”پارٹی نے تمہیں جو آفر کی تھی تم نے اس پر کوئی بات نہیں کی۔” جاوید نے کن انکھیوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اس پر بات نہیں ہوسکتی۔ تمہاری تعلیم یافتہ بیوی کو تمہاری پارٹی کیش نہیں کراسکتی۔ میں کسی کرپشن میں شامل نہیں ہوسکتی۔ مجھے کسی پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں چاہیے۔ میں بچوں کو پڑھالوں گی۔ بے بی کیئر سینٹر کھول لوں گی مگر ان پارٹیوں کے ذریعے تباہی کا حصہ نہیں بنوں گی۔ صوبائی اسمبلی تو کیا سینیٹ کا ٹکٹ بھی دیں تو نامنظور ہے۔ کئی خاندانوں کو برباد کیا ہے ان پارٹیوں نے، نسلیںجان سے ہاتھ دھو بیٹھیں ہیں۔ ایسے بھی محلے ہیں اس شہر ابتلا میں جس کے ہر دوسرے گھر میں ایک ”شہید” موجود ہے۔ ایسی شہادتوں سے توبہ جس کے بعد اہل خانہ فٹ پاتھ پر آجائیں اور پارٹی لیڈر، فوٹو بنوا کر بھول جائیں۔ خدارا میری بات کو سمجھو۔” طاہرہ نے جاوید کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔
”اور سنو… ! تمہارے ملک سے باہر جانے کا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سمجھے۔ ورنہ کسی کی جان لینے کی ذمہ داری تمہیں سونپ کر جیل میں سڑنے کے لئے چھوڑ دیں گے۔یا پھر دوسروں کی طرح راستے سے ہٹادیں گے… یہی ہوتا رہا ہے اب تک… تم تو سب جانتے ہی ہو۔ محبت تمہارے راستے میں بیٹھی ہے… اس کا بازو تھام لو اور چل پڑو۔سیدھی اور سچی راہ پر… پل پل پینترے بدلنا چھوڑ دو۔ اپنا ظاہر باطن ایک رکھو۔ وفا کیش آدمی کبھی کسی کودھوکا نہیں دیتا۔ تم بھی کبھی مجھے دغا نہیں دینا۔ ہم بہت مضبوط رشتے میں بندھے ہیں۔ یہ تعلق بہت نازک ہے مگر میرا اور تمہارا رشتہ پیار کے بندھن کے سبب بہت مضبوط ہے۔ اس نے دوبارہ سلسلہ ٔ تکلّم جوڑا۔
”تمہارے اند رجو جذبہ، عزم اور ہمت ہے اسے اللہ کا انعام سمجھ اور اسی کی بنا ء پر اپنا ایک ایسا خاندان تعمیر کرو۔ جو معاشرے میں ، ملک میں ، تعمیری سوچ کو ابھارے۔ اس ملک کو تعمیری سوچ رکھنے والوں کی اشد ضرورت ہے۔ مگر افسوس سارے معاملات تخریب کی جانب جاتے محسوس ہورہے ہیں۔”
جاوید اس کی باتوں کو سرجھکائے سن رہا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”جی جناب… آج دن کیارہا کالج میں۔” نورین نے شہزاد کے گیٹ میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
”سب کچھ جیسا تھا ویسا ہی رہا۔” پھر بھی کچھ نیا نیا سالگ رہا تھا شاید میرے اندر نئی امنگ جاگی ہے۔ ورنہ نظام تو یہاں کا وہی پرانا ہے۔”
”تم بتاؤ آج میرے بغیر پہلا دن کیسے گزارا۔”
”ایسی جگہوں پر جاکر تووقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ بے مقصد لوگوں کی زندگی بھی بامقصد ہوجاتی ہے اور فن ہاؤس کے بچے آپ کو بھی یاد کررہے تھے۔”
”آج تمہاری ممی کا بھی فون آیا تھا۔ انہیں بھی فکر تھی کہ میری چھٹیاں ختم ہوگئی ہوں گی اور تم گھر پہ اکیلی ہوگی۔ میں نے بتادیا تم اکیلی نہیں ہو اور بہت بزی ہو۔”
”آج پتا ہے اور فن ہاؤس کے بچے کیا پوچھ رہے تھے، وہ پوچھ رہے تھے آپ کے بچے ہیں۔ ہاہاہاہا۔”
”شہزاد مسکرایا۔ تم نے کیا کہا؟”
”میں نے کہا۔ ہاں تم سب میرے بچے ہو۔” وہ ہنسنے لگی۔
”اتنے سارے۔”
وہ بھی گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہوئے بے ساختہ نہیں پڑا۔”
”آج ایک خوش خبری ہے۔” شہزاد نے بتایا۔
”کیا؟ اس نے بے قراری سے پوچھا۔
جاوید کا نام ایگزسٹ کنٹرول لسٹ میں نہیں ہے۔ نہ ہی کسی اور طرح کی فراغات میں ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں اپنے پکے کارکنوں کو اس طرح دھماکہ ڈرا کر رکھتی ہے کہ دہشت گردی یابھتہ وصول میں تمہارانام ہے۔ تاکہ وہ پھنسے رہیں ۔ جاوید کو بھی یہ سب خوف زدہ کرنے کے لئے بتایا گیا تھا۔
”شکر ہے۔ بہت بڑی ٹینشن ختم ہوگئی۔ وہ تو اللہ کا کرم سمجھو کہ کسی جہادی تنظیم کے ہاتھ نہیں لگا یہ لڑکا۔ ورنہ تو اب تک کہیں نہ کہیں بم باندھ کر پھٹ چکا ہوتا ۔ اور طاہرہ کو صبح تکیے کے نیچے سے پرچی ملنی۔ محبت الوداع ۔ میں چلا اللہ کی راہ میں پھٹ کر جنت میں حوروں سے ملاقات کرنے۔ طاہرہ تم بھی چاہو تو کسی حور کا روپ دھار کر وہیں آناملنا۔”
شہزاد کے تفصیلاً کہنے پر نورین قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔ عجیب عیب نمونے ہیں ہمارے خاندان میں۔”
”آج تم کچھ زیادہ نہیں بول رہے۔” نورین نے پوچھ ہی لیا۔
”ہاں میں آج کل بہت خوش ہوں تم نے مجھے میرے نام سے پکارنا شروع کردیا ہے۔”
”ہاں… ذرا دیکھو… انجانے میں کیسی غلطی کر بیٹھی۔ زندہ شخص کو مرحوم کے نام سے پکارتی رہی۔ معاف کردو مجھے۔”
اس میں تمہارا کیا دوش ہے۔یہ دل کے معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آواز کسی کو دو ۔ لب پر کسی اور کا نام آجاتا ہے۔ لیکن وقت ہی بہت بڑا مرہم ہے۔ چلتا ہے سب چلتا ہے۔ محبت میں، یہی تو محبت کی نشانیاں ہیں۔”
”لیکن تم مجھے مریم کہہ سکتے ہو۔ مجھے یہ نام اچھا لگتا ہے۔ پاک، معصوم سا۔”
”اس معصوم کے ساتھ برا ہوا۔” شہزاد کے چہرے پر اداسی دکھائی دی۔
”کس کے۔” نورین نے جلدی سے پوچھا۔
”مریم کے۔ اس کا شوہر سال بھر سے لاپتہ ہے۔” شہزاد کا لہجہ دکھ بھرا تھا۔
”تمہیں کیسے معلوم ہوا۔”
”کل جو مسنگ پرسن کے لئے احتجاج ہوا ہے ان میں مریم آگے ہی کھڑی تھی۔ اپنے شوہر کی تصویر اٹھائے۔ ساتھ دو بچے اور اس کے والدین بھی تھے۔ اخبارات میں تفصیل پڑھ لو۔”
”اف خدایا۔” نورین نے ماتھے پر ہاتھ پٹخا۔
”ہوا کیا؟ وہ کیسے لاپتہ ہوا؟ کس نے غائب کیا اسے؟ نورین نے کئی سوال ایک ساتھ داغ دیئے۔ پھر خود ہی بولی۔ چلو شہزاد ! اسے ہماری ضرورت ہے۔ وہ اکیلی ہے۔”
”میں نہیں جاسکتا ۔ تم چلی جانا۔ طاہرہ کو بھی ساتھ لے لو۔” اس سے وہ لوگ واقف ہیں۔اسی کا انکے گھر آنا جانا رہا ہے۔ میں اس کے والد کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔”
”اور طاہرہ! … کیا وہ اسے برداشت کرلیں گے اپنے گھر میں؟… کیونکہ اس کے شوہر پر ہی اعتراض تھا نا انہیں۔” نورین نے نکتہ بیان کیا۔
”ہاں اسے تو… برداشت کرلینا چاہیے کیونکہ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ جانے کون کون سے ادا رے (خفیہ ایجنسی) کی ان پر نظر ہو۔ بلکہ ابھی چند دن ٹھہرجاؤ۔ جاوید چلا جائے تو پھر چلی جانا۔ کہیں ایسا نہ ہو اس کا معاملہ سلجھتے سلجھتے ڈور الجھ جائے۔ جاوید کو میں ایک دیر ینہ دوست کے پاس امریکا بھجوا رہا ہوں۔ اچھا بڑا پھولوں کا کاروبار ہے کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کرلے گا اسے ۔ شکر ہے مشکل وقت میں کام آنے والے دوست ملے ہیں۔”
”این ں ں … ہوں ، ہوں ں… نورین نے کھنکھارنے کے انداز میں گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔ ”اور مجھے بھی دعا دو میں بھی تمہیں بہت مشکل وقت میں ملی ہوں جب تم بن میں لیلیٰ لیلیٰ میرا مطلب ہے مریم مریم پکارتے پھر رہے تھے۔” نو رین نے اداکاری کی ۔
”جی نہیں میں اس وقت تک سنبھل چکا تھا۔ البتہ آپ شاکر شاکر پکارتی پھر رہی تھیں۔ تمہارا درد تھا ہی ایسا۔ یکا یک کوئی پیارا پہلو سے نوچ لیا جائے۔ وہ بھی ہمیشہ کے لئے۔ اف رگوں میں لہو سوکھجاتا ہے صدمے کے مارے ۔”
”اللہ کی مرضی سمجھ کر حالات کا مقابلہ کرنا ہی بہتر ہے۔ اب اس کی مرضی وہ ہمیں جس حال میں رکھے۔ پھر بھی میں التجا کرتا ہوں کہ ”اے رب مجھ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالتا، میں بہت ناتواں ہوں۔ کسی آزمائش کا وزن نہیں سہار سکتا۔ بس میرا دل تیری اور تیرے بندوں کی محبت سے سرشار رہے کافی ہے۔”
نورین نے جلدی سے آنچل سر پہ ڈال لیا۔ ”تم صدقِ دل سے دعا کررہے تھے بناء ہاتھ اٹھائے۔” نورین بولی۔
دل تو ہر دم اسی کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ ہاتھ اٹھے نہ اٹھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭…٭…٭
جاوید سے کئی بار اسکائپ پر بات ہوچکی تھی۔ وہ امریکا جاکر خوش تھا۔ طاہرہ کرائے کا مکان چھوڑ کر اپنے بھائی شہزاد کے گھر شفٹ ہوگی۔جب اُسے مریم کی خیر خیر لینے کا کہا گیا تو اس نے صاف انکار کردیا۔ اس کا موقف ایک طرح سے درست بھی تھا کہ جانے کون کون سی ایجنسیاں مریم کے گھر پہ نظر گاڑے بیٹھی ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ جاوید کی خاموشی سے امریکا روانگی سے کہیں اس کی پارٹی کو مسئلہ نہ کھڑا کردے۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ وہ بھی اپنی روانگی تک کسی کونے میں دبک کر گزار دے۔
ادھر نورین جذبہ ہمدردی دل میں لئے مریم سے ملنے کے لئے بے چین تھی۔ بے چاری شوہر کے بغیر جانے کن کن مصائب سے گزری ہوگی۔ طاہرہ اسے بھی منع کررہی تھی کہ مریم کے گھر کا رخ نہ کرے مگر نورین کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ سوائے ان کے جن کے دلوں میں اللہ دوسرے کا احساس بیدار رکھتا ہے۔
”چلو شہزاد! ہم مریم کے ہزبینڈ کو تلاش کرنے میں اس کی ہیلپ (مدد) کرتے ہیں۔”
بھابی آپ بہت معصوم ہیں۔ مریم سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے۔ دنیا دیکھ دیکھ رہی ہے۔ آپ بھیا کے لئے کوئی مصیبت کھڑی نہ کریں۔ طاہرہ نے نورین کو سمجھانے کے انداز میں کہا۔
”اچھا… تو اس کے بچوں کے لئے کچھ کرتے ہیں۔”
”بچے اپنی ماں کے ساتھ ہی بہتر ہیں۔” آپ ان کی کون ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ آجائیں گے۔”
”اوہ… ہاں … تم ٹھیک کہتی ہو مگر اسے ہمدردی کی ضرورت تو ہے نا۔”
”تو آپ فون کرلیں۔”
”اس کا فون کیا آزاد ہوگا؟ آبزرویشن میں ہوگا۔” شہزاد نے معلومات فراہم کی۔
”کہیں سے معلومات حاصل کریں۔” نورین نے مشورہ دیا۔
”بھابی ان کے ابا خود اسٹرونگ پرسن ہیں وہ کررہے ہوں گے کچھ نہ کچھ اپنی بیٹی کے لئے جدوجہد۔
٭…٭…٭
شام کو شہزاد ہاؤس میں رونق تھی۔ گھر کی دیواروں نے پہلی بار مہمانوں کو دیکھا تھا۔ جاوید کے تین بھائی اس کی تلاش میں پروفیسر شہزاد کے گھر آئے ہوئے تھے۔ طاہرہ نے ان کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان کاکہنا تھا کہ جاوید دس دن سے لاپتہ ہے۔ اور طاہرہ بھابی کو شاید کچھ معلوم ہو تو ٹھیک ہے ورنہ اس کی تلاش شروع کی جائے۔”
”وہ سب شہزاد کے منتظر تھے(جو کسی کام سے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے) تاکہ ان کے مشورے کے بعد کوئی قدم اٹھایا جائے۔
طاہرہ پریشانی ہورہی تھی کہ اگر ان کو بتادیا جائے تو شاید خبر لیک ہوجائے اور اس کی روانگی میں کوئی رخنہ نہ پڑجائے۔ شہزاد نے انہیں بتایا کہ طاہرہ دو دن سے گھر میں اکیلی تھی لہٰذا ان کے گھر آگئی ہے۔ ابھی اپنے طور پر جاوید کو تلاش کیا جائے پھر اس کی بیوی یعنی طاہرہ کی مدعیت میں گم شدگی کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ آپ لوگ طاہرہ کے بغیر تھانے نہ جایئے گا۔ ورنہ پہلا شک پولیس کو طاہرہ پر ہی ہوگا۔ جاوید کے بھائی سیدھے سادھے لوگ تھے پروفیسر شہزاد کی عزت و تکریم کے لحاظ میں وہ پہلے ہی نگاہیں جھکائے ہوئے تھے۔ انہوں نے شہزاد سے اتفاق کیا اور رابطہ نمبر کا تبادلہ کرکے دوبارہ ملنے کا کہہ کر چلے گئے۔ ادھر شہزاد نے جلد از جلد طاہرہ کو روانہ ہونے کا عندیہ دے دیا۔ بصورت دیگر کوئی بھی رخنہ اندازی ہوسکتی ہے۔”
٭…٭…٭
طاہرہ کی ایسے شوہر کے پاس روانگی کے بعد شہزاد اور نورین نے جاوید کے بڑے بھائی کو بلا کر لذتِ کام و دھن کا انتظام کیا اور نورین نے انہیں خوش خبری سنائی کہ ، جاوید امریکا میں ہے اور طاہرہ کو بھی ہم نے شوہر کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ وہاں اطمینان وسکون کے ساتھ بے بی کو جنم دے سکے۔ شہزاد نے چند قانونی باریکیوں سے انہیں آگاہ کیا اور بتایا کہ ”جاوید کے حق میں یہی بہتر تھا کہ وہ اپنی فیملی لائف سکون و اطمینان سے گزارے جو اس کے لئے یہاں ممکن نہیں تھا۔ اب آپ اس کے اور آنے والے بچے کے حق میں دعا کریں اور کسی کو جاوید کے بارے میں کچھ نہ بتائیں۔”
جاوید کے بھائی نے سکون کا سانس لیا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شہزاد اورنورین کا شکریہ ادا کرکے روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭
”شکر ہے طاہرہ کا مسئلہ حل ہوگیا۔ خد اکرے وہ وہاں خوش رہے۔” شہزاد نے اپنی بہن کو دعا دی۔
”تم پریشان نہ ہو۔ طاہرہ بہت سمجھدار ہے۔ وہ سب کچھ سنبھال لے گی۔” نورین کی بات پر شہزاد نے کہا۔ ”دعاؤں کی ضرورت تو اپنی ہے ناکہ آنے والے ہر مشکل میں دعا ڈھال بن جاتی ہے۔”
”ہاں وہ تو ہے۔ میں تو بہت خوش ہوں بھئی… مرے ہم سفر تو صوفی منش ہیں… جناب کے پاس دعاؤں کا ذخیرہ ہے دوسروں کو دیتے رہتے ہیں۔” نورین نے فخریہ انداز میں کہا۔ سچ ایسے انسان کے زیر سایہ آدمی خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ میں بھی اپنے آپ کو بہت سیکور نپل کررہی ہوں۔ واقعی اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔”
٭…٭…٭
اس دنطاہرہ نے اسکائپ پر گفتگو کرتے ہوئے نورین کو بتایا کہ ”بھیا کو مریم کے معاملے سے الگ رکھیں اور آپ مریم کا نام بھی لینا چھوڑ دیں۔ آپ اسے نہیں جانتیں۔ وہ بہت چالاک عورت ہے۔ بھیا سادہ دل ہیں اور آپ ان سے بھی زیادہ۔
جب میں جاوید جیسے شخص سے سب کی مرضی کے خلاف شادی کرسکتی ہوں تو مریم نے ایسا کیوں نہ کیا۔ اس نے بھیا کو اپنے شوہر کے مقابلے میں چھوڑا ہے۔ وہ میری سہیلی تھی۔ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں اس نے میرے پروفیسر بھائی کے بجائے ایک اعلیٰ عہدے دار شخص سے شادی کرلی۔ وہ کرپشن میں ملوث ہے۔ اس کے خلاف مقدمات اخبارات میں آتے رہتے ہیں۔ اور درونِ خانہ کیا کیا معاملات ہیں ہمیں کیا معلوم ؟”
نورین ہکا بکا اسے سنتی رہی اور اثبات میں سرہلاتی رہی۔
”بھائی آپ بھیا کا خوب خیال رکھیں۔ بجائے یہ کہ وہ آپ کے لئے ناشتہ بنائیں آپ ان کے ساتھ مل کر ناشتہ تیار کریں۔ ان کے سر میں تیل لگائیں۔ وہ پڑھتے پڑھاتے میں دماغ پر زور تو پڑتا ہوگا۔ سوتے وقت تلوے میں بھی تیل کی مالش کیا کریں تبھی مریم ان کے دماغ سے نکلے گی۔”
”مریم ان کے دماغ میں کیسے گھسی رہے گی۔ ان کے ساتھ تو میں رہتی ہوں۔” نورین نے سادگی سے پوچھا۔
”بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساتھ رہنے والا ساتھ ہی رہ جاتا ہے اور دل و دماغ میں کوئی اور بسیرا کرلیتا ہے۔” بھابی عورت اگر اپنی اہمیت کو سمجھ لے نا تو ماں، بیوی، بہن، بیٹی، ہر روپ میں کامیاب رہتی ہے۔ عورت مرد کو جنم دیتی ہے۔ اس کی کمان اسی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔جو عورتیں یہ باتیں سمجھتی ہیں وہ بے نام و نشان رہ کر بھی اپنی اپنی جگہ حکمرانی کررہی ہوتی ہیں۔ آپ خوش نصیب ہیں بھیا سادہ آدمی ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کا فلسفہ ہی اور ہے۔ ورنہ یہ جو آپ شادی کے دن سے ہی شاکر شاکر کی رٹ لگائے رکھتی تھیں نا کوئی اور ہوتا تو پہلے ہی دن کاغذ تھما کر نکال باہر کرتا۔
”لیکن شاکر تو اس دنیا میں نہیں ہے طاہرہ۔” نورین نے روہانسی ہوکر کہا۔
”یہ بھی آپ کی خوش نصیبی ہے کہ جس شخص کا آپ نام لیتی رہی ہیں وہ مر چکا ہے۔” طاہرہ نے وضاحت کی۔
”ویسے بھی بھیا آپ سے دس سال بڑے ہیں جبھی انہوں نے آپ کی نفسیات سمجھ لی۔”
”تم تو مجھے ڈرا رہی ہو۔ بہت مشکل و عجیب باتیں کررہی ہو۔ ” نورین نے کہا۔
”ہاں بھابی یہ تو جانتی ہیں نا کہ بھیا کالج میں پڑھاتے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں ہر وقت نظروں کے سامنے بنی سنوری موجود ہوتی ہیں۔”
”نہیں بھئی! میرے ہز بینڈ ایسے نہیں ہیں۔” نورین نے کہا۔
”وہ تو کسی کے نہیں ہوتے۔ مگر کچھ ہوتے پتہ ہی نہیں چلتا۔”نورین نے خدشات سے آگاہی دی۔
”بھئی میں تو اللہ کے سہارے چلتی ہوں۔ اسی کے آسرے پر ہوں۔ اپنے سارے معاملات اسی کے حوالے کرتی ہوں۔ وہ میرے حق میں ہمیشہ بہتر کرے گا۔” اتنا کہہ کر نورین نے خود کو پرسکون اور طاہرہ کو خاموش کردیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});