(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(نظم) تمہاری آمد سے پہلے
منتظر آنکھیں مری ہر دم
استقبال کرنے کے لئے
بے چین رہتی ہیں
تم آؤ!
اور میں تم کو
محلیتے بازوؤں میں سمیٹوں
خوب چوموں
گد گداؤں
ننھے منے، نرم و نازک
ہاتھ میں انگلی تھماؤں
اور تم اوہ آں کی آوازیں نکالو
پھر تمہیں میں دیکھ کر
جینے کے سب رستے نکالوں
واہ بھئی واہ… بچے کی آمد سے پہلے ہی نظم موزوں ہوگئی۔ اسے فریم کراکے گھر میں آویزاں کردو۔ جب بچہ بڑا ہوگا تو پڑھے گا۔” دونوں نے مشترکہ قہقہہ لگایا۔
٭…٭…٭
”ہیلو… شہزاد! مجھ سے ایک بار مل لو۔”
”تمہیں میرے بارے میں اتنی خوش گمانی کیوں ہے؟” شہزادنے پوچھا۔
”میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔” مریم نے انکشاف کیا۔
”ابھی کہہ دو اگر کچھ رہ گیا ہو تو… میں تم سے مل نہیں سکتا۔”
”فون پر نہیں… تمہارے روبرو بات کرنا چاہتی ہوں۔ میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے سلمان سے کیوں شادی کی۔”
”مجھے تمہاری ذاتی باتوں سے کوئی سروکار نہیں۔”
”جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ کسی کی بیٹی کے ساتھ نہ ہو۔”
”میرا ان باتوں سے کیا تعلق ہے۔” اس نے فون بند کردیا۔
دوسرے دن وہ کالج سے گھر کے لئے روناہ ہونے ہی والا تھا کہ گاڑی میں بیٹھتے وقت ایک برقع پوش عورت نے تیزی سے دروازہ کھولا اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ ابھی وہ کچھ سمجھنے کی کوشش میں ہی تھا کہ عورت نے نقاب الٹ دیا۔ وہ ششدر رہ گیا۔ وہ مریم تھی۔
”تم مجھے غلط نہ سمجھو… میں تم سے تمہاری محبت کی بھیک نہیں مانگ رہی۔ گاڑی میں بیٹھ کر میری بات سن لو۔”
وہ خاموش سے بیٹھ کر بلا مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑانے لگا اور وہ بولتی رہی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”سلمان نے مجھے شادی کی رات بتایا کہ اس نے مجھے پھانسا تھا۔ تاکہ پاپا سے کسی دیرینہ رنجش کا بدلہ لے سکے۔ میں اسے اپنے باپ کا دوست سمجھتی رہی۔ اور وہ مجھے پھنسانے کے لئے جال بنتا رہا۔ کب کیا اور کیسے ہوا مجھے معلوم ہی نہ ہوگا۔ جب مجھے ہوش آیا تب تک میری شکم میں اسکا بچہ پرورش پارہا تھا۔ میں تڑپ کر رہ گئی اور اس سے شادی کرنا بہتر سمجھا۔ کیونکہ تمہارا سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ تمہیں کیسے یقین دلاتی کہ میں تمام حالات سے ناواقف تھی۔ اتنا بڑا حادثہ ہوگیا اور عورت کو خبر ہی نہ ہو اس بات کا کوئی یقین نہیں کرے گا۔ میں تمہیں دھوکا بھی نہیں دے سکتی تھی۔ سلمان کو میری اور تمہاری محبت کا بھی علم تھا۔ وہ اب تک اکیلے میں تمہارے نام کے کچھ کے لگاتا تھا۔ کہتا تھا وہ تو منگیتر تھا۔ اس کے آگے تو سر جھاک دیتی ہوگی۔ بتاؤ کب اور کہاں ، کن ہوٹلوں میں رنگ رلیاں بناتے تھے تم لوگ۔ میں تو بے موت ماری گئی ہوں۔ میری زندیگ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ تمہاری خوش گوار یادوں کے سوا۔ یہ تو میں جانتی ہوں کہ اس کے لاپتہ ہونے سے میں نے سکون کا سانس لیا ہے۔”
وہ ہکا بکا سنتا ہی رہا… پھربولا… ”میں کچھ سمجھ ہی نہیں سکا۔ تم کوئی ننھی بچی تو تھی نہیں کہ تمہیں کچھ پتہ ہی نہ چلا ہو کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے۔”
”اگر دھوکے سے نشہ آور شے پلادی جائے تو کون ہوش میں رہتا ہے۔”
”اسے رات گئے کسی فارم ہاؤس سے گرفتار کیا گیا تھا پھر اس کا پتہ نہ چل سکا۔”
”بتاؤ … تمہیں کہاں ڈراپ کروں… مجھے ضروری کام سے کہیں اور جانا ہے۔”
”تم سے بس اتنی گزارش ہے کہ مجھے دھوکے باز مت سمجھنا۔”
”اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کہ تم نے شادی کی حامی بھری تھی۔”
”یہ بالکل سچ ہے… میں تمہیں دھوکا کیوں دیتی۔”
”مجھے کچھ بتاتی تو… تم نے میری محبت پر بھروسہ نہ کیا۔”
”نہیں ایسا نہیں تھا۔ میں نے تمہاری محبت کے قابل خود کو نہیں سمجھا۔ میں کس منہ سے تمہارا سامنا کرتی۔ میں تمہیں کسی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ نہ ہی شرمساری کی زندگی کاٹ سکتی تھی۔ یہ سب باتیں جان کر بتاؤ اب کیا تمہیں میں قصور وار لگتی ہوں۔ یا تم مجھے ہی قصور وار سمجھتے ہو؟”
”واللہ اعلم۔”
”میں تو محبت کی پگڈنڈیوں پر تمہارے ساتھ رواں دواں تھی۔ اس نے کسی طرح گھات لگایا مجھے آج تک معلوم نہ ہوسکا۔جب دوسری بار اس نے مجھے کھلے الفاظ میں شب سری کے لئے مدعو کیا اور میں نے انکار کردیا تو اس نے بتایا کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوچکا ہے جب میں ہوش میں نہیں تھی۔ کسی تقریب میں اسنے جوس میں نشہ آور شے ملا کر مجھے کسی کمرے میں پہنچوا دیا اور پھر وہاں مجھے انجکشن کے سہارے تین گھنٹے تک مدہوش رکھا۔ یہی سب بتانے کے لئے دوبارہ بلاکر پہلے والے کام کئے۔ اس دن اس نے خوب مجھے نوچا کھسوٹا۔ اور تیسری بار آنے کے لئے اصرار کیا۔ میں دم بخود رہ گئی۔ ابو پر بھی اس نے شادی کے لئے بہت دباؤ ڈالا۔”
”تم مجھے توبتاتی۔” شہزاد نے رنجیدہ ہوکر کہا۔
”یہ ساری باتیں کون مرد برداشت کرے گا۔”
”تو اب مجھے کیوں بتارہی ہو؟”
”تاکہ تم میری وفا پر الزام نہ دھرو۔”
”کیا تمہارے والدین کو بھی کچھ نہیں معلوم؟”
”نہیں کسی کو بھی نہیں معلوم۔ اس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو ورنہ میری میڈیکل رپورٹ سب کو دکھا دے گا۔ اور شادی سے انکار کی صورت میں ابو اور تمہیں قتل کروا دے گا۔”
”انہی دنوں میں اپنی سب سے اچھی سہیلی طاہرہ سے بھی کٹ گئی۔ میں نے جان کر طاہرہ سے کنارہ کیا اور اپنے ہونٹوں پر خاموشی کی مہر لگا کر خود کو حالات کے حوالے کردیا۔
”تمہیں ہار نہیں ماننی چاہیے تھی۔ سچائی تو ڈٹ جایا کرتی ہے۔ مقابلہ کرتی ہے حالات کا ۔ تم نے کیوں نہ ہمت سے کام لیا؟”
”میرے ساتھ اس نے جو کچھ کیا وہ بہت غلط تھا بھلا عورت کی مرضی کے بغیر سب کچھ باربار ہوسکتا ہے۔ میں کسی سے کس طرح تذکرہ کرسکتی تھی۔”
”تمہیں کم از کم اپنی ماں کو اعتماد میں ضرور لینا چاہیے تھا۔ مائیں بیٹیوں کے لئے کٹھن حالا ت میں ڈھال بن جایا کرتی ہیں۔”
”میں شدید کرب و اذیت سے گزری ہوں۔ جائزہ و ناجائز ، پاکی و ناپاکی جیسے مسائل نے مجھے نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ لڑکیوں کو کبھی اکیلے نہیں رہنا چاہیے۔ کبھی بھی نہیں ۔ جانے کون جال لئے بیٹھا انتظار کررہا ہوتا ہے۔
جب ہم جیسی پڑھی لکھی، مضبوط عورتوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے تو اس معاشرے کی پسی ہوئی، غریب عورتوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا ہوگا۔”
”آئندہ کا سوچو۔”
‘کیا سوچنا ہے۔ خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ہے۔ میرے دونوں بچوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ تم سے زیادہ مخلص آدمی میری زندگی میں اور کوئی نہیں ہے۔”
”اللہ حافظ… اس نے تیزی سے دروازہ کھولا اور سامنے سے آتے رکشے کو ہاتھ دے کر روکا اور اس میں بیٹھ کر چلی گئی۔
وہ گاڑی میں اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک رکشہ اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا اور اس کے حواس بحال نہ ہوگئے۔
اس کے سمجھ میں نہیں آسکا کہ وہ کیا کرے۔ یہ ایسا معاملہ تھا کہ اس پر دکھی بھی نہیں ہوا جاسکتا تھا، وقت اتنا گزر چکا تھا اور بات اتنی پرانی ہوچکی تھی کہ غصے کا اظہار بھی بے کار تھا۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا بھی مشکل تھا۔ وہ طرح طرح کے سوالوں میں الجھنے ذہن کو جھٹک کر اور لمبے لمبے سانس لے کر اپنی سوچوں سے الگ کرتا رہا پھر گھر کی جانب گاڑی موڑ لی۔ جہاں اس کے جنت نما آشیانے میں وفا شعار بیوی یقینا اس کی قدموں کی آہٹ سننے کی منتظر تھی۔ جسے تاخیر کی صورت میں خدشے ستانے لگتے۔ اس نے اپنے ذہن کو آنے والے بچے کی طرف مبذول کرلیا ۔
”یہ مریم کیوں میری زندگی میں دوبارہ آگئی ہے؟ خدا یا مجھے ہر امتحان سے سرخرو نکالنا۔ خدا جانے وہ میری ہمدردی کیوں حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔ مجھے یہ سب کیوں بتارہی ہے۔ اسے کیوں یہ ضرورت پیش آگئی کہ میں اسے بے وفا نہ سمجھو؟” اسی طرح کی سوچوں میں گھرا وہ گھر پہنچ گیا۔ پہلے سوچا کہ سارا احوال نورین کے گوش و گلزار کرکے اس سے مشورہ مانگے… مگر نہیں… جیسے نازک حالات سے وہ گزر رہی ہے ۔ اس کے ساتھ کوئی مشکل پیش آسکتی ہے۔ دل میں مریم کے لئے سوائے اجنبیت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے یا اسے دھتکارنے کی بھی ہمت نہیں۔
ایسا کر بھی کیسے سکتا تھا۔ کبھی جس کی جھیل سی آنکھوں میں ڈوبا رہتا تھا۔ اب اس کے آگے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ نگاہیں جھکائے رکھے، مبادا پرانی محبت دوبارہ نہ سر اٹھالے۔
وہ دوراہے پر کھڑا تھا۔ نورین کی طبیعت کچھ کہنے سے روک رہی تھی۔ اس معاملے میں وہ تنہا ہوگیا تھا۔ وہ ڈر رہا تھا کہ نورین کو مریم کے بارے میں جان کرکوئی شاک نہ پہنچے کہ بچے کی ولادت میں پیچیدگی پیدا ہو۔ بہتر یہی تھا کہ چھٹی لے کر جلد از جلد طاہرہ کے گھر امریکا چلا جائے۔
وہ آج ڈسٹرب تھا لہٰذا گھر جانا مناسب نہ سمجھا اور نورین کو فون کردیا کہ ویزے کے سلسلے میں ایک ضروری ملاقات کرنی ہے۔ لہٰذا وہ کوئی ٹینشن نہ لے۔ ایک کو لیگ کے پاس ڈیڑھ گھنٹے بیٹھ کر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور گاڑی کو دوبارہ گھر کے رستے پر ڈال دیا۔
”آپ نے ایمبیسی جانے کا یکا یک پلان بنالیا؟”
”ہاں وہاں ایک صاحب سے بھی ملنا تھا۔ مگر آج وہ بہت بزی ہوگئے۔”
”کھانا کھایا؟” نورین نے پوچھا۔
”نہیں… میں ٹریفک میں پھنس گیا تھا۔ لنچ ٹائم رستے میں ہی گزر گیا۔ لہٰذا یونہی واپس آگیا۔۔ ترکھانا لگاؤ۔ میں شاورلے لوں۔” شہزاد کے نہاکر فارغ ہونے تک اس نے میز پر کھانا چن دیا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے کھانے پر نورین کا ساتھ دیا۔ پھر حسب عادت لیٹ گیا۔وہ سوناچاہ رہا تھا پر نیند کی پری مہربان ہونے کو تیار نہیں تھی۔ کروٹیں بدلنا اسے خود بھی محسوس ہورہا تھا۔
”کوئی کام اٹک گیا ہے کیا؟” نورین نے پوچھا۔
”نہیں ایسا توکچھ نہیں ہے مگر امریکا جانا آسان نہیں ہوتا۔ تم طاہرہ سے رابطے میں رہنا۔ اگلے ہفتے تک ہمارے سارے کام مکمل ہوجائیں گے۔ وہاں ہاسپٹل میں تمہاری رجسٹریشن وغیرہ بھی کروانی ہے۔”
”اس کی فکر آپ نہ کریں۔ طاہرہ ہے نا وہ سنبھال لے گی۔” نورین نے تسلی دی۔
٭…٭…٭
دوسرے دن کالج سے واپسی کے بعد اس نے چند جوڑے اپنے نورین اور بچے کے لئے خریدے اور پیکنگ بھی خود ہی کی۔
شکاگو پہنچتے ہی جاوید اور طاہرہ نے خوش آمدید کہا۔ جاوید کودیکھ کر ہی دل مطمئن ہوگیا۔ طاہرہ نے اسے خوب سنوارا سدھارا تھا۔ اب وہ کہیں سے بھی پہلے والا لاابالی اور غیر ذمہ دار جاوید نہیں لگ رہا تھا۔ گھر کے کاموں میں بھی وہ طاہرہ کا پورا ساتھ دیتا۔ بیٹے کے ساتھ کھیلتا۔ پہلے کے مقابلے میں وہ اب ایک خود اعتماد شخص لگ رہا تھا۔ دل سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے۔ شہزاد نے اپنی تسلی کی خاطر اپنے دوست سے بات کی جوکہ جاوید کا باس تھا۔ تو معلوم ہوا کہ دفتری معاملات میں بھی وہ ٹھیک جارہا ہے۔ اور ذہنی طور پر کافی شاپ ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ طاہرہ سکھی تھی۔ ورنہ جاوید سے شادی کے بعد اس نے پریشانیاں دیکھی تھیں۔
نورین طاہرہ کے گھر آکر بہت خوش تھی۔ گھر کے قریب ہاسپیٹل میں نورین کا چیک اپ اور رجسٹریشن بھی ہوگیا۔ دونوں مل کر خوشی خوشی سارے کام کررہی تھیں۔ شام کو جب سب اکٹھے بیٹھتے تو گھر کا ماحول خوشگوار ہوجاتا۔ وقت تیزی سے پر لگائے بغیراڑا جارہا تھا۔
طاہرہ نے کہا۔ ”بھیا آپ بھی یہاں شفٹ ہونے کا سوچیں۔ میرا بے بی کیئر سینٹر کھولنے کا ارادہ ہے۔ سچ میں اور نورین مل کر اچھی طرح چلا لیں گی۔بلکہ اس کے مطابق اس نے تحریری پلاننگ تک کرلی ہے۔ رقم بھی میں انداز کی ہوئی ہے۔
٭…٭…٭
اس نے امریکا جاکر بھی بہت کوشش کی کہ اس کے خیال کوجھٹکنے کی مگر چھٹکارہ نہ مل سکا۔ اس نے اپنے دل سے پوچھا کہ مریم جھوٹی ہے یاسچی؟ ہر بار نورین کامعصوم چہرہ اس کے سامنے آجاتا۔ گویامریم کے خیال پر نورین کا تصور حاوی تھا۔ اور پھر اپنا ہمکتا ہوا نومولوداس کے خیالوں پر چھاجاتا ۔ طاہرہ بار بار یاد دہانی کرا رہی تھی کہ ”بھیا یہیں شفٹ ہوجائیں میں اورجاوید اکیلے ہیں۔” دراصل وہ اپنے بھائی اور بھابی کو مریم کے سائے سے بھی دور رکھنا چاہتی تھی۔ اس کے فرشتوں کو بھی خبرنہیں تھی کہ مریم اس کے بھائی سے ملاقات بھی کرچکی ہے اور اس کا بھیا اسی کے گھرمیں بیٹھ کر مریم کے خیال کوجھٹکنے کی کئی بارناکام کوشش کرچکا ہے۔ اس کی پوری توجہ نورین کی جانب تھی۔ تاکہ وہ مریم کے بھوت سے چھٹکارہ حاصل کرسکے۔ نورین کو اسپتال میں داخل کرانے کے بعد وہ زیادہ تر اسپتال کے چکر لگاتا رہتا۔ حالانکہ وہاں اس کی ضرورت نہ تھی مگرپھر بھی اس کے پاس بیٹھا گفتگو کے ذریعے اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتا رہتا تاکہ اسے اپنی تکلیف کا احساس کم ہوتا محسوس ہو کیونکہ مصیبت یا تکلیف کے وقت پہلا مرہم تو کسی اپنے کا سہارا یاقربت ہی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ بے بی رات تک اس کی گود میں آجائے گا۔ اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ وہ نورین کی تکلیف کے احساس کو کم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کے سرہانے بیٹھا کبھی اس کے بال سہلاتا، کبھی ہتھیلی تھپتھپاتا۔ کبھی تسلی بھرے جملے فقرے کہتا۔ کبھی پاؤں دبائے بیٹھ جاتا۔
وہاں کے میڈیکل اسٹاف نے اسے ”لو گرو” کہنا شروع کردیا۔ شام سے کچھ دیر قبل ہی ایک گلابی گلابی نرم و ملائم بچی اس کی بانہوں میں آگئی۔ جلد ہی اسپتال سے چھٹی مل گئی۔ گھرجاکر سب نے بچی کے گرد جھمگٹالگالیا۔ کبھی کوئی اس کا معائنہ کررہا ہوتا کبھی کوئی۔ طاہرہ کا بیٹا پہلی بار بے بی کو دیکھتے ہی خوش ہوگیا۔ تمہارے گھر ڈول آئی ہے۔” خوب شور مچایا۔ کھلونوں سے کمرہ بھر گیا اور یہ سارے کھلونے بڑے پھیلائے بیٹھے تھے۔ جیسے بے بی ابھی ان سے کھیلنا شروع کردے گی۔ بس وہ شہزاد کی سنائی ہوئی لوری کی آواز پر کسی کسی وقت آنکھیں کھولتی تھی۔
گلشن میں پھول کھلا
تتلی کو رنگ، ملا
پھولوں کے سنگ چلا
بادل بھی جھوم اٹھا
اترائی باد صبا
آنچل بھی خوب اڑا
تاروں کے اور چلا
آجا آجا نند یا
بے بی کولوری سنا
نندیا بھیلے کے آ۔
شہزاد نے یہ لوری سوئی ہوئی بچی کو اتنی بار سنائی کہ اب یہ لوری سبھی کی زبان پر تھی۔ اور یکے بار دیگرے کوئی نہ کوئی بندہ اسے بے بی کو سنا ہی رہا ہوتا تھا۔ وہ سب مل کر نورین اور بچی کا خیال رکھ رہے تھے۔ طاہرہ گھر کے تمام معاملات دیکھتی اور جاوید اور بھیا اس کے اسسٹنٹ بنے پھرتے۔ ان کا بیٹا مہران تینوں کے پیچھے پیچھے گھومتا رہتا۔ بچی کو آئے چھ دن ہونے والے تھے کہ سب نے مل کر چھٹی منائی طاہرہ نے ہلدی والے چاول یعنی لمہاری پکائی، لڈو منگوائے گئے اور آپس میں ہی ایک دوسرے کو کھلاتے رہے۔ اسی طرح انجوائے کرتے ہوئے دو ماہ گزر گئے۔ اب شہزاد کو جانے کی فکرہوئی۔ چھٹیاں ختم ہونے میں دس دن رہ گئے تھے۔ شہزاد نے پیکنگ کرنا شروع کردی۔ اُدھر طاہرہ بار بار یاد دلاتی ”بھیا جاتے ہی یہاں سیٹل ہونے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردیجئے گا۔ آپ میرے پاس رہیں گے تو ایک سے دو بھلے۔”
”تو کیا جاوید کی طرف سے اب بھی کوئی پریشانی کے امکانات ہیں؟”
”نہیں بھیا۔ مگر اسے بھی معلوم ہونا کہ میرا بھی کوئی ہے۔ دس واقف کا ر آس پاس رہتے ہوں تو بھی عورت ایک طرح سے محفوظ اور مضبوط رہتی ہے۔ یونہی کک مارنا آسان نہیں رہتا کہ آجائیں گے اس کے والی وارث۔”
”اوہ اچھا… حفظ ماتقدم۔” شہزاد مسکرایا۔
”ہاں یوں ہی سمجھ لیں۔” اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ ”کراچی میں مجھے زندگی غیر محفوظ لگتی تھی یہاں تو قدرے سکون ہے۔”
”شکر ہے۔” شہزاد نے کہا۔ اور اسے تسلی دی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});