیونکہ بھابھی اور ہنی صبح ہمارے پاس ہی ہوتی ہیں۔”
”تو انہیں بھی لے آؤ۔” صبانے کہا۔
”نہیں ابھی بھابھی ریسٹ پر ہیں۔ ہنی ابھی ہماری دنیا میں نئی نئی آئی ہے نا۔”
”اوہ… اچھا… مبارک ہو۔ ویسے تم ضرور آنا۔جب تمہارے ہز بینڈ آفس چلے جائیں تو۔”
”ضرور… ضرور… میں تمہیں مایوس نہیں کروں گی۔”
وقت مقررہ پر طاہرہ صبا کے گھر باآسانی پہنچ گئی۔
پھر دونوں سہیلیاں بیٹھ کر یادوں کی پوٹلی کھولنے لگیں۔
کافی پینے کے ساتھ ساتھ صبا چند کاغذات بھی چیک کرتی جارہی تھی۔ طاہرہ بھی اس کا ساتھ دینے لگی۔ ایک گروپ فوٹو دیکھ کر طاہرہ حیرت زدہ رہ گئی۔ صبا کا ہزبینڈ تو تھا ہی اس فوٹو میں ساتھ ہی مریم بھی کھڑی تھی۔ اس کی سانس رکنے لگی۔ مریم کا اس شخص سے کیا تعلق ہے۔ بالآخر اس سے رہا نہ گیا اس نے پوچھ ہی لیا۔
”یہ کون ہے صبا؟”
”یہ… یہ پرسنل سیکریٹری ہے میرے ہز بینڈ کی۔ مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو۔” صبا نے سوال کیا۔
”میں سمجھی تم ہو…” طاہرہ نے بات چھپا لی۔
پھر وہ صبا کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھ سکی۔ اسے دوبارہ آنے کا کہہ کر واپسی کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
اس رات وہ بے حد بے چین رہی۔ یہ بات ایسی تھی کہ کسی سے شیئر بھی نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ مریم کا شوہر تو لاپتہ ہے پھر یہ کون ہے۔ یہاں اس تصویر میں؟” بھیا سے تذکرہ بے کار تھا۔ جاوید کو وہ اس خرابے میں ڈالنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ نورین کی اپنی معصوم سی زندگی تھی جس میں وہ قطعی ہلچل نہیں مچانا چاہتی تھی۔
”جانے مریم نے کس کس کے ساتھ کون کون سا گیم کھیلا ہے۔ اللہ بھیا کو اس کے شر سے محفوظ رکھے۔” آمین۔
٭…٭…٭
”ساری قانونی کارروائی اور ڈاکومینٹیشن کی نگرانی آپ کریں گے بھیا۔ تاکہ میرے بزنس کے سارے معاملات ٹھیک ٹھاک ہوں اور بعد میں کوئی رخنہ اندازی نہ ہو۔ ہنی دیکھتے ہی دیکھتے بڑی ہوجائے گی اس کی کیئر بھی ہم اپنے ڈے کیئر سینٹر میں ہی کریں گے۔ سچ مزہ آئے گا سارا دن میں اور بھابھی ساتھ ساتھ رہیں گے۔” خوشی سے طاہرہ کے رخسار تمتمانے لگے۔
”ہاہاہاہا…(قہقہہ) نویرن بھابھی کو تو سوائے شہزاد بھیا کے کوئی اور سجھائی ہی نہیں دیتا۔” یہ جاوید تھا۔
”اور تمہیں؟” طاہرہ نے برجستہ پوچھا۔
”میں … میرا تو قبلہ و کعبہ ہی تم ہو۔” ہاں ذرا سنئے عرض ہے۔
میرا نقش آنکھوں میں اپنے سبایا
مری زندگی کو ہے تم نے سجایا
معّطر معّطر فضاؤں کے راہی
تیرا شکریہ مجھ کو جینا سکھایا
میری زندگی کی، وہ سیدھی گلی تم
جہاں چل کے خوشبو نے رستا بنایا
یہ میری دعا ہے یہی ہے ، تمنا
رہے تم پہ میری محبت کا سایا
جو سپنے تمہارے ہوں ، تعبیرمیری
مجھے خواب غفلت سے کیسا جگایا
”واہ وا… کہاں سے ڈھونڈ نکالا ہے یہ گانا۔” طاہرہ نے تالیاں بجاتے ہوئے کہا۔
”یہ گانا نہیں ہے غزل ہے محترمہ اور شاعر ہیں اپنے شہزاد ازل بھیا۔ انہوں نے کسی اور کے لئے لکھا تھا۔ مجھے سنایا تو یاد رہ گئے اشعار۔ جاوید نے نورین کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ کیوں بھابھی کیسی غزل تھی۔
٭…٭…٭
”شوہر طلاق دے کر لاپتہ ہوگیا۔
بیوی بازیابی کے لئے احتجاج کرتی رہی۔”
اس دن سارے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی۔ خبر میں کوئی خاص بات نہیں تھی سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ جو تصویر لگی تھی اس نے شہزاد کو چونکنے پر مجبور کردیا۔ یہ وہ تصویر تھی جسے وہ ہزاروں کے مجمع میں بھی شناخت کرسکتا تھا۔ وہ مریم تھی۔
مریم کی آخری گفتگو اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔ اس کے ذہن میں سوالات اٹھنے لگے۔
”مریم کو سب کچھ معلوم تھا یا اس نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے۔
اس نے ایسا کیوں کیا؟ مریم سے بات کئے بغیر کچھ جاننا ممکن نہیں تھا۔
اسی طرح اس سے بات کرنے کی امید بھی نہ تھی۔
شہزاد نے اپنے لیگل ایڈوائزر کے ذریعے کراچی میں مریم سے رابطہ کیا۔ ”کیا ایجنسی پر الزام لگانے اور کزب زبانی کی یاداش میں گرفتار مریم کی رہائی کا سامان ہوسکتا ہے۔ شہزاد نے اسے پیغام بھجوایا کہ جیل سے رہائی اور زندگی کی طرف دوبارہ لوٹنا چاہتی ہو تو اصل راز سے پردہ اٹھا دو تاکہ تمہاری رہائی کے لئے کارروائی کی جاسکے۔
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں کے مصداق مریم کے تو دل کی کلی کھل گئی۔ وہ تو خوشی سے پھول کر سب کچھ سچ سچ اگلنے پرتیار ہوگئی۔ تب اس نے اپنا درست بیان ریکارڈ کروایا۔
کہ ”جب اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی اور چھوڑ کر چلا گیا تو اس نے اپنی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کے لئے خاص طور پر اپنے دیرینہ دوستوں اور رشتہ داروں کی تلاش میں مسنگ پرسن کی فہرست میں اپنے شوہر سلمان کا نام شامل کروا کر احتجاج میں شرکت کرنا شروع کیا۔ اسی طرح اس نے پروفیسر شہزاد تک رسائی حاصل کی اور اس کے دل میں ہمدردی پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی کیونکہ پروفیسر ایک ثابت قدم اور بلند کردار شخصیت کے حامل انسان تھے۔ جنہوں نے ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی اپنا اخلاق و کردار بلند رکھا۔
مریم نے وکیل کے سامنے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس نے آخری ملاقات میں جو کہانی شہزاد کو کار میں بیٹھ کر سنائی تھی وہ سب سچ تھا۔ اس کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا تھا۔ مگر یہ بھی غلط نہیں ہے کہ اس نے سلمان سے صرف دولت دیکھ کر شادی کرلی تھی۔ یقینا میں نے پروفیسر شہزاد کے جذبات کا خون کیا اور ان سے منگنی ختم کرکے انہیں اکیلے بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ پھر کبھی ان سے رابطہ نہیں رکھا۔ لیکن جب سلمان پروفیسر کا نام لے لے کر طنز کیا کرتا اور مجھے بے وفا، ہرجائی کہا کرتا تب میرا دل چیخ چیخ کر شہزاد کو آواز دیتا تھا۔ یہ تو مجھے بہت بعد میں اس وقت معلو م ہوا کہ وہ اپنی دنیا میں بہت خوش ہیں۔ جب یہ بات انہوں نے اپنی زبان سے مجھے خود بتائی۔ تب میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ان کا تعاقب چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ وہ جن معّطر سوچوں کے ہم رکاب ہیں میں… اس فضا میں پرواز کے بھی قابل نہیں ہوں۔”
”تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارا شوہر کبھی تمہاری طرف لوٹے گا؟ وکیل کے استفسار پر اس نے کہا۔ ”نہیں… وہ اب کبھی نہیں آئے گا۔ کیونکہ اس کی فطرت بھونرا جیسی ہے۔”
”تم آخری بار بتادو کہ شہزاد سے تمہیں اب کیا چاہیے؟” وکیل نے پھر سوال کیا۔ تم نے انہیں ہمیشہ بہت ڈسٹرب کیا ہے۔”
”اس کڑے وقت میں انہوں نے اپنی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا ہے۔ مجھے ان سے کچھ نہیں چاہیے… میں بہت شرمسار ہوں اور ان سے معذرت کی خواہاں ہوں۔”
”اگر وہ تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہیں تو؟” وکیل نے اس کے دل کو ٹٹولنا چاہا۔
”نہیں… میں اس قابل ہرگز نہیں ہوں۔ میرا نام ہرجائیوں کی فہرست میں تحریر کیا جاچکا ہے اور وہ… ان لوگوں میں سے ہیں جو صحیح معنوں میں زمین میں خدا کا نائب ہوتے ہیں۔
میں ان کے کاروانِ زیست کے راستے کا کتا بن کر نہیں بھونکنا چاہتی۔”
وہ واقعی اعلیٰ انسان ہیں محبت میں گندھے ہوئے۔ محبت سے بندھے ہوئے۔ محبت کے اسیر… اور میں … بہت اسفل…بہت ہی۔”
”ہوں… چند دنوں بعد جب تمہیں رہائی ملے گی۔ تب تم کیا کروگی۔” وکیل کے پوچھنے پر اس نے برجستہ جواب دیا۔
”اپنے دونوں بچوں کو ان جیسا بنانے کی کوشش کروںگی۔ اور میری زندگی میں ہے ہی کیا؟… انہوں نے ایک سطحی ذہن رکھنے والی اس ہرجائی عورت کے لئے، جو ان کے جذبات سے کھیلتی رہی ، جو کچھ کیا۔ اسے ان کی وفا کا صدقہ سمجھ کر تہہ دلسے قبول کروں گی۔”
وکیل نے اس کی باتوں کی گہرائی ناپنے کے لئے اس کے چہرے کی طرف بغور دیکھا۔ چھپانے کی ناکام کوشش کے باوجود، دو موٹے آنسو اس کی غزالی آنکھوں سے نکل کر رخسار پر بہہ گئے۔ واقعی جہاں زبان رک جائے وہاں آنکھیں بولتی ہیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});