معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

سنو! میں شکاگو جاکر اپنی اسٹڈیز پر توجہ دوں گا۔ اچھا ہے وہاں رہتے ہوئے کچھ حاصل ہوجائے۔”
”ہاں… میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ وہاں بڑھانے کے ساتھ ساتھ آپ خود بھی پڑھیں۔” نورین نے مشورہ دیا۔
”سارے پروسسز میں تین ماہ تو چاہیے ہے۔ تبھی ہم وہاں جاسکتے ہیں۔ چند اور دوستوں سے رابطہ کیا ہے۔ جو وہاں ایجوکیشن سے وابستہ ہیں۔ انشاء اللہ اچھے مشورے سے نوازیں گے۔”
”جانے سے پہلے سب سے ملاقات ضروری ہے۔ یعنی تمہاری امی اور بہنیں اور جاوید کے بھائی وغیرہ۔” شہزاد نے کہا۔ اور ایک دن ان سب کو اپنے گھر مدعو کیا۔ بہت عرصے بعد ان سب کی روبرو ملاقات ہورہی تھی ورنہ اپنا آپ سنبھالنے پر ہی زیادہ وقت لگ گیا تھا۔ اس کی ممی نواسی ہنی کو سینے سے چمٹائے بیٹھیں تھیں۔ دونوں بہنیں گھر میں اڑتی پھر رہی تھیں۔ ان کی خوشی تو دیدنی تھی۔ طرح طرح کے مشوروں سے نورین کو نواز ے جارہی تھیں۔
اسی وقت طاہرہ لیپ ٹاپ پر آن لائن ہوگئی۔ ورنہ تو یہ سب کب سے اس کا انتظار کررہے تھے۔ سب جھمگٹا بنا کر وہیں گھس گئے۔ بے بی کو اٹھا اٹھا کر دکھانے لگیں۔ دوسری طرف طاہرہ کے عقب میں جاوید اور مہران بیٹھے تھے۔ بہت دنوں بعد سب اکٹھے ہوئے تھے بلکہ بہت دنوں کیا شادی کے بعد ہی یہ اتنی بڑی تقریب ہوئی تھی جس میں قریبی لوگ موجود تھے۔ فرق اتنا ضرور تھا کہ وہ شادی خانہ آبادی تھی۔ یہ الوداعی تقریب۔ وہ بھی ایسی جس میں سبھی مسرور تھے۔
اسکرین کے اس بار امریکا اور اس پار پاکستان تھا۔ خوب گفتگو جارہی تھی۔
طاہرہ نے کہا۔ ”نورین سے پوچھو کتنی تیاری ہوئی؟”
آپ فکر نہ کریں ہم سب کروادیں گے۔ نورین کی دونوں بہنوں نے اکٹھے جواب دیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

جلد ہی وہ دن آگیا جب وہ کراچی سے شکاگو کی طرف پرواز کررہے تھے۔ دونوں ہی زیادہ تر چپ چپ تھے۔ اس شہر سے ایسی یادیں وابستہ تھیں جو حاصل زندگی تھیں۔
کچھ تو خاص بات ہے اس شہر نا پرساں میں کہ اس کو چھوڑتے ہوئے دل کے آسمان پر دکھ کے بادل چھا جاتے ہیں۔ نورین تو ہنی میں لگی ہوئی تھی۔ شہزاد بھی بیوی اور بیٹی کی جانب متوجہ تھا مگر لبوں پر خاموشی کی مہر لگی ہوئی تھی۔
”تمہیں دکھ ہورہا ہے نا یہاں سے جاتے ہوئے۔” نورین نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”میں تو اس شہر کو کب کا الوداع کہہ چکا ہوتا اگر تمہارے شہزاد اس میں گم نہ ہوگیا ہوتا۔” اس نے دھیرے سے اس کے قریب جھکتے ہوئے کہا۔ نورین نے اس کی جانب محبت پاش نظروں سے دیکھا۔ تو اس کی توجہ ہٹ گئی۔ بے بی دورانِ پرواز نیند کی آغوش میں ہی رہی۔ وہ دونوں ایک دوسرے میں مگن رہے۔ جب کبھی کوئی اعلان ہوتا تب چونکتے ورنہ تجدید محبت کے لئے انہیں یہ موقع خوب ملا تھا۔ ”تمہارے ساتھ میں یہی خاص بات ہے بندہ خود کو تو انا محسوس کرتا ہے۔ محبت توانائی ہی تو ہے جو مل جائے تو ٹوٹے پھوٹے چٹختے جسم و جاں میں بھی انرجی پیدا کردیتی ہے۔”
” میں تمہاری محبت میں اس قدر ڈوب چکی ہوں کہ مجھے احساس ہی نہیں ہوتا کہ میں کس قدر خوش ہوں۔” نورین نے سرشاری سے کہا تو اس نے اس کے گرم رخسار پر مہر محبت مثبت کردیئے۔
”نہہ… کوئی دیکھ لے گا…” نورین نے دائیں بائیں دیکھا۔
”یہاں کوئی نہیں دیکھتا… تاکاجھانکی، دوسروں کی کن سوئیاں لینا دیوار سے کان لگائے رکھنا ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔”
”تم بہت پیارے انسان ہو۔” اس نے دھیرے سے کہا۔
”تم سے کم۔” اس نے کسر نفسی سے کام لیا۔
”ہماری ہنی بالکل تمہاری طرح ہے۔” نورین نے کسمساتی ہوئی بچی کی طرف دیکھ کر کہا۔
”مجھے تو یہ تمہارا پر تو لگتی ہے ۔” شہزاد نے بچی کے گال سہلائے۔
”تم امریکا جاکر دوبارہ ایجوکیشن کی طرف توجہ دینا۔ ایسا کرنا بچی کے ساتھ پڑھنا شروع کردینا۔” وہ ہنسا۔
”نہیں بھئی پھر تمہارا اور بے بی کا خیال کون رکھے گا۔” نورین نے پوچھا۔
مل جل کر سب ہوجائے گا۔ جہاں اتفاق ہو وہاں آدھے مسائل خود ہی حل ہوجاتے ہیں۔ کسی کتاب میں لکھا ہے شادی کے بعد عورت ہی کا کام ہے گھر بچے اور شوہر سنبھالے۔ میں تو یہ سب نہیں مانتا۔ گویا عورت نوکرانی کی طرح اور شوہر نواب کی طرح۔ عجیب زندگی ہوجاتی ہے۔ شوہر گلچڑے اڑا رہے ہوتے ہیں اور بیویاں پس رہی ہوتی ہیں۔ پھر شکایتیں الگ جنم لیتی ہیں۔ نااتفاقی الگ اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔”
”اچھا… جی جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ سب کروں گی آپ کی محبت میں۔” نورین نے فرمانبرداری سے کہا۔ آپ میری رہنمائی کرتے رہا کیجئے گا۔۔”
”رہنمائی تو محبت خود ہی کیا کرتی ہے۔ محبت ہو تو راستے آسان اور منزل قریب آجاتی ہے۔ یہ دنیا آراستہ و پیراستہ ہی محبت کی بنیاد پر ہے۔”
محبت اک کھلا در ہے
کہ جس کی
نیم وا آنکھوں میں
ختم ہوتا کوئی منظر
کبھی داخل نہیں ہوتا
یہاں آغاز ہی آغاز ہوتا ہے
محبت کرنے والے
داستانِ عشق کے ایسے مسافر ہیں
کہ جن کی زندگی میں
روشنی ہی روشنی
امید بن کر
جھل سلاتی ہے
یہیں جینا سکھاتی ہے
٭…٭…٭
”ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے محبت کا آغاز اب ہوا ہو۔ جب ایک فرشتہ ہمارے درمیان آئی ہے۔ محبت کا اصل مفہوم میں اب سمجھی ہوں جب یہ بچی میرے بازوؤں میں کسمسائی۔ محبت میرے اندر اتری ہی تب ہے جب میں نے بے بی کو پہلی بار اپنے سینے سے لگایا۔”
”محبت کے اپنے ادوار ہوتے ہیں۔ تمہیں یاد ہے جب ہم دونوں شرعی طور پر ایک تھے مگر الگ الگ رستوں کے مسافر تھے۔ اور بے آسرا بچوں سے ملاقاتوں میں اپنا اپنا وقت گزارتے تھے۔
تمہیں وہ وقت یاد ہے جب ہم دوسرے ناموں سے ایک دوسرے کو پکارتے پکارتے اپنے اپنے ناموں کی طرف واپس پلٹے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہم ایک دوسرے سے گریز پا تھے۔ ایک لمحہ ایسا بھی تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ جو میرے پہلو میں سمائی ہوئی ہے وہی میری ہے اور میرے لئے ہے۔ ایک سماں ایسا بھی رہا کہ ہم ایک دوسرے میں گم ہوکر ضم ہورہے تھے۔ صبح سے شام اور شام سے صبح ہوتی گئی مگر ہماری محبت کا خمار ٹوٹا ہی نہیں۔ ایسا اس لئے ہوا کہ ہم دونوں اپنے اصل کے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے رہے۔ ہماری کوئی بات ایک دوسرے سے مخفی نہیں ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کی ہے۔ لہٰذا ہمارے درمیان کوئی تنازعہ کھڑا نہیں ہوا۔ جب مجھے کسی سے محبت ہوسکتی ہے تو کسی بھی لڑکی کو کسی اور لڑکے سے عہد و پیمان کرنے سے کیوں روکا جائے ۔ یہ سماج چاہتا ہے کہ صرف مردوں کی محبت ہوا کرے کوئی عورت کسی کو پسند کرنے کا اختیار نہ رکھے۔ جبھی تو معاشرے تباہی کی انتہا پر ہے۔”
نورین نے اس کی باتیں سننے کے بعد کہا۔ ”آپ کے جیسا تو کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔” اس نے اپنا سر اس کے بازو پر رکھ دیا۔ اس نے محبت کو چوم لیا۔ فضا میں تھمگی گھل گئی۔ ایک دلکش آواز نے جہاز کے لینڈ کرنے کا اعلان کیا تب وہ چونکے۔ پھر بھی ایک دوسرے کے ہاتھوں کو تھامے ہی رکھا۔
٭…٭…٭
طاہرہ نے اپنے گھر کے قریب ہی بھائی بھابھی کے لئے بھی انیکسی سجا رکھی تھی۔ جاوید نے کہا بھئی ہمارا دوسرا کمرہ بھیا کو دے دو مگر طاہرہ متفق نہ تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ”نہوںکے جوڑے الگ الگ رہیں تو بہتر ہیں جوائنٹ فیملیز اومان پرور، لوگوں کے لئے ٹھیک نہیں رہتا۔ بہتر ہے کہ وہ اپنے اپنے گھونسلوں میں اپنی مرضی کے مطابق رہیں۔ اومانوی جوڑوں کی ایک اپنی الگ دنیا ہوتی ہے جس میں میں کہ وہ قدرت کے نہماں رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ وہ خود بھی ان ہی رستوں کی مسافرت میں تھی۔ لہٰذا اس سے بہتر کون یہ معاملات سمجھ سکتا تھا۔
نورین سے مل کر وہ اپنا بزنس پلان ڈسکس کرتی۔ اسے تو فرصت نہیں تھی تمام معاملات وہی دیکھتی۔
”پورے ہفتے کا کھانا تیار کئے بیٹھی ہے۔” شہزاد نے فریج سے پانی نکالتے ہوئے کہا۔
”یہاں تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ وقت بچانا پڑتا ہے۔ تاکہ دوسرے کام ہوسکیں۔ پاکستان کی طرح تھوڑا ہی کہ بس عورت روزانہ صبح، دوپہر شام چولہا ہانڈی ہی کئے جارہی ہے… لاؤ ذرا ہنی کو مساج کردوں بولتے بولتے طاہرہ نے بے بی کو گود میں اٹھالیا۔
”نہیں ابھی رہنے دو…”
آپ تو کرتی ہی رہتی ہیں۔ میں بھی ذرا اپنا شوق پورا کرلوں۔ طاہرہ بے بی کا مساج کرتی رہی۔ اس کا بیٹا قریب بیٹھا دیکھتا رہا ۔ پھر بولا کیا اب ہنی ریسلنگ کے لئے جائے گی۔ سب بے ساختہ ہنس پڑے۔
٭…٭…٭
شہزاد جاتے ہی اپنی اسپیشلائزیشن میں مصروف ہوگئے۔ جاوید بھی ٹھیک جارہا تھا۔ اس کے ٹیلنٹ سے اس کی کمپنی فائدہ اٹھا رہی تھی۔ پاکستان میں اس کی صلاحیتیں برباد ہورہی تھیں۔ نورین اور طاہرہ اپنے بے بی ڈے کیئر سینٹر میں بزی رہتے ساتھ ہی ان کے بچے بھی ہوتے۔ شہزاد نے جاوید کے بڑے بھائی کو اس کے امریکا ایڈجسمنٹ کی خوش خبری سنادی تھی۔ اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کی تھی کہ وہ اس خبر کو اپنے تک ہی محدود رکھیں تو بہتر ہے۔
٭…٭…٭
اس دن طاہرہ خوشی خوشی شاپنگ کرکے واپس آئی۔ مارکیٹ میں اسے کوئی بچپن کی سہیلی مل گئی تھی جو وہاں ایک بار میں ملازم تھی۔ دونوں نے کارڈ کا تبادلہ کیا اور ایک دوسرے کو گھر آنے کاوعدہ کیا تاکہ ساتھ بیتھ کر پرانی یادوں کے گلاب چن سکیں۔
اس ویک اینڈ پر اسے آنا تھا۔ صبا رازی کے لئے ا س نے پاکستانی کھانے بنائے۔ گھر کی صفائی جاوید کے ساتھ مل کر کی۔ صبا نے آنے میں تاخیر کردی معلوم ہوا کہ اس کے شوہر نے آتے وقت ہنگامہ کھڑا کردیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر کسی سے ملنے جارہی ہے۔ طاہرہ نے کہا کہ اسے بھی لے آتی تو وہ بولی ایسا ممکن نہ تھا۔ ”میری دیرینہ دوست مجھے ملی ہے سمجھو کوئی آسرا ملا ہے۔
”کیا مطلب؟ طاہرہ نے چونک کر پوچھا۔
”بہت تنگ کرتا ہے۔” صبا نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
”کتنے سال ہوگئے؟ ”
”چار سال سے بھگت رہی ہوں۔”
بچے وچے ؟ طاہرہ نے پوچھا۔
”یہ ویسا آدمی نہیں ہے ایسے تو صرف گزارے کے لئے عورت چاہیے۔ میری محبت کے سبز باغ کے سارے پھول مرجھاگئے ہیں۔”
اوہ… ویری سیڈ۔
”تم نے کیا سوچا ہے پھر اپنے بارے میں۔” طاہرہ پوچھ بیٹھی۔
ابھی تھینکس گاڈ تو کہنے دو۔ تم نے مجھے اپنے گھر بلایا ایسا لگا جیسے میرا کوئی سرپرست مل گیا ہو۔ صبا نے نہایت عنونیت سے کہا۔
”شہزاد بھیا بھی یہیں ہیں۔” اس نے بتایا۔
”یہ تو اور بھی اچھا ہے ورنہ میں تو تنہا سمجھتی تھی خود کو۔”
”میرے ہز بینڈ اور بیٹا ابھی آنے والے ہیں۔ تم سناوؑ۔ شوہر کیا کرتے ہیں تمہارے؟” طاہرہ نے ایک ساتھ کئی سوال کردیئے۔
”تمہاری شادی یہاں ہوئی ہے یا کراچی میں؟”
” سانس تو لینے دو پھر سب بتاتی ہوں۔” صبانے کہا۔
”مجھے جاننے کی جلدی اس لئے ہے کہ ابھی گھر خالی ہے۔ اپنے سارے دکھ سکھ میرے ساتھ شیئر کرسکتی ہو۔” طاہرہ نے جلدی جلدی کہا۔
”میری شادی کراچی میں نوید حسین سے ہوئی تھی۔ وہ بہت اچھے آدمی تھے۔ اچھی گزر بسر ہورہی تھی۔ نوید کا اپنا بزنس تھا۔ سلمان اس کا دوست تھا۔ اس نے پہلے نوید کو مجھ سے متنفر کیا پھرمجھے ورغلایا۔ میاں بیوی کے درمیان بالکل شیطان کا رول ادا کیا سلمان نے۔ مجھے تو بعد میں معلوم ہوا کہ اصل بات کیا تھی۔ بس نوید کان کے کچے نکلے۔ انہوں نے معمولی بات پر مجھے طلاق دے دی۔ بھائیوں نے اکیلا چھوڑ دیا۔ بھابیوں نے جی بھر کے الزام تراشی کی۔ والدین کا تو بہت پہلے ہی انتقال ہوچکا تھا۔ تب میں بے آسرا ہوگئی تو اس نے مجھے شادی کے سبز باغ دکھائے اور کبھی لاہور، کبھی اسلام آبادلئے لئے پھرتا رہا۔ کسی کو پرسنل اسسٹنٹ بتاتا کسی کو وائف بتاتا۔ پھر میرے دباوؑ ڈالنے بلکہ خودکشی کی دھمکی کے بعد نکاح کر ہی لیا اور یہاں شکاگو لے آیا۔ میں گھر میں بند بند تنگ آگئی تو جاب کرلی۔ یہ تو اکثر غائب رہتا ہے۔ کبھی سارا دن کبھی ساری رات ان تین برسوں میں اس نے ایک اور شادی یہاں ایک انگریز عورت سے کی تھی جو اسے چھوڑ کر بھاگ گئی۔ مجھے تو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو پہلے سے شادی شدہ ہے اور کراچی میں اس کی بیوی اور بیٹے موجود ہیں۔ مگر یہ ان سے لاتعلق ہوچکا ہے۔ جب اس کی گرل فرینڈ چھوڑ جاتی ہیں تو پھر یہ میرے پاس آجاتا ہے۔ میری مجبوری یہ ہے کہ کاغذات میں کم از کم خاوند کے خانے میں اس کا نام ہے۔ کبھی تو میرے پیسے بھی چھین لیتا ہے اور کبھی لاکر دیتا ہے۔ کچھ ذاتی باتیں پوچھوں تو تشدد پر اتر آتا ہے جیسے رات بھر کہاں رہے۔ اتنا نشہ نہ کیا کرو وغیرہ۔ اس نے تو صاف منع کررکھا ہے۔ اولاد کے پیدا کرنے کی غلطی نہ کرنا۔”
”ساتھ رہنا چاہتی ہو یا چھٹکارہ چاہتی ہو۔” طاہرہ نے پوچھا۔
”اب تک تو اکیلی تھی گزارا کررہی تھی۔ مگر اب تھک گئی ہوں۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!