”ہاں… تو کیا ہمارا وطن صرف ہماری۔”محبت کا مدفن” ہوگا…؟”
محبت ہمیشہ زندہ رہنے والا جذبہ ہے۔ جس سر زمین سے جذبات جڑے ہوں۔ اسے کبھی الوداع نہیں کہنا چاہیے۔”
”ایسا کرو… نورین اور شہزاد کو اسی دیارغیر میں چھو ڑ جاؤ۔ مریم اور شاکر کو زندہ جاوید رکھنا ہی ٹھیک ہے… ہم دونوں کا یہی علاج ہے۔”
اس طرح ہماری ادھوری محبتوں نے ہمیں مریم اور شاکر میں تبدیل کردیا۔
”تم شاکر کا صدقہ مجھے اپنا سچا جذبہ عطا کردینا۔” شہزاد کی آنکھیں بھیگی بھیگی محسوس ہوئیں۔
”محبت، بھیک ، صدقہ ، خیرات، عطیہ نہیں ہوتی۔ یہ بن مانگے دی جانے والی شے ہے۔ اسے زبردستی کسی پر لاگو بھی نہیں کرتے۔ میری طرف سے تم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔”… میں نے زبردستی اپنے لبوں پر مسکراہٹ بکھیری۔
”تم بھی خود مختار ہو۔میں محبت میں آزلوں کا قائل ہوں تاکہ محبت پھلے پھولے اور اسے دوام حاصل رہے۔ پابندی، قیدو بند، اور زبردستی ، مجبوری یہ زندگی کو کھا جاتی ہیں۔ تم جس راستے پر چاہو چلو۔ جو چاہے کرو۔ جس سے چاہے ملو۔ اگر میری محبت میں وارفتگی ہوگی تو تمہارے سارے نشان، سارے نقش میری محبت کی جانب کھینچے چلے آئیں گے۔ تمہارا میرا تعلق بدن کا نہیں روح کا رہے گا۔”
”شاکر بھی یہی کہتا تھا کہیں تم… شاکر کا دوسرا روپ تو نہیں ہو۔” میں نے بے قراری کے ساتھ اسے چھو کر دیکھا۔ میری انگلیاں اس کے چہرے کو چھو کر اس کے ہاتھوں تک گئیں تو اس نے اُسے اسی طرح تھام لیا جیسے شاکر کا انداز تھا۔ بالکل وہی۔
”نہیں میں شاکر کا روپ نہیں ہوں۔ میں پروفیسر شہزاد ازل ہوں۔ جس طرح محبت اپنے اصل کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا دوسرا روپ نہیں ہوسکتا۔ مگر لوگ تشبیہ دیتے ہیں۔”
”یہ فلسفہ مجھے نہیں معلوم۔” میں نے بے زاری سے کہا۔
”میں تمہیں سمجھا بھی نہیں سکتا۔ لیکن پروفیسر کے ساتھ رہوگی تم تو سمجھنے لگوگی ۔” وہ مسکرائے۔ اس کی مسکراہٹ بہت دھیمی تھی۔ مگر بہت من موہنی۔
٭…٭…٭
اس نے قریب رکھے اخبار کو اٹھا کر الٹنا پلٹنا شروع کیا۔ کچھ دیر ایک خبر کی جانب توجہ مرکوز رہی، پھر بولی۔ ”یہ دیکھو شاکر یہ اخبار میں کیسی خبر ہے، اس ملزم کی بیوی تعلیم یافتہ اور باشعور ہے۔ ان دونوں کی لو اسٹوری بھی شائع ہوئی ہے۔ اسے پیار کرنے والی بیوی کا شوہر قتل وغارت گری کے رستے پر کیسے چل پڑا۔
کہیں تو کوئی کمی ہوگی۔ والدین کی تربیت میں ، گھر کے ماحول میں لازماً کمی ہوگی۔”
سزائے موت سنائی جانے کے بعد یہ زندگی کی تمنا کررہا ہے۔ بیوی اس کی جانب سے صفائیاں پیش کررہی ہے۔
”کیا تعلیم ، کیسی تربیت، کون سا ماحول اور کیسا محلہ۔ ہر جگہ بس اسی چار حرفی لفظ”محبت” کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے ۔
جو کچھ بھی ہے جہاں میں
محبت کا ہی پھیلاؤ ہے ۔
زندگی میں محبت داخل رہے تو تبھی وہ زندگی رہتی ہے۔ ورنہ صرف شرمندگی۔ یہ کائنات محبت کی بنیاد پر ہی بنی ہے۔”
”بس چلو خطبہ محبت ختم۔ اب ان لوگوں سے مل آئیں جن کی پیاسی نگاہیں محبت بھرے دلوں کی منتظر ہیں۔ ہم تو اپنی ایک کھوئی ہوئی محبت کا رونا رو رہے ہیں نا یہ بچارے تو اس معاملے میں بالکل متلاش ہیں بالکل مفلس۔ یہ کہتے ہوئے شہزاد کے چہرے پر بے چارگی تھی۔ ”یہ زندگی سے نوچ کر پھینکے گئے لوگ ہوتے ہیں۔”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
پہلا ہفتہ میک اے وش کے لئے تھا۔ اپنی بیماری سے زندگی کی جنگ لڑنے والے باہمت بچے جنہیں ہر صورت ہارنا ہی ہے۔ وہ جو آخری خواہش کریں۔ اسے پورا کیا جاتا ہے۔ نورین کو جیسے ہی ان کے بارے میں علم ہوا وہ بے چین ہوگئی۔ ”چلو شاکر ! ابھی تو یہ بچے دنیا میں ہیں ان کی آرزو پوری کریں۔ ان کے ساتھ کھیلیں۔ انہیں کہانیاں سنائیں۔ دور دیس کے پریوں کی۔ میں انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں گی۔ کیا تم پہلے بھی یہاں آئے ہو؟”
”ہاں کبھی کبھار جب دل دنیا کے ہجوم سے گھبرا جاتا ہے تب۔” جب خالقِ کائنات کا تہہ دل سے شکر کرنے کا جی چاہتا ہے تب۔ اور اس وقت بھی جب مرجانے کو جی چاہتا ہے۔اور تب بھی جب خود کو تنہائی کاٹنے لگتی ہے۔”
”اوہ… پھر تم مشکل باتیں کرنے لگے۔”
٭…٭…٭
دوسرا ہفتہ، خون کے امراض میں مبتلا بچوں کے ساتھ گزارنا تھا۔
”اف… دنیا بہت بیمار ہے۔بہت علیل ہے۔ یہ جو بچے ہیں نا یہی زندگی کا نشان ہیں۔ زندگی کی شناخت ہیں۔ انہیں ایسی بیماریاں کیسے لگ جانی ہیں۔” نورین فکر مند ہورہی تھی۔
ایک ہفتے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملے کے ساتھ مل کر بچوں کی خوب خوب دیکھ بھال کی دونوں نے۔ اس کے بعد مزید انہیں رہنے کی اجازت نہیں ملی کہ یہ بچے آپ کے عادی ہوجائیں گے۔ آپ کو تلاش کریں گے اور اس وقت آپ اپنی زندگی میں گم ہوچکے ہوں گے۔ لہٰذا آتے جانے میں وقفہ ہونا چاہیے۔”
گھر آکر شہزاد نے پوچھا۔ ”سنو کہیں تم تھک تو نہیں گئیں۔ اتنی خدمت نئی دلہن سے تو سسرال والے بھی نہیں کرواتے۔”
”لیکن تم یہ تو دیکھو۔ خدمت بھی کیسی بہترین ہے۔ جس کے بعد بے پایاں سکون ملا ہے۔ اندرونی خوشی محسوس ہورہی ہے۔ اب جبکہ آرام کررہے ہیں تب وہ تھکن بدن کو محسوس ہورہی ہے اور یہی تھکن زندگی کا اثاثہ ہے۔”
٭…٭…٭
تیسرا ہفتہ آبشار میں گزارنا ہے۔ اپنے آپ میں گم رہنے والوں کا گھر ۔ زندہ رہ کے بھی زندگی سے منہ موڑ لینے والوں کا گھر، پاک ذہن، نیک روح والے معصگ۔ جو زمانے کی بے ثباقی کو جھیل نہ سکے اور اپنے حواس کھو بیٹھے۔
وہ دونوں دور ایک چبوترے پر بیٹھے آس پاس موجود ان لوگوں کو دیکھتے رہے۔ کیونکہ انہیں قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔
”شاکر ! اگر تم مجھے نہ ملتے تو شاید میں بھی یہاں ہی ہوتی، کسی پتے سے کسی پھول سے تمہاری باتیں کررہی ہوتی۔”
”میں تو کتابوں سے باتیں کیا کرتا تھا۔ پھر انہیں ہی تکیہ بناکر سوجاتا۔”
”اوہ… مگر کتابوں سے ہی کیوں؟”
”مجھے کتابوں نے ہی اپنے آغوش میں پناہ دی تھی۔
٭…٭…٭
چوتھا ہفتہ ایدھی ہوم میں گزارنا تھا۔
”ایسا کرو تم چھوٹے بچوں کے ساتھ رہو۔”
”اگر وہ میری گود سے سلپ ہوگئے تو۔ میں نے کبھی کسی بچے کو وہ بھی شیر خوار بچے کو نہیں سنبھالا۔”
”پھر تو تم بچیوں کے پاس چلی جاؤ۔”
وہ خوش ہوگئی۔ ”یہ ٹھیک ہے میں آج کھلونے سے کھیلوں گی۔ جھولا جھولوں گی سب کے ساتھ۔ ایک دن گڑیا گڈے کی شادی بھی کروں گی خوب دھوم دھڑکے کے ساتھ۔ سچ بہت مزہ آئے گا۔”
”اور تم۔”
میں بارات لے کر آؤں گا۔” وہ ہنس پڑا۔
”وہ تو تم آچکے ہو۔” اس نے کہنی مارتے ہوئے کہا۔
”ارے گڈے کی بارات کا کہہ رہا ہوں۔” ویسے میں لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلوں گا اور انہیں پڑھنا لکھنا سکھاؤں گا۔”
”اگر میری ضرورت پڑے تو بلا لینا۔”
”سنو! یہاں بچیوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ میں نئی دلہن ہوں۔ وہ سب مجھے غور سے دیکھ رہی ہیں۔ مجھے اچھا لگ رہا ہے۔” نورین نے سیل فون پر شہزاد کو بتایا۔ تو وہ بولا۔ مجھے سب بھائی جان کہہ رہے ہیں۔ مجھے بہت اچھا لگا ورنہ تو سب مجھے ”سر، سر ” ہی کہتے رہتے ہیں۔ یہ سب مجھے روز آنے کا کہہ رہے ہیں۔ میں نے پھر آنے کا وعدہ بھی کرلیا ہے۔”
”مجھے بھی دوبارہ مدعو کیا ہے۔ شکر ہے ہم انہیں پسند آگئے۔”
”اب ہم دوبارہ بہت سارے تحفے لے کر آئیں گے۔”
٭…٭…٭
”پانچواں ہفتہ شروع ہونے والا ہے۔ آج کہیں جانے کا پلان نہیں ہے کیا۔”اس نے شہزاد کو نیند سے بیدار کرنے کی کوشش کی۔
”ہوں ں ں … نیند آرہی ہے سونے دو۔”اس نے کروٹ بدلی۔
یہ سرہانے کتابوں کا ڈھیر ہے پروفیسر، اسے پڑھ لیا ہے تو شیلف میں رکھ دوں۔” اس نے کتابوں کو الٹتے پلٹتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں پڑھا… یہ پورا ہفتہ کتابوں میں گزاروں گا۔ خریدوں گا بھی پڑھوں گا بھی۔”
”اوکے۔”
”چلو تم اپنی نیند پوری کرلو۔ میں کتابوں کو ترتیب سے رکھ دیتی ہوں۔”
”انہیں بے ترتیب تو ہونا ہی نہیں چاہیے۔”
”ہاں اور گرد آلود بھی نہیں ہونا چاہیے مریم۔”
ارے کیا تم مریم کو خواب میں دیکھ رہے ہو۔” اس نے پوچھا۔
”خواب ہوا ہوئے، مریم تو اب تعبیر ہے۔ تعبیر ہمیشہ سامنے ہوتی ہے۔ تمہاری طرح۔”
”ہوں۔ یہ مریم شاکر ۔ یہ نام سوٹ کر گیا ہم دونوں پر۔”
”آج کتابیں اور کھلونے کی خریداری کریں گے۔”
”ہاں میں یتیم خانے کے بچوں کے لئے ڈھیروں کھلونے خریدوں گی۔… سچی میرا اب بھی جی چاہتا ہے خوب کھلونے خریدوں، ان سے کھیلوں، سائیکل چلاؤ، جھولا جھولوں، پارک میں گھوموں، تتلیوں کے پیچھے دوڑوں۔ سچ زندگی کا مزہ اسی میں ہے۔”
”کس کے ساتھ کھیلو گی۔” اس نے نیند میں ہی پوچھا۔
”اکیلی کیوں… یہ جو اتنے پیارے پیارے ننھے منے بچے ہیں ان کے ساتھ کھیلوں گی۔ انصار برنی ٹرسٹ، ایدھی ٹرسٹاوریہ جو اسپیشل بچوں کا اسکول ہے۔ یہی تو ہے محبت بانٹنے کی جگہ۔ یہ جو ہمارے دلوں میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے نا۔ اسے ان ہی جگہوں پر جاکر تقسیم کروں گی۔” اس کے چہرے سے معصومیت چھلک رہی تھی۔
”محبت تقسیم نہیں ہوتی مریم… بلکہ اس کا حساب کتاب ہی نہیں ہوتا۔ یہ حساب کا موضوع نہیں ہے۔ یہ صرف محبت ہے۔ اس کاکوئی متبادل نہیں۔ ہاں یہ تبرک ضرور ہوسکتی ہے۔”
وہ مزید بولا۔
”مجھے پہلے سے معلوم تھا تمہاری اورشاکر کی محبت کے بارے میں … پھر بھی میں نے تمہیں اپنی زندگی کا ساتھی بنالیا… ورنہ اس معاشرے میں لوگ دوسرے مرد کے ساتھ انوالو لڑکی کے ساتھ وقت تو گزارنا پسند کرتے ہیں۔ انہیں اپنی ذاتی زندگی میں قبول نہیں کرتے۔”
وہ اس کی بات کو بغور سن رہی تھی۔
”بے وقوف جو ہوتے ہیں۔” اس نے سلسلہ کلام جوڑا،محبت کرنے والا بہت سادہ معصوم ہوتے ہیں۔ دنیا کے خرافات سے الگ انہیں چالاکیاں، مکاریاں، دکھاوا ، منافقت ، جھوٹ کا پتاہ ہی نہیں ہوتا۔ تم اہلِ دل… اہلِ محبت،میں بھی اسی راستے کا مسافر ۔ ہمیں زندگی کو کائنا نہیں ہے۔ نہ ہی گزارنا ہے۔ ہم تو زیست کو تھامنے والے لوگ ہیں۔”
فلسفے کے پروفیسر… ہی ہی ہی ۔ وہ ہنسی دبانے لگی۔
وہ گنگنانے لگا:
بندگی تھام لو
زندگی تھام لو
سادگی تھام لو
عاشقی تھام لو
”اب تین ماہ ہونے والے ہیں۔ تمہاری چھٹیاں ختم ہوجائیں گی پھر تم کالج چلے جایا کروگے تو میں کیا کروں گی۔
”تم کھیلنا میں تمہیں بہت سے بچوں کے درمیان چھوڑ جاوؑں گا۔ کھلونے کھیلنا۔
ہا ہا ہا ہا ہاہا …ا س نے قہقہہ لگایا۔ گھر کی فضا فرحت انگیز ہوگئی۔
٭…٭…٭
”میں ٹشو پیپر نہیں ہوں کہ استعمال کیا اور پھینک دیا۔”
”مجھے ڈائیلاگ نہ سناوؑ میں کسی کہانی کا کاکردار نہیں۔ تمہارا شوہر ہوں۔”
”تو پھرشوہر کی طرح رہو۔”
”مجھ سے اس انداز میں بات نہ کیا کرو۔ طاہرہ میں نے تم سے شکل دیکھ کر نہیں تمہاری باتیں سن کر پیار کیا ہے۔”
”تو اب بھی باتیں ہی تو سنارہی ہوں ، سنو۔”
”ایسی جلی کٹی باتیں نہیں وہی پہلے والی باتیں ۔ ورنہ سوکام ہیں دنیا میں میرے جیسے آدمی کے لئے۔
”سو کام…؟ کون سے سو کام… ایک دو تو ذرا گنواوؑ۔”
”خدارا… ! مجھے جینے کی راہ دکھلاوؑ… ورنہ…؟”
”ورنہ کیا… آگے بھی کہو۔”
”طاہرہ … مجھے چور، ڈاکو، قاتل بنانے والے بہت ہیں۔ تم مجھے ان کی طرف نہ دھکیلو۔”
”کیا…” وہ دھک سے رہ گئی ۔ ”تم میں چور، ڈاکو، قاتل بننے کے جراثیم بھی موجود ہیں؟” اسکا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ”سیاسی وابستگیوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ پارٹی بازی آدمی کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ سیاسی پارٹیوں میں، نعرے بازی سے لے کر، غندہ گردی تک کے جراثیم تلاش کئے جاتے ہیں۔ کسی کو اس کے خصوصیات کے مطابق کسی راستے پر ڈالا جاسکتا ہے۔”
”اف خدایا … !!؟”
”بتاؤ… تم سے کیا کیا جراثیم کروائے گئے؟”
”ابھی صرف”بھتہ وصولی” میں شامل رکھا ہے۔”
”اف … تمہیں یاد ہے تمہارے گھر میں صرف ایک وقت کا کھانا ہوتا تھا؟”
”اچھی طرح یاد ہے… کبھی تو وہ بھی نہیں ہوتا تھا۔”
”تم لوگوں کی محنت کی کمائی، جمع پونجی چھین لیتے ہو۔”
”لیکن میرے ہاتھ تو خالی ہی رہتے ہیں۔ وہ سب مال تو پارٹی کے پاس چلا جاتا ہے۔”
”جاوید… عقل کے ناخن لو… سنبھل جاؤ… یہ راستہ بدلو۔ آگے گلی بند ہے۔”
”معلوم ہے مجھے…مگر اب میں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔”
”میں نے نہیں چھوڑا… میں سنبھال لوں گی تمہیں۔آہستہ آہستہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلو۔
بہت مشکل ہے… پارٹی سے الگ ہونے والے کو زندگی سے الگ ہونا پڑتا ہے ۔ کسی دن شہزاد۔ بھیا کے پاس چلو۔ ان سے مل کر مشورہ کرتے ہیں۔ باہرنکلنے کا راستہ پوچھنتے ہیں۔”
”تمہارے بھیا کا ناکام عشق کا روناختم ہو تب نا۔”
”نہیں اب ایسا نہیں ہے بھیا بہت خوش ہیں۔ وہ تو نورین بھابھی کو مریم کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور بھابھی انہیں شاکرکہتی ہیں۔”
”ہیں… بڑے عجیب ہیں دونوں … یہاں تو ایسی باتوں پر قتل ہوجاتے ہیں۔”
”نہایت معصوم ہیں دونوں۔” طاہر نے کہا۔
”تم کب بھیا سے ملوگے۔”
”جب تم کہو۔”
لیکن وہ کیا سوچیں گے ان کو بہنوئی دہشت گرد ہے۔”
”دہشت گرد…؟” طاہرہ تذبذب میں مبتلا ہوگئی۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});