رات کا جانے کون سا پہر تھا حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہوئے۔ نیند میں سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا تو کچھ ہاتھ نہ آیا۔”آج ہی پانی رکھنا بھول گئی اور آج ہی پیاس بھی لگ گئی۔” کمبل پیچھے ہٹایا اور شال لپیٹتی کمرے سے نکلی تو دل دھک سے رہ گیا۔ سامنے والے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور لائٹ بھی آن تھی۔ یوں جیسے کوئی ابھی ابھی اٹھ کر باہر نکلا ہو۔
”ارے یہ کیسے کھلا رہ گیا؟” خود سے سوال کیا اور اگلے پل سر جھٹکتی راہ داری کے کونے کی جانب بڑھ گئی۔
”یہ… خالہ آج کچن کی لائٹ بند کرنا بھول گئیں۔ میں آج جلدی سوگئی تو خالہ بھی بھول گئیں۔ یہ آج سب کچھ اتنا عجیب سا کیوں لگ رہا ہے؟ آس پاس جیسے کوئی مانوس سی خوش بو پھیلی ہو۔” خود سے باتیں کرتے کرتے راہ داری عبور کی مگر جیسے ہی اندر کی جانب مڑی تو بے اختیار اس کی چیخ نکل گئی۔
”میرو…”
٭…٭…٭
”امی ! گل ہمارے ساتھ ہی رہے گی؟” شہریار نے پھر سے وہی سوال دہرایا جو وہ اس سے پہلے بھی کئی بار پوچھ چکا تھا اور صفیہ نے بہتے آنسو پونچھے اور اسے ساتھ لگاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
”یہ امی اتنا کیوں رو رہی ہیں؟ خالہ خالو اللہ میاں کے پاس ہی تو گئے ہیں۔” شہریار نے خود سے سوال کیا لیکن اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
رضیہ اور عمران کو اس دنیا سے گئے دوسرا دن تھا جب آٹھ سال کی گل کا ہاتھ یہ کہہ کر اس کی خالہ کے ہاتھ میں دے دیا گیا کہ خالہ بھی تو ماں جیسی ہوتی ہے۔ اب گل اپنی صفیہ خالہ کے ساتھ رہے گی اور صفیہ نے گل کو بہن ، بہنوئی کی نشانی سمجھ کر سینے سے لگا لیا۔
”بڑے ہی بدنصیب ہیں جنہوں نے یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے کی بجائے اسے بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا۔ بیٹیاں بھی بھلا بوجھ ہوا کرتی ہیں؟”اظہار سخت متاسف تھے۔ بیوی کی طرح وہ بھی کھلے دل کے تھے۔ گل کے سر پر دستِ شفقت رکھتے بولے۔
”آوؑ کھیلیں۔” شہریار گل سے دو سال ہی بڑا تھا۔ جب سے گل یہاں آئی تھی۔ اسے اپنی یہ بڑی بڑی آنکھوں اور بھیگی پلکوں والی کزن خاصی دل چسپ لگی۔ پھر اکلوتا ہونے کے سبب کوئی ساتھ کھیلنے والا نہ ہوتا جس پر کبھی کبھی وہ اداس ہو جاتا تھا لیکن اب کھیلنے کے لیے اسے ساتھی مل گئی تھی جس پر وہ بہت خوش تھا۔ اب بھی اسے کھیلنے کا کہا۔
”نہیں! میں نہیں کھیلوں گی۔”گل کا لہجہ بھیگا ہوا تھا۔
”کیوں؟”شہریار کو اس کے انکار پر حیرت ہوئی۔
”مجھے امی! بابا یاد آرہے ہیں۔”
”اچھا نہ کھیلو، میرے ساتھ تو آوؑ تمہیں کچھ دکھانا ہے۔” گل کو خبر بھی نہیں ہوئی کہ کب وہ رونا بھولی، آنکھوں میں حیرت کا جہاں لیے اب ان جگنوؤں کو دیکھ رہی تھی جو شہریار نے بوتل میں قید کررکھے تھے۔
”تم نے انہیں بند کیوں کیا ہے؟ اس طرح تو یہ مرجائیں گے۔” ایک دم سے کچھ یاد آنے پر وہ خوف زدہ ہوتے ہوئے بولی۔
”یہ دیکھو میں نے بوتل کے ڈھکن پر چھوٹے چھوٹے کئی سوراخ کردیے ہیں تاکہ یہ دم گھٹنے سے مر نہ جائیں۔ میں انہیں رات میں موتیے کی باڑ پر آزاد کرکے انہیں چمکتا دیکھوں گا۔” شہریار کی آنکھیں اس منظر کا سوچ کر ہی چمکنے لگیں۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے۔”گل نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”اچھا یہ بتاؤ تمہارا نام شہریار ہے نا، کس نے رکھا تھا؟”اب دونوں صحن سے اوپر چھت کی طرف جاتی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے کہ گل نے ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹکاتے پوچھا۔
”امی نے۔ لیکن ابو نے ساتھ ”امیر”بھی لگادیا، ایسے میرا نام ہوا ”امیرِ شہریار!”
”یہ کیا عجیب سا نام ہوا امیرِ شہریار، گل کو اس کا نام سن کر اچنبھا ہوا۔
”ہاں ہے تو عجیب لیکن مجھے اچھا لگتا ہے اپنا نام۔ اسکول میں مس مجھے پورے نام سے بلاتی ہیں تو ایسا لگتا ہے میں بہت خاص ہوں، میرے دوست مجھے ”شیری”کہتے ہیں۔” شہریار کے لہجے میں تفاخر تھا۔
”میں بھی تمہیں شیری کہہ سکتی ہوں؟” گل نے جھجکتے ہوئے پوچھا ۔
”نہیں!” شہریار کے فوراً سے پیشتر جواب نے اسے حیران کردیا، لیکن اس کے بعد اس نے جو کہا اس نے گل کو بے حد سرشاری میں مبتلا کردیا تھا۔
پھر ایسا ہر بار ہونے لگا۔ شہریار جب بھی گل کو اداس بیٹھا دیکھتا، کسی نہ کسی طرح اس کی توجہ کسی دوسری طرف مبذول کرادیتا۔ کب دونوں نے شعور کی وادی میں قدم رکھے کچھ پتا نہ چلا۔ اتنا ضرور ہوا تھا کہ اب شہریار گل کا سامنا کرتے کچھ ہچکچاہٹ کا شکار رہتا۔ بچپن کی انسیت کی پھوٹتی کونپل اب کسی تناور درخت کے مانند اس کے رگ و پے میں اپنی جڑیں پھیلا چکی تھی۔
”کیا وہ بھی میرے بارے میں ایسا ہی سوچتی ہے؟ اگر نہیں …تو ؟”اس سے آگے وہ کچھ سوچ نہ پاتا اور یہی سوچ اسے گل کے روبرو لانے سے روکتی تھی۔
٭…٭…٭
اظہار اور صفیہ وقت آنے پر گل اور شہریار دونوں کو ایک بندھن میں باندھنے کا سوچے بیٹھے تھے۔ شہریار ابھی میٹرک میں ہی تھا کہ اظہار کا انتقال ہوگیا۔ وہ جو انجینئرنگ کالج میں جانے کا خواب دیکھا کرتا تھا، باپ کی وفات کے بعد بہت سوچ سمجھ کر ایک ٹیکنیکل کالج سے آٹو الیکٹریشن کے ڈیڑھ سالہ کورس میں داخلہ لے لیا۔ کالج کے بعد ایک ورک شاپ میں عملی طور پر کام سیکھنے لگا۔ اس کے ہاتھ اب مزدور کے ہاتھوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ صبح کا نکلا رات گئے گھر لوٹتا تو ماں کو دروازے پر اپنا منتظر پاتا۔ ماں کے ساتھ وہ جس چہرے کو پل بھر دیکھنے کے بعد اپنی تمام تر تھکن ہوا کرنے کی خواہش لیے گھر کی دہلیز پار کرتا، وہ چہرہ کہیں نہیں ہوتا تھا۔ کم از کم اس کے آس پاس تو نہیں۔ وہ گریس سے بھرے سیاہ پڑتے ہاتھوں سے اپنے گھر کا مستقبل سنوارنے میں لگا رہا اور گل اپنی آنکھوں میں من پسند خواب بسانے کی تگ و دو میں تھی۔ ایسے میں صفیہ بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کی برسوں پرانی خواہش دل میں دبائے بیٹھی تھی کہ شہریار کو اس کی کمپنی کی جانب سے دبئی جانے کا موقع ملا۔ دبئی میں گاڑیوں کی اس کمپنی کی ورک شاپ تھی جہاں شہریار جیسے محنتی ہاتھوں کی ضرورت تھی۔
٭…٭…٭
”گل! ایک بات کرنی ہے۔” صفیہ نے بالآخر گل سے بات کرنے کی ٹھانی کہ اس سے بات کرنے کے بعد ہی وہ شہریار سے کوئی بات کرتیں۔
”جی خالہ!” گل جو بیڈ پر ٹانگیں پھیلائے ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی، فوراً اپنی ٹانگیں سمیٹیں اور ہاتھ میں پکڑا ڈائجسٹ سائیڈ پر رکھ کر صفیہ کی طرف متوجہ ہوگئی۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد یہ اس کی واحد مصروفیت تھی۔
”اگر آج رضیہ زندہ ہوتی تو مجھے اتنی مشکل نہ ہوتی۔” صفیہ نے بات کا آغاز کیا۔
”میں چاہتی ہوں کہ میری زندگی میں ہی تم اور شہریار گھر بار والے ہوجاوؑ۔”
”ارے واہ خالہ! آپ نے اکیلے ہی بہو ڈھونڈ لی اور مجھے بتایا تک نہیں، جائیں میں آپ سے نہیں بولتی۔” گل نے صفیہ کی بات پر دھیان دیے بنا ہی کہنا شروع کردیا اور صفیہ کو لگا کہ اگر آج اس نے گل سے بات نہ کی تو وہ اس سے یہ بات کبھی نہیں کرپائے گی۔ شہریار کی آنکھوں میں گل کے نام پر جل اٹھنے والے دیے وہ کبھی بجھنے نہیں دینا چاہتی تھی۔
”گل! میں تمہاری شادی شہریار سے کرنا چاہتی ہوں۔” یہ اولاد بھی کبھی کبھی بڑی آزمائشوں میں ڈال دیا کرتی ہے، اس کا اندازہ صفیہ کو اب ہورہا تھا، مگر زبان سے بات نکل چکی تھی کیوں کہ گل کے چہرے کے تاثرات عجیب سے ہوگئے تھے۔
”تمہاری مرضی کے بنا کچھ نہیں ہوگا۔” صفیہ کو کمرے میں گونجتی اپنی آواز جانے کیوں اجنبی محسوس ہوئی۔
”خالہ! میں ابھی پڑھنا چاہتی ہوں اور پھر جاب… کب تک آپ سب پر بوجھ بنی رہوں گی؟”گل نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”بیٹیاں کبھی اپنے ماں باپ پر بوجھ نہیں ہوتیں۔ آج اگر اظہار ہوتے تو بہت خوشی سے اس ذمہ داری کو پورا کرتے۔ میں تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کروں گی۔ جس بات پر تمہارا دل راضی ہو وہ کرنا۔ تمہاری صورت میں اللہ نے میری اور اظہار کی بیٹی کی خواہش کو پورا کیا، ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہاری زندگی کے فیصلے تمہاری مرضی کے بغیر ہوں؟”صفیہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور کمرے سے نکل آئیں۔
٭…٭…٭
”تم نے سوچا بھی کیسے یہ سب۔” شہریار ابھی آیا ہی تھا کہ گل اس پر آندھی طوفان کی طرح چڑھ دوڑی۔ وہ جو اس وقت کسی کام سے گھر آیا تھا، اسے معلوم نہ تھا کہ گل کتنے غصے میں بھری بیٹھی ہے۔ صد شکر صفیہ گھر میں نہیں تھی ورنہ انہیں شدید دکھ ہوتا۔
”تم چاہتے ہو کہ میں ساری زندگی تمہارے لباس کی سیاہی دور کرتے کرتے خود بھی کہیں اس سیاہی میں گم ہو جاوؑں۔”
اب شہریار کو بھی دل چسپی محسوس ہوئی۔ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے، سینے پہ بازو لپیٹے اس دشمنِ جاں کو بولتے دیکھے گیا آخر اتنے عرصے بعد نظر تو آئی۔
”کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔”
”تم سن رہے ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں؟ ” گل کے زور سے بولنے پر وہ ایک دم سے خیالات کی دنیا سے باہر آیا۔
”ہاں! سن رہا ہوں تم بولو ۔”
”خاک سن رہے ہو؟ جانے کون سے خیالوں میں کھوئے رہتے ہو؟”گل کا پارہ اور چڑھ گیا۔ جواب میں شہریار کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ اب اسے کیا بتاتا کہ کس کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔
”خالہ کو منع کردو کہ تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔”اپنا فیصلہ صادر کرتی کمرے سے باہر آگئی۔ اندر شہریار جہاں تھا، وہیں ساکت رہ گیا۔
”یہ کیا کہہ کر گئی ہے؟” اسے اپنی سماعت پر شبہ ہوا۔
”ابھی کیا کہا تم نے…” شہریار اگلے ہی پل گل کے سر پر موجود تھا ۔
”یار میں تمہیں ایسا لگتا ہوں کہ…”ایک پل کو گل کا دل دھڑکنا بھول گیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});