”کیسی باتیں کرتے ہو توبہ توبہ، جیسے کہ تمہیں تومحبت تھی ہی نہیں یاد کرو… تم نے کہا تھا کہ میری محبت کا چراغ تمہارے دل میں ہمیشہ روشن رہے گا۔”
”تمہارے ابا نے وہ چراغ پھونک میں بجھا دیا تھا۔ جس میں تمہاری بھی مرضی شامل تھی۔”
”تمہیں نہیں معلوم شہزاد…! اپنے شوہر کی قربت میں بھی تمہارا تصورمیرے ساتھ رہا ہے۔”
”تم بے ایمان عورت ہو۔”
”میرا ہی تو ایمان سلامت ہے۔ بزدل تم نکلے جس طرح جاوید طاہرہ کو لے بھاگا تھا تم بھی مجھے لے جاتے۔” اس نے عجیب بات کہہ دی۔
”طاہرہ کو کوئی نہیں لے بھاگا تھا محترمہ… ! اس کے نکاح میں گواہ میں بھی تھا۔”
میری بہن کو ذلیل کرنے کے بجائے اپنے بچوں کو سنبھالو۔ ان کی فکر کرو۔ بھول جاؤ محبت ومحبت۔ تمہارے بچوں کے حق میں یہی بہتر ہے۔ مجھے معاف کرو۔ میں تمہاری باتوں میں آکر تمہیں رسوا نہیں کرسکتا۔ عقل کے ناخن لو۔ میں اب پہلے والا شہزاد نہیں ہوں۔”
”تو میں کیا سمجھوں… تم مجھے دھتکار رہے ہو۔” مریم نے روہانسی ہوکر پوچھا۔
”میں نے تمہیں نہ پہلے دھتکارا تھا نہ ہی اب ایسا کررہا ہوں۔ لیکن تم جو چاہتی ہو وہ نہیں ہوسکتا۔ خدانخواستہ تمہارا شوہر واپس بھی نہ آیا تب بھی تمہارا میرا کوئی تعلق نہیںجڑ سکتا۔ اب مجھے محبت کے واسطے نہ دینا اور اپنی بات یاد رکھنا کہ محبت کسی وجود کے حصول کا نام نہیں ہے… میں چاہتا ہوں کہ دنیا کے سامنے تمہارا نام احترام سے لوں۔ کیونکہ محبت تکریم کا پہرا نام ہے۔”
”یہ کیسی محبت ہے جو میرے کسی کام کی نہیں۔” مریم نے دوٹوک الفاظ میں کہا۔
”مسنگ پرسن کی واپسی بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ قانونی باریکیاں ہیں اس میں… کوئی بچے کی گمشدگی نہیں ہے کہ جاکر مسجد میں اعلان کرادیا جائے۔”
”تم تو بالکل مجھ سے جان چھڑا رہے ہو۔” مریم نے بات آگے بڑھائی۔
”خدا کرے تمہارے شوہر کی جلد واپسی ہو۔” شہزاد نے بات ختم کرکے فون بند کردیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”کیسی عورت ہے، شوہر کے غائب ہوتے ہی آپ کے پیچھے لگ گئی۔” نورین نے کہا۔
”اُسے خبر بھی ہے کہ میں بھی ہوں آپ کی زندگی میں شامل۔” نورین نے پوچھا۔
”ارے خود غرض لوگوں کو اس سے کیا مطلب کہ کون کسی کی زندگی میں شامل ہے۔ اور کون نہیں۔ انہیں تو فقط اپنا الو سیدھا کرنا ہوتا ہے۔” شہزاد کا لہجہ قدرے ترش تھا۔
”خدا جانے اسے کس بات کی ضد ہے۔” شہزاد سوچ میں پڑگیا۔
”وہ اپنی چاہت کو زندہرکھنا چاہتی ہے شاید۔” نورین نے کہا۔
”لیکن میں اپنے پارٹنر سے دغا نہیں کرتا۔ اسے یہ یاد نہ رہا۔”
”آپ اسے یہ یاد دلائیں۔”
”کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جو بات ختم ہوگئی… ہوگئی… میرے لئے اب تم ہی سب کچھ ہو… اور تم سے وابستہ سارے دکھ سکھ میرے ہیں۔ میری خوش گوار زیست کا سب ہی تم ہو، ورنہ میں اس ادھوری محبت کے غم میں سلگتا ہی رہتا۔” شہزاد کی آواز دل کی گہرائی سے آرہی تھی۔
”تمہاری سادہ دلی اور مخلص نے مجھے زندگی کا نیا رخ دکھایا ہے۔ میں کتابوں کی دنیا میں رہنے والا آدمی ہوں۔ لفظوں کی حرمت کا مجھے پاس ہے۔ اور جذبوں کی کاملیت کا حساس تم نے میرے اندر ابھارا ہے۔ تمہاری سادہ دلی اور معصومیت نے۔محبت کا سبزہ معصوم لوگوں کے دلوں میں سر اٹھاتا ہے۔ جندلون میں چالاکی، مکاری، جھوٹ گھر کرلے وہاں محبت رخصت ہوجاتی ہے۔ جیسے مریم کے دل سے میری محبت رخصت ہوئی تھی۔” شہزاد نے پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
”میں دعا کروں گی کہ وہ آپ کو بھول جائے۔” نورین نے صدقِ دل سے کہا۔
اب مریم کے فون وقت بے وقت آنے لگے۔ لیکچر کے دوران زیادہ تر شہزاد نے فون بند رکھنا شروع کردیا۔ تاکہ کلاس ڈسٹرب نہ ہو۔
اس رات انہوں نے جیسے ہی فون آن کیا، مریم کی کال آگئی۔
”تمہیں میرا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔” اس نے سوال کیا۔
”آدمی رات کو تم ایک غیر مرد کو کیوں فون کررہی ہو۔” شہزاد تنگ آگیا۔
”تم ہی تو اپنے ہو… سنو تو… میں اس سے کبھی بھی خوش نہیں رہی۔”
”تم میرے پاس ہوتیں تب بھی خوش نہیں رہتیں کہ لفظ، جملے، نظمیں، غزلیں تمہاری ضروریات پوری نہیں کرسکتے تھے۔ جبھی تو تم اور تمہارے گھر والوں نے جانتے بوجھتے ایک بدعنوان افسر سے شادی طے کرلی تھی۔”
”تمہیں نہیں معلوم وہ اپنا زیادہ تر وقت دوسری عورتوں میں گزارتا ہے۔ میں تو پہلے ہی اس سے دور تھی۔ اس کے اغوا سے سمجھو مجھے سکون ملا ہے۔” مریم نے ایک نیا سوشا چھوڑا۔
”تم تو چاہ رہی ہو کہ میں بھی، اپنا وقت غیر عورتوں میں کاٹوں، میں علم بانٹتا ہوں۔ نسلوں کی تربیت کرتا ہوں۔ میرا ماضی اور حال نہایت شفاف ہے میرا مستقبل بھی داغ دار نہیں ہوگا۔”
”کیا میں غیر ہوں۔”مریم نے پوچھا۔
”بالکل شرعی و قانونی بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی۔” شہزاد نے بتایا۔
”عشق لڑاتے وقت تمہاری شریعت کہاں تھی۔” مریم نے برجستہ سوال داغے۔
”تمہاری محبت میں تو میں سب کچھ کرنے کو تیار تھا۔ منگنی تک تو کرلی تھی۔ تم خود پیچھے ہٹی ہو۔” اور مجھے بھی دل گرفتہ کردیا تھا۔ تمہاری ٹھوکر نے میرا دل و دماغ سب بدل دیا۔ تم نے اپنے جذبات کی تشنگی دور کی اور مجھے خاموشی سے اکیلا چھوڑ دیا۔ مجھے تو میرے اللہ نے سنبھالا۔ اس نے مجھے شریکِ سفر فراہم کیا۔ پھر اس نے ہمارے دلوں کو جوڑا۔ میں اب تمہاری دوسری ٹھوکر کے لئے تیار نہیں ہوں۔” شہزاد نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”میں تمہاری محبت کے لئے تڑپی ہوں شہزاد۔” اس نے گلو گیر آواز میں کہا۔
”غلط کیا… بہت غلط کیا… جس کے نکاح میں ہو۔ اسی سے وفا کرو۔” اس نے مشورہ دیا۔
”میں اب اس سے سارے تعلق ختم کرنا چاہتی ہوں۔ اور یہ تمہیں بتارہی ہوں۔” مریم نے ایک نئی بات کہی۔
”ابھی اسے لاپتہ ہوئے اتنا عرصہ نہیں گزرا کہ تم ابھی سے ایسے فیصلے خود کرلو۔”
شریعت اور قانون کو جاننا ضروری ہے۔” شہزاد نے سمجھایا۔
”مجھے تمہاری محبت کا حصار چاہیے۔” اس نے نیا پتہ پھینکا۔
”میری محبت کے حصار میں اور لوگ ہیں جس میں کسی کو میں حصہ دار نہیں بناسکتا۔ ہاں البتہ میری دعائیں تمہیں اپنے حصار میں رکھیں گی۔ اپنے بچوں کی طرف دیکھو مریم…! ان کا باپ لاپتہ ہے انہیں اپنے سینے سے لگا کر رکھو تاکہ باپ کی غیر موجودگی کا احساس نہ ہوپائے۔”
”مجھے تم پر بڑا مان تھا شہزاد۔” مریم نے کہا۔
”تو پھر اس مان کو قائم رہنے دو۔ اپنے اور میرے آنے والے کل کو شفاف رکھو آئینے کی طرح۔ تاکہ کوئی تمہاری اولاد پر انگشت نمائی نہ کرسکے۔”
”میں نے تمہاری یادوں کے سہارے ہی اپنی گزشتہ زندگی کاٹی ہے۔”مریم نے بتایا۔
”باقی جو زندگی بچی ہے وہ اللہ کے سہارے کاٹ لو۔ اسی کی محبت و رحمت کا سہارا پکڑو۔ تمہاری زندگی کی الجھی ڈور خود بخود سلجھنے لگے گی۔ اصل محبت یہی ہے۔ وہی (اللہ) تمہارے بڑھتے قدم کا منتظر ہے میں نہیں۔ تمہیں نیند کی دوا بھی وہ سکون نہیں دے گی جو اللہ کی محبت میں ملے گی۔ مجھ پر تو یہی منکشف ہو اہے تمہارے بعد۔”
”میں یہی کہوں گا کہ تم اپنی پوری توجہ اپنے دونوں بیٹوں کی دیکھ بھال اور شوہر کی واپسی کی طرف مبذول رکھو۔ اس کا تمہارے ساتھ کیسا رویہ تھا بھول جاؤ۔ اسکی سابقہ گرلز فرینڈ اس کے لئے آواز نہیں اٹھائیں گی۔ یہ کام صرف تم کرسکتی ہو۔ اور تم یہ کرو۔ تاکہ تمہارا شوہر واپس آکر تمہاری قدر کرے۔”
”مجھے آج پھر تمہیں کھونے کا شدت سے احساس ہورہا ہے شہزاد۔” مریم کی آواز میں پچھتاوا شامل تھا۔
”شکر کرو کہ جس دولت کو تم نے اہمیت دی وہ اب تمہارے پاس ہے۔ ورنہ لوگ تو ایسے حالات میں مالی و معاشی مسائل کا بھی سامنا کرتے ہیں۔” شہزاد نے کہا۔
”جس محبت کو میں نے اپنے دل کے نہاں خانوں میں زندہ رکھا۔ اس نے آج مجھے ہر جھنڈی دکھا دی۔” مریم نے جواب دیا۔
”جسے تم ہری جھنڈی کہہ رہی ہو نا… وہ سیدھی راہ دکھانا ہے۔ تم اپنی زندگی کو پیچیدہ نہ بناؤ۔ مجھے تم جو چاہو کہو مگر یہی میری محبت ہے کہ میں تمہارے دعوتِ گناہ کو قبول نہیں کررہا۔ تم محبت کا مطالبہ سمجھ ہی نہیں سکی۔ تمہارے لئے تو یہ چار حرفی لفظ ہے۔ مگر یہی چار حرفی لفظ آدمی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ سنبھالو خود کو اور اپنے بچو ں کو بھی۔ اللہ تمہارا نگہبان رہے۔” اس نے فون بند کردیا۔
٭…٭…٭
آج کی صبح زیادہ فرحت بخش لگ رہی تھی۔ وہ دیر سے جاگا تھا۔ آنکھ کھلی تو نورین اپنے بستر پر موجود نہیں تھی۔ اٹھ کر دیکھا تو کچن میں جوس سرو ہونے کے لئے تیار رکھا تھا اور وہ آئینے میں اپنا حلیہ درست کررہی تھی۔ بے بی پنک کاٹن کے سوٹ میں وہ کوئی پنکی کی پری لگ رہی تھی۔ سادہ بھی رنگین بھی۔ ہلکا سا پاؤڈر کا ٹچ چہرے کو مزید تابناک بنا رہا تھا۔ نورین کو اس نے بہت کم میک اپ میں دیکھا تھا۔ مگر شادی کی رات وہ واحد رات تھی جب وہ روایتی دلہنوں کی طرح جگمگا رہی تھی۔
”میں نے کہیں پڑھاتھا کہ ماں میک اپ کرے تو لڑکی بہت سادہ مزاج پیدا ہوتی ہے۔” اس نے معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی۔
”کوئی نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔” وہ اٹھلائی
”ارے سنیں… طاہرہ کا فون آیا تھا۔ جاویدبھی ٹھیک ہے۔ اچھی گزر رہی ہے ۔ شکر ہے۔”
”ہاں مگر ایک مسئلہ سلجھتا ہے تو دوسرا سر اٹھا لیتا ہے۔”
”کیا ہوا۔” اس نے مڑ کر تاسف سے پوچھا۔” مریم نے پھر تنگ کیا ہے کیا؟”
”ہاں۔ وہ تو کرتی ہی رہتی ہے ۔ مگر تم جس طرح تنگ کرتی ہو ایسے تو کوئی نہیں کرسکا۔”
”ہیں … کیامطلب؟”
”ارے کچھ نہیں میں یونہی تمہارا موڈ خوشگوار کررہا تھا۔”
”وہ تو پہلے ہی خوشگوار ہے۔ وہ اب کیا کہہ رہی تھی آپ کو… بتایئے۔”
”کیا کہے گی وہ … میں اسے بے وقوف نظر آرہا ہوں۔”
”آخر وہ چاہتی کیا ہے؟ محبت کا انتقام لے رہی ہے کیا۔”
”زچ کرنا چاہتی ہے۔ زیر کرنا چاہتی ہے۔محبت کے نام پر خود کو ذلیل کرنا چاہتی ہے۔”
”یہ دل کے معاملات کٹھن ہوتے ہیں۔ سمجھ نوک سناں پر قدم دھر دیا۔”
”ہاں مگر ان کے لئے ہے جو محبت کا بھرم رکھتے ہیں۔”
”کل تمہاری امی کا فون آیا تھا۔ تمہاری خیریت پوچھ رہی تھیں۔”
”امی کو اب میرا خیال کیوں آیا؟”
”اچھا ہے نا… ہماری زندگی میں کسی کی مداخلت نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جلد ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ وہ مائیں بہت عقلمند ہوتی ہیں جو بیٹیوں کی شادی کے بعد ان پر اپنا پہلا حق جتا کر ان کی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتی ہیں۔”
”لگتا ہے اس برس خاندانی رشتے دوبارہ مضبوط ہوں گے۔” نورین بولی۔
”جب تک ہم اپنے خاندان والوں سے دور رہے۔ کیسے کیسے اچھے تعلق جوڑے۔ وہ بھی ان لوگوں سے جن کے رشتے ناتے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ جنہوں نے اپنوں سے کنارہ کیا انہیں ہم ملے۔ لوگ جنہیں لاوارث سمجھتے ہیں نا غلط سمجھتے ہیں۔ دنیا بنانے والا تاجداران کا اصل وارث ہوتا ہے۔ بھلا ہم کبھی اورفن ہاؤس، ایدھی ہوم اور انصار برنی ٹرسٹ کے بچوں کو بھول سکیں گے۔ کبھی نہیں۔ ایک بار چلے جاؤ تو ان سے ہمیشہ کے لئے تعلق بن جاتا ہے۔ سمجھو اب یہی ہمارا خاندان ہے۔
٭…٭…٭
ہوگئی ہے تم کو مات
صاف کیسے ہوں گے ہات
دور یوں کے جنگل میں
درد کے لگے ہیں گھات
جاؤ بھول جاؤ اب
ڈھل گئی ہے کالی رات
صبح اب فروزاں ہے
ہاتھ میں تمہارا ہاتھ
نورین نے شہزاد کا تازہ کلام پڑھ کر کہا ۔ ”مجھے اب آپ کی شاعری سمجھ میں آنے لگی ہے۔”
”ساتھ رہنے کا اثر ہے۔” شہزاد نے کہا۔
٭…٭…٭
وہ لان میں سفید کرتا پاجامہ زیب تن کئے اخبارکے مطالعے میں مصروف تھے۔ آج کالج نہیں جانا تھا لہٰذا چہرہ شیو سے بے نیاز تھا۔ نورین پاس ہی لان میں پھولوں بھری ڈالیوں پر جھکی ان کی دلکشی اور مسحور کن خوشبو سے لطف انگیز ہورہی تھی۔
”نورین میں سوچ رہا ہوں۔ چند دن طاہرہ کے پاس امریکا گزار آئیں۔ اس سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور جاوید کا احوال اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں گا۔”
”مگر اب تو ہمارے بے بی کے استقبال کے دن قریب ہیں۔” نورین نے قدرے جھینپتے ہوئے کہا۔
”یہ بھی کوئی یاد دلانے والی بات ہے۔ اس لئے تو کہہ رہا ہوں کہ ہم سب وہاں مل جل کر تمہارا خیال رکھیں گے۔ یہاں تو بڑے مسائل ہیں۔ ٹریفک کو ہی لے لو۔ اس میں پھنس کر سڑکوں میں جتنا وقت برباد ہوتا ہے نا۔ اس سے تو میں ہول کھانے لگتا ہوں ہوں۔ یہاں تو بچے رکشے اور ایمبولینس میں جنم لے رہے ہیں۔”
”توبہ توبہ… کیسی باتیں کررہے ہیں” … ”لو تمہیں خبر ہی نہیں۔ موجودہ تازہ ترین حالات و واقعات بتا رہا ہوں۔”
”جیسی مرضی آپ کی میں تو طاہرہ سے ملنے کے لئے بے قرار ہوں۔ ہاں اس طرح مریم سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اس کا تو ذکر ہی نہ کرو۔کہیں آہی نہ جائے۔ ” شہزاد ہنسنے لگے۔
”آپ کی زندگی کی کتاب میں اسکے نام کا صفحہ بھی شامل ہے۔” نورین نے یاد دہانی کرائی۔
”ہاں مگر اس صفحے کو پھاڑا جاچکا ہے۔”
”یہ کیا بات ہوئی۔”
”آپ تو میرے لئے خدائی تحفہ ہیں۔ مجھے کیا کسی سے ڈرنا۔ مجھے ملے ہیں تو میرے مقدر میں تھے نا۔” نورین نے پیار سے کہا۔
”واہ بھئی… تم بھی فلاسفی پڑھانے والے شوہر کے ساتھ رہ کر فلاسفر ہوگئی ہو۔ اب تو ہمارے ہاں بقراط یا افلاطون کی پیدائش ہوگی۔” اس نے مذاقاً کہا۔
”جی نہیں… لیلیٰ بھی پیدا ہوسکتی ہے۔”
”لیلیٰ کیسے ہوسکتی ہے بچے کا نہ باپ کالا ہے نہ ماں۔”
”کالا گورا نہیں میرا مطلب ہے ایک پیاری بچی ہے۔” نورین نے مسکرا کر کہا۔
”اوہو… ہاں ہم نے تو معلوم ہی نہیں کیا نا کہ بچہ ہے کہ بچی ، جبھی تو اس بحث کی نوبت آگئی… چھوڑو… کوئی بھی ہو، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ اولاد تو ہے نا۔” شہزادنے شکر ادا کیا۔
”سنیں! اب تو آپ غزلوں، نظموں کے بجائے بچوں کے لئے پیاری پیاری نظمیں لکھیں گے نا۔” نورین نے شہزاد کو کچھ لکھتے دیکھ کر پوچھا۔
”وہ تو میں کب کا لکھ چکا۔” شہزاد نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
”اچھا کب مجھے بھی دکھائیں۔”
”اپنے لڑکپن میں چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھتا تھا۔ باجی کی گڑیا۔ میرا اسکول۔ میری امی۔ منی کا طوطا وغیرہ۔”
ہاہاہاہاہاہا… نورین نے قہقہہ لگایا۔