” یہ اتنا برا بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جائے۔” دل نے بغاوت کی لیکن زبان سے بات نکل چکی تھی جس کا پاس لازم ہوگیا تھا۔
”کہ تم سے اپنے کالے کالے دھبوں والے کپڑے دھلواتا رہوں۔ اس کام کے لیے برابر کی گلی میں ڈرائی کلینر شاپ کھل گئی ہے۔” اپنے تئیں انکشاف کیا گیا اور گل کا منہ مارے حیرت کے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
”رہی بات امی کو منع کرنے کی تو…”گل کو لگا وہ اسے انکار کرنے آیا ہے اور شاید ایسے اس کی زبان کا بھرم بھی رہ جائے، آگہی کے اس ایک پل نے اسے بھی آلیا تھا۔
”میں کہہ دوں گا کہ…میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔”یہ کہتے ہوئے شہریار نے جانے کیوں نظریں چرائیں اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر چلا گیا، خود پر ضبط بھی لازم تھا۔
”محبتیں بھیک میں نہیں مانگی جاتیں۔”
پہلا خیال اسے یہی آیا تھا۔
”ہاں مگر رب سے فریاد تو کی جاسکتی ہے نا۔” یہ دوسرا خیال تھا جس نے اسے یک گونہ اطمینان بخشا تھا اور گل جانے کیوں حق دق کھڑی تھی۔
”یہی تو تم چاہتی تھی پھر یہ حیرانی؟” دل خفا خفا سا بولا۔
”کاش وہ مڑ کر دیکھ لیتا۔” دل کی خفگی کیسے سہ پاؤں گی۔
”کیا اسے میری جذبے لٹاتی نگاہوں کی زبان نہیں آتی؟”گیٹ پار کرتے شہریار کی ذہنی رو پھر سے بھٹکی لیکن ساتھ ہی سر جھٹک کر جیسے اس سوچ سے نجات چاہی۔ ابھی اسے بہت کچھ کرنا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
شہریار چلا گیا۔ ایسی ہی سرد اور خاموش رات کے اس پہر اور گل جو یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ اس کی زندگی میں شہریار کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ بڑے سے گھر میں رہنے کی خواہش یہاں اس چار کمروں کے گھر میں پوری نہیں ہوسکتی، یہی اس کی بھول تھی۔ وہ ایک پل جب اس نے ایک عرصے بعد شہریار کی جانب نگاہ کی، آگہی کا وہ ایک پل اس پر اس کے دل کی حالت عیاں کرگیا تھا۔ اس پر یہ بھید کھلنے لگا کہ کیوں وہ اس کے آنے سے پہلے کمرے میں اندھیرا کرکے سوتی بن جاتی تھی۔ لاشعوری طور پر وہ اس کے قدموں کی چاپ سننے کی منتظر رہتی۔ وہ صبح سویرے کب نکلتا ہے؟ رات گئے کب لوٹتا ہے؟ بند کواڑوں کے پیچھے اسے ایک ایک پل کی خبر رہتی۔ رات کے پھیلے سناٹے اسے داستان سنانے کو بے چین ملتے۔
مگر اب کیا ہوسکتا تھا جانے والا تو چلا گیا تھا۔
”صفیہ نے اس سے کوئی بات کی نہ ہی کوئی ذکر چھیڑا کہ اس نے شہریار کے لیے انکار کیوں کیا؟” اور وہ منتظر رہی کہ خالہ اس سے باز پرس کریں پر ایسا نہیں ہوا۔ صفیہ پھر کبھی اپنی زبان پر شہریار اور گل کے رشتے کی بات نہ لائیں کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا تھا۔
٭…٭…٭
”خالہ !آج کھانے میں بریانی بنالوں؟ شہریار کو بہت پسند ہے نا۔”گل آج جانے کس دھن میں تھی کہ ناشتے کے برتن سمیٹتی صفیہ سے کہنے لگی۔
”لیکن شہریار تو یہاں نہیں ہے؟”صفیہ جان تو گئی تھی لیکن اسے گل کے منہ سے اعتراف سننے کی خواہش تھی۔
”اوہ… کچھ نہیں!” گل کو کچھ یاد آیا تو ایک دم گھبرا کر بولی اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔اندر کمرے میں صفیہ کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”اب تو کچھ کرنا ہی ہوگا۔”
میں ہوں، تیرا خیال ہے اور چاند رات ہے
دل درد سے نڈھال ہے اور چاند رات ہے
کافی کا مگ ہاتھ میں لیے وہ کھڑکی کھول کر آسمان پر نظر آتے پہلی تاریخ کے چاند کو دیکھنے میں گم تھی۔ صفیہ کچن میں جانے کیا کچھ بنانے میں مصروف تھیں جب کہ وہ یہاں اپنے کمرے میں … تنہا۔
اچانک کچھ یاد آنے پر اس نے کافی کا مگ ایک طرف رکھا اور شال چہرے کے گرد لپیٹ کر دعا کرنے لگی۔ پہلی کے چاند کو دیکھ کر اسے کوئی دعا یاد آگئی تھی۔
٭…٭…٭
”آج تمہیں گئے تین سال ہوگئے ہیں۔ یہ تین سال میرے لیے جیسے تین صدیاں بن گئی ہوں۔ اتنی تو خوش گمانی ہے کہ تم میرے لیے نہ سہی خالہ کے لیے تو ضرور لوٹو گے۔”گل شہریار کے کمرے میں کھڑی اس کی خوش بو کی بے آواز چاپ سنتے سنتے سوچ میں گم ہوگئی۔ لاشعوری طور پر وہ اکثر ادھر آجاتی اور جب احساس ہوتا کہ اپنے کمرے میں نہیں بلکہ کسی اور کی خوش بو کی تلاش میں وہ اس کمرے میں آئی ہے تو کمرے کی سمٹی چیزیں پھر سے سمیٹنے لگ جاتی۔ نہیں سمیٹ پاتی تھی تو اپنا بکھرا وجود…کہ اس بکھرے وجود کو سمیٹنے والا تو دور دیس جابیٹھا تھا۔
٭…٭…٭
”آگیا میرا بچہ! جانے کہاں کہاں بھٹکتا رہا۔ اب نہیں جانے دوں گی۔ دیکھ اتنا سا منہ نکل آیا ہے۔” صفیہ بیٹے کو ساتھ لگاتے ہوئے بولی۔
”میں نے کہاں جانا تھا امی!گھوم پھر کر یہیں آنا تھا سو اب آگیا ہوں۔” ماں کو کندھوں سے پکڑ کر بٹھاتے خود اس کے گھٹنوں پہ سر رکھتے ہوئے وہ بولا، تو آواز میں برسوں کی تکان نمایاں تھی۔
”امی …!”وہ بولا تو لہجہ ہی نہیں، نگاہیں بھی سوالیہ ہوئیں ۔
”اپنے کمرے میں ہے۔ اب کیا ماں سے بھی پردہ رکھے گا۔” صفیہ نے اسے بے اختیار ماتھے پر بوسہ دیا ۔
”نہیں …میں یہ تو نہیں پوچھ رہا۔” نظریں چراتے ہوئے صفائی دی گئی۔
”میں اپنے بیٹے کی آنکھوں میں بسے اس خواب سے تب سے واقف ہوں جب یہ بھید اس پر کھلا بھی نہیں تھا۔ اب کہیں نہیں جانے دوں گی۔ بہت من مانی کرلی تم دونوں نے۔”
”امی! گل کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہونا۔”
٭…٭…٭
رات کا آخری پہر تھا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
”مجھے دیکھ کر جانے اس کا کیا ردِعمل ہوگا؟” اس نے کمرے کی کھڑکی کھولی اور دور کہیں خلاؤں میں جانے کیا کھوجنے لگا۔
”چائے!” زیر لب بڑبڑاتے ہوئے دیوار پر لگے کلاک میں وقت دیکھا۔
”تین بج گئے۔”خود سے باتیں کرتا وہ کمرے سے باہر آگیا۔ سامنے والے کمرے کا دروازہ بند تھا۔
”جانے ابھی بھی مجھ سے خفا ہے یا سب بھول گئی ہے؟”ذہنی رو پھر سے بھٹکی۔ وہ کچھ دیر ایسے ہی کھڑا رہا پھر سر جھٹک کر راہ داری کے آخری سرے کی طرف بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
رات کا جانے کون سا پہر تھا اسے حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہوئے۔ نیند میں سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا تو کچھ ہاتھ نہ آیا۔
”آج ہی پانی رکھنا بھول گئی اور آج ہی پیاس بھی لگ گئی۔”اس نے کمبل پیچھے ہٹایا اور شال لپیٹتی کمرے سے نکلی تو دل دھک سے رہ گیا۔ سامنے والے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور لائٹ بھی آن تھی، یوں جیسے ابھی ابھی کوئی اٹھ کر کمرے سے باہر نکلا ہو۔
”یہ کیسے کھلا رہ گیا؟” اس نے خود سے سوال کیا اور اگلے پل سر جھٹکتی راہ داری کے کونے کی جانب بڑھ گئی۔
“یہ … خالہ آج کچن کی لائٹ بند کرنا بھی بھول گئیں۔ یہ آج سب کچھ عجیب سا کیوں لگ رہا ہے؟ آس پاس جیسے کوئی مانوس سی خوش بو پھیلی ہو۔” اس نے راہ داری عبور کی اور جیسے ہی اندر کی جانب مڑی تو بے اختیار اس کی چیخ نکل گئی۔
”میرو…”
٭…٭…٭
”السلام علیکم! گل پریسہ! لیجیے مابدولت یعنی صرف اور صرف گل پریسہ کے میرو ، جسے ”میرو” کہنے کے جملہ حقوق امیرِ شہریار نے دس سال کی عمر میں اپنی گل پریسہ کو تفویض کردیے تھے، کے ہاتھوں کی بنی چائے۔ آج پی لیں پھر جانے نصیب ہو یا نہ ہو۔”گل کے ہاتھوں میں چائے کا مگ تھماتا ااور س کی آنکھوں میں جھانکتا وہ شرارت سے بولا جہاں ابھی بھی بے یقینی واضح تھی۔
گل کی آنکھوں میں گیارہ سال پہلے کا منظر جھلملایا۔ جب وہ اور اس کا میرو سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔
”میں بھی تمہیں شیری کہہ سکتی ہوں؟”گل نے جھجکتے ہوئے پوچھا ۔
”نہیں۔”شہریار کے فوراً سے پیشتر جواب نے اسے حیران کردیا، لیکن اگلا پل اسے بے حد سرشاری میں مبتلا کرگیا ۔
”تم مجھے میرو کہہ سکتی ہو۔”
”کیوں؟ تم کہیں جارہے ہو کیا؟” گل حقیقت کی دنیا میں واپس آئی اور مطمئن انداز میں چائے کا مگ لبوں سے لگاتے بولی۔
”وہ کیا ہے کہ ہمارے ہاں لڑکے شادی کے بعد کچن میں کام نہیں کرتے۔” گل کا میرو نے اس کے اطمینان میں چھپے اقرارِ محبت کو کھوج لیا تھا سو اسے تنگ کرتے ہوئے بولا۔
”لیکن میں تو راضی ہی اسی شرط پر ہوں گی جب تم میرا ساتھ نبھانے کا عہد کروگے۔”گل نے باہر نکلتے ہوئے مڑ کر مقابل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ جواب میں اس کے میرو نے سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکتے ہوئے ”سر تسلیم خم ہے جناب !” کا اظہار کردیا۔
٭…٭…٭
کھڑکی کھلی تھی اور آسمان پر چاند تاروں کی معیت میں آسمان کو رونق بخش رہا تھا۔
”میں نے ہمیشہ یہ خواہش کی تھی کہ میں اور تم یہاں کھڑکی سے چاند کو دیکھیں اور میں یہ بھی دیکھوں کہ آسمان پر موجود چاند زیادہ حسین ہے یا میری کھڑکی میں موجود چاند زیادہ دل کش ہے۔” میرو، گل پریسہ کا ہاتھ تھامے جذب کے عالم میں اس سے اپنے بے قرار دل کی داستان کہہ رہا تھا اور گل کو لگ رہا تھا کہ اس وقت وہ اس دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی ہے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});