محرومی — کوثر ناز

میرا دل ہوا کی سرسراہٹ کے ساتھ بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ ایسا زندگی کے پچیس سالوں میں پہلی بار ہوا تھا کہ میںیوں کسی مرد سے خوف زدہ تھی۔ میری لرزتی ٹانگیں کمزور پڑتی ہمت کا ساتھ دینے کی ناکام کوشش کررہی تھیں مگر مجھے بادِ مخالف کی جانب چلنے کی عادت نے رکنے نہیں دیا۔ میں دلی جذبات پر قابو پاتی اس کی طرف بڑھنے لگی اور وہ دور ایک بڑے پتھر پربیٹھا ٹانگ پر ٹانگ جمائے آنکھوں کو بے دردی سے مسلتے ہوئے شبِ گزشتہ والے حلیے میںبھی مجھ پر اپنی دھاک بٹھا رہا تھا۔ میں قریب جاکر وہیں ایک بڑے سے پتھر پر ٹک گئی۔ میرے ساتھ موجود باقی کئی ساتھیوں نے ایک نظر مجھے دیکھاضرور تھا مگر مجھ تک پہنچنے کی کوشش کسی نے نہیں کی ۔
٭…٭…٭
پاکستان کا وہ محنت کش طبقہ جو سارا دن محنت مزدوری کے بعد بھی تین وقت کا کھانامکمل اہتمام و آسودگی سے نہیں کھا سکتا، مجھے وہ ہمیشہ ہی سے متاثر کرتا آیا ہے جس کی وجہ سے وہ میری خاص توجہ کا مرکزبھی رہا ہے ۔ اپنی گاڑی میں اپنے شہر کی سڑکوں پر اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کی منازل طے کرتے، آتے جاتے میری نظروں کا مرکز سدا وہی لوگ رہے ہیں جن کے چہرے پر پسینا اور ماتھے پر دھوپ سے لڑتی شکنوں میں ان کی خودداری کا عکس جھلملاتا ہے۔ اسکول جاتے ہوئے میں ہمیشہ ان بچوں کو دیکھا کرتی تھی جو صبح صبح گندگی کے ڈھیروں سے گتے و سگریٹ کے خالی پیکٹس اُٹھا اُٹھا کر پیٹھ پر لٹکائی بوری میں بھرتے اپنا کام کرنے میں مگن ہوتے تھے۔ تب میرے ذہن میں بس ایک ہی سوچ ہوتی کہ ان میں اکثریت خوب صورت، گول مٹول سے بچوں کی ہوتی ہے لیکن گندے میلے کپڑوں میں ملبوس… انہیں نہلاکر اچھا کیا جاسکتا ہے۔ پتا نہیں ان کی مائیں انہیں گندا کیوںرکھتی ہیں۔ یہ سوچ من میں بیٹھی رہتی اور میں گاڑی کے شیشے سے چہرہ لگائے دور تک انہیں دیکھے جاتی۔ وہ پیچھے رہے جاتے اور میں آگے بڑھ جاتی پھر وہ سوال وہیں رہ گئے اور عمر کی منازل طے کرتے میں نہم جماعت میں پہنچی تو نئی سوچیں ذہن و دل میں ارتعاش سا بپا کرنے لگیں۔ یہاں دوست نئے تھے جن کے ساتھ دل بہل گیا تھا لیکن آتے جاتے مزدور طبقے پر نظر پڑتی ہی رہتی پھر جب اسکول تبدیل کیا تو اسکول کے سامنے سڑک بن رہی تھی اور میں کلاس میں کھڑکی کے قریب بیٹھی اکثر مزدوروں کو کام کرتے دیکھا کرتی۔ اُن کے کپڑے بھی ایسے ہی ہوا کرتے تھے جیسے پہلے سب کے دیکھتی آئی تھی لیکن ماتھے پر دھوپ کی وجہ سے پسینے کے قطرے زیادہ نمایاں ہوتے۔ وہ اس قدر محنت کرتے تھے کہ بڑے بڑے پتھروں اور سیمنٹ بجری سے بہت اچھی سڑک بنتی رہتی۔ مجھے ان کی محنت کا عکس اس خوب صورت سی سڑک میں نظر آنے لگتا تو بے پناہ خوشی ہوتی۔ ہاں وہ کچھ وقت آرام کے لیے بھی نکالا کرتے تھے۔ سانس لینے بیٹھنا تو ان کا بھی حق تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

پھر ایک دن جب میں چھٹی کے بعد اپنے بابا کی منتظر تھی تو کوئی سفید کاٹن کے جوڑے میں ملبوس شخص ان مزدوروں پر برُی طرح برس رہا تھا۔ میرا دل اس شخص سے برا ہوگیا جو خود تویہاں کام نہیں کرتا تھا البتہ مزدوروں کو شاید مشین سمجھ بیٹھا تھا۔ میں چاہتی تھی کہ جاکر اُسے کہوں، لڑوں ان کے لیے لیکن درمیان میں بولنا کبھی سیکھا ہی نہیں تھا۔ پھر کچھ دیر بعدمیرے بابا آئے تو میںگھر چلی گئی لیکن ان کی محنت اور پھر اس شخص کا ان پر چلانا میری سوچ سے محو نہیں ہوسکا۔
یونہی کالج کا سفر شروع کیا تو گھروں اور گلی کوچوں میں مختلف اشیا بیچنے آنے والوں پر میری نگاہیں ٹھہر جاتیں۔ وہ ہر شے کی دگنی قیمت بتایا کرتے تھے اور سب ان سے آدھے سے بھی کم میں وہ اشیا خریدتے۔ ان کی سیاہ و سفید شکلیں دیکھ کر مجھے شدید ترس آتا چوں کہ میں سندھ میں رہتی تھی تو وہاں پٹھانوں کو دیکھنے کا تجربہ ان دنوں انوکھا لگاکرتا تھا۔ یہ سوچ ہی دل لرزا دیتی کہ یہ گھروں سے دور برتن یا قالین بیچنے آتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ ہی سے ان کے دکھ اذیت دیتے آئے ہیں جو گھروں سے دور، اپنے علاقوں سے دور رزق کے حصول کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں کیوں کہ اپنا گھر اور اپنے گھر والے کیا ہوتے ہیں، یہ میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں لیکن میں ابھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ ان کے غم غلط کرسکتی۔ امی یا محلے کی کوئی بھی خاتون جب کبھی گلی میں آواز دیتے کسی پٹھان یافیصل آباد سے آئے کسی پنجابی جس کے سر پرکپڑوں کی گٹھڑی ہوتی تھی، آواز لگاتا ہوا گزرتا یا سندھ ہی کا کوئی مقامی پلاسٹک کے برتنوں کا ٹب سر پر اُٹھائے، پرانے کپڑوں کے عوض پلاسٹک اور کانچ کے نئے برتن بیچنے آیا کرتا یا کئی طرح کے تیل بیچنے والا آواز لگاتے ایک بوڑھا گھر کے سامنے سے گزرتا، بُھنے چنے بیچنے والے، کانوں کی بالیوں والے یا کان چھیدنے والا آواز لگا کر بلاتے یا مچھلیوں سے بھرا خوانچہ لیے گلی گلی گھومنے والوں کو روک کر ذرا بھاؤ تاؤ کرتی تو میں شوق سے دیکھا کرتی اور دل چاہتا کہ کاش امی انہیں وہ دے دیں جو وہ مانگتے ہیں۔ اکثر امی زیادہ ہی دیتیں اور جب بابا کہتے کہ یہ مہنگا ہے اور چیز بھی پائیدار نہیں تو بھی مجھے کوئی برائی محسوس نہ ہوتی۔ میرا یہ رویہ پٹھانوں اور سندھ کے دیہی علاقوں میں بسنے والوں کے لیے زیادہ فکر مندانہ ہوتا کہ وہ لوگ پڑھ نہیں سکے تو اس قدر محنت کرتے ہیں۔ مجھے لگتاکہ وہی سب سے اونچے ہیں کیوں کہ وہ لوگ جو کا م کرتے ہیں وہ کوئی اورنہیں کرتا اور ہماری چھوٹی بڑی ضرورتیں اکثر انہی کی وجہ سے پوری ہوتی ہیں۔ پھر کچھ اور وقت گزرا تو میرے ذہن سے وہ سب محو ہونے لگا۔ میں نے کثرت سے ان کے بارے میں سوچنا ترک کردیا یاپھریوں کہہ لیں کہ میرے خواب، میری تعلیم، مجھ سے منسوب امی بابا کے خواب ہی سب کچھ ہوگئے۔ لیکن جب میں یونیورسٹی لیول پر پہنچی تو پھر سے وہی خیالات من میں سر اٹھانے لگے۔ میںفائن آرٹس و میڈیا گروپ میں بیچلرز کررہی تھی۔ چاہتی تھی کہ ان لوگوں سے بات کروں جو ہمیں اکثر اسکول، کالج اور یونیورسٹی جاتے ہوئے سڑک کے اطراف شامیانوں یا شہر سے پرے کچی جگہوں پر اپنے آشیانے آباد کیے، دنیا کی رونقوں سے دور زندگی بسر کرتے اپنی ہی دنیا میں منہمک نظر آتے ہیں۔ چاہتی تھی ان کے غم سنوں، وہ لوگ زندگی کیسے بسر کرتے ہیں؟ وہ کیسے خواب بنتے ہیں؟ ان کی کھانے میں پسند کیسی ہوتی ہے؟ وہ میوزک کس قسم کا پسند کرتے ہیں؟ انہیں جوتوں میں کون سا برانڈ پسند ہے حالاں کہ میں جانتی تھی جو جوتیوں کی جگہ مٹی کو پاؤں کی آرام گاہ بنایا کرتے ہیں ان کی پسندیدہ برانڈ کون سی ہوگی۔ ان خانہ بدوشوں کو توعلاقوں کی مٹی بھی یاد نہ رہتی ہوگی کہ ٹوٹی ہوئی جوتیوں سے باہر نکلتی ہوئی انگلیاں کس کس زمین کی مٹی چھوتی ہیں۔ انہیں کیا خبر جو کھانے کے لیے کسی کے بچے ہوئے ٹکڑوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ وہ کیا جانتے ہوں گے کھانے کا ذائقہ کیا ہوتا ہے، وہ تو اسی غم میں آدھے ہوجاتے ہوں گے کہ وہ مانگا ہوا کھا رہے ہیں یا پھر شاید انہیں مانگتے مانگتے یہ خیال بھی نہ رہتا ہو کہ مانگنا بری بات ہے۔ اسے ہی وہ سب حلال کمائی گردانتے ہوں اور جو دن بھر سڑک پر چلنے والی ٹریفک کا شور کانوں پر محسوس کرتے ہوں، انہیں کیا خبر کہ ایک شور ایسا بھی ہے، جو اونچے مکانوں میں رہنے والوں کے سینوں میں سکون بھرتا ہے اور خواب؟ وہ کیا دیکھتے ہوں گے جن کے سروں پر چھت نہیں ہوتی۔ خواب تو ہم جیسے دیکھتے ہیں اور ان کی تعبیر پانے میںلگ جاتے ہیں کہ کرنے کو کچھ اور جو باقی نہیں ہوتا۔
یہ سب جاننے کے باوجود ایک چاہ تھی ان سے راہ و رسم بڑھانے کی۔ مجھے وہ اپنے اپنے سے لگتے تھے جو میرے کچھ تھے ہی نہیں۔ بس جن کے دکھ اپنے تھے وہ بھی صرف تب تک جب تک میں انہیں سوچتی ۔ہاں یہ شرمندگی کی بات ہے مگر یہ حقیقت بھی ہے کہ اس کے بعد اپنے کام میں اس قدر مگن ہوئی کہ کئی دفعہ کھانا بھی بھولنا پڑتا اور گھر والے بارہا آکر کھانا لگنے کی اطلاع دیا کرتے۔ یونیورسٹی جاتی تو ٹھیلے لگائے عینک بیچنے والوں پر نظر پڑتی جو دھوپ میں کھڑے سڑک کی جانب تکتے ہوئے گاہکوں کے منتظرہوتے تھے۔ میں ان سے پوچھنا چاہتی کہ دن بھر میں ایک وقت کی سبزی کے پیسے بھی کما لیتے ہو یا نہیں؟ لیکن میں نہیں پوچھ سکتی تھی۔ گاڑی کے دروازے ہی ایسی مضبوط دیوار ہوا کرتے تھے کہ وہاں سے اُتر کر کسی سے بات کرنا مجھے بہت بھاری لگا کرتا۔
دن گزرتے جاتے ہیں لیکن وہ لوگ وہیں اسی حالت میں رہتے ہیں۔ عینک کے ٹھیلے اب بھی لگتے ہیں۔ خانہ بدوش اب بھی وہیں بسیرا کیے رکھتے ہیں۔ پٹھان اب بھی قالین لیے سڑکوں تو کبھی محلوں میں نظر آتے ہیں۔ کچھ عورتیں بیڈ شیٹس لیے اب بھی گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتی ہیں۔ ٹی وی کے ریموٹ بیچنے والے اب بھی آواز لگاتے ہوئے جاتے ہیں اورمیں اپنا ماسٹرز کرنے کے بعداب ایک نجی نیوز چینل سے وابستہ بہ حیثیت نیوزاینکر اپنی انٹرن شپ پوری کرنے کے بعد جاب کررہی ہوں۔ ایسے میں مجھے ہر طرح کی خبرلوگوں تک پہنچانی پڑتی ہے اور وہ خبر ہمیں ہمارے رپوٹرز دیتے ہیں۔ اب پھر مجھ میں یہ خیال سر اٹھانے لگا تھا کہ مجھے ہمت کرکے اپنے من میں بچپن سے اٹھتے ہوئے سوالات کا جواب جان لینا چاہیے۔ اب میں قدرے خود مختار ہوںاور اپنے فیصلے خود کرنے لگی ہوںتو من کا سکون ڈھونڈ لینے میں حرج ہی کیا ہے؟ تب میں، مشہور نجی چینل کی نیوز اینکر،ایک ایسی جگہ اپنی ٹیم کے چند ممبرز کے ہمراہ پہنچی جہاں سے میں بچپن سے گزرتی آرہی تھی۔ آج جب میں اس جگہ پہنچی تو وہ ایک کچی بستی کا روپ دھار چکی تھی۔ میری ٹیم نے پہلے ہی وہاں اطلاع پہنچا دی تھی کہ یہاں کچھ رپوٹرز آنے والے ہیں تاکہ آپ کا طرزِزندگی عوام کو دکھا سکیں اور حکومت سے آپ لوگوں کے لیے گھروں کی مانگ کر سکیں۔ میری ٹیم کا جو بھی مقصد تھا میں اس سے دور پرے اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔ وہ سار ے سوال سوچ رہی تھی جو من میں اُٹھتے تھے۔ میرے احساسات بالکل ایسے تھے، جیسے امتحان گاہ میں جانے سے پہلے ایک ایسے شاگرد کے ہوتے ہیں جسے پیپر سے متعلق کسی شے کا علم نہ ہو اور اسے خبر ملی ہو کہ اندر بہت سختی ہے یا پھر گاؤں کی کسی الہڑ دوشیزہ کے مانند کہ جسے لڑکے والے ابھی دیکھنے آہی رہے ہیں۔ ان سب ڈرو خوف کے باوجود میں پرُاعتماد اور پرُسکون نظر آرہی تھی کہ میں مسائل کو حل کرنا جانتی ہوں اور زمانۂ جدید کی لڑکی ہوں جواپنا کماتی بھی ہے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بانجھ — علی حسن سونو

Read Next

تماشائے روزگار — آدم شیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!