شام کو شہزاد ایک میٹنگ سے تاخیر سے پہنچے تو نورین کا چہرہ کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ گھر میں بھی کچھ تبدیلی محسوس ہوئی۔ یعنی اس کے کپڑے تبدیل کرنے کے لئے الماری سے باہر رکھے تھے۔ پانی میز پر موجود تھا۔ چائے بھی تقریباً تیار تھی۔
وہ مسکرائے ۔ نورین نے بتایا۔ طاہرہ نے کہا ہے کہ اس کے بھیا کا خیال رکھا کروں ۔
وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولے۔ ”اس کے بھیا اس کے لاابالی شوہر سے بہت مختلف ہیں۔” تم نے بتایا نہیں اُسے۔
”نہیں۔ میں خاموشی سے سنتی رہی۔” اس کا چہرہ ابھی تک پر فکر لگ رہا تھا۔ وہ اس کے قریب آئے اور اپنی محبت کی مہر اس کے رخسار پر ثبت کردی ۔ نورین گلنار ہوگئی۔ انہوں نے اپنی محبت کی سرخی ا سکے چہرے پر دوڑتی ہوئی محسوس کی۔ اس کی پلکیں اٹھ کر گریں اور وہ لپک کر شہزاد کے بازوؤں میں سمٹ کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگئی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
شام کے وقت لان میں پھولوں کے درمیان وہ بیٹھے چائے کا سپ لے رہے تھے۔ نورین نے کہا۔ ”طاہرہ کا بے بی دیکھنے چلیں گے نا؟”
شہزاد چونکے۔ ”وہ کب آیا؟”
”ابھی نہیں آیا۔ آنے والا ہے۔” نورین نے خوش ہوتے ہوئے بتایا۔
”پہلے آلینے دو۔ پھر پروگرام بنالیں گے۔”
”پروگرام پہلے بنالیں کیونکہ اُسے تو آنا ہی ہے ۔”
”آپ کا بے بی کب آئے گا؟” شہزاد نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”وہ جھینپ کر بولی۔ ”اس کے پاپا سے پوچھ کر بتادوں گی۔”
پھر دونوں ہی ہنس پڑے۔ لان میں کھلے پھول مسکرائے اور درختوں پر بیٹھے پرندے چہچہانے لگے۔
٭…٭…٭
گزشتہ دس یوم سے وہ گھر پر ہی تھی۔ شہزاد صبح سویرے کالج جاتے تو کبھی دوپہر کبھی شام کو واپسی ہوتی۔ وہ خود کو گھریلو کاموں میں مصروف رکھتی۔ گھر بھرا پُراہوتو کام بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ورنہ زیادہ تر آرام۔ طاہرہ کی مریم کے بارے میں کہی گئیں باتیں اس کی سوچوں کو منتشر کرنے لگتیں۔ وہ خود کو سمجھاتی۔ مریم ایسا کیوں کرے گی۔ یعنی اس کے شہزاد کی جانب قدم کیوں بڑھائے گی؟ اس کا شوہر تو حیات ہے اس کے گلشن میں دو پھول بھی ہیں پھر وہ میرا چمن کیوں اجاڑے گی۔مجھے ایسا کوئی خیال اپنے دل و دماغ میں نہیں رکھنا چاہیے۔ میں جب بے ایمان نہیں تو کوئی میرے ساتھ کیوں دھوکا کرے گا۔ وہ ان تمام خیالات کو جھٹک کر گنگنانے لگتی۔
بک شیلف کی صفائی عموماً شہزاد ہی کیا کرتے تھے آج اس نے خود ہی کتابوں کو جھاڑنا شروع کردیا۔ جابجا کتابوں میں کاغذ کے پرزے رکھے تھے۔ جن پر اشعار، غزل یا نظمیں لکھی ہوئی تھیں۔ شاید بلکہ یقینا جب شہزاد پر آمد ہوتی تو وہ ان نظموں کو احائمہ تحریر میں لاتے اور بعد میں کتابوں کے اندر رکھ کر بھول جاتے۔ اس نے پڑھنا شروع کیا۔
ہاں یہی محبت ہے
ناشتے کے ٹیبل پر
تم کو سوچتے رہنا
چائے کی پیالی میں
چینی گھولتے رہنا
چپکے چپکے پھر ہنس کر
راز کھولتے رہنا
ہاں یہی محبت ہے
لڑکیوں کے جھمگٹ میں
تم کو ڈھونڈتے رہنا
کتنا اچھا لگتا ہوں
اس سے پوچھتے رہنا
اور روٹھ جانے پر
دل کا ڈولتے رہنا
کل بھی ملنے آؤ گی؟
اس سے پوچھتے رہنا۔
ہاں یہی محبت ہے (نوٹ : نظم فرازانہ روحی اسلم)
نظم پڑھ کر لمحے بھر کو دل کی دھڑکن تھمنے لگی۔ اس نے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس بھر کر پیا اور صوفے پر گر گئی۔ بالآخر اس نے خود کو سنبھال ہی لیا۔ وہ خود کو سمجھانے لگی۔ ”میرا ہم سفر ایک شاعر بھی ہے۔” شام کو شہزاد گھر آئے تو اس نے بتایا کہ بک شیلف کی صفائی کے دوران اس نے نہایت دلکش نظمیں پڑھیں۔ ”آپ مشاعروں میں جایا کریں۔” اس نے وہ مشورہ دیا جس سے بیویاں چڑھتی ہیں۔
”مشاعرے رات گئے ہوتے ہیں۔ تم اکیلی کیا کروگی یہاں۔ ”مجھے بھی ساتھ لے چلنا۔”
”تھکن بھی ہوجاتی ہے۔ نیند الگ پوری نہیں ہو پاتی۔ مطالعے کے لئے ٹائم کم ملتا ہے۔ جو مجھے منظور نہیں۔ صبح کلاس لینی ہوتی ہے۔”
”تم سناؤ دن کیسے گزرا؟”
”بتایا تو ہے… آپ کی نظمیں پڑھ کر۔”
کھانے سے فارغ ہوکر آرام کرتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”کیا انسان کو زندگی میں دوبارہ محبت ہوسکتی ہے؟”
”ہاں…کیوں نہیں… محبت ہمارے اندر موجود رہتی ہے۔کبھی جب اسے اپنا ماخذ ملتا ہے تو ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ ورنہ خاموش رہتی ہے۔ یا اپنا ساتھی تلاش کرتی ہے۔”
”آپ کو مجھ سے محبت ہے نا؟ ” نورین نے دھیرے سے پوچھا۔
”یہ تو تمہیں معلوم ہوگا۔” تبسم آمیز چہرے کے ساتھ انہوں نے اس کی جانب دیکھا۔
”کیسے معلوم ہوگا مجھے؟ ” نورین کا انداز سوالیہ تھا۔
”ہوجائے گا… سب معلوم ہوجائے گا۔ محبت کب خاموش رہتی ہے۔ یہ تو خاموشی میں بھی بولتی ہے۔ اپنے ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ احساسات کو جگاتی ہے۔ سانس کو معطر رکھتی ہے۔ زندگی کے چراغ کو مزید فروزاں کرتی ہے۔”
”اس نے اپنا سر اس کے بازوؤں پر رکھ کر کہا۔ مجھے کوئی اچھی سی نظم سنائیں۔” ایسی نظمیں تو تمہیں طاہرہ سنائے گی۔ اسی نے جاوید کے عشق میں ڈوب کر پروین شاکر بننے کی کوشش کی ہے۔” وہ ہنس پڑے۔
”آپ کی باتیں پہلے مجھے فلسفہ لگتی تھیں۔اب شاعری لگتی ہیں۔”
”ہوں… لوگ فرمائش کرکے سنتے ہیں تمہیں تو مفت سننے کو مل جاتی ہیں۔”
”آپ سے مل کر مجھے لگا کہ میں بہت بدھو ہوں۔”
”ہاہا ہا ہا … محبت بھی بدھوؤں کو ہی ہوا کرتی ہے… ارے نہیں میں تو مذاق کررہا تھا… تم بہت سادہ طبیعت اور معصوم ہو۔ تمہیں چالاکیاں، مکاریاں چھو کر بھی نہیں گزریں۔ زمانے کا تم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ تمہاری معصومیت نے میرے گھریلو ماحول کو بہت معطر کر رکھا ہے۔ یہاں کی فضا بہت پرسکون و پرکیف ہے… تم اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کرو۔”
”نہیں… میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ گھر میں بیٹھ کر آپ کا انتظار کروں گی۔”
”میں لڑکیوں کے علم و ہنر دونوں حاصل کرنے کا قائل ہوں۔ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ یا انٹیرئیر ڈیزائننگ میں ہی داخلہ لے لو… ویسے تم عجیب ہی ہو میکے جانے کا کبھی نام نہیں لیا تم نے۔”
”ممی نے کہا تھا میکے کا رستہ بھول کر اپنے شوہر کے دل میں راستہ بنانا۔ لہٰذا میں ادھر کبھی گئی ہی نہیں۔مجھے سب آپ کے حوالے کرکے بھول ہی گئے۔”
”تمہارے حق میں یہی بہتر تھا۔”
”شکر ہے آپ نے مجھے سنبھال لیا ۔ بہت شکریہ آپ کا۔”
اس نے اسے اپنے مضبوط بازوؤں کے حصار میں لے لیا۔
٭…٭…٭
وہ ہر سٹرڈے نائٹ اپنے گھر میں ہی مناتے۔ جبکہ دن کہیں نہ کہیں بے سہارا بچوں کے ساتھ گزارتے۔ رات گئے تک آپس میں باتیں کرتے۔ اٹھکیلیاں کرتے۔ کبھی آئس کریم کھانے ، کبھی جوس پینے نکل جاتے۔ ان کے فلک شگاف قہقہے درو دیوار اپنے اندر جذب کرلیتے۔
مگر اس سٹرڈے نائٹ گھر میں خاموشی تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے درودیوار بھی چپ سادھ لی ہے۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ سمجھیں انہونی ہوگئی تھی۔یا پھر وہ جس کا طاہرہ کو خدشہ رہا کرتا تھا۔
اس ایک فون کال نے دونوں کو ہی امتحان میں ڈال دیا تھا۔
”ہیلو…” رات گئے فون پر ہونے والی گفتگو کو نورین بھی سن رہی تھی۔
”کون۔”
”شہزاد بات کررہا ہوں پروفیسر شہزاد ازل صدیقی۔ آپ کون؟”
”مریم۔” چند لمحے خاموشی کے بعد آواز آئی۔ ”مریم جو کبھی تمہاری تھی۔” نسوانی آواز نے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔
”اوہ… آ پ کیسی ہیں… آپ کے شوہر کے بارے میں جان کر دکھ ہوا۔” شہزاد نے افسوس کا اظہار کیا۔
”دکھ… آ پ کو کیوں دکھ ہونے لگا۔ آپ تو اپنی زندگی میں مگن ہیں۔”
”جی… میں دوسروں کے دکھ سکھ میں ساتھ دینے والا آدمی ہوں۔ اگر آپ مجھے جانتی ہیں تو۔”
”مگر میرا ساتھ تو نہیں دیا۔ میں اس وقت بہت مشکل میں ہوں۔ محبت مشکل میں ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔” نسوانی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔
”مجھے میری محبت سے دست بردار کیا جاچکا ہے اور اس وقت آپ کسی اور کے نکاح میں ہیں۔” پروفیسر نے جلدی جلدی بات ختم کی۔
”پھر بھی خوشگوار دنوں کے صدقے ہی کچھ سہارا دے دیتے مجھے۔”
”آپ کو میرے سہارے کی ضرورت ہے ۔ یہ سب کچھ کہنے سے پہلے بہتر ہے کہ آپ اپنے والد گرامی سے اجازت لے لیں۔” شہزاد نے مشورہ دیا۔
”تم تو ایسے نہیں تھے شہزاد…!” نسوانی آواز نے شکوہ کیا۔
”مجھے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ میں کیسا تھا۔ یا کیا ہوں۔آپ اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں۔ مجھ سے جو ہو سکے گا۔ میں آپ سے تعلق رکھے بناء ضرور کروں گا۔ اللہ حافظ۔” شہزاد نے فون رکھ کر ٹھنڈی سانس لی۔
”پوری گفتگو سننے کے بعد نورین کو کسی سوال جواب کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ کبھی اپنے شوہر کو اور کبھی درو دیوار کو دیکھتی رہی۔ پھر اس نے سائیڈ ٹیبل سے گلاس بھر کر شہزاد کے آگے بڑھایا۔
”جانے اب کون سا امتحان ہونے والا ہے۔” پروفیسر شہزاد کے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے بستر پر لیٹ گئے۔ نورین بھی برابر میں آکر پڑ گئی۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد شہزاد نے کہا۔ ”تم کوئی ٹینشن مت لینا۔ میں کہیں نہیں جارہا۔”
”اب کیا ہوگا؟” نورین کی آواز میں فکری مندی تھی۔
”کیا ہوگا… ہمارا بچہ ہوگا اور ہم ہوں اورکیا ہوگا۔” شہزاد نے شرارتی انداز میں کہا تو نورین نے شرما کر تکیے میں منہ چھپا لیا۔
”سنیں آپ مریم کے شوہر کے بارے میں معلوم کریں نا۔” نورین نے جذبہ ہمدرد ی سے مغلوب ہوکر کہا۔
”کیا معلوم کروں… رشوت لئے بغیر تو وہ چھینک بھی نہیں مارتا تھا۔ سارے زمانے کومعلوم ہے۔ مجھے تو معاف رکھو۔”
”اور یہ مریم… اس نے کبھی اپنے شوہر کو سیدھاراستہ دکھانے کی کوشش نہیں کی؟”
”آپ کو کیسے معلوم کہ مریم نے ایسا نہیں کیا؟” نورین نے پوچھا۔
”کچھ بتایا ہوتا تو موجودہ صورت حال درپیش ہی نہ آتی اور اسے مجھ سے رابطے کی کیا ضرورت تھی۔”
”اسے آپ سے اب بھی محبت جو ہے۔” نورین نے کہا۔
”نہیں… اسے کیا خاک محبت ہوگی مجھ سے ۔ شوہر مشکل میں ہے تو سابقہ محبت یاد آگئی۔ سیدھے طریقے سے اس کے لئے جدوجہدکرے اور بس۔”
”ذرا دیکھو… دو بچوں کا بھی خیال نہیں ہے۔”
”اس کے دل میں تمہاری محبت زندہ ہے۔”
”ہاں تو اس کا شوہر اگر لاپتہ ہے مگر زندہ تو ہے نا۔ میں کسی کی بیوی کے بارے میں سوچ کر اپنا ذہن پر اگندہ نہیں کرسکتا۔ دین ایمان بھی کوئی چیز ہے… میرے دل و دماغ میں تم ہو… صرف تم۔”
شہزاد نے رومان پرور انداز میں کہا تو وہ اس کے مزید قریب آکر بیٹھ گئی۔
”آپ ایسا کریں۔ اس کے والد سے ملیں۔” نورین نے مشورہ دیا۔
”میں اتنا احمق نہیں ہوں۔ وہ سمجھیں گے آگیا میری بیٹی پر پھر ہاتھ صاف کرنے بلکہ تمہیں کیا معلوم وہ تو کہہ بھی دیں گے کہ ”ابھی میرا داماد لاپتہ ہوا ہے مرا نہیں ہے۔ تم کس چکر میں یہاں آگئے ہو۔”
”اچھا…” نورین حیران ہوئی۔
”اور کیا… وہ بہت منہ پھٹ شخص ہیں۔ تمہیں بہت زیادہ ہمدردی ہے تو اس کے شوہر کے مل جانے کی دعا کرو۔ اس حالت میں (پریگنینسی) دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔
٭…٭…٭
طاہرہ رات کو اسکائپ رپ آن لائن ہوئی تو اس نے بتایا کہ مریم کو اس نے کسی ٹی وی چینل پر احتجاج ریکارڈ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہوشیار رہنا کہیں وہ بھیا تک دوبارہ رسائی نہ حاصل کرلے۔ تم نہیں جانتی ہو نورین ۔ مریم بہت مکار اور خودغرض عورت ہے۔ اس نے منگنی توڑنے میں لمحہ بھر نہیں لگائی تھی۔ اور اس (کرپٹ) بدعنوان افسر اعلیٰ سے شادی کرلیتھی۔ اسے اگر یہ اندازہ ہوگیا کہ تم بھی اللہ میاں کی گائے ہو تو تمہیں پہلی فرصت میں الٹی چھری سے ذبح کر ڈالے گی۔ اور اپنے شوہر کی دولت اور بھیا کے جذبات سے پھر کھیلنا شروع کردے گی۔
”اب آپ اپنا اور بھیا دونوں کا خیال رکھیں۔ ان کا ٹائم ٹیبل نوٹ کریں گھر سے باہر زیادہ وقت نہ گزارنے دیں کہ وہ کہیں اور جانے کا سوچیں۔”
”میں اتنی چوکیداری نہیں کرسکتی۔ نہ ہی ان پر کوئی پابندی لگاؤں گی۔ وہ سمجھدار آدمی ہیں کوئی غلطی نہیں کریں گے۔” طاہرہ کو نورین نے سمجھایا۔
”ہوں… بڑے بڑے سمجھدار مردوں کو میں نے چالاک عورتوں کے آگے پانی بھرتے دیکھا ہے۔” طاہرہ اسے مریم کے بارے میں ایک بار پھر خبردار کررہی تھی۔
”میں اپنے شوہر کو باندھ کر نہیں رکھ سکتی۔ میں محبت میں آزادی کی قائل ہوں۔ وہ جہاں چاہیں جائیں جس سے چاہیں ملیں۔ جو چاہیں سوچیں اور کریں۔ انہوں نے مجھے اس وقت برداشت کیا ہے جب میں نیم دیوانگی کے عالم میں تھی۔ ان کے نکاح میں رہ کر میرے لبوں پر شاکر کا نام رہتا تھا۔ انہوں نے کسی مہربان کی طرح مجھے سنبھالا۔ زندگی کا مطلب سمجھایا۔ زیست کے رستے پر گامزن کرایا اور اب میں خود ایک اور زندگی کو اپنے وجود میں سنبھالے ہوئی ہوں۔ جو بہت جلد ان کے پیار کی نشانی کے طور پر دنیا میں آنے والا ہے۔” نورین نے کہا۔
”وہ سب ٹھیک ہے بھابی… مجھے جو کہنا تھا کہہ دیا اب میں آپ کے حق میں دعائے خیر ہی کرسکتی ہوں۔”
٭…٭…٭
مریم نے اپنی سابقہ عادت کا دوبارہ آغاز کردیا۔ یعنی روزانہ فونکرنا۔ وہ اسے پرانی محبت یاد دلاتی۔ کس نے کب کیا کیا تھا اسے سب یاد تھا۔ وہ آج بھی شہزاد سے ٹیلی فونک گفتگو میں مصروف تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ”محبت صرف کسی وجود کے حصول کا نام نہیں۔ یہ تو ایک جذبہ ہے جو ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ جو نہ ملے وہی محبت ہوتی ہے، خالص محبت۔ محبت کا حاصل شادی تو نہیں ہے نا۔”
”تو کیا اب تم مجھے دیوانہ کرکے چھوڑوگی۔” شہزاد نے پوچھا۔
”نہیں میں ایسا تو نہیں چاہتی۔”
”تو کیا چاہتی ہو؟”
”تم مجھے جذباتی سپورٹ تو دے سکتے ہو نا…؟” اس نے بڑے رسان سے کہا۔
”یہ تم مجھے کن راہوں میں بھٹکانا چاہتی ہو۔” شہزاد نے پوچھا۔
”کیسی کیسی رومان پرور نظمیں، غزلیں کہتے تھے میرے لئے… اب کہتے ہو میں تمہیں بھٹکانا چاہتی ہوں۔” وہ ناراضی سے بولی۔
”اور کچھ نہیں تو ہمدردی کے دو لفظ ہی کہہ دو۔ جس کے سہارے میں چند دن کاٹ لوں۔” مریم نے کہا۔
”سنو مریم…! جس وقت یعنی رات گئے۔ جب تم مجھے فون کرکے پرانی محبت کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی ہو نا… اس وقت جائے نماز بچھا کر اپنے شوہر کی بخیر و عافیت واپسی کی دعا کرو۔ تو دعا قبول ہی ہوجائے گی۔ کیونکہ یہی قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے۔”
”اور وہ میری محبت محض چند برسوں کی تھی۔” مریم نے الٹا سوال کردیا۔
”تو کیا اپنی داستانِ محبت تاحیات سلسلہ وار چلاتی رہوگی؟” شہزاد نے سخت لہجے سوال پوچھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});