محبوب چہرہ — محمد جمیل اختر

ہاں ہر چہرہ کسی کا محبوب ہوتا ہے یہ بات آپ نے ضرور سن رکھی ہوگی۔ سب کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ کیا یہ واقعی سچ ہے؟ اگر آپ اسے سچ سمجھتے ہیں تو میرے سا تھ آئیں میں آپ کواس بستی کے کچھ لوگوں سے ملواتا ہوں جو بالکل ویسے ہی سانس لے رہے ہیں جیسے کہ باقی انسان لیکن کچھ فرق تو ہے۔ معلوم نہیں یہ کس کے محبوب ہیں۔شاید ان سے ملنے کے بعد آپ کے خیالات بدل جائیں۔
یہ ہے کمالا مسلی، کیا یہ بھی کسی محبوب ہوگا ؟ کوئی تو اس کی بھی عزت کرتا ہوگا؟
کیا کہا ؟ اس کی بیوی؟
واقعی ،بات ہونی تو ایسی ہی چاہیے تھی لیکن ایساہے نہیں ، اس کی بیوی اسے سارا دن برا بھلا کہتی رہتی ہے، اور باقی دنیا چوں کہ بہت صاف ستھری ہے سو وہ ایک گند اٹھانے والے سے محبت کیوں کر کرے گی۔ گند اٹھانا کوئی ایسا غیر اہم کام بھی نہیں ہے دنیا کو کمالے کو مسلی نہیں کہنا چاہیے کم از کم نام تو پورا لینا چاہیے۔ اچھا نام پورا نہ لیں لیکن ساتھ مسلی تو نہ لگائیں۔ اچھا مسلی بھی کہہ لیں لیکن اسے گندا تو نہ سمجھیں لیکن دنیا اسے گندا سمجھتی ہے اوردنیا تن کے کالے اور من کے کالے میں فرق نہیں کرتی۔ کمالا تو چلیں مسلی ہے سو اس سے تو محبت نہیں کی جاسکتی لیکن اس گائوں میں ایک اور دکھی عورت بھی تھی۔ غلام حسین کی بڑی بیٹی سلیمہ ۔ غلام حسین کی چار بیٹیوں میں یہ سب سے بڑی، سلیقہ شعار اور نیک سیرت لڑکی تھی۔
بس ذرا رنگ کالا تھا، بچپن میں چیچک ہوا تو وہ اپنی نشانی بھی چھوڑ گیا لیکن اگر محبت اندھی ہے تو پھر سلیمہ سے بھی کسی کو تو محبت ہونی چاہیے تھی۔ زندگی کی پینتیس بہاریں دیکھیں لیکن جب بھی کوئی رشتے کے لیے آیاتو اس نے اس سے چھوٹی بہنوں کا ہی رشتہ مانگا ، شروع شروع میں غلام حسین نے انکار کیا کہ پہلے سلیمہ کا بوجھ سر سے اترنا چاہیے لیکن یہ وہ بوجھ تھا جو کوئی اٹھانے کوتیار ہی نہیں تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ سلیمہ چاند کا ٹکڑا تھی لیکن کوئی بھی اسے اپنے گھر لے جانے کوتیار نہیں تھاکیا آپ یقین کریں گے کہ اس کے لیے پینتیس سال تک کوئی رشتہ لے کر نہیں آیا اور جب ایک رشتہ آیا تو وہ ساتھ کے گائوں کے ایک رنڈوے مراثی کا جس کو اپنے دو بچوں کے پرورش کے لیے کوئی عورت چاہیے تھی۔
غلام حسین کا بوڑھا جسم اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ انکارکرے سو سلیمہ بیاہ دی گئی ۔ ایسی شادیاں شاید ہی آپ نے کہیں دیکھی ہوں جس میں کسی کو کوئی خوشی نہ محسوس ہورہی ہو حتیٰ کہ دُلہا دلہن کو بھی ۔ وہ بڑی خدمت گزار بیوی تھی لیکن پھر بھی کھانا کم اور ذرا ذرا سی بات پر مار زیادہ کھاتی ۔ ہاں آپ نے ایسی کہانیاں سن رکھی ہوں گی کہ عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا ہے لیکن کیا یہ جھوٹ ہے ؟ سلیمہ ایسا خزانہ تھی جو کسی بددیانت کے ہاتھ لگ جائے اور اسے سمجھ ہی نہ ہو کہ اس کا کرنا کیا ہے۔ دو سال بعد اسے کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ کون ہے، سینتیس سال کی عمر میں وہ ایسی بیمار ہوئی کہ مر گئی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اور ظلم یہ کہ اس کے شوہر کو کو ئی غم بھی نہیں تھا۔ تو سلیمہ کس کی محبوب تھی؟ شاید اس کے دل میں بھی کوئی خواب ہو کہ وہ بھی کسی کی محبوب ہو۔آہ دنیا میں محبت کو بھی کوئی وجہ چاہیے بغیر وجہ کے یہ بھی نہیں ہوتی۔
آئیے آگے چلتے ہیں ان سے ملیے! ہاں یہ صاحب جو سر پر بھاری سا تھیلا اٹھائے جارہے ہیں جی یہ جانی صاحب ہیں ، نہیں یہ کسی کے جانی نہیں ا ن کو لوگ جانی کہہ کر پکارتے ہیں۔ ساری بستی میں یہ سب سے سستے مزدور ہیں۔ کوئی بھی سامان اٹھوانا ہو کتنی دور لے کر جانا ہو کرایہ فقط پانچ روپے لیتے ہیں۔ دماغی صلاحیت کے اعتبار سے جانی تھوڑا کمزور ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار کچھ سال قبل کسی کام کے سلسلے میں اسے شہر بھیجا گیا تو بے چارا بس سٹاپ پر اترتے ہی پریشان ہوگیا کہ اتنی گاڑیا ں اور اتنے لوگ کہاں جارہے ہیں یا کہاں سے آرہے ہیں؟ سونے پر سہاگہ پہلے کسی نے جیب کاٹ لی پھر کوئی سامان کی پوٹلی بھی لے اُڑا۔ اب واپس کیسے آتا یہاں توکوئی جان پہچان کے بغیر سامان بھی نا اُٹھواتا۔
لوگوں کی بڑی منتیں کیں کہ دیکھیں میرا سامان چوری ہوگیا ہے، مجھے گھر جانا ہے کچھ روپے دے دیں۔ میں بستی جاکربہت سا سامان اٹھائوں گا تو پہلے آپ کا قرض ادا کروں گا لیکن یہ شہر عجیب تھا یہاں کسی کو کسی پر اعتبار ہی نہیں تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ ایک تو آج کل مانگنے والوں کے پاس نئے نئے گر آگئے ہیں، کوئی دھوکے باز کہتا، کوئی چور اور کوئی کچھ بھی نہ کہتا بس آنکھیں دکھا دیتا ۔ حالاں کہ وہ چور نہیں تھا دھوکے باز تو بالکل بھی نہیں تھا۔ سارے گائوں کا سامان اُٹھاتا اور کبھی بھی کسی کی چوری نہیں کی ، کئی دفعہ مالٹوں کی پوری بوری چودھریوں کے گھر پہنچائی لیکن مجال ہے کہ ایک مالٹابھی جانی نے لیا ہو حالاں کہ پوری بوری میں سے کسی کو کیا معلوم کے ایک مالٹا کم ہے لیکن نہیں۔ پھر کسی نے بتایا کہ چوک میں مزدور بیٹھے ہیں ان کے ساتھ بیٹھ جائو قسمت ہوئی تو مزدوری مل جائے گی۔ سو وہ بیٹھ گیا وہیں، ایک صاحب آئے اور سبزی منڈی میں کچھ بوریاں ٹرک پر لادنے کا کہا، مزدوری پوچھی گئی تو جانی صاحب کے منہ سے ہمیشہ کی طرح پانچ نکلا ہی تھا کہ وہ صاحب بولے:” او نہ بھائی اس کام کے پانچ سو تو نہیں بنتے تین سو دوں گا۔”” جی جی ٹھیک ہے بلکہ بہت ٹھیک ہے۔” اور یوں شام کو جانی کو زندگی کی سب سے زیادہ مزدوری ملی ۔ا گلی ہی گاڑی پر بیٹھ کر واپس آگئے اور کئی دن گھر سے نہ نکلے ۔
جب گھرسے نکلتے تو لوگ کہتے سنا ہے جانی شہر گئے تھے ؟ سنا ہے راستہ بھول گئے تھے؟ کچھ من چلے تو انہیں شہری بابو کہہ کر بھی چھیڑتے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہر چہرہ کسی کا محبوب ہوتا ہے تو جانی کس کامحبوب ہوگا؟ وہ بے چارہ تو اپنی بیوی کا بھی محبوب نہ بن سکا تو اور لوگوں کا کیا محبوب بنتا۔
اس کی بیوی کا قصہ کچھ یوں ہے کہ جس روز جانی کی شادی ہوئی بیوی اگلے ہی دن روٹھ کر میکے چلی گئی کہ میں نے نہیں رہنا اس پاگل کے ساتھ اور خلع کا مقدمہ کردیا۔ آخر یہ جھگڑا طلاق پر ختم ہوا۔ کہتے ہیں کہ طلاق کے کاغذوں پر جانی نے رو رو کر انگوٹھے لگائے تھے۔ جانی کے آنسو بھلا کس نے دیکھنے تھے۔ اب بھی گائوں والے جانی بے چارے کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ جانی سے اس کی بیوی کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ یہ دنیا سچ میں بہت ظالم ہے۔جانی تمام عمر کسی کا محبوب نہیں بن سکا۔محبت کیوں کر اندھی ہوتی ہے؟
یہ ابھی تین گلیوں کی کہانیاں تھیں۔ ہاں ہاں آپ ضرور کہیں گے کہ ان تین گلیوں میں کتنے ہی محبوب چہرے ہوں گے۔ جی بالکل آپ درست کہہ رہے ہیں جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ محبت کسی نہ کسی وجہ سے ہی ہوتی ہے، سو میرے ساتھ انہی گلیوں میں تھوڑی دیر گھومیے وجہ بھی مل جائے گی۔
یہ جو ابھی ابھی نئے ماڈل کی گاڑی گزری ہے جس کو دیکھ کر لوگ ہاتھ ہلا رہے تھے، یہ ملک صاحب کی بیٹے کی گاڑی تھی، ملک صاحب کا اکلوتا سپوت، ملک جابرجو کہ ملک صاحب کی ساری جائیداد کا وارث ہے۔ یقین مانیں وہ بُرا آدمی ہے، جوا کھیلتا ہے، شراب پیتا ہے، لیکن پھر بھی یہ دنیا اسے اچھا سمجھ کر سلام کرتی ہے۔ جابرسے محبت کی جاسکتی ہے کیوں کہ اتنی بڑی جائیداد محبت کرنے کی وجہ ہو سکتی ہے۔ یہی ملک جابر اگر کمالے مسلی کا بیٹا ہوتا تو سارے گائوں والے اس پر تھوکتے اور شرابی ، جواری کہہ کر اب تک گائوں بدر کر چکے ہوتے لیکن وہ جہاں سے گزرتا ہے، سلام ملک صاحب کو ہو رہا ہوتا ہے۔
آئیں اب آپ کو دوسری گلی کی ہر دل عزیز شخصیت سے ملواتا ہوں۔ یہ ہیں ڈاکٹر ناصر، یقین مانیں یہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ کوئی ڈگری بھی نہیں ہے۔ بس شہر سے کمپائونڈری کا کوئی کورس کیا ہوا ہے یہاں گائوں میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھاتو انہوں نے کلینک کھول لیا اور باہر ڈاکٹر ناصر ایم بی بی ایس لکھوا لیا اور ڈاکٹروں کی طرح ایک موٹی سی عینک لگائی سٹھیتوسکوپ گلے میں لگایا اور پورے ڈاکٹر بن گئے۔ سارے گائوں کا علاج کرتے ہیں اور جیب بھرتے ہیں لیکن گائوں میںکسی کوکوئی اعتراض نہیں ہے۔
کس نے ڈگریاں چیک کرنی تھیں اور چیک بھی کیوں کرتے؟ یہاں جہاں ہم رہتے ہیں لوگ جعلی ڈگریا ں لے کر ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں، یہ تو پھر ایک کلینک ہے۔ سو سارے گائوں میں ڈاکٹر ناصر کی واہ واہ ہوتی ہے۔ یقینا کئی لڑکیا ں دل ہی دل میں انہیں اپنے خوابوں کا شہزادہ سمجھتی ہوں گی حالاں کہ وہ ڈاکٹر نہیں بلکہ ایک قومی مجرم ہے جو لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے لیکن دنیا کب سمجھتی ہے۔ دنیا بالکل بھی نہیں سمجھتی ان کہانیوں کے سننے کے بعد بھی آپ یقینا کہہ رہے ہوں گے کہ ”محبت تو اندھی ہوتی ہے۔”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نیا قانون — سعادت حسن منٹو

Read Next

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!