محرومی — کوثر ناز

میری تیاری اچھی خاصی تھی۔ وہ سارے سوال بھی ازبر تھے جو مجھے پوچھنے تھے ۔ مجھ سے پہلے میری ٹیم نے پہنچ کر مجھے اطلاع دی تھی کہ یہاں میلا سا لگا ہے۔ بہت سے انہی جیسے لوگ ٹھیلوں پر اشیا بیچتے بچوں کی للچائی نظروں کا مرکز ہیں اور اِکا دُکا لوگ کشتی و جہاز جیسے جھولوں کو لیے وہیں آموجود تھے۔
میں وہاں پہنچی تو مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے بہت عرصے بعد میں مطلوبہ جگہ پہنچی ہوں۔ سالہا سال سے وہاں سے گزرتی آرہی تھی مگر اس زمین پر ان لوگوں کے درمیان پہلی بارقدم رکھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ دراصل آج میں خود کو آزاد محسوس کررہی ہوں اور یہ شاید وہی آزادی تھی جسے محسوس کرنے کے لیے ہمیں یہ وطن سونپا گیا اور جس کا سکون ہم مغرب کی اندھی تقلید میں کھوتے جارہے ہیں۔ وہاں جاکر میرے کیمرا مین نے کیمرا آن کیا اور میں اپنی فرّاٹے بھرتی زبان پر لوگوں کو گنگ ہوتے دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوتی رہی۔ اپنے سے کم مرتبہ لوگوں پر اپنی دھاک بٹھانے کا مزہ بھی الگ ہی ہے لیکن اگلے ہی پل مجھے اپنی اس سوچ پر سخت شرمندگی ہوئی اور میں ان میں گھل مل سی گئی۔ ان کا انداز زندگی وہی تھا کہ جو مانگ کر لاتا وہی کھاتا تھا اور جسے نہیں ملتا تھا بھوکا رہتا تھا۔ کسی کو زیادہ ملتا تو وہ بانٹ لیا کرتا تھا۔ گانے وہ لوگ بس وہی سنتے تھے جو سڑک سے گزرتی کسی گاڑی یا بس میںسے چلنے کی آواز کے سنگ ان کے کانوں میں پڑتے تھے۔ خواب میں اکثر کو اگلے دن کی روٹی دکھائی دیتی، تو کسی کو سردی، کسی کو بارش میں اپنا لامکان ہوکر کسی چھپر تلے سر چھپانا۔جوتیوں کے بھی برانڈ ہوتے ہیں وہ اس بات سے لاعلم تھے۔ صفائی تو وہ لوگ خود ہی نہ رکھتے تھے۔ میں نے صحت وغیرہ کی طرف پیشہ ورانہ انداز میں ان کی توجہ دلوائی اور پھر وہاں مجھے وہ خاتون بھی ملی جس کی بات کے ردعمل میں، میں نے زندگی کا بھیانک ترین تجربہ کیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”زندگی میں کبھی خواہش ہوئی کہ آپ بھی کسی بڑے گھر میں رہیں۔ میں جانتی ہوں یہ سوال اچھا نہیں ہے، لیکن بس میں جاننا چاہتی ہوں۔” میلے سے کپڑوں میں ملبوس اڈھیر عمر خاتون جس کی صحت کچھ اچھی نہیںتھی، اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھے میں اسے اعتماد بخشتی ہوئی پوچھ رہی تھی اور وہ جیسے میرا سہارا پاکر بکھر سی گئی۔ نمی نے پلکوں کو چھوا تواس کی آوازبھی رندھ گئی اور نہ جانے کیوںاس پل مجھے بھی اپنا گلا بھیگا ہوا محسوس ہوا۔ ساتھ ہی آنکھوں میں نمی بھی تیر سی گئی تو مجھے علم ہوا کہ میں اس خاتون کا دکھ محسوس کر رہی ہوں ایک ٹیم ممبر نے انگوٹھا دکھا کر ”اچھا کر رہی ہو” کا اشارہ دیا۔ تو ایک سانولا سا نوجوان جو قریب ہی کپڑوں کے ڈھیر سے ابھی منہ نکال کر حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہا تھانے اسے بہ غور دیکھا جب کہ میری توجہ اس پر کم اور روتی ہوئی خاتون پر زیادہ تھی۔
”بچپن سے ایسے ہی رہی ہوں۔ سسرال کے نام پر جو گھر ملا وہ ایک کمرے اور چھوٹے سے صحن پر مشتمل تھا جو ایک رات بارش کے ساتھ بہ گیا۔ پھر نہ اتنے پیسے جمع ہوسکے کہ لکڑیاں جوڑ کر ہی کوئی جھونپڑی بنالیں۔ یہ خواب کبھی نہیں آیا کہ کوئی بڑا سا گھر ہو اور میں امیر ہوں یا بہت سے پیسے ہوں میرے پاس۔”
وہ سادگی سے کہہ رہی تھی اوروہ نوجوان جو وہیں کپڑوں کے ڈھیر میں کھڑا تھا اور کچھ دیر پہلے تک خود میری بھی نظروں سے اوجھل تھا اُس نے کپڑوں کے درمیان سے منہ مزیدباہر نکالا تو میں چونک گئی۔ وہ نوجوان اچانک اٹھ کر تمبو سے باہر نکل گیا۔ میں آناً فاناً اس آفت کو جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی اور وہ عورت منہ پر ہاتھ رکھے کرب آنکھوں کے ذریعے بہانے لگی۔ میرے لیے یہ منظر عجیب تر تھا کسی کے اندر ایسا غصہ اور آنکھوں میں ایسا ارتعاش جو میرے لیے تھا اورکسی شعلے کی بھی تپش کو مات دے سکتا ہو، پہلی بار دیکھا تھا۔ دل یک بارگی خوف سے دھڑکا۔ میںلرزتے ہوئے دل کے ساتھ اس خاتون کو دلاسا دے کر باہر آئی تو تیز چلتی ہوا نے میرے ریشمی بالوںکو اُڑانا شروع کردیا اور میں بال سنبھالتی دور ایک پتھر پر بیٹھے اس نوجوان کو دیکھنے لگی جس کا لباس رنگت سے میل کھاتا ہوا سیاہ ساتھا۔ گریبان کے چند ایک بٹن کھلے ہوئے تھے اور بیچ کی مانگ سے بنے ہوئے با ل بکھر کر اب شب ِ گزشتہ کی داستان سُنا رہے تھے۔ نیند ابھی اس کی آنکھوں میں موجود تھی۔ وہ ہر طرح سے بے پروا ایک طرف منہ کیے کسی غیر مرئی نقطے پر دھیان مرکوز کیے ہوئے تھا۔ میں اسے دیکھتے ہوئے دل کو عجب لے پر چلتاہوا محسوس کررہی تھی۔ ایک خوف بھی تھا کہ میرے سوالوں کے بعدنہ جانے اس کا ردعمل کیسا ہو؟ میں کسی کو بھی بتائے بغیر اس کی جانب چل دی۔ میری ٹیم کے باقی ممبر مجھے اس کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر خاموشی سادھ چکے تھے۔ میرا دل ہوا کی سرسراہٹ کے ساتھ بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ ایسا زندگی کے پچیس سالوں میں پہلی بار ہوا تھا کہ میںیوں کسی مرد سے خوف زدہ تھی۔ میری ٹانگیں لرز کر کمزور پڑتی ہمت کا ساتھ دینے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں مگر مجھے بادِ مخالف کی جانب چلنے کی عادت نے رکنے نہیں دیا۔ میں دلی جذبات پر قابو پاتی اس کی طرف بڑھنے لگی اور وہ دور ایک بڑے پتھر پربیٹھا ٹانگ پر ٹانگ جمائے آنکھوں کو بے دردی سے مسلتے ہوئے شب ِگزشتہ والے حلیے میںبھی مجھ پر اپنی دھاک بٹھا رہا تھا۔ میں قریب جاکر وہیں ایک بڑے سے پتھر پر ٹک گئی ۔ میرے ساتھ موجود باقی کئی ساتھیوں نے ایک نظر مجھے دیکھا ضرور تھا مگر مجھ تک پہنچنے کی کوشش کسی نے نہیں کی۔ میں وہیں بیٹھ کر ہمت مجتمع کرتی اس سے مخاطب ہوئی:
”ایکس کیوز می!” اس کی آنکھوںسے نکلنے والے انگاروں نے مجھے جلا کر بھسم کرنے کی کوشش کی تھی ۔اس کی آنکھوں میں موجود سُرخ ڈوروں نے میرا دل جکڑ لیا۔ میری ٹانگیں لرزنے لگی تھیں۔ اس کی نگاہ کا تسلسل اب مجھ پر قائم تھا۔ میں نے دل کڑا کر کے پوچھ ہی لیا:
”کیا ہوا؟ وہاں سے کیوں آگئے، اگر تمہیں برُانہ لگے تو تم سے بھی سوال پوچھوں ؟” میں ایک سوال پوچھنے میں ہی پانی پانی ہوگئی تھی۔ آج پہلی بار کسی مرد سے اس قدر خوف زدہ تھی کہ جیسے وہ مجھے کھائے نہ بھی مگر میرے ٹکڑے کر کے کہیں دفنا ضرور دے گا۔ میں نے پھر پوچھا ، وہ بولا نہیں تھا۔ میں اس کی خاموشی کو اس کی رضامندی سمجھ بیٹھی۔
”تم اپنی ماں کی بات سے کس حد تک متفق ہو؟ کیا تم بھی ایسا ہی سوچتے ہو؟” میرا یہ پوچھنا تھا اور غضب ہوگیا۔
”تو میرے غم اُدھیڑنے آئی ہے؟ جھوٹ بولتی ہے وہ میرے بچپن سے خواب دکھاتی آئی ہے۔ کہتی تھی تو بڑا ہوگا تو ہم امیر ہوجائیں گے۔ بڑا سا گھر ہوگا ہمارا لیکن سب جھوٹ بولتی ہے۔ جھوٹ بولتی ہے، جھوٹی عورت ہے۔” اس کی آنکھوں میںماں کے لیے بے تحاشا نفرت تھی۔ غصے کے باعث اس کی آنکھوں کی چمک سفاکیت کی غماز تھی۔ میرے لیے حالات پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ وہ چلا رہا تھا اور میں خوف کی شدت سے پیچھے ہٹتی ہوئی اپنی ٹیم کا سہارا لیے گاڑی تک پہنچنے میں کام یاب ہوگئی جو حالات بگڑتے دیکھ کر مجھ تک فوراً پہنچے تھے۔ میری سانسیںواقعے کے کافی دیر بعد تک ٹھکانے پر نہیں آئی تھیں مگر میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا، اس کی نظروں میں اب تک خون اترا ہوا تھا۔ وہ کسی ناگ کے مانند پھنکارتا وہیں کھڑا گہرے سانس لے رہا تھااور پھر اپنی ماں کو دیکھ کر تیزی سے اس کی طرف بڑھ گیا۔
مجھے لگتا ہے کہ میں نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اسے محرومیوں نے اس قدر تلخ کردیا تھا کہ وہ اپنے حواس پر قابو پانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اب مجھے احساس ہورہا ہے کہ میرے سوالوں کے جواب اتنے بھی معنی نہیں رکھتے تھے۔ گاڑی کے دروازے اتنے ہی مضبوط تھے جتنے میں سمجھتی آئی تھی۔ وہ ہمت جو کبھی زندگی کے پچیس سالوں میں نہ ہوئی تھی وہ کتنی سود مند تھی، یہ مجھے آج سمجھ آیا تھا اور وہ غم جو میں بانٹنے گئی تھی وہ مجھے کس قدر معمولی لگے تھے، اپنی جان کے آگے۔ آج علم ہوا تھا اور شاید وہ غم دور سے دیکھ کر ہی محسوس کیے جانے والے تھے۔ قریب جانے کی ضرورت کم از کم مجھے نہیں تھی۔” واپسی کی راہوں پر جاتی میں اپنی سوچوں کو ابتدا کی طرف گامزن ہونے سے نہیں روک پائی تھی۔

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بانجھ — علی حسن سونو

Read Next

تماشائے روزگار — آدم شیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!