٭ نئے لکھنے والوں میں آپ کو کس کا کام بہتر لگا ہے؟
سائرہ: یہ تو ایک لمبی فہرست ہے۔ کسی کا کچھ اچھا ہے، کسی کا کچھ اچھا ہے۔ لیکن آج کل جو لکھنے والوں میں ہیں، ان میں مجھے سمیرا حمید بہت اچھی لگی ہیں حاجرہ ریحان، ایمل رضا اور سحر ساجد بہت اچھا لکھ رہی ہیں۔ ظاہر ہے بیس سالوں میں میں نے جتنے رائٹرز کو پڑھا ہے، سب ہی بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ جن میں رفعت ناہید سجاد، عمیرہ احمد، عالیہ بخاری، فرحت اشتیاق، راحت جبیں، فاخرہ جبیں، عنیزہ سیّد، بشریٰ سعید، ماہا ملک، رخسانہ نگار اور فائزہ افتخار مطلب ایک بے پناہ لمبی فہرست ہے، میرے خیال میں جو خواتین ڈائجسٹ میں چھپ رہا ہے، وہ بہترین رائٹر ہے۔
٭ آپ کا تعلق ادبی رسائل سے رہا ہے،آپ نے آئندہ اور مزاح پلس کی ادارت کی ہے، اس کے علاوہ آپ نے خواتین اور شعاع ڈائجسٹ کی بھی ادارت کی ہے۔ جو ادبی حلقوں میں ایک عمومی تاثرپایا جاتا ہے ڈائجسٹ کے لئے وہ انہیں سوتیلا سمجھتے ہیں، یا الگ کردیتے ہیں۔
سائرہ: ناجائز ہی تصور کیا جاتا ہے(قہقہہ) حسن میں آپ کو بہت مزے کی بات بتاؤں کہ جب میں ڈائجسٹ کی دنیا میں آئی تو میری سوچ بھی ایسی ہی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے ڈائجسٹ پڑھے ہی نہیں تھے، میں ایک آدھ ڈائجسٹ پڑھتی تھی مگر وہ خواتین کے نہیں تھے۔ جب ان ڈائجسٹوں کی ابتدا ہوئی تو وہ الگ بات تھی روحانی کہانیوں کا دور تھا وہ ایسا تھا کہ اس وقت ہمارے پاس موبائل فون یا انٹرنیٹ نہیں آیا تھا اور ہماری دنیا بہت محدود تھی۔ اس وقت جب ہم بہت زیادہ ترقی یافتہ سماج نہ تھے اور تخلیاتی دنیا بہت پُرکشش تھی۔آج کے دور کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے تخیل کو پرواز ہی نہیں ملتی کیوں کہ ہم پہلے ادیبوں کو پڑھتے تھے اور ہمارے ذہن میں بڑا ایک رومانی سا تصور ہوتا تھا، ان سے ملنے کے لئے ہم بڑے شائق ہوئے تھے دوستی کا تو سوال ہی نہ تھا۔ سماجی ویب سائٹس کی بدولت ہر ایک کے پاس رابطے کی مشین کیا آئی کہ ایک گلوبل ویلج کے باسی بن گئے۔ وہ ان دیکھی دنیا جس کا اپنا حسن تھا ختم ہو گیا۔لیکن جیسے جیسے ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور رابطے کی، ہماری زندگی سے رومینس ختم ہوگیا اور mid 90’sسے دنیا تبدیل ہونا شروع ہوگئی اور2000ء سے تو یکسر تبدیل ہوگئی۔ اس کا اثر ہماری زندگی اور ہماری کہانیوں پر پڑاکیوں کہ لکھنے والے بھی اسی دنیا کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کی شعور کی آنکھ زیادہ دیکھ سکتی ہے۔سو انہوں نے بدلی ہوئی دنیا کی حقیقت پر مبنی کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ ان لوگوں نے رومانی زندگی سے بھی کچھ لیا اور حقیقی زندگی سے بھی کچھ لیا اور اپنی بات کو دلیل اور منطق سے ثابت کیا۔ ان کی تحریروں سے ہماری تحریروں میں منطق آنا شروع ہوگئی۔ جب میں نے ان رائٹرز کو پڑھا اور ان کے ساتھ کام کیا تو بہت اچھا لگا۔
سوال یہ تھا کہ ادبی حلقے ڈائجسٹ والوں کو رائٹرز نہیں مانتے تو میں بھی نہیں مانتی تھی، میں نے پڑھا اور دل سے ان کی معترف ہوئی۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ پڑھیں گے تو یہ بھی مانیں گے، یہ پڑھتے نہیں ہیں، یہ اپنے ایک محدود سرکل میں رہتے ہیں اور یہ بات میں ہر فورم پر کہتی ہوں کہ پڑھے بغیر فیصلہ نہ کریں۔ اسی ایک زندگی کو ادب والے اور ڈائجسٹ والے بھی دیکھتے ہیں۔ ادب والے مشکل اور پیچیدہ اسلوب سے بات کہتے ہیں، یہ آسان طریقے سے بات کہتے ہیں۔
ادبی سرکل قارئین کیوں نہیں پیدا کررہے؟ کیوں کہ ان کی تحریریں عوام تک نہیں پہنچتی ہیں،خواص تک ہی رہتی ہیں، جب کہ ڈائجسٹ کے قارئین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ میرے خیال میں تو ڈائجسٹ کا ایک بہت بڑا حصّہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کو پڑھنے کی طرف مائل کیا ہوا ہے۔ابھی میں کل مستنصر حسین تارڑ کا انٹرویو پڑھ رہی تھی ان سے بھی کسی نے پوچھا تھا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں خود یہ سمجھتا تھا کہ ڈائجسٹ کا رائٹر بیکار ہوتا ہے، جب میں نے رضیہ بٹ کو پڑھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کو کہانی کہنے کا سلیقہ تھا، کچھ تو تھا جو ان کو کہانی پڑھنے والے قارئین ملے ہیں۔ میرے ساتھ تو ایک عجیب سی بات ہے، ڈائجسٹ والے مجھے کہتے ہیں کہ میں ادبی ہوں، ادیب کہتے ہیں میں ڈائجسٹ کی ہوں (قہقہہ)مجھے تو آج تک نہیں پتا چل سکا کہ میں ہوں کہاں کی، مجھے کوئی بھی اپنا نہیں مانتا(قہقہہ)میں جاؤں تو کہاں جاؤں (قہقہہ)۔ جب میں اس فیلڈ (کمرشل رائٹنگ) میں آئی تھی تو مجھے کہا گیا تھا کہ یہ تو ادب والی ہیں، یہ کیا کرسکیں گی۔ میں نے ان سے کہا بھائی مجھے تو ادب والے اپنا مانتے ہی نہیں ہیں (قہقہہ) ویسے ادب نے مجھے نقصان نہیں پہنچایا، فائدہ ہی پہنچایا۔ ادب پڑھنے کی وجہ سے میرا کام بہتر ہے۔
٭ دنیا بھر کے ادیبوں میں آپ کا پسندیدہ ترین ادیب کون ہے؟
سائرہ: مجھے ٹالسٹائی کی کہانیاں بہت پسند ہیں۔آج کل اورحان پاموک اچھے لگتے ہیں، وائیکوم محمد بشیر جو ملیالم زبان کے ادیب ہیں، اچھے لگتے ہیں،ان کی تحریروں سے اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔اچھی چیز جہاں سے مل جائے پڑھتی ہوں، تراجم بھی کوشش کرتی ہوں پڑھوں، ادب کے علاوہ بھی چیزیں پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں۔جی تو چاہتا ہے کہ کچھ فرصت سے پڑھا جائے۔ اُردو ادب میں راجندر سنگھ بیدی، غلام عباس، عصمت چغتائی، مرزا عظیم بیگ چغتائی اور شفیق الرحمن پسند ہیں۔ جدید دور کے خالد جاوید اور سید محمد اشرف بہت پسند ہیں۔
٭ آپ نے بہت پڑھا ہے، کون سا genre ہے جو آپ کو بہت پسند ہے؟
سائرہ: نہیں میں نے بہت نہیں پڑھا ہے، میرے پاس اتنی کتابیں جمع ہیں، جو ابھی میں نے بیدل لائبریری کو ڈونیٹ کی ہیں، میری خواہش ہے کہ میں بہت سا پڑھوں۔ مجھے ہر قسم کی تحریر پسند ہے، مزاح، آٹو بائیوگرافی، ناول، سفرنامے اور تنقید سب اچھا لگتا ہے۔ شخصی خاکوں کی کتاب اگر مل جائے تو مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ البتہ اچھا لکھا ہوناچاہیے، بری تحریر میں نہیں پڑھ سکتی۔
٭ کون سا genre آپ کو غیر دلچسپ لگتا ہے؟
سائرہ: جاسوسی کہانیاں پڑھنا مجھے زیادہ اچھا نہیں لگتا۔
٭ آپ کے اب تک کئے گے پراجیکٹس میں سب سے آپ کا پسندیدہ پراجیکٹ کون سا ہے؟
سائرہ: مجھے ہر پراجیکٹ کرنے میں مزہ آتا ہے، چاہے وہ میری مرضی کا ہو یا نہ ہو، کیوں کہ مجھے اپنے کام سے بہت محبت ہے، اسی لیے ہر پراجیکٹ میں مجھے ایک نئی بات سیکھنے کو ملتی ہے، چاہے وہ کسی بھی رائٹر کا ہو، اور پھر اپنا کیا ہوا کام سکرین پر دیکھ کر بھی بہت اچھا لگتا ہے۔
٭ ہم عصر ایڈیٹرز میں آپ کے نزدیک کون بہتر کام کررہا ہے؟
سائرہ: مجھے پروڈکشن ہاؤسز اور چینل کا اتنا نہیں پتا کیوں کہ میں نے کسی کے ساتھ کام نہیں کیا ہے، لیکن مومنہ بہت اچھی ایڈیٹر ہیں، ان کو سکرپٹ کی بہت سمجھ ہے اور ڈائجسٹ میں امتل صبور کے ساتھ کام کیا ہے انہیں بھی اچھی کمرشل کہانی کی سمجھ ہے۔
٭ اب تک موصول ہوئے آئیڈیاز میں کوئی ایسا جو بڑا مضحکہ خیز لگا ہو؟
سائرہ: ایسے تو صبح شام موصول ہوتے رہتے ہیں۔جب میں خواتین ڈائجسٹ میں تھی تو بہت سی بچیاں آئیڈیاز بھیجتی رہتی تھیں، جن کو لکھنا نہیں آتا تھا، ایک ایک صفحے کے ناول بھی بھیجا کرتی تھیں، اور ہم بہ صدِ عزت و احترام انہیں وصول کیا کرتے تھے(مسکراتے ہوئے) وہ کہانی ہمارے لیے تو مضحکہ خیز ہوسکتی ہے لیکن اس کے لیے تو مضحکہ خیز نہیں ہوسکتی نا۔ ہمارے پاس ایک کارپینٹر آتا تھا، روزآکر بیٹھ جاتا تھا، کہ میری کہانی سن لیں یہ بہت غیر معمولی ہے، میں اس سے کہتی تھی بھائی یہ تمہاری زندگی کی کہانی ہے اس لیے تمہیں غیر معمولی لگ رہی ہے نا(ہنستے ہوئے) تم نے یہ سب کچھ جھیلا ہے اس لیے ایسا لگ رہا ہے بہرحال یہ اس کے لیے سنجیدہ معاملہ تھا۔ ہمارے لیے کوئی کہانی مضحکہ خیز ہوسکتی ہے لیکن ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔
٭ کوئی ایسی کہانی، یا تحریر جس کو پڑھ کر یا دیکھ کر آپ نے سوچا ہو کہ کاش میں نے اس پر کام کروایا ہوتا اور میں اسے مزید بہتر کرواسکتی تھی؟
سائرہ: بہتر تو میں نہیں کہہ سکتی یا کاش والی بات تو میں نہیں کروں گی لیکن مجھے ڈائجسٹ رائٹر بہت پسند آیا تھا۔
٭ کون سی تین چیزیں ایسی ہیں، جو دیکھ کر آپ کسی تحریر کی طرف متوجہ ہوتی ہیں؟
سائرہ: ایک تو یہ کہ کہانی میں ندرت ہو، حقیقت سے ماورا نہ ہو اور اس میں اتار چڑھاؤ ایسے ہوں کہ وہ چونکا دے اور کسی نہ کسی اخلاقی جڑت سے تعلق رکھتی ہو، اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو بھی پیغام ہو وہ between the lines ہو، لیکن وہ میسج جو غلط رجحان کو فروغ دے، ہم وہ نہیں دکھانا چاہتے۔ ہم کبھی بُری ماں نہیں دکھائیں گے، بُرے رشتے نہیں دکھائیں گے، اور اگر کبھی دکھائیں بھی تو اس کا انجام بُرا ہی دکھاتے ہیں۔ جیسے ابھی آبرو ڈرامہ آیا تھا، اس پر بہت تنقید کی گئی کہ آپ لوگوں نے غلط راہ دکھائی ہے، میں نے سب سے کہا کہ ٹھہریں آپ لوگ، اس کے چار پانچ اقساط گزرنے دیں پھر دیکھیں اس کا انجام ہم کیا دکھا رہے ہیں۔
٭ کسی بھی تحریر میں کون سی تین باتیں ہیں جس کی وجہ سے آپ تحریر کو مسترد کردیتی ہیں؟
سائرہ: ڈرامے کی کہانی ایک مخصوص پیٹرن پر لکھی جاتی ہے اگر اس تکنیک پر نہیں لکھی تو اس کہانی کو مسترد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
One Comment
Nice and productive conversation.Great ….keep it up . want another