مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (پہلا حصّہ)

رات کو سب کے سوجانے کے بعد وہ جنت بوا سے قرآن کا سبق بھی پڑھ لیا کرتی اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں کتابیں پڑھنے کی کوشش بھی کرتی رہتی تھی۔ جب سے وہ گھر سے آئی تھی صرف ایک بار ہی ملنے کے لئے جاسکی تھی وہ بھی جب بیگم صاحبہ چند دن کے لئے شیری کو علاج کے لئے ملک سے باہر لے کر گئی تھیں۔ وہ چند دن جو اس نے گھر میں گزارے تھے۔ سب نے اُسے سرآنکھوں پر بٹھائے رکھا۔ اماں روز ناشتے میں اُسے اور کاکے کو گھی والا پراٹھا پکا کر دیتی۔ دن میں وہ اگر صفائی کرنا چاہتی تو اماں یا ننھی اُسے منع کردیتی تھیں۔ کھانے کی چیزوں میں اس کا اور کاکے کا حصہ سب سے پہلے الگ کردیا جاتا تھا۔ مگر وہ اس سلوک پر بھی خوش نہ تھی۔ اسے خود سے کیا جانے والایہ مہمانوں والا سلوک ہر گز پسند نہ تھا۔ اس کا دل چاہتا کہ اماں صبح اسے سب کے ساتھ ساتھ کوسنے دے کر اٹھائے۔ ننھی منی کھانے کی چیزوں پر اس سے جھگڑیں۔ اسے اس کے حصے کا کام کرنے کا کہیں۔ مگر وہ سب تو اسے مہمان سمجھے بیٹھی تھیں وہ ان سے دل کا حال کیا بیان کرتی۔ کیا بتاتی کہ اسے وہاں بیگم صاحبہ کی ڈانٹ مار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ وہاں نہیں رہنا چاہتی تھی مگر کوئی اس سے اس کی مرضی اور خوشی پوچھتا ہی تو بتاتی۔ کاکا ٹھیک ہوچکا تھا بس ایک بازو کی حرکت میں تھوڑا سا فرق رہ گیا تھا کہ بازو مکمل مڑتا نہیں تھا۔ شام کو ننھی، منی اور محلے کی اور لڑکیاں اس کے پاس آنگن میں آکر بیٹھ جاتیں۔ اس سے وہاں کے بار ے میں پوچھتی رہتیں۔ ہر کسی کو یہی جاننے کا شوق ہوتا کہ وہ کتنے بڑے گھر میں کس ٹھاٹ سے رہ رہی تھی۔ کون سی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہی تھی اور بس۔ سو وہ بھی انہیں یہی سب بتاتی اور اپنے سب درد دل میں اتار لیاکرتی تھی۔
”سچ شہزادی تو اتنی دور پہاڑی علاقوں میں بھی سیر کرنے جاتی ہے؟” خالہ جمیلہ کی شمو نے حیرت سے دیدے مٹکائے تو وہ جواباً مسکرادی۔
”تو اور کیا۔ صاحب لوگ تو ہر تھوڑے دن بعد کہیں نہ کہیں گھومنے کا پروگرا م بنالیتے ہیں۔ شیری بابا کو پارک لے کر تو ہر دوسرے دن جاتے ہیں۔ اتنے بڑے بڑے آسمانی جھولے۔ اور پتا ہے شمو سوات میں اتنی ٹھنڈی پانی کی جھیل تھی کہ…” وہ پھر سے شروع ہوجاتی۔ اور سب حیرت سے آنکھیں پھاڑے اُس کی باتیں سنتی جاتیں۔
”ہاں ہاں میں نے بھی سنا تھا بلکہ ٹی وی میں دیکھا تھا ایسے جھولے کے بارے میں۔” پھر کوئی لڑکی اترا کر اپنی معلومات کا رعب جماتی ۔
”اُف کتنا مزا آتا ہوگا تجھے شہزادی۔ ہر وقت ٹھنڈے کمروں میں رہ کر اتنی مزے کی چیزیں کھا کر اور اتنی سیریں کرکرے ۔” ننھی کے انداز میںحسرت تھی۔
”یہ مزے مزے کے جھولے، کرتب دیکھنا۔ اُونچے اونچے پہاڑوں پر برف گرتی ہوئی کیسی لگتی ہوگی بھلا؟ اور جہاز میں بیٹھ کر تجھے ڈر نہیں لگا؟” زرینہ نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔
”لے بھلا ڈر کس بات کا۔ جہاز کوئی جھولا تھوڑی ہی ہوتا ہے جو ٹوٹ کر گرجائے ۔” اُسے ہنسی آگئی۔
”سچی شہزادی تیرے تو عیش ہیں۔سچ مچ کی شہزادیوں کی طرح۔” منی بھی بول اُٹھی۔
”ہاں پر اتنے عیشوں کے لئے اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ دن رات ذلیل ہونا اور ماریں کھانا پڑتا ہے۔ ” وہ محض سوچ کر رہ گئی تھی۔
بس وہ ایک ہی بار کا ذکر تھا۔ اس کے بعد تو اماں جب اُسے عید پر لینے آئی تو شیری نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیاتھا۔ ”یہ ابھی نہیں جاسکتی ۔” بیگم صاحبہ نے شیری کو بہلاتے ہوئے پرس سے کچھ نوٹ اماں کے ہاتھ میں منتقل کئے تو اُس کے لب خاموش ہوگئے اور سر جھک گیا۔ خود اس کے دل کی کھلتی کلی بھی مرجھا گئی تھی۔ ہاتھ میں پکڑے بیگ پر اس کی گرفت ڈھیلی ہوگئی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”اماں ننھی کیسی ہے؟ منی اب بھی لڑتی ہے کاکے سے اور کاکا کتنا بڑا ہوگیا ہے؟” فرطِ اشتیاق سے وہ باری باری سب کا پوچھ رہی تھی۔ سال کی دو تین ملاقاتوں میں شیمو باری باری اُسے سب کا بتاتی رہتی تھی۔ مگر ننھی اور کاکا اسے کتنا یاد کرتے تھے۔ اس بار بھی وہ دانستہ یہ بات گو ل کر گئی تھی۔ اس بات پر اس کا دل بجھ گیا تھا۔
”اماں یہ دیکھ میں نے عید کے لئے کتنی چیزیں لی ہیں۔ ننھی کے لئے کھسہ اور جوڑا، منی کے لئے بندے اور چوڑیاں ، ہار وغیرہ۔ تیرے لئے پراندہ اور ہیل والا جوتا اور کاکے کے لئے کرتا شلوار ۔ ا س نے ان سب کے لئے کی گئی شاپنگ کے ساتھ ساتھ اپنی عید کی چیزیں بھی اماں کو ایک تھیلے میں ڈال دیں۔ گھر اور گھر والوں کے بغیر وہ کیا عید مناتی۔
”اور تجھے کیا لے کر دیا ہے بیگم صاحبہ نے؟” شیمو نے خوشی کے مارے آواز نیچی رکھی۔
”میرا ایک جوڑا درزی کے پاس ہے اور ایک جوڑا اور چوڑیاں مہندی وغیرہ بیگم صاحبہ کہہ رہی تھیں چاند رات کو جاکر لے لینا۔ پتہ ہے اماں بیگم صاحبہ کہتی ہیں عید کی شاپنگ کا مزہ تو چاند رات کو ہی آتا ہے۔” وہ صفائی سے جھوٹ پر جھوٹ بولتی گئی۔ شیمو خوش ہوگئی تھی۔ اُسے دروازے تک چھوڑتے ہوئے اس کا دل بہت چاہا کہ اماں کے گلے لگ کر اسے بتائے کہ اسے سب کتنا یاد آتے ہیں۔ بیگم صاحبہ اور ان کا بیٹا اسے کتنا مارتے ہیں۔ رات کو اکیلے کمرے میں اسے کتنا ڈر لگتا ہے۔ جب بادل گرجتا اور بجلی چمکتی ہے تو مارے خوف کے وہ ساری رات کانپتی رہتی ہے ۔ اسے اے سی والا ٹھنڈا کمرا ، مزے مزے کے بے شمار کھانے بھی لطف نہیں دیتے۔ اُسے گھر جانا ہے۔ مگر ا ن سب خواہشات کو اس نے دل میں ہی مقید کرلیا تھا۔
”ننھی، منی اور کاکے کو کہنا اگلی بار مجھے ملنے ضرور آئیں۔ میں یہاں بہت خوش ہوں اماں۔ عید پر تو اور بھی مزہ آئے گا۔” اس نے ہاتھ ہلا کر ماں کو خدا حافظ کہا اور لاؤنج کی طرف جانے ہی لگی تب ہی اُس کو اندر سے صاحب جی اور بیگم صاحبہ کے زور زور سے لڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔
”مجھے سچ بتائو کہاں تھے تم؟ مجھے اسلام آباد کا کہہ کر اتنے دن کہاں رہے اور کس کے ساتھ تھے؟” وہ چلا چلا کر پاگل ہورہی تھیں۔
”میں تم سے کتنی بار کہہ چکا ہوں پاگل، شکی عورت، تمہیں یقین کیوں نہیں آتا؟ دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔” صاحب کی آواز کے ساتھ ہی کمرے سے چیزیں پٹخنے کی آوازیں بھی آنے لگی تھیں۔
ہفتہ بھر کے بعد وہ آج ہی واپس لوٹے تھے اور ان کے گھر میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی گھر ایک میدانِ جنگ بن گیا تھا۔ جنت بوا کو چائے کا کہہ کر وہ کمرے میں جا گھسے تھے اور تب ہی سے یہ شور شرابا جاری تھا۔ جنت بوا کے گھٹنوں میں درد رہتا تھا۔ اسی لئے وہ ان کے ہاتھ سے چائے کی ٹرے لے کر اوپر آگئی تھی۔ مگر اندر کمرے سے آتی آوازوں نے اسے شش و پنج میں ڈال دیا تھا۔ مخمصے کا شکار تھی کہ اندر جائے یا وہیں کھڑی رہے۔
”ہاں میں ہی پاگل اور شکی ہوں اور تم خود تو دودھ کے دھلے ہو۔ منور بھائی نے تمہیں خود دیکھا تھا پی سی بھور پن میں تمہاری اس آفس کی ورکر کے ساتھ۔”
”تو گویا تم نے میری جاسوسی کے لئے اپنا خاندان پیچھے لگایا ہوا ہے۔ جو تمہیں جھوٹ گھڑ گھڑ کر بتاتا رہتا ہے۔ دیکھ لوں گا میں تمہیں بھی اور تمہارے اس منور بھائی کو بھی۔” انداز میں بلا کی تحقیر تھی۔ باہر ٹرے تھامے شہزادی تھرتھر کانپ رہی تھی۔
”ہاں تم باہر رنگ رلیاں منائو، عیاشیاں کرو اور میں تم سے باز پرس بھی نہ کروں؟ گھر میں سڑتی اور گھٹ گھٹ کر مرتی رہوں ۔” اس بار شیشے کی کوئی چیز گرنے کی آواز آئی تھی۔
”تو کس نے کہا ہے تمہیں یہاں رہنے کو۔ دفع ہوجائو اس گھر سے جاہل عورت۔ تم نے تو میری زندگی بربا د کردی ہے۔”
”ہاں چلی جائوں اور تم میرے باپ کے دیئے ہوئے اس گھر میں اپنی اس چہیتی کو لے آئو۔ اتنی بیوقوف نہیں ہوں میں۔” انہوں نے اپنے با ل نوچے۔
”ایک گھر دے کر تمہارے باپ نے تو میری ساری زندگی جہنم بناڈالی ۔ اپنی پاگل گنوار بیٹی میرے سر ڈال دی۔ کیا دیا ہے تم نے مجھے اتنے سالوں میں؟ ایک بیمار معذور بچہ اور وہ بھی تم سے سنبھالا نہیں جاتا۔” اپنا جھوٹ کھلنے پر وہ مزید شیر ہوگئے تھے۔
”مرد جب تک ڈھکا چھپا رہے تب تک میاں بیوی دونوں کا بھرم قائم رہتا ہے۔” اُسے جنت بوا کی کہی ہوئی بات یکدم سمجھ آگئی تھی۔ ٹرے گرنے والی تھی کہ دھڑام کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا۔ دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی بیگم صاحبہ نے اُسے خونخوار نظروں سے گھورا۔ لرزتے ہاتھوں سے اس نے بمشکل ٹرے میز پر رکھی تھی۔ ابھی وہ جانے کے لئے مڑی ہی تھی کہ شری یکدم بھاگتا ہوا اندر آیا اور اُسے اپنی جانب کھینچنے لگا۔
”شازی آئوجھولا جھولیں۔” وقت کے ساتھ ساتھ اس کی زبان کافی صاف ہوگئی تھی۔ خود سے بھاگنے دوڑنے بھی لگا تھا۔ اسی کھینچا تانی میں اس کا دوپٹا سر سے اُتر کر نیچے جاگرا تھا۔ اپنے شوہر کو اس کے بالوں کی لمبی گھنی چوٹی کی طرف پر اشتیاق نظروں سے دیکھتا ہوا پاکر بیگم صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔
”دفع ہوتی ہو یا نہیں۔” ان کے چلانے پر وہ دوپٹا گھسیٹتی جلدی سے باہر نکل گئی تھی۔ اس کی قسمت تو جیسی بھی تھی مگر نام کے ساتھ ساتھ وہ شکل و صورت کی بھی شہزادی تھی۔ ا س کی پوری بستی میں اس کے جیسا بچپن میں بھی کوئی حسین نہیں تھا۔اب توجوانی کی آمد کے ساتھ ساتھ اُسے اس گھر کا ماحول اور کھانا پینا بھی راس آگیا تھا۔ گوری چٹی رنگت میں گلابیاں گھل گئی تھیں۔ بھوری آنکھوں میںنوجوانی کے خواب چمکتے دکھائی دیتے تھے۔ پندر ہ برس میں ہی اس کی اُٹھان کسی اٹھارہ برس کی دوشیزہ کو مات دیتی تھی۔
صاحب، بیگم صاحبہ سے لڑ کر گھر سے باہر چلے گئے تھے۔ ان کے درمیان ایسی لڑائیاں روز کا معمول تھیں۔ جس میں شامت کراکری کے علاوہ گھر کے نوکروں کی بھی آتی تھی۔ وہ باہر شیری کو جھولا جھلا رہی تھی۔ بیگم صاحبہ کسی بھوکی شیرنی کی مانند آکر اُس پر جھپٹیں اور اسے گھسیٹ کر اندر لے گئیں۔
”کمینی، بے غیرت! چھپ چھپ کر مالکوں کی باتیں سنتی ہے؟ نمک حرام۔” وہ گنواروں کی طرح اُسے گالیاں دے رہی تھیں، مگر وہ خاموش تھی۔ ان کے اس رویہ اور تھپڑوں کی عادی ہوچکی تھی۔بچائو کا واحد راستہ خاموشی ہی تھا۔
”ہماری بلی ہمیں ہی میائوں۔ میرے میاں پرڈورے ڈالتی ہے۔ مالکن بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔” ان کے الزام پر وہ چلا اٹھی تھی۔
”نہیں بیگم صاحبہ میں ایسی نہیں ہوں! مجھ پر الزام مت لگائیں۔” اس کا جواباً بولنا اُنہیں مزید آگ لگا گیا۔
”سپنی تو مجھے کیا ڈسے گی ناگن کی اولاد۔ میں تیرا وہ حال کروں گی کہ آئندہ کسی اور کے تو کیا کبھی اپنے میاں پر بھی اس حسن کا جادو چلانے کے بارے میں نہیں سوچے گی۔ تیری یہ ہمت۔” اُسے مکوں اور لاتوں سے پیٹتی ہوئی وہ اپنے خاوند کے بہکتے قدموں کا ذمہ دار بھی اُسے ٹھہرا رہی تھیں۔ وہ جواباً خاموش ہوکر پھر سے پٹنے لگی۔ جانتی تھی کہ اُس کی صفائی اُنہیں اور بھی بھڑکا دے گی۔ اُسے مار پیٹ کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی تھیں۔ وہ فرش پر اوندھی لیٹی بے آواز رو رہی تھی۔ اچانک اُسے اپنی چوٹی پر کسی کی گرفت کا احساس ہوا تھا۔ اس نے سر اُٹھایا تو بیگم صاحبہ کے ہاتھوں میں قینچی دیکھ کر اُس کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی تھی۔
”نہیں نہیں۔” اس نے اٹھ کر سنبھلنے کی کوشش کی۔ مگر اسکی کسی بھی مزاحمت سے قبل قینچی اپنا کام دکھا چکی تھی۔
٭…٭…٭
دو دن تک وہ اپنے کٹے پھٹے بے ڈھنگے بالوں کو دیکھ کرروتی رہی۔بیگم صاحبہ نے کاٹے بھی کچھ اس طرح سے تھے کہ کمر تک لمبے بالوں کی کچھ لٹیں کان تک بھی بمشکل پہنچتی تھیں اور کچھ کندھے سے ذرا نیچے تک جارہی تھیں۔ بار بار وہ اپنی پشت پر ہاتھ پھیر کر لمبی گھنی چوٹی کو محسوس کرنے کی کوشش کرتی اور پھر سر پر جھولتی لٹوں کو دیکھ کر زاروقطار رونے لگتی۔ جنت بوا اسے کھانے کا پوچھنے آتیں اور بالوں میں انگلیاں پھنسائے روتا دیکھ کر افسردگی سے واپس ہولیتیں۔ اتنی چاہ اور محنت سے اُس نے بال لمبے کئے تھے۔ اس کے بالوں میں تیل کا مساج کرکے چوٹی باندھتے ہوئے ہر بار جنت بوا ماشاء اللہ کہنا اور سرڈھانپ کر رکھنے کی تاکید کرنا نہ بھولتی تھیں۔ آخر کار تیسرے روز کہیں جاکر انہوں نے اسے زبردستی کھانا کھلا کر باہر نکلنے پر آمادہ کیا تھا۔
”شازی چلو کل شاپنگ پر چلتے ہیں۔ ” بیگم صاحبہ سارا قصہ فراموش کرکے بے نیاز بنی بیٹھی تھیں یا پھر شاید سارا غبار اس پر نکال کر اب اپنے پرانے بھونڈے طریقے سے تلافی کرنا چاہ رہی تھیں۔
”اماں تو اتنے عرصے بعد کیوں آئی ہے؟” شام کو ماں کو دیکھ کر وہ بھاگتی ہوئی اس سے لپٹ گئی۔ چار ماہ بعد اسے دیکھ کر وہ شکایت کر بیٹھی تھی۔حالانکہ اچھی طرح جانتی تھی کہ بیگم صاحبہ کو اماں کا یہاں آنا بے حد ناگوار گزرتا تھا۔ کئی بار تو وہ آئی بھی مگر بیگم صاحبہ کی ہدایت اورموڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے چوکیدار اور نوکروں نے باہر سے ہی ٹرخا دیا۔
”بس تو جانتی ہے نا اماں کی مجبوریاں اور پھر کرایہ بھی تو کتنا لگ جاتا ہے ادھر تک آتے آتے۔” وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔
”ننھی کو تاپ تھا کئی روز سے ۔ ڈسپنسری والوں نے ملیریا بتایا۔ اتنے روز کام پر نہیں گئی تو باجی نے چھٹی کردی۔ اب گھر بیٹھی ہے۔ منی کے پیر میں پھوڑا نکل آیا تھا۔ بارشوں کا موسم ہے تو پیپ پورے پائوں میں پھیل گئی ہے۔ چلا پھرا نہیں جاتا۔ چھت بھی ٹپکتی ہے۔کیا پتہ کب ڈھے جائے۔ حیسکو والوں نے بجلی کاٹ دی۔ بل جو نہیں بھرا تھا۔ کاکے کو فیقے کی ہٹی پر بٹھایا ہے کہ چلو کچھ کمانے لائق تو ہو۔ مگر روز بھاگ آتا ہے کہ چاچا بہت مارتا ہے ہر بات پر۔ بس رب کاشکر ہے کہ دو وقت روکھی سوکھی مل جاتی ہے۔” اتنی ساری مصیبتوں کے بعد بھی کس قدر عام سے انداز میں سب رام کہانی بتاکر وہ رب کاشکر ادا کررہی تھی۔ اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔ وہ پورے دو دن سے تہیہ کئے بیٹھی تھی کہ اس بار تو جوبھی ہو، اماں کواپنے ساتھ ہونے والے سب مظالم بتا کر ہی دم لے گی۔ مگر اماں کا مجبور چہرہ اور بیگم صاحبہ کا پرس کی طرف بڑھتا ہاتھ دیکھ کر سر پر باندھے ہوئے اسکارف پر اس کی گرفت اور بھی مضبوط ہوگئی۔ اسے سبز چولہ پہنے اپنے گھر کے پاس سے گزرنے والا وہ ملن یاد آیا جسے بچے پاگل جان کر اس پر آوازیں کستے تھے اور وہ آنکھیں بن دکئے بس یہی بول گنگنائے جاتا تھا۔
دیوانہ آدمی کو بناتی ہیں روٹیاں
خود ناچتی ہیں سب کو نچاتی ہیں روٹیاں
وہ خود بھی اُسے پاگل کہہ دینے والی آج اسی حقیقت کو سمجھ کر اپنے لب سینے پر مجبور ہوگئی تھی۔
٭…٭…٭
”اب تھوڑی دیر اس ماسک کے ڈرائی ہونے کا ویٹ کریں میم۔” پینٹ شرٹ میں ملبوس، نک سک سے تیار ہوئی وہ لڑکی برابر بیگم صاحبہ کو ہدایت دے رہی تھی۔ نہایت آرام سے اس نے ان کے چہرے پر لگا لیپ صاف کیا اور اب فوم کی مدد سے ان کے چہرے پر کچھ لگا کر وہ ان کے پائوں کی طرف متوجہ ہوگئی۔
”آپ کی سکن تو بہت فریش ہے۔ تھوڑا سا کیئر کریں تو اپنی سکن اور فگر کی وجہ سے بالکل بھی نہیں لگے گا کہ آپ اتنے بڑے بچے کی مدر ہیں۔” ان کے پائوں پر کچھ رگڑتے ہوئے وہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ مسلسل اُن کی تعریف کئے جارہی تھی۔ شہزادی دو گھنٹہ سے مسلسل حیرت سے اس تماشے کو دیکھ رہی تھی۔ خا ص کر اُس لڑکی کی جھوٹی تعریفوں پر تو اس کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا۔ جواتنی بھاری بھرکم اور کرفت چہرے والی بیگم صاحبہ کو کم عمر اور اسمارٹ بتارہی تھی۔ اس سارے تماشے سے اکتا کر وہ ہر طرف لگے آئینوں میں اپنے بالوں کو دیکھنے لگی تھی۔ بہت ساری چیزوں کی خریداری کرنے کے بعد بیگم صاحبہ اب اُسے لے کر اس بیوٹی پارلر میں آکر بیٹھ گئی تھیں۔ دل ہی دل میں اس کے زبان بند رکھنے پر شکر ادا کرتے ہوئے انہوں نے اسے کافی شاپنگ کرادی تھی۔ اور اب پارلر میں شیشے کے سامنے ایک چیئر پر لابٹھایا تھا۔ بیوٹیشن اب نہایت مہارت سے اس کے بالوں پر قینچی چلا رہی تھی۔
”آپ کے فیس کٹ پر یہ اسٹائل بہت سوٹ کررہا ہے میم۔” بیوٹیشن کی تعریف بھی اس کے صدمے کو کم نہیں کرسکی تھی۔ اس کے بال کاٹ کر سیٹ کرنے کے بعد اب وہ اپنی توانائیاں بیگم صاحبہ پر صرف کررہی تھی۔
”میڈم آپ ہماری پرانی کلائنٹ ہیں اس لئے آپ کے لئے اسپیشل ڈسکائونٹ ہے۔” اس کی کٹنگ اور بیگم صاحبہ کے ہاتھوں پائوں کی رگڑائی کے جو پیسے اس نے وصول کئے تھے۔ شہزادی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔
”اتنے میں تو ہمارا پورا مہینہ گزر جاتا تھا۔” اس کا دھیان اپنے گھر کی طرف چلا گیا تھا۔ واپسی پر کار ڈرائیو کرتے ہوئے بھی بیگم صاحبہ کا موڈ بہت خوشگوار تھا۔ گھر پہنچ کر انہوں نے ملازمہ سے کہہ کر پکوڑے اور دیگر لوازمات تیار کروائے تھے۔ بارش کی خوشی میں وہ گیراج کے ساتھ وسیع و عریض لان میں کرسیاں ڈالے موسم سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔ شیری بھی لان میں جھولا جھول رہا تھا۔ کھڑکی میں کھڑے باہر برستی بارش کو دیکھتے ہوئے اس کا دھیان پھر سے اماں کی طرف چلا گیا تو کیک کا نرم اور خستہ پیس اس کے حلق تک میں کڑواہٹ گھول گیا تھا۔ وہ تصورمیں اماں کو کیچڑ سے بھرے راستوں پر جوتیاں ہاتھ میں اُٹھائے کام پر جاتا دیکھ رہی تھی۔ ننھی اور منی کمرے کی ٹپکتی چھت کے نیچے بالٹیاں رکھتیں تو کبھی گھر میں گھس آنے والے پانی کو جھاڑو اور وائپر سے باہر نکالنے کی کوشش کرتیں۔ تنگ اور تاریک مکان میں لائٹ جاتے ہی اندھیرا پھیل گیا تھا۔
”واہ میرے اللہ تیری شان ہے۔ یہی بارش کسی کے لئے رحمت اور چند منٹ کی تفریح ہے اور کسی کے لئے ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی سزا۔” اس کی آنکھوں کے سامنے غسل خانے کی زمین بوس دیوار ناچنے لگی تو آنکھوں میں مرچیں سی بھر گئی تھیں۔
٭…٭…٭
عمر کا سولہواں سال اس کے مزا ج میں خوشگوار تبدیلی لے کر آیا تھا۔ اس کے ہمیشہ خاموش اور ساکت رہنے والے ہونٹ اب مسکرانے لگے تھے۔ شیری کو کہانی سناتے ہوئے وہ خود کو بھی کسی شہزادی کے روپ میں دیکھنے لگی تھی۔ بچپن کے خواب پھر سے تازہ ہونے لگے تھے۔ بس اب فرق صرف اتنا تھا کہ اب ان خوابوں میں کسی اندیکھے شہزادے کا بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ جو کسی دن اُسے کھوجتا ہوا آنکلتا اور اس کا ہاتھ تھامے اُسے ان مصائب اور تکالیف بھری زندگی سے کہیں دور لے جاتا۔
”ایسے ہی ہنستی مسکراتی رہا کرو۔ اتنی اچھی شکل دی ہے مولا نے۔” وہ شیری کو کھلاتے ہوئے کسی بات پر ہنسی تھی تو جنت بوا نے اُس کے گالوں میں پڑتے بھنور دیکھ کر تعریف کی۔ وہ شرما کر رہ گئی۔ دھیمی سی مسکان کے ساتھ اُس نے نظر اوپر اٹھائی تو صاحب جی کو سامنے کھڑا پاکر سنجیدگی سے سرجھکالیا۔ ان کے عقب میں کھڑی بیگم صاحبہ اور ان کے ماتھے کی لکیروں تک اُس کی نظر رسائی حاصل نہیں کرپائی تھی۔
”اس بار تمہاری ماں آئے تو مجھ سے ملوانا ۔ کچھ بات کرنی ہے۔” رات کو وہ جنت بوا سے بالوں میں تیل کی مالش کروانے آئی تو انہوں نے باتوں باتوں میں ہدایت کی۔
”کیا بات ؟” وہ حیران ہوئی۔
”تمہارے متعلق ہے کوئی بات۔” انہوں نے گول مول جواب دیا۔
”کیا غلطی کردی میں نے جنت بوا آپ ان کو میری شکایت لگائیں گی۔” وہ گھبرا گئی تھی۔
بھلا اور اس کی غریب ماں سے کسی نے کیا بات کرنی ہوسکتی تھی۔
”ارے نہیں بھئی۔ شکایت کیوں لگائوں گی تمہاری۔ اُسے کہوں گی کہ اب تمہیں واپس لے جائے۔ جوان لڑکی کو یوں دوسروں کے در پر چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔” انہوں نے بوتل کا ڈھکن بند کرتے ہوئے بالوں کو گوندھ کر چوٹی بنانی شروع کی۔ اس کے بعد سے بیگم صاحبہ نے اُسے بال بڑھانے ہی نہیں دیئے تھے۔ بس کندھوں تک کٹوائے رکھتی تھی۔ شیمو نے اعتراض کیا تو اس نے بہانہ گھڑ ڈالا کہ اس سے سنبھالے نہیں جاتے تھے اس لئے کٹوادیئے۔
”ارے یہ کیا میموں کی طرح کے بال بنائے پھرتی ہے بدبخت۔ کتنی جچتی تھی وہ لمبے بالوں کی چوٹی۔” اس نے غصہ دکھایا تھا۔
”رہنے بھی دو اماں۔ اب فیشن نہیں ہے لمبی چوٹیوں کا۔” اس نے پھر سے بھرم رکھنا چاہا تھا۔ اور شیمو اس کے اس انداز پر کھول کر رہ گئی تھی۔
”اونہہ جھونپڑیوں میں پل کر میموں والے خواب نہ دیکھ۔” وہ سوچ کر رہ گئی تھی۔
”اماں بھی کیا کرے بوا۔ کیسے لے کر جائے مجھے۔ آپ سب کچھ جانتی تو ہیں۔” اس نے ماں کا دفاع کیا۔
”کیوں نہیں لے کر جاسکتی۔ باقی بچے بھی تو اس کے پاس رہتے ہیں۔ پہلے تو چلو قرضے کا معاملہ تھا پر وہ تو سالوں ہوئے اتر بھی گیا ۔ اب کیا مسئلہ ہے؟”
”سالوں پہلے اُتر بھی گیا؟”وہ حیرت سے بت بن گئی تھی۔
”ہاں تو اور کیا۔ مورکھ ایسا کونسا لاکھوں کا قرضہ تھا جو اتنے سالوں بعد بھی نہ اُترتا۔” اس نہج پر تو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
”تو اتنے عرصے میں یہاں بلاوجہ رہتی رہی ہوں۔” اس نے آنکھیں پھاڑیں۔
”مجبوری بیٹا مجبوری۔ تمہاری ماں کی مالی مجبوری۔ ہر باروہ ول میں تمہیں لینے کا ارمان لئے آتی تھی۔ مگر بیگم صاحبہ کی طرف سے ملنے والی تنخواہ کی رقم کی وجہ سے چپ ہوجاتی تھی۔”
”مگر بوا اماں نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ قرضہ اُتر گیا۔ اب وہ مجھے لے جاسکتی ہے۔ وہ لے جانا ہی نہیں چاہتی تھی۔ ٹھیک ہے میں بھی نہیں جائوں گی۔ وہ کاکے کی اماں ہے منی اور ننھی کی بھی ہے۔ بس میری ہی نہیں ہے۔” اس کا دل بدگمانی سے بھر گیا تھا۔
”ارے نہیں پاگل۔ ایسا نہیں سوچتے۔ تم بھی تو اس پر یہی ظاہر کرتی رہی ہو کہ تم یہاں بہت خوش ہو۔ جانا نہیں چاہتی۔ تو اس نے بھی ذکر نہیں کیا۔” انہوں نے اس کا دل صاف کرنا چاہا مگر اس کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں۔
”اچھا چھوڑو۔ تمہاری ماں کو اس بار کہوں گی کہ تمہیں لے جائے اور ہاتھ پیلے کردے تمہارے۔” انہوں نے نیا موضوع چھیڑا تو وہ پھر سے حیرت زدہ ہوگئی۔
”اب یہ خیال آپ کو کیسے آگیا؟”
”بس آگیا نا۔ کیا پتہ تمہاری قسمت میں اللہ نے کوئی شہزادہ لکھ دیا ہو۔ وہ آئے اور تمہیں یہاں سے لے جائے۔” ان کی بات پر وہ شرم سے دوہری ہوگئی تھی۔
”کیسی عجیب باتیں کرتی ہیں بوا۔ میری قسمت اتنی اچھی کہاں بس نام کی ہی شہزادی ہوں۔” اس نے جھکی پلکوں کے ساتھ ہولے سے کہا تھا۔
”نام کی نہیں صورت کی اور سیرت کی بھی شہزادی ہو۔ اللہ قسمت بھی شہزادیوں والی کرے آمین۔ کیا پتہ کوئی شہزادہ تمہارا انتظار کررہا ہو۔” ان کے چھیڑنے کے انداز پر وہ شرم سے دوہری ہوگئی تھی۔
”یہ بتائو وسیم تمہیں کیسا لگتا ہے؟” وہ مطلب کی بات پر آگئیں۔
”کک۔کون وسیم؟” وہ کچھ سمجھ نہ پائی تھی۔
”ارے بھئی وہ صاحب لوگوں کا ڈرائیور۔” ان کے سوال پر وہ حیرت زدہ تھی۔
”مم مجھے کیا پتہ۔ میں نے کبھی اس سے بات نہیں کی۔” اُسے لگا جیسے جنت بوا اُس سے کوئی تفتیش کرنا چاہ رہی تھیں۔
”پر وہ تو تمہیں بہت پسند کرتا ہے۔ بڑا خیال کرتا ہے تمہارا۔” وہ مسکرائیں۔
”نن نہیں بوا قسم سے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں۔ میں نے کبھی اُس سے بات تک نہیں کی۔” وہ رو دینے کو تھی۔
”ارے پگلی۔ میں سب جانتی ہوں۔ میں تو تمہیں بتا رہی ہوں کہ وہ تمہیں بہت پسند کرتا ہے۔جب بھی بیگم صاحبہ تمہیں مارتی ہیں وہ تمہارا بار بار پوچھتا ہے۔ پچھلی بار جب ان کے دھکا دینے پر تمہیں زخم آگیا تھا ناتووہ جڑی بوٹیوں کا مرہم جو میں تمہیں لگاتی تھی وہ اُسی نے لاکر دیا تھا۔ بڑا ہی اچھا لڑکا ہے۔ اس بار اس کی ماں آئی تھی نا تو وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ تمہاری ماں سے بات کروں۔ بڑی ہی نیک اور دکھیاری ہے بے چاری۔ ساتھ والے شہر میں تین کمروں کا گھر ہے ان کا۔ بس وسیم اس کی اکلوتی اولاد ہے۔” وہ اور بھی تفصیلات بتارہی تھیں جبکہ وہ تو حیرت سے بت بن کر رہ گئی تھی۔
”بوا ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آ پ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔”
”وسیم کی ماں تمہیں خود پسند کرکے گئی ہے۔ کہہ رہی تھی میں اپنے بیٹے کی خوشی میںخوش ہوں۔ سچ شہزادی وہ تجھے بڑی عزت سے رکھے گا۔ پیٹ بھر روٹی اور عزت کی چھت سے بڑی اور کوئی نعمت نہیں ہوتی عورت کے لئے۔”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

محبوب چہرہ — محمد جمیل اختر

Read Next

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!