٭ کیا آپ ری میک اور ماخوذ کہانیوں کے حق میں ہیں؟
سائرہ: بالکل میں اس کے حق میں ہوں، کیوں کہ اب جو دنیا ہے وہ سکرین کی دنیا ہے، اب اگر آپ کو اپنا فکشن محفوظ کرنا ہے تو اس کے لئے آپ کو کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔میرا ٹالسٹائی کا ناول Anna Carenina کو ڈرامہ ٹائز کرنے کا بڑا دل چاہتا ہے۔
٭ کیا آپ لوگ table reads کرتے ہیں؟
سائرہ: الگ سے تو نہیں ہوتا لیکن ہر وقت ہم رائٹرز سے رابطے میں رہتے ہیں فون کے ذریعہ یا پھر ہم رائٹرز کو بلواتے ہیں۔
٭ اس فیلڈ کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ رائٹرز unprofessionalہوتے ہیں،آپ اس بات سے کس حد تک متفق ہیں؟
سائرہ: میرا نہیں خیال کہ ایسا ہے۔ جن رائٹرز کے ساتھ کام کیا ہے وہ بہت کوآپریٹو ہیں، تھوڑی بہت شکر رنجی ہوجاتی ہے لیکن زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ میں رائٹرز کی بہت شکرگزار ہوتی ہوں کہ بعض اوقات بیس اقساط لکھی جاچکی ہوتی ہیں، شوٹ ہوچکی ہوتی ہیں، ہم اگلی بیس اقساط کے لئے رائٹر پر دباؤ ڈال کر کام کرواتے ہیں، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی پراجیکٹ کبھی سکرپٹ کی وجہ سے رکا ہو۔باقی تو انسانی زندگی ہے، پریشانیاں، دُکھ سب کے ساتھ ہوتے ہیں، ہم بھی رائٹرز کوانڈر سٹینڈ کرتے ہیں، وہ بھی ہمیں سمجھتے ہیں۔ میں تو یہ کہوں گی کہ تمام رائٹرز بہت زیادہ محنت کرتے ہیں۔ اس میں کسی جونیئر یا سینئر رائٹر کی کوئی قید نہیں ہے۔اکثر اوقات اتنی بار لکھواتے ہیں کہ رائٹر تنگ آجائے لیکن دیکھا جائے تو وہ ان کی بہتری کے لیے ہی ہوتا ہے اور رائٹر ہر مقام پر تعاون بھی کرتے ہیں۔ ”جگنو“ پراجیکٹ پورا شوٹ ہوچکا تھا، جب آن ایئر ہونے لگا تو مجھے لگا کہ اس میں جگنو کی خالاؤں والا ٹریک مزید ہونا چاہیے، میں نے آمنہ مفتی سے بات کی، اور آمنہ مفتی نے آن ایئر پر دوبارہ کام کیا، وہ کہہ سکتی تھیں کہ میں نہیں لکھ رہی، یہ تو اتنا پرانا پراجیکٹ ہے، شوٹ بھی ہوچکا ہے اب آپ کو خیال آرہا ہے،بلکہ انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا کہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں سمجھتی ہوں کہ اچھے رائٹر کو صرف پیسے سے غرض نہیں ہے بلکہ اپنی تحریر کے بہتر ہو جانے کا خیال بھی رہتا ہے۔
٭ کیا رائٹرز آپ کے ساتھ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ ہماری لکھی ہوئی تحریر کو ذرا سا بھی edit نہ کیا جائے، ایک لائن بھی اِدھر سے اُدھر نہ کیا جائے؟
سائرہ: یہ تو ایک دکھتی ہوئی رگ ہے، رائٹرز نے خونِ جگر ایک کر کے تحریر لکھی ہوتی ہے، تو انہیں اپنی کاٹی ہوئی تحریر ہرگز اچھی نہیں لگے گی، لیکن پھر بھی وہ انڈرسٹینڈ کرتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ اگر اس کو chop کیا جارہا ہے تو اس میں ان ہی کی بہتری ہے۔
٭ رائٹرز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خود پسند اور انا پسند ہوتے ہیں۔کیا آپ اس بات سے متفق ہیں اور آپ کے نزدیک کیا رائٹر کو اناپسند یا خودپسند ہونا چاہیے؟
سائرہ: یہ تو انسانی فطرت ہے۔ رائٹر حساس ہوتے ہیں، ان کے اندر حساسیت عام انسان سے زیادہ ہے اس لیے وہ اتنی اچھی تحریر لکھ سکتا ہے، ہمیں اس کی حساسیت کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے، پیار سے لے کر چلنا چاہیے، اس کو سمجھنا چاہیے۔ اگر میں آپ کو اچانک رد کردوں، تو آپ کو بھی ٹھیس لگے گی نا، رائٹر تو پھر فن کار ہوتے ہیں، ان کو رد ہونا برا لگے گا۔
٭ کیا بہ حیثیت ایڈیٹر آپ کہانی میں تبدیلیوں کے لئے رائٹرز سے اصرار کرتی ہیں؟
سائرہ: ہر کہانی میں ایسا ہوتا ہے۔جب تک ایڈیٹر مطمئن نہیں ہوتا، وہ کام آگے نہیں دے سکتا، رائٹر کو اپنے ایڈیٹر کے ساتھ متفق ہونا چاہیے۔
٭ اگر رائٹر کی سمجھ میں آپ کی تبدیلیاں نہ آئیں تو آپ کیا کرتی ہیں؟مزید اصرار کرتی ہیں یا پھر اپنا حق استعمال کر کے کہانی میں تبدیلی کردیتی ہیں؟
سائرہ: ابھی تک ایسا ہوا نہیں ہے، عموماً سب کو بات سمجھ میں آجاتی ہیں۔ لیکن آج تک کسی بھی رائٹر کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن تبدیلی کا استحقاق رکھتے ہوئے بھی رائٹرز کے مشورہ سے ہی تبدیلی کی جاتی ہے۔
٭ کیا آپ دی گئی کوئی حتمی تاریخ کو سختی سے followکرتی ہیں؟
سائرہ: میں ڈیڈ لائن دے کر کام نہیں کرواتی ہوں، کیوں کہ یہ ایک تخلیقی کام ہے اور یہ ڈیڈ لائن دے کر نہیں کروایا جاسکتا ہے۔
٭ نئے آنے والے ایڈیٹرز کے لئے کوئی ایک مشورہ؟
سائرہ: لوگوں کو باہر سے بیٹھ کر لگتا ہے کہ کانٹینٹ کا کام بہت ہی آسان ہے۔ لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ کانٹینٹ ڈپارٹمنٹ ڈرامہ انڈسٹری کی سب سے مشکل جگہ ہے۔ جتنا آسان نظر آرہا ہوتا ہے، اتنا ہوتا نہیں ہے۔ یہ بڑیsacrificing job ہے،آپ کو کوئی نام نہیں ملنا، کوئی ایوارڈ نہیں ملتا۔جو نئے آنے والے ہیں، ان کو بہت زیادہ پڑھنے کا عادی ہونا چاہیے، اس کو خصوصاً کہانی کی بُنت آنی چاہیے۔ اس کو اس فیلڈ میں نہیں آنا چاہیے، اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کو فیلڈ کا علم بھی ہونا چاہیے۔
٭ آپ اس چیز کے حق میں ہیں کہ خواتین اور مردوں کا ڈائجسٹ الگ الگ کیا جائے؟
سائرہ: جس وقت ڈائجسٹ کا اجراء ہوا تھا، شاید اس وقت اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہو، کیوں کہ اس وقت خواتین کے معاملات کا ذکر ہوتا تھا لیکن میں نے امتل صبور کو اس بات پر راغب کرنے کی کوشش کی تھی کہ ہم اس میں مردوں کے لیے بھی کچھ الگ صفحات نکالیں۔میں بنیادی طور پر اس چیز کے حق میں نہیں ہوں۔ تخلیق کار تخلیق کار ہوتا ہے، بیدی نے عورت کے حوالے سے لکھا،منٹو نے عورت کے حوالے سے لکھا، قرۃالعین حیدر نے تاریخ کے حوالے سے لکھا۔ میں اس چیز کے حق میں نہیں خواتین کے لیے الگ اور مردوں کے لیے الگ لکھا جائے۔
٭ آپ کے نزدیک رومن سکرپٹ کو ختم کرنے کے لیے اوراردو کے رسم الخط کو زندہ رکھنے کے لئے کیا اقدامات کرنے چاہیے؟
سائرہ: اردو زندہ رہے گی، اردو کا رسم الخط بھی زندہ رہے گا۔ یہ بات میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں، وہ یوں کہ قرآن کا رسم الخط بھی وہی ہے، وہ نسخ میں ہے اور اُردو نستعلیق میں ہے۔ جو بچے قرآن کا قاعدہ پڑھتے ہیں انہیں اردو پڑھنی آجاتی ہے۔ اُردو پڑھنے والے موجود ہیں، کم ہورہے ہیں،وہ ایک الگ بات ہے،لیکن اردو بولی جارہی ہے، اور یہ زبان کبھی نہیں ختم ہوسکتی، کیوں کہ اردو آسان ہے اور اپنے آپ کو تبدیل کرلیتی ہے، جس مقام یا جس عہد میں جاتی ہے وہاں پر تبدیلی کو قبول کر لیتی ہے۔
٭ آپ کی پسندیدہ کتاب؟
سائرہ: مجھے ندا فاضلی کی بائیوگرافی ”دیواروں کے بیچ، دیواروں کے باہر“ بہت پسند ہے، میں یہ کتاب بہت سے لوگوں کو پڑھنے کے لیے تجویز کرتی ہوں۔ ویسے مجھے شفیق الرحمن، پطرس بخاری، کنہیا لال کپور بہت پسند ہیں۔اسد محمد خان کی باسودے کی مریم اور مئی دادا مجھے بہت پسند ہے، ان کے جملے بہت غضب کے ہوتے ہیں۔تارڑ کا ناول بہاؤ بہت اچھا لگتا ہے۔
٭ پسندیدہ فلم؟
سائرہ: زندگی نہ ملے گی دوبارہ مجھے اچھی لگی۔ایک فلم ”آنکھوں دیکھی“ تھوڑے عرصے پہلے دیکھی تھی، وہ بہت اچھی لگی۔
٭ الف کتاب کے قارئین اور عمیر ہ احمد کے لئے کوئی پیغام؟
سائرہ: الف کتاب لفظوں کی جدید ترسیل کا ایک تجربہ ہے، جو آنے والے وقت کی نشان دہی کرتا ہے اس کے جو دو تین شمارے اب تک آئے ہیں مجھے اس میں اس میں الف کتاب کی ٹیم کی محنت نظر آتی ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ پڑھنے لکھنے کو ایک مثبت سرگرمی کے طور پر اپنایا گیا ہے۔ عمیرہ ہم لوگوں کے لئے ایک blessing ہیں، وہ ایک اچھی رائٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی انسان بھی ہیں، اور یہی چیز انہیں باقی سب لوگوں سے ممتاز بھی کرتی ہے، ان کے لئے ان کی ٹیم اور اس نئے پراجیکٹ الف کتاب کے لئے ڈھیر ساری دعائیں اور بہت ساری نیک تمنائیں۔
٭٭٭٭
One Comment
Nice and productive conversation.Great ….keep it up . want another