مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (پہلا حصّہ)

وہ اُسے عجیب سوچوں میں گھر اچھوڑ کر سوگئی تھیں۔ وہ رات بھر اُن کی باتوں پر سوچتی رہی۔ کبھی بیگم صاحبہ کے ساتھ گاڑی میں کہیں آتے جاتے اُسے احساس تو ہوتا تھا کہ وہ کبھی کبھار اُسے دیکھتا اور پھر چوری پکڑے جانے پر نظر یں پھیرلیا کرتا تھا۔ کبھی جو کھیلتے ہوئے بال گھر سے باہر چلی جاتی اور شیری کے آرڈر کرنے پر وہ تذبذب کا شکار ہوتی ہے کہ باہر جائے یا چوکیدار کی منت سماجت کرے تو وسیم نہ جانے کہاں سے بوتل کے جن کی طرح برآمد ہوتا ہے اور بال لاکر اس کی جانب اُچھال دیا کرتا تھا۔ جس پر وہ مارے تشکر کے دل ہی دل میں اُسے دعائیں دیتی۔ کیوں کہ صاحب جی کی چبھتی ، میلی نظروں کی وجہ سے وہ گھر کے کسی ملازم سے بات کرنا تو دور اس کی جانب دیکھتی بھی نہ تھی۔ مباداً کوئی اُسے گھورنے لگ جاتا یا اُس پر کوئی الزام آلگتا، وہ تو کھل کر مسکراتی تک نہ تھی۔ کیونکہ اس کے حالات نے اُسے وقت سے پہلے بڑا اور سمجھدار بنادیا تھا۔ اس کے علاوہ جنت بوا کی رہنمائی ہر قدم پر اُس کے ہمراہ تھی۔ وہ اپنی حدود و قیود سے اچھی طرح آگاہ تھی اور جانتی تھی کہ اچھی لڑکیوں کو خود کو بہت سنبھال سنبھال کر اور سمیٹ کر چلنا ہوتا ہے۔ ورنہ ایک غلط قدم کی صدیوں سزا کاٹنی پڑتی ہے۔ مگر خواب تو پھر خواب ہیں نا۔ تعبیر ملے نہ ملے اُنہیں پنپنے سے کون روک سکتا ہے۔ خودرو جھاڑیوں کی طرح آنکھوں کی دہلیز پر اُگ آتے ہیں اور ان کی مہک ہر پل ان کے ہونے کا احساس دل میں جگائے رکھتی ہے۔ پھر بھلا چاہے تعبیر میں گلاب ہوں یا خار ان کے سفر پر نکلنے والا ہر مسافر یہی سمجھتا ہے کہ کوئی امام ضامن، کوئی فضا اس کے ہمراہ ہے۔ مگر ہر کسی کی قسمت میں پھول کہاں ہوتے ہیں۔ کچھ بادل بن برسے بھی گزر جایا کرتے ہیں۔ جن کی قسمت میں برسنا اور سیراب کرنا لکھا ہی نہیں ہوتا۔ ہر پھول کا مقدر گلشن نہیں ہوتا۔ کچھ کامقدر صحرا یا مزار بھی ہوا کرتا ہے۔ جہاں نہ تو پذیرائی ملتی ہے نہ اوس کی دو بوند یں۔ خواب کتنے بے ضرر، پاکیزہ اور زور آور ہی کیوں نہ ہوں۔ مقدر کی تندو تیز آندھیاں اگر مخالف سمت میں ہوں تو انہیں تنکا تنکا کرکے بکھیر دیاکرتی ہیں۔وہ یہ سب بھلا کہاں جانتی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

جنت بوا اس بار جو گائوں گئیں تو پورے دو ہفتے لگا کر واپس آئی تھیں۔ ان کی غیر موجودگی میں وہ خود کو اور بھی تنہا اور غیر محفوظ سمجھنے لگی تھی۔ مگر پھر اُسے اندازہ ہوا کہ کوئی اور بھی تھا جو غیر محسوس انداز میں اس کا خیال رکھنے لگا تھا۔ اس کی حفاظت کرنے لگا تھا۔
”ادھر آئو لڑکی۔”صاحب کی کرخت آواز پر اس کا دل لرز سا گیا تھا۔
شیری کی چیزیں ترتیب سے لگاتے ہوئے اس نے مڑ کر ان کی جانب دیکھا۔
”جج جی…” اس نے زبان ہونٹوں پر پھیری۔ نظریں ادھر ادھر بیگم صاحبہ کو تلاشنے لگیں۔ اللہ کرے وہ جم سے جلدی واپس آجائیں۔ اور کوئی نوکر بھی نظر نہیں آرہا تھا۔
”جائو اندر ملازم کو کہو چائے بن گئی ہے یا نہیں۔” ان کی نظریں ایکسرے کی طرح اس کا معائنہ کررہی تھیں۔ اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ وہ تیزی سے کچن کی طرف مڑی کی عقب سے آواز آئی۔
”بلکہ ملاز م کو رہنے دو۔ تم خود ہی چائے لے کر آنا میرے لئے۔” ان کی بات نے اُس کے اوسان خطا کردیئے تھے۔ کچن میں ملازم سے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے اس کی ہاتھ کپکپائے تو چائے چھلک گئی ۔
”کیا ہوا؟” وہ کچن کے ساتھ والے اسٹور میں شاید چائے پی رہا تھا۔ اچانک کپ رکھ کر برآمد ہوگیا۔
”وسیم بائو! کہہ بھی رہا ہوں کہ چائے میںلے جاتا ہوں۔ اس نکھی سے توکوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔ اب بھی ساری ٹرے گندی کردی۔ صاحب نے تو مجھے بے عزت کرنا ہے۔” کُک ٹرے صاف کرتے ہوئے مسلسل بڑبڑائے جارہا تھا۔ اس کے صاف ستھرے حلیے اور قدرے پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے گھر کی ملازم اُسے ”بائو” کہہ کر بلاتے تھے اور اُس کی عزت بھی کرتے تھے۔
”تو لے جائو تم ہی۔” اس نے بے پرواہی سے کہا۔
”وہ صاحب جی نے کہا ہے کہ ملازم چائے نہ لائے۔” اس نے بمشکل اٹک اٹک کر جملہ مکمل کیا۔ وسیم کے آجانے سے اُسے قدرے تحفظ کا احساس ہوا تھا۔ وہ محض سرہلا کر باہر نکل گیا۔
چائے کا کپ لائونج میں لے کر آگے بڑھتے ہوئے اس کے قدم من من بھر کے ہورہے تھے۔ عین اُسی وقت جب وہ صاحب سے دو قدم کے فاصلے پر تھی اور صاحب کی مسکراتی نظریں اُس پر گڑی ہوئی تھیں، اس کے قدم ڈگمگائے۔ بوتل کا جن کہیں سے برآمد ہوکر نہایت احتیاط سے چائے کا کپ اُس کے ہاتھ سے پکڑ چکا تھا۔ اُس کی تو گویا جان میں جان آگئی تھی۔
”بے وقوف لڑکی۔ ابھی چائے گرتی اور صاحب کے اتنے قیمتی کپڑے خراب ہوجاتے۔ جائو باہر جنت بوا آئی ہیں۔ ان کا سامان اندر لے کر آئو۔” اس کی بات سے گویا اس کے اردگرد گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔ وہ بغیر اِدھر اُدھر دیکھے سرپٹ باہر کو بھاگی۔
”جنت بوا۔” ان سے لپٹ کر وہ ہچکیاں لے کررو رہی تھی۔ پہلے تو وہ حیران رہ گئیں ۔ پھر بیگ نیچے پھینک کر اُنہوں نے اُسے بانہوں میں بھرلیا تھا۔ ان سے لپٹ کر زاروقطار روتے ہوئے اُسے عجیب سی ٹھنڈک کا احساس ہوا تھا۔ شاید مامتا کا احساس تھا یہ ۔ اپنی ماں کے تو گلے لگے اُسے زمانہ ہوگیا تھا۔
”ارے کیا ہوگیا۔ بائو لی ہوگئی ہو۔ کیوں اس طرح روئے چلی جارہی ہو۔ کچھ کہا ہے اسے کسی نے۔” انہوں نے اندر سے آتے ہوئے وسیم سے پوچھا۔ وہ شانے اُچکا کر گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔
”اتنے دن لگادیئے آپ نے۔میں بہت اُداس ہوگئی تھی آپ کے بغیر۔” ان کا بیگ اُٹھاتے ہوئے اس نے دوپٹے سے آنکھیں رگڑیں۔
”بس بیٹا اللہ نے سالوں بعد نواسا دیا ہے۔ بیٹی کی خوشی میں اتنی مگن ہوئی کہ واپسی کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔” انہوں نے خوشخبری سنائی۔
”صحیح کہتی ہیں آپ۔ بیٹی اور ماں کی محبت کا تو کوئی مقابلہ کرہی نہیں سکتا۔ غیر کیا ہیں اس کے آگے۔” وہ اداس سی ہوگئی تھی ۔
”ارے ایسے نہیں سوچتے پگلی۔ تو کوئی میری بیٹی سے کم تھوڑے ہی ہے۔ بس اتنے دن نہ رکتی تو داماد باتیں کرنے لگ جاتا کہ نانی کو تو خوشی ہی نہیں ہوئی نواسے کی۔ یہ رشتے بھی بڑے ہی نازک ہوتے ہیں اور ہم مائیں ان کے آگے مجبور ، بے بس۔” اُنہوں نے ٹھنڈی آہ بھری۔ وہ بھی آزردہ ہوگئی۔ جانتی تھی کہ جنت بوا کا ایک بیٹی کے سوا کوئی بھی نہیں تھا۔ ان کا دل بہلانے کو وہ اُن سے ان کے نواسے کے متعلق پوچھنے لگی تھی۔ ان کی آنکھوں میں چمک سی بھر گئی۔
”تم تو ایسے رو رہی تھی جیسے میں مر ہی گئی ہوں۔” اُنہوں نے اُسے چھیڑا۔
”اللہ نہ کرے، ایسے تو مت کہیں۔ آپ کو نہیں پتہ آپ میری ماں کی جگہ ہیں ۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ ٹھنڈی میٹھی چھائوں جیسی۔” وہ ان کے گلے لگ گئی۔
”تم بھی تو میری دوسری بیٹی ہی ہو۔ بلکہ میں نے تو سوچ لیا ہے میں تمہاری رخصتی کے بعد بھی تمہارے ساتھ ہی رہوں گی۔ جان نہیں چھوڑنے والی۔” رخصتی کے نام پر اس کے گال دہک اُٹھے تھے۔
”اور اللہ کا شکر ہے میرا چھوٹا داماد تو لاکھوں میں ایک ہے۔ ادب کرنے والا۔ رشتوں کا لحاظ رکھنے والا۔” ان کی شوخ آواز نے اُسے ۔
”کک۔ کون؟ کیا مطلب؟” وہ اُن کا منہ تکنے لگی۔
”اپنے وسیم کی بات کررہی ہوں۔ ” ان کی بات پر وہ شرما کر رخ موڑ گئی تھی۔
”اور نہیں تو کیا۔ کہوں گی اس بار کہ گھر جائے تو ماں کو ساتھ ہی لائے۔” ان کی بات کے جواب میں وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہوگئی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے والا واقعہ یاد آگیا۔
”واقعی۔ دو وقت روٹی اور عزت کی چھت سے بڑھ کر عورت کے لئے اور کوئی نعمت نہیں ہوتی۔” اس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔
٭…٭…٭
”ارے جنت بوا آپ واپس آگئیں میرے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ یہ سب لانے کی کیا ضرورت تھی۔”رات کو وہ کمرے میں آئی تو جنت بوا اپنا بیگ کھول کر اُسے دکھانے لگیں۔ جس میں وہ ڈھیر ساری چیزیں وہ اس کے لئے بھر کر لائی تھیں۔ ہیئر بینڈ، پراندے، چوڑیاں، کاجل، کڑھائی والا کرتا، تل کے لڈو، پینیاں اور نہ جانے کیا کیا۔
”لو اور کس کے لئے لاتی۔ اب مجھ بڑھیا کی تو عمر نہیں ہے یہ سب استعمال کرنے کی۔” اُنہوں نے لاپرواہی سے ہاتھ جھٹکے۔
”تو اپنی بیٹی کے لئے لے جاتیں نا۔” وہ ان کے حد درجہ تکلف پر شرمندہ ہوئی جارہی تھی۔
”ہاں تو اس کے لئے بھی بہت کچھ لے کر گئی ہوں۔ اس کا اور داماد کا جوڑا وہ مہنگا والا ۔ کیا کہتے ہیں اُسے ڈی۔ ڈی۔’ ‘ وہ ناک پر انگلی جمائے ذہن پر زور دینے لگیں۔
”ڈیزائنر۔” اس نے ان کی بات مکمل کی۔
”ہاں۔ ہاں وہی۔ وسیم سے منگوایا تھا۔ پھر بیٹی کے لئے انگوٹھی۔ نواسے کے کپڑے، جھولا، کھلونے، باجے، پنجیری اور بستر وغیرہ۔’ ‘ وہ ایک ایک چیز کی تفصیل بتانے لگیں۔
”بہت پیسے لگ گئے ہوں گے آپ کے تو۔” وہ فکر مند ہوگئی۔
”تو میں نے پیسے کون سا قبر میں لے کر جانے ہیں۔ اچھی بھلی تنخواہ دیتی ہیں بیگم صاحبہ۔ مجھ بڑھیا کا خرچا ہی کیا ہے۔ دو وقت کی روٹی اور سال میں چار جوڑے کپڑے ۔ وہ بھی وہی لے دیتی ہیں۔ تنخواہ تو میں ساری جوڑتی رہتی ہوں سارا سال کہ بیٹی کی طرف جائوں گی تو اس کے لئے تحفے لے جائوں گی۔ داماد اور اس کے سسرال والوں کا منہ تو بند رہے گا۔” وہ اپنے کپڑے تہہ کرکے الماری میں لگانے لگیں۔
”لائیں میں مدد کردیتی ہوں۔” وہ فوراً اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
”اور اب تو میری ایک نہیں دو، دو بیٹیاں ہیں۔ اللہ دونوں کے نصیب اچھے کرے، ہنستا بستا آباد رکھے۔ آمین۔”
”آمین۔” اس نے زیر لب دہرایا۔
٭…٭…٭
وہ رات سونے کے لئے آئی تو کمر کا درد سے برا حال تھا۔ شیری تو اب نسبتاً بہتر ہوتا جارہا تھا۔ اُسے اس کے ساتھ زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑتی تھی۔ کیونکہ وہ زیادہ تر کمپیوٹر پر کارٹونز وغیرہ دیکھتا رہتا تھا۔ مگر بیگم صاحبہ نے اس غلامی کے عوض اب گھر کی بیشتر ذمہ داریاں اس کے سپرد کردی تھیں۔ کیونکہ جنت بوا میں اب اتنی ہمت کہاں تھی کہ بیک وقت کئی نوکروں کی نگرانی کرتیں۔ بستر پر لیٹتے ہوئے اس کا دھیان ان تحائف کی طرف چلاگیا۔ جو وہ اس کے لئے اپنے آبائی گائوں سے لے کر آئی تھیں۔ وہ اپنا ٹرنک کھول کر ان کا جائزہ لینے لگی۔ مامتا کی سی مٹھاس کا احساس تھا ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی پنجیری اور لڈووں میں۔ بیگم صاحبہ کے دسترخوان کی مہنگی سے مہنگی سویٹ ڈشز میں بھی اتنی لذ ت کہاں تھی یا پھر شاید وہ ہی ان خلوص اور محبت بھری سو غاتوں کی ترسی ہوئی تھی۔ بچپن میں کبھی منے کے لئے لایا گیا پائوں بھر دودھ پھٹ جاتا تو وہ تینوں بہنیں اماں کے سر ہوجاتیں کہ اُسے پکا کر مزیدار سے کھوئے والی مٹھائی بناکردے۔ مگر اماں کے پاس کبھی سلنڈر میں گیس ، کبھی چینی اور کبھی وقت کی کمی کا رونا ہوا کرتا تھا تبھی وہ اماں کے گھر سے روانہ ہوتے ہی چوری چھپے اس مشن پر لگ جاتیں چمچے بھر بھر کر چینی ڈالتیں اور پھر لڑلڑ کر کھاتیں۔ یہ اور بات کہ بعد میں جب اماں چینی کے ڈبے کا جائزہ لیتی تو ڈھیروں صلواتیں سننی پڑتیں۔
”ہائے کیسے مزے کے دن تھے وہ بھی۔” اس نے آ ہ بھری۔
مگر قدر تو نعمت چھن جانے کے بعد ہی ہوا کرتی ہے۔ اُسے وہ عزت بھری زندگی بھی اب کسی نعمت سے کم نہ لگتی تھی۔ سونے کے پنجرے سے تو تنکوں کا آشیاں ہی بھلا۔ بمشکل ان سوچوں سے پیچھا چھڑا کر اس نے باقی کی چیزوں پر نگاہ دوڑائی۔ رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں تو ہمیشہ سے ہی اس کی کمزوری رہی تھیں۔ اس نے چوڑیاں ہاتھ میں چڑھانی شروع کردیں۔ ساتھ ہی بالوں میں پراندہ ڈال کر ہلکی سی لپ اسٹک کے ساتھ کاجل کی ہلکی سی لکیر بھی آنکھوں میں لگالی۔ آئینے میں اپنا آپ دیکھ کر وہ شرماسی گئی تھی۔ چوڑیاں پہنے وہ دیر تک ان کی کھنک سے لطف اندوزہوتی رہی۔ تھکاوٹ تو منٹوں میں ہوا ہوگئی تھی۔ بالوں کی لٹ پیشانی پر جھول کر اُس سے چھیڑ چھاڑ کررہی تھی۔
”آپ باہر مت جائیں۔ شیری بابا کی بال میں لادیتا ہوں۔” سماعتوں میں کسی کی آواز گونجی۔ کیسا سنجیدہ لہجہ تھا۔ نہ ہونٹوں پر کوئی تبسم، نہ آنکھوں میں ستائش،نہ چہرے پر شرارت۔ نگاہیں ہوا میں کہیں مرکوز ہوا کرتی تھیں۔ اگر اس کی جانب اُٹھتی بھی تو لمحہ بھر میں واپس پلٹ جاتیں۔ مگر الفاظ و انداز میں ایک احترام ہمیشہ جھلکتا تھا۔
مگر اس کی موجودگی میں کیسا تحفظ بھرا احساس اس کا احاطہ کئے رکھتا تھا۔ وہ بغیر اس کی جانب دیکھے بھی اس کی اُلجھنیں اور پریشانیاں بھانپ جایا کرتا تھا۔ چند لمحہ کو وہ حقیقت سے نظریں چرائے خوابوں کے سفر پر نکل گئی تھی۔ جہاں ایک چھوٹا سا مگر پکا مکان تھا۔ اس کے آنگن میں چارپائی ڈال کر بیٹھی عمر رسیدہ عورت جو اُسے آوازیں لگارہی تھی۔
”شہزادی۔ او شہزادی پتر جلدی کرلے۔ میرا لال آنے والا ہوگا۔” اس نے کوئی تیسری بار اُسے آواز لگائی۔
”آئی اماں۔” اس نے تو ے پر سے گرما گرم روٹی اُتاری۔ ہاتھ دھو کر سالن گرم ہونے کو چولہے پررکھا۔ تب ہی باہر کھٹکے کی آواز سن کر وہ باہر بھاگ آئی۔ جو اپنی سائیکل اندر لارہا تھا۔ سائیکل سے شاپر اُسے تھما کر اُس نے لمحہ بھر کو اسے مسکرا کر دیکھا اور ہاتھ منہ دھونے غسل خانے کی طرف قدم بڑھادیئے۔ وہ بجلی کی تیزی سے شاپر اندررکھ کر تار پر سے تولیہ اُتار لائی اور اُسے پکڑایا۔ اس کے کپڑے بدلنے تک وہ گرما گرم کھانا باہر پلنگ پر لگا چکی تھی۔ بھاپ اُڑاتی روٹیاں، مزیدار کریلے گوشت کا سالن اور سوجی کا حلوہ۔ تینوں کھانا کھاتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
”آہ۔” بے خیالی میں چوڑی اُتارتے ہوئے ٹوٹ گئی تو وہ خوابوں کے حصار سے باہر آئی۔ ہاتھ پر خون کی لکیر نمودار ہوچکی تھی۔ ہاتھ دھونے کے لئے وہ کمرے سے نکل کر باہر واش روم کی جانب دوڑی۔ اندھیری راہداری میں ٹٹول کر وہ دبے پائوں آگے بڑھ رہی تھی کیونکہ لائٹ جانے سے مکمل تاریکی ہوچکی تھی اور ابھی تک کسی نے جنریٹر آن نہیں کیا تھا۔ اچانک جنریٹر کا شور گونجا اور ساتھ ہی کسی نے اُسے بازو سے دبوچ کر کھینچا تھا۔ مارے خوف کے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی تھی۔ کسی آہنی ہاتھ نے اس کا منہ دبوچ کر اُسے چیخنے چلانے سے روک دیا تھا۔ کوئی اُس کا منہ ہاتھ سے دبائے۔ اُسے پوری طاقت سے گھسیٹ رہا تھا۔ اس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ اُسے کمرے میں لاکر بے دردی سے پٹخ دیا گیا تھا۔ اس کے ذہن میں یہی خیال آیا تھا کہ گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں ۔ مگر اُس کے پاس تھا ہی کیا جو وہ نکال کر حوالے کرتی۔ نیچے بوسیدہ بوسیدہ قالین پر لیٹے لیٹے اس نے خود پر قابو پایا اور اردگرد نگاہ دوڑائی۔ حواس بحال ہونے پر سمجھ آئی کہ یہ اُس کا اپنا کمرہ ہی تھا۔ اس نے فوراً نظر اٹھا کر اُوپر کی جانب دیکھا۔
”صاحب جی۔” ڈاکو کی امید پر جس شخص پر اس کی نگاہ پڑی اس نے اُسے حیرت سے شل کردیا تھا۔ یہ خوش پو ش، متول اور باعزت نظر آنے والا ڈاکو کیا چاہتا تھا اور کیا لوٹنے آیا تھا اُسے سمجھنے میں ایک سیکنڈ لگا تھا۔
اور سمجھ میں آتے ہی حیرت اور خوف سے اس کا ذہن مائوف ہوگیا تھا۔ جسم ساکت ہوچکا تھا۔ عین اُسی وقت دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ صاحب جی کو لمحہ بھر کے لئے غافل پاکر اس نے موقع غنیمت جانا اور لڑھکتی ہوئی آ ن کی آن میں دروازے تک جاپہنچی۔ کسی مسیحا کی آمد پر اس نے ہمت کرتے ہوئے ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر دروازہ کھول دیا تھا۔ مگر اندر سے بڑی قیامت تو باہر اس کی منتظر تھی۔ بیگم صاحبہ نے دروازہ کھلتے ہی زور دار دھکا دے کر اُسے دور گرایا تھا اور چیل کی طرح صاحب کی جانب لپکی تھیں۔ آگے بڑھ کر انہوں نے شوہر کا گریبان پکڑ لیا تھا۔
”تت۔ تم گھٹیا انسان۔ منہ مارنے کو اب یہ دو ٹکے کی نوکرانی ہی رہ گئی تھی۔”
”خبردار۔” ایک جھٹکے سے انہوں نے اپنا گریبان چھڑایا تھا۔
”اگر ایک لفظ بھی منہ سے نکالا یا کوئی تماشہ کرنے کی کوشش کی تو میں تمہیں کاغذ پکڑا کر گھر سے باہر کرنے میں ایک منٹ کی دیر بھی نہیں لگائوں گا۔” مرد ہونے کا ازلی زعم دکھاتے ہوئے وہ انہیں خاموش کروا کر باہر جاچکے تھے۔
صاحب جی کے باہر جاتے ہی وہ بھوکی شیرنی کی مانند اس پر جھپٹی تھیں۔ اس وقت ان کے جذبات وہ بخوبی سمجھ سکتی تھی۔ اس لئے انہیں اپنا محسن جان کر اس نے ان کی مار کو بخوشی قبول کرلیا تھا۔ چپ چاپ نیچے بیٹھی وہ ان کے مکے اور لاتوں کا مقابلہ کررہی تھی۔ کیونکہ اس کے مقابل ایک مغرور شکی اور خود سر عورت نہیں تھی بلکہ ایک مظلوم بیوی اور مجبور ماں تھی۔ جو ایک نیم جان، ابنارمل اولاد کی وجہ سے اس بدکردار شخص سے جڑے رہنے پر مجبور تھی۔ جنونی انداز میں انہوں نے اس کا سر دیوار سے ٹکرانا شروع کردیا تھا۔ اس نے بازوئوں کو اپنے اور دیوار کے بیچ میں ڈھال بنایا تھا۔ ایک زوردار دھکے سے وہ دیوار سے ٹکرائی اور ساری چوڑیاں ٹوٹ کر اس کی کلائیوں میں پیوست ہوگئی تھیں۔ اس کے حلق سے ایک دلخراش چیخ برآمد ہوئی۔ مگر اُن کا تشدد بند نہیں ہوا۔
”بے حیا! کس کے لئے اتنا بن سنور کر آدھی رات کو بازار سجائے بیٹھی تھی۔ بہت شوق ہے نا تجھے اپنے حسن کی نمائش کا۔ بہت غرور ہے اپنی کم عمری اور خوبصورتی کا۔ مردوں کو لبھانا چاہتی ہے۔ سراہتی نظروں سے دل نہیں بھرتا تھا جو اتنی رات گئے۔” اُسے مارتے مارتے ان کا سانس پھول گیا تھا۔ ان کے ہاتھ لمحہ بھر کور کے تھے ۔ وہ اپنے خون آلودہ بازوئوں سے چوڑیوں کے ٹکڑے الگ کرنے لگی تھی۔ ان کی مار سے زیادہ ان کے الفاظ اُسے تکلیف دے رہے تھے۔ ایک زور دار لات انہوں نے اس کی کمر پر رسید کی۔ اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ برآمد ہوئی تھی۔ اوندھے منہ گرنے سے مزید چوڑیاں اس کے بازو میں پیوست ہوگئی تھیں۔ وہ مچھلی کی مانند تڑپنے لگی تھی۔ شور شرابہ سن کر باہر نوکر اکٹھے ہوئے بھی تھے تو بیگم صاحبہ کے ڈر اور دروازہ بند ہونے کی وجہ سے دوبارہ کمروں میں جاگھسے تھے۔ اُس نے خود کو سنبھالتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی تھی۔ مگر ان کے ہاتھوں میں گرم استری ، اور آنکھوں میں اُترا وحشیانہ پن دیکھ کر اُس کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بچائو کے طور پر اس نے وہاں سے بھاگنا چاہا مگر استری کی ضرب سیدھی اس کے ماتھے پر لگی تھی۔ دوسرے ہاتھ سے بیگم صاحبہ نے اس کے بال سختی سے دبوچ رکھے تھے۔ وہ پورا زور لگا کر بھی خود کو اس سے دور نہیں کرپا رہی تھی۔ ماتھے کے بعد جسم کے باقی حصوں کی باری تھی۔ جلن سے بے حال ہوکر وہ نیچے بیٹھتی چلی گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ یومِ محشر آپہنچا ہو اور وہ بھڑکتی ہوئی جہنم کا ایندھن بنادی گئی ہو۔مگر نہیں۔”وہ” تو ستر مائوں سے بھی زیادہ مہربان ہے بھلا کسی کو بے قصور جہنم میں کیوں کر دھکیل سکتا ہے۔ اسے جنت بوا کی بات یاد آئی تھی۔ اپنے بے جان ہوتے جسم کی بچی کچھی طاقتیں مجتمع کرتے ہوئے اس نے کمرے سے باہر نکلنے کی آخری کوشش کی اور ساتھ ہی اُسے پکارا تھا جو سب سے زیادہ ”مہربان” تھا۔
دوسری طرف درندے کا روپ دھارے اس عورت نے اس کے کمزور اور لڑکھڑاتے ہوئے وجود کافائدہ اُٹھاتے ہوئے پھر سے گرم دہکتی استری اس کی جانب بڑھائی تھی۔ اس کا ماتھا پھر سے لاوا بن کر پگھلنے لگا تھا۔ وہ ہاتھ چھڑا کر کمرے سے باہر بھاگی تھی۔ اب کی بار اس نے اس کا بازو پکڑ کر پھر سے وار کیا تھا۔ بچی کھچی چوڑیاں گرم ہوکر اس کے بازو میں دھنستی چلی گئی تھیں۔
”اللہ۔” اس نے پوری قوت سے پکارا اور آخری کوشش کے طور پر اس نے باہر نکل کر خود کو سیڑھیوں سے نیچے لڑھکا دیا تھا اور اس کی چیخوں سے پورا گھر لرز اُٹھا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

محبوب چہرہ — محمد جمیل اختر

Read Next

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!