معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

”ہاں… ایساکوئی کام تو نہیں کیا آج تک مگر نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔” اس کا لہجہ زہر خند تھا۔
”اسی لئے تو کہتی ہوں۔ بھیا سے ملنابہت ضرور ی ہے۔ میں ان سے التجا کروں گی کہ تمہارا نام ایگزسٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوادیں۔ان کی ہر جگہ جان پہچان ہے۔”
”طاہرہ … یہ مسئلہ معمولی نہیں ہے۔ اسے آسان مت سمجھو۔”
”آرزو کرنے میں کیا ہے۔ جاوید۔ سوچنے میں کیا خرچہ آتا ہے۔خواہش کی جائے تو کچھ حاصل ہوگا نا۔ اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ یہی میرا ایمان ہے اور یہی میری محبت۔” طاہرہ بہت پرعزم تھی۔
”جبھی تو تمہارے ساتھ ہوں تمہیں دیکھ کر راستے روشن نظر آتے ہیں۔ جب راستے اجلے ہوں تو زندگی بھی روشن ہوتی ہے۔” وہ زیر لب گنگنانے لگا۔
”ہاں… تو تم مہدی حسن مرحوم کو خراج تحسین پیش کرو۔ میں چلی بھیا سے ٹائم لینے۔”
سیل فون یکا یک بج اٹھا۔
”ہیلو… جاوید بول رہا ہوں۔
”حاضری نہیں دی آج۔”
”چل بے… جلدی آجا۔ کام ہے۔”
”اچھا آتا ہوں۔” وہ اٹھا۔
”کہاں چل دیئے۔” طاہرہ نے بے چینی سے پوچھا۔
”کال آئی ہے۔ تو جانا پڑے گا۔ سلام بھائی نے بلایا ہے۔”
”نہ جاؤ۔ نہ ملو کسی سے۔ چھوڑ دو سب کو ، یہ لوگ تمہارے کچھ نہیں ہیں۔ صرف تمہیں استعمال کریں گے۔”
”ابھی تو میں جارہا ہوں ۔ تم یہاں بیٹھ کر میرے لئے پلان بناوؑ۔” وہ بے نیازی سے کہتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔
”بس یہی خرابی ہے تم میں بالکل کسی اجنبی کی طرح اچانک چل پڑتے ہو۔” اس نے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
وہ ہاتھ چھڑا کر چل پڑا۔
طاہرہ نے فون ملایا۔ ادھر نورین نے فون ریسیو کیا۔ شہزاد واش روم میں تھے۔
”ہیلو… ! بھابی…” وہ رو دی۔
”کیا ہوا۔”
”بھیا کہاں ہیں؟ میں بہت پریشان ہوں۔”
نورین نے کہا۔ ”میں آتی ہوں۔”
”آپ یہاں نہ آئیں بھابی۔ میں آجاوؑں گی۔ آپ کے پاس۔”
”تو پھر ابھی آجاؤ، کیا میں لینے آجاؤ۔”
”نہیں میں رکشہ لے لیتی ہوں۔”
”اوکے۔ اللہ حافظ۔”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”شہزاد…! طاہرہ کا فون تھا کوئی پرابلم ہے اسے۔”
شہزاد نے بال سکھاتے ہوئے (اپنی انگلیوں سے) اسے غور سے دیکھا ۔ آج اس نے اسے شاکر کے بجائے شہزاد (اس کا اصل نام) کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
”دوسروں کا دکھ اپنی تکالیف بھلا دیتا ہے۔” ا س نے زیر لب کہا۔
”ہوں… اس کا ہز بینڈپولیٹیکل ورکر ہے نا… وہی سب سے بڑا پرابلم ہے۔”
”اے ہے، اسے کیا کہہ رہے ہیں۔ محبت میں تو یہ سب نہیں دیکھا جاتا نا وہ تو چور ڈاکو سے بھی ہوسکتی ہے۔” نورین نے بڑی لجاجت سے کہا۔ ”کچھ پیسہ خرچ کرنا پڑے گا۔ یہاں تو کام کروانے کا یہی طریقہ ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جاوید نے طاہرہ کے سارے زیورات یکے بعد دیگرے فروخت کردیئے ہیں۔”
”تو میرے لے لو۔” امی نے بہ وقت ضرورت کام آنے کے لئے ہی دیئے تھے ورنہ مجھے تو سونے کے زیورات پہننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ انہیں فروخت کرکے ان کے کام کردو۔”
”نہیں اس کی شاید ضرورت پیش نہ آئے۔ اللہ کرے بغیر پیسوں کے ہی بات بن جائے۔ میں بھی کیسے کیسے خواب دیکھتا رہتا ہوں… پھر سوچتا ہوں… خواب نہ دیکھا جائے تو تعبیر کیسے حاصل ہوگی… خیر اللہ مالک ہے۔ سب ٹھیک ہی ہوگا انشاء اللہ۔”
”یہ طاہرہ بھی نہ… بس عقل سے پیدل ہے۔”
”کیوں؟”
”تم جانتی ہو مجھے مریم اسی لئے نہیں مل سکی کہ میرے بہنوئی صاحب ”دہشت گردی” میں نام رکھتے ہیں۔”
”اے توبہ … ایسا بھی نہیں ہے۔” نورین نے برجستہ کہا۔
”یہی کہہ کہ مریم کے والد نے انکار کردیا تھا۔” اس نے گویا انکشاف کیا۔
”اوہ… نو!”
رئیلی… مجھے یقین نہیں آتا کہ جاوید ایسا ہے۔” نورین کو تشویش ہورہی تھی۔
”کچھ تو ہے…یونہی کسی کو بیٹھے بٹھائے دہشت گرد نہیں کہہ دیتے۔”
”یہ وہ سیاسی کارکن ہے جو اپنے آپ کو ”توپ” سمجھتے ہیں مگر ہوتے کچھ نہیں بے چارے ۔ کیا ہے طاہرہ کا مستقبل؟ کبھی اس سے پوچھنا۔”
”محبت تو ہے نا دونوں کو ایکدوسرے سے۔”
”بس… یہی محبت ہے، دونوں ایک دوسرے کو محبت بھرے گیت سناتے رہیں۔”
”کچھ کرو ان کے لئے… جاوید کو اس رستے سے ہٹاؤ۔ ورنہ ہم سب پس جائیں گے؟”
”پس جائیں گے؟!! پس چکا ہوں ۔ پہلا شکار تو میں ہی تھا۔ویسے میں کوشش میں ہوں اسے بیرون ملک روانہ کردوں۔ اس کے بائی بے چارے متفکر رہتے ہیں اس کی طرف سے۔ ابا اسی صدمے کو لے کر دنیا سے سدھارے ہیں یعنی طاہرہ کی جاوید سے شادی۔ وہ اس کے حق میں نہیں تھے۔ مگر وہ مریم کے باپ والا رول ادا نہیں کرسکے۔”
”نورین … ہمارا خاندان علم سے، رشتوں سے وطن سے محبت کرنے والا خاندان ہے۔ہمارے یہاں اولاد کی تربیت کا آغاز شکم مادر سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ مائیں پل پل خود کو سنبھالتی ہیں۔ اچھا سوچتی ہیں اچھا کرتی ہیں، اچھا کھاتی ہیں تاکہ آنے والی نسل اعلیٰ ذہن، اچھی سوچ اور اچھی صحت لے کر پیدا ہو۔مائیں نشست و برخاست تک میں ادب و تہذیب کا خیال رکھتی ہیں۔” شہزاد نے تفصیلاً بتایا۔
”اور یہ شخص… گیارہ بہن بھائی ہیں۔بچاری ماں جان چھڑاتی آگئی ہوگی سب سے۔” شہزاد نے کتابوں کے شیلف کو درست کرتے ہوئے کہا۔ اس نے گفتگو ازسر نو جوڑتے ہوئے کہا۔
”اب تو یہ ماں باپ کے حدود و قیود سے نکل چکا ہے۔ اپنے آپ کو سنبھالے۔ طاہرہ جیسی شریک سفر لڑکی مل گئی ہے تو اس کی قدر کرے… مگر نہیں … جانتی ہو!… اس کا نام جاوید صدیقی ہے لیکن جاوید کوّا کہتے ہیں اسے۔”
وہ خاموشی سے سن رہی تھی۔ آج شہزاد پہلی بار اتنا بولے جارہے تھے۔ یقینا اپنی بہن، بہنوئی اور اس کے مستقبل کی فکر دامن گیر تھی۔ اور تھا بھی کون ان کا… لے دے کے دو ہی بہن بھائی تھے۔ والدین حیات نہیں تھے۔ جو رشتے بنے تھے وہ سب سہمے ہوئے تھے۔ جاوید کا خاندان اس کی حرکتوں کی وجہ سے پہلے ہی اس سے خائف رہتا تھا۔ لہٰذا وہ بھی ملنا ملانا پسند نہیں کرتا تھا اس سے۔ اب ادھر نورین کا میکہ تھا جنہوں نے شاکر کی یادوں کی وجہ سے احتیاطاً نورین سے دوری اختیار کررکھی تھی۔
مگر اپنے داماد پروفیسر شہزاد سے رابطہ رکھے ہوئے تھے۔ اور کہتے تھے کہ ہم آنا جانا بالکل نہیں کرسکتے تاکہ نورین کو سوائے اپنے شوہر کے کسی اور کی یاد آئے۔ اس کا نیا ماحول ہو۔ اس لئے کہ نئی زندگی ہے۔ چلو… وہ بھی اپنے حساب سے ٹھیک ہی سوچتی ہوں گی۔
٭…٭…٭
”اور فن ہاؤس کا چکر بھی لگانا ہے۔ ورنہ وہ بچے اپنے ماحول میں بیٹھے ہمیں یاد کرتے رہیں گے۔ ان کے لئے کھلونے خریدنے ہیں… اس بار تنخواہ ان بچوں کی سمجھو ۔ اگر تمہاری اجازت ہو تو۔
”میں تو تیار ہوں۔ میری اجازت کی ضرورت کیا ہے۔ جو آپ سوچیں وہ ٹھیک ہے۔”
”ہاں… آئندہ ماہ… انشاء اللہ جاوید کے معاملات بھی سدھر جائیں گے… لڑکیوں کا سمجھ داری سے کام لینا بہت ضروری ہے۔ ورنہ پورا خاندان تتر بتر ہوجاتا ہے۔ طاہرہ نے شادی کے معاملات میں بہت ناسمجھی سے کام لیا ہے۔ ہم سب کے لئے مشکل کھڑی کردی ہے۔ سوچنے میں سب کچھ جتنا آسان ہوتا ہے عملی طور پر اتنا سہل نہیں ہوتا۔
شہزاد نے تاسف کا اظہار کیا۔
”کیا کہیں… یہی محبت ہے ۔” نورین مسکرائی۔
”سال بھر سے یہ ”محبت” اس نکاح کے بندھن کو سنبھالے ہوئے ہے۔
کب تک چلے گاایسے؟ تم طاہرہ کو سمجھاؤ ”
”کیا سمجھاؤں… علیحدگی لے لے… ہمارے یہاں یہ تو نہیں ہوتا۔”
”تو یہ بھی نہیں ہوتا جو ہو چکا ہے۔”
”محبت یہ سب کہاں دیکھتی ہے۔ محبت کا پھول تو کسی کانٹے دار شاخ پر بھی کھل سکتا ہے اور اردگرد کے ماحول کو معطر کرسکتا ہے۔”
”ہاں… ہے نا معطر اس کی زندگی۔” شہزاد نے گویا طنز اً کہا۔
”انشاء اللہ معطر ہوجائے گی۔ اس کی زندگی۔ طاہرہ میں حوصلہ بہت ہے۔”
٭…٭…٭
”سنو … آج بھابی سے بات ہوئی تھی میری۔”
”کس سے… نورین بھابی سے… اچھا… وہ بہت پیاری خاتون ہیں۔” جاوید نے اپنی رائے دی۔
”اور میں… طاہرہ نے جھٹ پوچھا۔ تم… تم تو گلاب ہو گلاب ۔ ہمیشہ مسکراتے رہنے والا گلاب، مہکتے رہنے والا گلاب، جو کبھی مرجھاتا نہیں ہے ۔ میرا گلاب۔”
”اونہہ… چھوڑ و مجھے بنانا۔”
”تو کیا جھوٹ بول رہا ہوں۔”
”نہیں… بولتے تو سچ ہو مگر… سچی راہ پر نہیں چلتے۔ آہستہ آہستہ اپنے یار دوستوں سے قدم پیچھے ہٹاؤ اور اس بے تکی زندگی سے نجات حاصل کرو۔ جس کا کوئی مستقبل نہیں ہے… تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم بہت خوبصورت زندگی گزاریں گے۔”
”مجھے یاد ہے۔” اس نے سنجیدگی سے کہاو۔ ”ہے تو خوب صورت زندگی مسئلے مسائل سے الگ بیٹھے ہیں۔”
”مجھے خدشات ہیں جاوید… تحفظات ہیں۔” طاہرہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”خدشات، تحفظات، ان ساری ذات برادری کو چھوڑو۔ بس میں اور تم… اور ہماری محبت… آؤ چلو کمرے میں چلتے ہیں۔ یہاں پھول، پودے اور اڑتے پرندے ہمیں دیکھ لیں گے۔” اس نے طاہرہ کا ہاتھ پکڑ کر صحن سے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
”تم بہت اُجلی اُجلی ہو طاہرہ… تمہیں تو ہاتھ دھو کر چھونے کو جی چاہتا ہے۔”
”ڈھلے ہاتھوں سے چھوؤ یا میلے ہاتھوں سے مگر میری زندگی میں اجالا کردو۔”
اس کا لہجہ خواب ناک تھا۔
”بس یہی باتیں ہیں تمہاری جس نے مجھے باندھ رکھا ہے۔ دیوانہ کیا ہے۔ کبھی کبھی تو اپنی قسمت پر رشک بھی آتا ہے… میں نے سوچا ہے یہاں جسے کہیں دور نکل جاؤں ۔ تم بعد میں آجانا۔” جاوید نے اس کی بکھری زلفوں کو سنوارتے ہوئے کہا۔ ”میں چاہتا ہوں ہمارا بے بی اس وقت آئے جب تمہیں کوئی خوف ، کوئی پریشانی نہ ہو۔”
”کیا ہم اس دن کا انتظار گن گن کر کریں گے؟”
”بے بی بہت ضروری ہے مگر سن لو… ایک دو سے زائد نہ ہو۔ ہمارے ماں باپ کی طرح۔ دس گیارہ… پیدا کرکے جمع رکھا۔ کسی کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ کون کس کو نے میں گھسا کیا کررہا ہے۔” جاوید نے بے زاری سے کہا۔
”جو کرنا ہے جلدی کرو۔ ایک برس بیت چکے ہیں ہماری شادی کو۔”
”تم حساب کرتی رہتی ہو۔ مجھے تو کل کی بات لگتی ہے۔” وہ گنگنانے لگا۔
”شکرہے تم نے ایسا محسوس کیا۔”
”تم نے کرایا ہے۔مجھے بیدار کیا ہے۔ میں نے بھی اس جذبے کا اقرار کیا جو میرے اندر کہیں دبا ہوا تھا۔ محبتوں کی کمی ہی ہوتی ہے جو لوگ غلط رستوں پر چل پڑتے ہیں۔ محبت ہو تو رستوں کی ، منزل کی نشان دہی ہوجاتی ہے۔ محبت ویران رستے میں چراغ کی طرح ہوتی ہے۔ جو آدمی کو آگے بڑھاتی ہے۔”
”مگر …انسان کو سمجھ داری سے کام لینا چاہیے۔ سوچ بچار کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ وہ انسان ہے۔ یہی غور و خوض کا عمل تو ہے جو اسے جانوروں سے ممتاز بناتا ہے۔ ” طاہرہ نے کہا۔
”ہے نا میری جیون ساتھی… بہت سمجھ دار… پھر مجھے کیا غم ہے۔”
جاوید نے شوخی سے کہتے ہوئے اسے اور اپنے قریب کرلیا۔
اپنے جذبات شیئر کئے۔ جب خمار ٹوٹا تو شام ڈھل چکی تھی۔ شب کے مسافروں کے اپنے سفر پر روانگی کی تیاری کا سمے تھا۔
طاہرہ بولی۔ ”آج دن کی طرح ساری رات میرے پاس رہو۔ فون بند کردو۔ کسی سے بات مت کرو۔ فقط میری سنو۔ میری پیار بھری گفتگو جس نے بقول تمہارے تمہیں میرا بنا رکھا ہے۔”
”جانے کیا کیا سوچتی رہتی ہو۔ جاوید نے انگڑائی کہتے ہوئے کہا۔
”یہ لو… اسے سنبھالو۔” اس نے پاسپورٹ جیب سے نکالتے ہوئے کہا۔
”یہ کل ہی بنا ہے۔”
صرف تمہارا… اور میں …؟” طاہرہ کے گلاب چہرے پر پریشانی بکھر گئی۔
”پہلے مجھے کوئی ٹھکا نہ مل جائے تو بعد میں تم بھی آکر بسیرا کرلینا۔”
”کاش ! ایسا ہی ہو۔” طاہرہ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیئے۔
مری آنکھ کھلے… تم سامنے ہو
شب دن میں ڈھلے … تم سامنے ہو
کوئی دیپ جلے … تم سامنے ہو
کہیں پھول کھلے… تم سامنے ہو
”کبھی مجھے بھی بھیا کی طرح شاعری سے بے حد لگاؤ تھا۔ غم زیست نے اسے نکلنے کی کوشش کی ہے۔ پھر بھی…سب ٹھیک ہوجائے گا۔ تم ذرا سی کوشش کرو۔ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارو۔ کسی کا کارندہ بن کر نہیں۔ یہ سیاستدان کسی کے نہیں ہوتے۔ اپنے آ پ کے بھی نہیں۔ انہیں خود سے پیار ہوگا تو اپنے آپ سے وابستہ ہر شے کا ، ہر شخص کا، ہر رشتے کا خیال کریں گے۔ یہ خود غرض، مفاد پرست لوگ ہوئے ہیں۔ ان کے ورکر فاقہ کشی۔ بچارے ان کے آگے اپنی زندگی بچھادیتے ہیں۔ پھر مٹ جاتے ہیں۔ تم انہیں چھوڑدو۔ کیا ملا ہے اب تک تمہیں۔”
”میں خواجہ وارثی کا بیٹا ہوں جس نے ایک سیاسی جماعت کو اپنے چالیس سال دے دیئے۔ اپنے حال میں ہی مست رہ کر دنیا سے گزر گئے نہ کوئی امتیاج نہ کچھ حاصل۔ وفا کشی کی آپ اپنی مثال تھے ابا۔ جاوید آب دیدہ ہوگیا۔ ”لیکن تم پر تو دہشت گردی، زمین فروشی، بھتہ وصولی کا الزام ہے جاوید۔ تم ایسے ہوئے تو بھلا میں یہاں تکلیف دہ وقت گزارتی۔ !! تمہاری اماں نے ابا کو نہ روکا۔ مگر میں تمہیں روکوں گی۔ اچھی زندگی گزارتا۔ میرا اور تمہارا حق ہے۔ میں کیوں اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے بیوہ کی زندگی کاٹیں۔ لوگ مجھ پر ترس کھائیں ۔ میں آئے دن تمہاری تلاش میں منہ پر نقاب ڈالے گلیوں گلیوں پھروں۔ تمہاری اماں بچاری اسی طرح رہیں نا۔” اس سے قبل تمہاری پارٹی کو تمہاری پلاننگ کی بھنک بھی پڑے یہ سرزمین چھوڑ دو۔ بعض صورتوں میں ہجرت ضروری ہے جاوید۔ میری اعلیٰ تعلیم و تربیت ، با علم و ہنر کا فائدہ کیا جب میں اپنے شوہر کو ہی ایک مثالی شخص کے طور پر دنیا کے سامنے نہ پیش کرسکوں… کچھ بھی ہو… میں تمہارا اور تم میرا حوالہ ہو۔ میں نے خود تمہاری ذمہ داری لے کر ہم کو اپنی زندگی کا ساتھی بنایا ہے۔ ورنہ میری کوئی مجبور نہ تھی۔ اگر کچھ غلط کہا ہو میں نے تو مجھے بتاؤ۔ تصحیح کرو۔”
”تم فکر مند نہ ہو سب ٹھیک ہوجائے گا۔” جاوید کے چہرے پر طاہرہ کی باتوں کی طمانیت تھی۔
”محبت بولتی ہے۔ جاوید! اس کی اپنی ایک آواز ہوتی ہے۔ محبت نامی پھول کی اپنی مہک ہوتی ہے۔ جسے بغیر ناک والے بغیر حس شامہ رکھنے والے بھی سونگھ لیتے ہیں… یہی موقع ہے زندگی کو سدھار نے کا۔”
”یار … اتنا نہ ڈراؤ مجھے۔” وہ جذبذ ہونے لگا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تائی ایسری — کرشن چندر

Read Next

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!