مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (پہلا حصّہ)

”اماں آج کاکا گھر آجائے گا نا؟ میں نے اُس کے لئے دلیا بنایا ہے دودھ والا۔” منی بے حد خوش نظر آرہی تھی۔
”اور اماں پتا ہے ننھی اُس کے لئے اتنی ساری گولیاں اور ٹافیاں لے کر آئی ہے۔”
وہ سامان تھیلوں میں بھرتی ہوئی اماں کی مدد بھی کررہی تھی۔ جو کاکے کے کھانے کے لئے شاپر میں مختلف چیزیں ڈال رہی تھی۔ اماں اُس کی باتوں کے جواب میں صرف سرہلارہی تھی۔
”اور اماں شہزادی کاکے کے لئے کام سے واپسی پر کل لٹو لے کر آئی تھی۔ وہ گول گول گھومنے والا اور چاچا فیقہ کہہ رہا تھا وہ کاکے کے لئے ڈھیر سارے پھل لے کر آئے گا۔ اماں بتا نا آج کاکے کو ڈاکٹر صاحب چھٹی دے دیں گے نا۔” وہ بے حد پرجوش تھی۔ شہزادی تو آپریشن کے دو روز بعد تک ہسپتال ہی رکی تھی مگر ان دونوں کو اماں ایک بار بھی ساتھ لے کر نہیں گئی تھی۔ ایک تو بس کے کرایہ کا بھی مسئلہ تھا۔ وہ خود تو اکثر پیدل چلی جاتی تھی دوسرا ہسپتال میں بھی سختی تھی۔ ساتھ لے جاتی تو چھوڑنے بھی جانا پڑتا۔ جبکہ وہ خود تو سارا سارا دن بھاگ دوڑ میں ہی لگی رہتی تھی۔
”اماں تو کچھ بتاتی کیوں نہیں؟” اس کے واضح جواب نہ دینے پر ننھی کو بھی تشویش لاحق ہوئی۔
”کیا بتاؤں ؟ کہہ تو رہے تھے ڈاکٹر صاحب کہ آج چھٹی دے دیں گے۔ اب مغز نہ چاٹ میرا۔” کئی دنوں کی دوڑ دھوپ اور تھکاوٹ کے باعث وہ مزید چڑچڑی ہوگئی تھی۔
”اماں میں بھی چلوں تیرے ساتھ کاکے کو لینے؟” منی اُس کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ کتنی بار اصرار کرنے پر بھی اماں اُسے لے کر نہیں گئی تھی۔
”کیوں؟ تیرا کیا کام ہے وہاں؟” اس نے تیوری چڑھائی۔
”گھر بیٹھ اور ننھی کا ہاتھ بٹا۔صفائی اچھی طرح کردینا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا زخموں پر جراثیم نہ لگیں ۔ تم دونوں مکھیاں باہر نکال کر دروازہ بند کردینا اور منجی پر وہ نیا والا نرم گدا ڈال دینا۔ ورنہ چبھے گا کاکے کو۔” وہ مختلف ہدایات دینے لگی۔
”اور ننھی کاکے کے کپڑے تو آپ دھونا ۔ یہ تو بس گیلے کرکے تار پر ڈال دیتی ہے۔ بس دعا کرو کہ آج چھٹی مل جائے میرے کاکے کو۔” اس کے لہجے میں زمانہ بھر کی تھکن تھی۔ بھاگ دوڑ اور خرچے نے اُس کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اُسے تو کام سے چھٹی مل گئی تھی مگر شہزادی کی تنخواہ کٹ گئی تھی۔ کئی بار شہزادی اور ننھی نے اُس سے پیسوں کے بارے میں سوال بھی کیا ۔ مگر وہ ہر بار خاموش ہوجاتی تھی۔ جن گھروں میں وہ کام کرتی تھی ان سب سے تو اتنے پیسے ملنا ناممکن سی بات تھی۔
پندرہ بیس دن بعد کاکا گھر آیا تھا۔ ننھی نے جھٹ چارپائی پر نیا روئی بھرا گدا ڈال کر اُسے لٹایا۔ منی اُسے پنکھا جھلنے لگی۔ نرم نرم بستر دیکھ کر اپسے بھی نیند آنے لگی تھی۔ شیمو کے جھڑکنے پر وہ پیالہ بھر کر دلیا لے آئی۔ وہ سب کاکے کو اپنے درمیان بیٹھ کر باتیں کتا دیکھ کر خوش ہورہی تھیں۔ شیمو اُسے چمچ بھر بھر کر دلیا کھلانے لگی جبکہ شہزادی سامان سمیٹنے لگی تھی۔
”اماں یہ پلستر کب کھلے گا؟” کاکا اتنے دن چارپائی پر لیٹ لیٹ کر تنگ آگیا تھا۔
”ابھی تو پورا مہینہ لگے گا پتر۔ جب تک زخم ٹھیک نہ ہوجائیں تو نے بالکل کھیل کو د نہیں کرنا۔ نہ ہی خود سے نیچے اُترنا ہے۔” اس نے دوا دیتے ہوئے اُسے سمجھایا جبکہ کاکا ان ہدایات پر منہ بسورنے لگا تھا۔
منی اُس کے پاؤں کی طرف بیٹھ گئی اور اُسے گزرے ہوئے دنوں کی کہانیاں سنانے لگی۔ آج وہ کاکے کی جگہ اماں کے پاس سورہی تھی۔ کاکے کو تو زخموں اور پلستر کی وجہ سے اماں نے اپنے ساتھ ہی ایک الگ چارپائی پر سلادیا تھا۔ ساتھ ہی لکڑی کی پرانی بدرنگی اور ٹوٹی پھوٹی میز پر اُس کی دوائیاں اور پانی کا کٹورا دھرا تھا۔ ننھی اور شہزادی ایک ہی چارپائی پر لیٹ گئی تھیں۔ کمرے میں موجود سامان کے علاوہ بس یہی تین چارپائیاں تھیں جو بمشکل پوری آئی تھیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

منی اور اماں تو جلدی ہی نیند کی وادیوں میں اُتر گئی تھیں۔ کاکا بھی دوائیوں کے زیر اثر جلدی سوگیا تھا۔ بس شہزادی اور ننھی تھیں جو کھسر پھسر لگی ہوئی تھیں۔
”وہ جو بنگلے والی بڑی بی بی ہیں۔ ویسے تو بہت زکوٰة اور صدقے کے پیسے بانٹتی رہتی ہیں۔ مگر اماں کو تو سو منتوں کے بعد بھی انہوں نے صرف دو ہزار ہی دیئے تھے۔” ننھی اُسے بتانے لگی۔
”اور وہ جو صائمہ بی بی ہیں ۔ وہ بھی دل کی بڑی کھلی ہیں۔ مگر وہ تو ملک سے باہر گئی ہوئی تھیں۔ ان کی ساس تو کسی کو بغیر مطلب ایک پائی نہیں دیتی۔” اس نے برا سا منہ بنایا۔
”تو پھر اتنے پیسے کہاں سے آئے؟ تجھے بھی کسی بیگم صاحبہ نے پیسے دیئے تھے کیا؟” اس کی حیرت اب بھی قائم تھی۔
”توبہ کر۔ مجھے تو کسی بھی باجی نے سو منتوں کے بعد بھی ہزار روپیہ تک نہیں دیا۔ بڑی مشکل سے پیشگی تنخواہ ہی دی تھی۔ مکان کی مرمت اور آپریشن کے اتنے پیسے کون دیتا بھلا۔” اس نے ہنسی اُڑائی۔
”ہاں سچی اماں نے یہ دیوار بھی تو مرمت کروائی ہے غسل خانے کی۔ اس پر بھی تو بڑا خرچا آیا ہوگا۔” اس کی حیرت اب دگنی ہوگئی تھی۔ ننی کی جانب سے کوئی جواب نہ پاکر اس نے اس کا بازو ہلایا۔ وہ نیند میں ہوں ہاں کرکے پھر سے سوگئی تھی۔
وہ بھی اُس کے پاؤں کی طرف جاکر لیٹ گئی اور جلد ہی اُس کی آنکھ لگ گئی۔
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا جب اُس کے سر میں کچھ سرسراہٹ سی ہوئی اور اپس کی آنکھ کھل گئی۔ ساتھ ہی چہرے پر کچھ گرا بھی تھا۔ وہ کروٹ بدل کر سوجانا چاہتی تھی پھر خیال آیا کہ وہ آنگن میں سو رہی ہے اور بارش کے قطرے اوپر گرے ہیں۔ آنکھیں کھولنے پر اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر گھپ اندھیرے میں کچھ سجھائی نہ دیا۔ غور کرنے پر جب آنکھیں اندھیرے سے کچھ مانوس ہوئیں تو ساتھ ہی حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پہلے پہل تو اُسے لگا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے مگر یہ حقیقت تھی کہ اُ کی چارپائی کے ساتھ نیچے شیمو فرش پر اکڑوں بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس پر جھکی وہ اُس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔ جبکہ اُس کی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسو شہزادی کا چہرہ بھگورہے تھے۔ وہ حیرت سے دنگ رہ گئی تھی۔ ہوش سنبھالنے کے بعد تو اُسے ہر گز یاد نہ تھا کہ کبھی شیمو نے اس طرح اُسے یا باقی دو لڑکیوں کو کبھی پیار کیا ہو تو پھر آج کیا معجزہ ہوگیا تھا۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں آنکھیں موندے اُس کا ماتھا چومتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ کچھ بڑبڑا بھی رہی تھی۔ اس نے آنکھیں موند کر اُس کی بڑبڑاہٹ پر کان لگادیئے۔
”ہے تو تو میری بیٹی نا۔ تجھے میں نے پیدا کیا ہے۔ بڑا کیا ہے۔ پھر کیسے اپنے جسم کے ٹکڑے کو کاٹ کر الگ کردوں۔ پر میں کیا کروں میری دھی۔” وہ تھوڑی دیر کو رکی تھی۔
”میں بڑی مجبور تھی میری دھی میری شہزادی۔” وہ کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے اُٹھ بیٹھی تھی۔ اُسے جاگتا پاکر شیمو گھبراگئی تھی۔ اُس نے اُٹھ کر واپس اپنی چارپائی کی طرف جانا چاہا مگر شہزادی نے فوراً نیچے اُتر کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اُس نے ہاتھ چھڑانا چاہا مگر اُس کی گرفت اور بھی مضبوط ہوگئی تھی۔ کوئی کھٹکا کئے بغیر وہ دونوں صحن میں چارپائی ڈال کر بیٹھ گئیں۔
”اماں کیا ہوا ہے؟” اس کے سوال پر وہ نظریں چرا گئی۔ کتنی دیر وہ سوالیہ نظریں لئے اماں کا چہرہ تکتی رہی۔
”اماں بتانا کیا ہوا ہے؟ کاکا تو ٹھیک ہے نا۔ ہڈی جڑ جائے گی نا اُس کی۔” اتنی پریشان تو اماں عموماً کاکے کے لئے ہی ہوا کرتی تھی۔ سو اُسے یہی خدشہ لاحق ہوگیا کہ کاکا ٹھیک نہیں تھا۔
”اماں تو کیا بول رہی تھی؟” وہ سوال پر سوال کئے جارہی تھی جبکہ شیمو کے لب و ا ہوتے اور پھر سے بند ہوجاتے گویا الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ اُس کے بار بار سوال کرنے پر بالآخر اُس نے لبوں کا قفل توڑ ڈالا۔ مگر جو کچھ اُس نے کہا وہ ناقابل یقین تھا۔ اُس کے بار بار دہرانے پر شہزادی کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی تھی۔ اُس کے زور زور سے رونے کی آوازوں سے ڈر کر منی اور ننھی بھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے باہر آگئی تھیں۔ جبکہ کاکا بے سدھ پڑا تھا۔ اینٹوں کے فرش پر بیٹھی وہ سر پیٹ پیٹ کر روتی جارہی تھی جیسے کسی کے مرنے پر بین کررہی ہو۔ جبکہ شیمو اُسے گلے لگائے سسک رہی تھی۔
”کیا ہوا اماں؟” ننھی نے گھبرا کر سوال کیا۔ مگر اُن دونوں کو رونے سے فرصت کہاں تھی جو جواب دیتیں۔
”ننھی منی۔ اماں بہت ظالم ہے۔ بہت سنگدل ہے۔” اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔
اُس کی بات پر وہ حیرت سے اُسے یوں دیکھنے لگیں گویا اُس کی ذہنی حالت پر شک کررہی ہوں۔
”اماں نے مجھے وہ کوٹھی والی باجی کو بیچ دیا ہے۔ سائیں کی اماں کو بیچ دیا ہے۔” اس نے بین کرتے ہوئے بتایا تھا۔
اُس کا یہ جواب سن کر ننھی پر جیسے بجلی گری تھی۔
٭…٭…٭
”بیگم صاحبہ وہ…” شیمو نے التجا بھری نظریں اُٹھائیں۔
”ٹھیک ہے، تم مہینے میں ایک بار آکر اس سے مل لیا کرنا۔ ہم نے کون سا اس سے مزدوری کروانی ہے۔ بس شیری کو کھلانے اور بہلانے کا کام ہی ہے۔ باقی کام کاج کے لئے تو تم دیکھ چکی ہو۔ گھر بھرا پڑا ہے نوکروں سے۔ تمہیں تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمہاری لڑکی اتنے بڑے گھر میں ٹھاٹ سے رہے گی۔” ان کے انداز میں رعونت تھی۔
”بہت بہت شکریہ بیگم صاحبہ۔ اللہ آپ کو ڈھیروں خوشیاں دے۔ آپ کے کاکے کو صحت دے۔ آپ کو اس کی خوشیاں دکھائے۔” اس نے جھولی پھیلا کر دعائیں دیں اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اُسے جانے کے لئے اُٹھتا دیکھ کر وہ بھی ہڑبڑا کر کھڑی ہوگئی اور آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ تھام لیا۔ شیمو نے آہستگی سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور چپلیں پہن کر آہستگی سے دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ اُسے یکدم جیسے ہوش سا آگیا تھا۔
”اماں۔ میری پیاری اماں۔” وہ پکارتی ہوئی اُس کے پیچھے بھاگی۔
”مجھے یہاں چھوڑ کر مت جا۔ اماں اللہ کے واسطے مجھے ساتھ لے جا۔ ” وہ بھاگ کر اُس سے لپٹ گئی تھی۔ شیمو کو اپنا آپ چھڑانا بے حد مشکل لگ رہا تھا۔ جبکہ بیگم صاحبہ کے ماتھے کے بل گہرے ہوتے جارہے تھے۔
”اماں میں تجھے کبھی تنگ نہیں کروں گی۔ مجھے کپڑے نہیں چاہیں۔ بغیر پنکھے کے سوجاؤں گی۔ سوکھی روٹی کھالوں گی۔ تو بے شک میری ساری کتابیں پھاڑ دینا۔ آگ لگا دینا اُنہیں۔” وہ منتیں کررہی تھی۔ دل پر پتھر رکھ کر شیمو نے اُسے اپنے آپ سے الگ کیا تھا۔ اُسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ کاکے کو اینٹوں کے ملبے کے نیچے چھوڑ کر جارہی ہو۔ سانس لینا بھی محال ہوگیا تھا۔
”تمہیں کہا بھی تھا کہ لڑکی کو سمجھا بجھا کر لانا۔ اب یہ یہاں اسی طرح شور شرابہ کرے گی روتی پیٹتی رہے گی تو شیری کو کیا خاک سنبھالے گی۔ اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو تم اسے لے جاؤ بے شک بس کل آکر ہماری رقم واپس کرجانا۔” انداز میں بلا کی حقارت تھی۔
”نن نہیں بیگم صاحبہ میں اسے ابھی سمجھا دیتی ہوں۔ اب یہ بالکل رولا نہیں ڈالے گی۔” اس نے ہاتھ جوڑے۔
”اماں تجھے رب کا واسطہ۔ تجھے کاکے کی قسم۔” وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے اس کے پاؤں پڑ گئی تھی ۔ نیچے بیٹھ کر اُس نے اماں کے پیروں پر سر رگڑنا شروع کردیا۔ شیمو کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا۔بیگم صاحبہ اس تماشے سے اکتا کر اندر چلی گئی تھیں۔ باہر گیراج تک وہ اماں کی منتیں کرتی آئی تھی۔
”بس شہزادی۔” اس نے ہاتھ جوڑے۔ اس کی نگاہیں ماں کے بندھے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی اس کے چہرے تک گئیں۔ ان آنکھوں میں بے بسی کی تحریر رقم تھی۔ کیا نہیں تھا اُس کی آنکھوں میں ؟دکھ، درد، رحم کی اپیل، مامتا کا درد، فریاد ، بے بسی۔ وہ وہیں گڑ گئی تھی۔ اس کے باہر جاتے ہی اس نے اپنے آنسو رگڑ کر صاف کردیئے تھے۔ ورنہ دل تو چاہا تھا کہ منی کی طرح کے ہتھکنڈے اس بار وہ بھی آزماتی اور اپنی بات منوالیتی۔ اُسے جب بھی اماں سے کوئی ضد منوانی ہوتی تھی وہ کاکے کو بددعائیں دینے لگتی۔
”اماں تو بڑی ظالم ہے۔ اگر تو میری بات نہ مانے تو اللہ کرے کاکے کی ٹانگ ٹوٹ جائے۔ گڈی تھلے آجائے۔” اور شیمو تڑپ کر جہاں اُسے چپلیں کھینچ کر مارتی۔ وہیں اُس کی بات ماننے پر بھی مجبور ہوجاتی تھی۔
”مرلے لے۔ سارا تو کھالے۔ کالی زبان والی۔” اور منی چپلیں کھا کر بھی ڈھیٹ بن کر دانت نکالتی رہتی۔ گوہر مقصود جو حاصل ہوجاتا تھا۔مگر وہ منی تو نہ تھی۔
”اگر کاکا نہ رہتا تو میں بھی کیسے جیتی۔” وہ سارا راستہ اُسے قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی تھی۔
”پیسے واپس نہ کئے تو وہ تیری اماں کو تھانے میں بند کروادیں گے۔ پھر تم چاروں کا کیا ہوگا میرے بغیر۔ لوگ کتوں کی طرح نوچ لیں گے۔”
”بس میری دھی ایک دو سال کی بات ہے۔ باجی کا کاکا اپنے آ پ جو گا ہوجائے تو میں تجھے واپس لے آؤں گی۔” عقب میں بہت سی آوازوں کی باز گشت نے اُس کے قدم جکڑ لئے تھے۔ دوپٹے کے پلو سے آنسو رگڑ تی شیمو اُسے صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے محض ایک بار مڑ کر پیچھے دیکھا تھا اور پھر بھاگ کر گیٹ کراس کر گئی تھی۔ چوکیدار نے فوراً دروازہ بند کردیا۔ اس کی آنکھیں ایک بار پھر دھند لاگئی تھیں۔ منی، ننھی، کاکا اماں سب اس قدر شدت سے یاد آئے کہ پلکوں کے بند پھر سے ٹوٹ گئے۔ ابھی تو کاکے کو محض دو روز ہوئے تھے گھر واپس آئے۔ اس نے ابھی اس کے ساتھ جی بھر کر کھیلنا تھا۔ پلستر اُتر جانے کے بعد اُسے پھر سے بھاگتے دوڑتے دیکھنا تھا۔ منی اور ننھی کے ساتھ مل کر آنگن کی صفائی کرنی تھی۔ صندوق میں بند کتابیں یاد آتے ہی اس کے دل سے آ ہ نکلی تھی۔ ابھی تو سینڈریلا والی کہانی بھی پوری نہیں پڑھی تھی۔ اور ان ہی کتابوں کے بیچ رکھے کاکے کے وہ دس روپے۔ اس کی پہلی کمائی جو اس نے امانتاً اس کے پاس رکھوائی تھی۔ بعد میں واپس مل جانے کی امید کے ساتھ ۔ جانے وہ اب کبھی اس کی امانت اُسے لوٹا پاتی بھی کہ نہیں۔ ننھی اور منی کو تو وہ با آواز بلند بے ایمان اور چور کہا کرتا تھا۔
”میں بے ایمان نہیں ہوں کا…” کاکا کہتے ہوئے اس نے زبان دانتوں تلے دبائی۔ اُسے کاکا کہلوانا سخت ناپسند تھا۔ کاکے کی ناراض، روتی بسورتی صورت اس کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی تھی۔
”دیکھ نا اماں۔ اس منی کو ۔ اس نے سب کے سامنے مجھے گلی میں کاکا کہہ کر آواز لگائی۔ سب لڑکے میرا مذاق اڑا رہے تھے۔” وہ سچ مچ رو دینے کو تھا۔
گھر میں ایک شہزادی ہی تھی جو اُس کی بات غور سے سنتی اور سمجھتی تھی۔ ننھی اور اماں تو رات گئے تک کام پر رہتی تھی اور منی تو تھی ہی اُس کی ازلی دشمن۔
”پتہ ہے ننھی۔ وہ کمالا کیا کہہ رہا تھا؟ کہہ رہاتھا جاجا کاکے جاکر اپنے پنگھوڑے میں لیٹ اور چوسنی چوس۔” منی نے اُسے چڑایا تو ننھی بھی ہولے سے مسکرانے لگی تھی۔
”اور بالے نے تو اس پر بالٹی بھر کر پانی پھینک دیا۔ سب مل کر ہنس رہے تھے کہ کاکے تیری نیکر گیلی ہوگئی ہے۔ جاجا کر بدلوا کر آ۔” غصہ کے مارے کاکے نے منہ پھاڑ کر ہنستی ہوئی منی کی چوٹی پکڑلی تھی۔ منی چلانے لگی تھی۔ ننھی نے آگے بڑھ کر دونوں کو الگ کیا اور کس کس کر دو تھپڑ لگائے۔
”مرجا تو۔ اللہ کرے اور کالی ہوجائے۔ بالکل کوے کی طرح۔ پھر تجھے کوئی بڈھا بیاہنے آئے۔ چاچے فیقے کی طرح کا۔” لڑاکا عورتوں کی طرح بد دعائیں دیتی ہوئی وہ بھاں بھاں کرکے رونے لگی تھی۔
سوچوں کے دھارے میں بہتی ہوئی شہزادی سسکتے سسکتے نہ جانے کب کارپٹ پر ہی سو گئی تھی۔
٭…٭…٭
”شازی یہ لو۔ میں تمہارے لئے یہ سوٹ لے کر آئی ہوں۔” ڈھیر سارے شاپرز میں سے ایک بیگم صاحبہ نے اُس کی طرف بڑھایا تھا۔ وہ گھٹنوں میں منہ دیئے ساکت بیٹھی تھی۔
”اور اس میں تمہارے لئے کلپ، چوڑیاں اور کہانیاں ہیں۔ تمہیں اچھا لگتا ہے نا کہانیاں پڑھنا۔”
مسکراہٹ لبوں پر سجائے اُنہوں نے ایک اور شاپر اس کی جانب بڑھایا۔ اس نے بے تاثر چہرہ لئے فوراً وہ شاپر ز تھام لئے تھے۔ مباداً ان کا موڈ بگڑ جاتا اور… اس اور کے آگے اور کیا تھا یہ وہ گزرے ہوئے ایک سال میں اچھی طرح جان گئی تھی بلکہ بھگت چکی تھی۔ مگر پھر بھی وہ بیگم صاحبہ کے پل پل بدلتے موڈ کی وجہ نہیں جان سکتی تھی۔ کبھی وہ مہربان ہوتیں تو اتنی نرم دل لگتیں کہ ان کا مٹھاس بھرا لہجہ اُسے اپنے گھر اور اماں کی یاد بھی بھلا دیتا اور جب غصہ میں آتیں تو ان کے بے رحم ہاتھوں سے پٹتے ہوئے اُسے کہانیوں کی ظالم جادوگرنی یاد آجاتی تھی۔ اُن کے اس بڑے سے محل نما گھر میں اسے اپنے جھونپڑے والے مسائل تو لاحق نہ تھے۔ میز پر ہر طرح کے کھانے سجے رہتے۔ آرام دہ بستر، اے سی والے ٹھنڈے کمرے جہاں اگر کبھی بجلی چلی بھی جاتی تو باہر لگی بڑی سی موٹر آن کرنے سے فوراً واپس بھی آجاتی تھی۔ وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوما کرتی تھی۔ پیدل چلنا اور بس کا سفر تو ماضی کا حصہ بن گیا تھا۔ سخت پتھریلی زمین پر ننگے پاؤں چلنا، گرم حبس زدہ کمرے میں پنکھے کے بغیر سونا اور کھانے کے انتظار میں سوکھی روٹی پانی میں نرم کرکے کھانے کی لذتیں تو وہ کب کی بھول چکی تھی۔ پھر بھی بیگم صاحبہ کا پل پل بدلتا موڈ ہر وقت اس کا خون خشک کئے رکھتا تھا۔ وہ خوش ہوتیں تو اُس کے آگے نئی اور استعمال شدہ چیزوں کا ڈھیر لگا دیتیں اور ناراض ہوتیں تو روٹی کی طرح دھنک کر رکھ دیتیں۔ پھر اُس کا پھوڑے کی طرح دکھتا ہوا جسم ان کی لائی ہوئی مہنگی سے مہنگی چیزیں دیکھ کر بھی اُسے خوش نہیں ہونے دیتا تھا۔ ان کے سامنے تو وہ سانس بھی ڈر ڈر کر لیتی تھی۔ آج صبح کی ہی بات تھی کہ اُن کے اکلوتے سپوت شیری کو وہ بال سے کھلانے میں خود کو تھکا رہی تھی چھے سالہ شیری جس کے لئے اسے اس گھر میں لایا گیا تھا ذہنی طور پر محض دو برس کا تھا۔ اُسے سارا دن اٹھا کر اوپر نیچے بھاگتے دوڑتے اس کا جسم تھکن سے چور ہوجاتا تھا۔ مگر پھر بھی ذرا سی بات پر ناراض ہوکر وہ چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا کرتا تھا اور پھر سارے نوکروں کی شامت آجاتی تھی۔ وہ اُسے بہلاتے ہوئے مارے ڈر کے اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئی ہلکان ہوجاتی۔ کیونکہ بیگم صاحبہ کو اپنے لاڈلے کی ذرا سی ناراضگی آگ بگولہ کردیتی تھی۔ اُس کا نام بھی شیری کو بولنے میں مشکل لگتا تھا سو بیگم صاحبہ نے اُسے شہزادی سے شازی بنادیا تھا۔ شیر ی کو بیک وقت بالنگ اور فیلڈنگ کراتے ہوئے اس نے لمحہ بھر کو دم لینے کے لئے ذرا بال نیچے رکھی ہی تھی کہ اس نے چلا چلا کر اپنا برا حا ل کرلیا تھا۔ غصہ میں اُس نے جو بیٹ پٹخا تو وہ اسی کے پاؤں پر آکر لگا تھا۔ اس کے تو پاؤں کی انگلی ذرا سی سوجی تھی مگر بیگم صاحبہ نے اس با ت پر کوئی قصور نہ ہوتے ہوئے بھی پیٹ پیٹ کر اُس کا سارا جسم سجادیا۔
شام کو اسی غلطی کے مداوے کے طور پر یا شاید اس کے زبان کھولنے کے ڈر سے اس کے لئے چند سو روپے کی شاپنگ کر آئی تھیں۔مگر ان کے چہرے پر شرمندگی کی ایک لکیر تک نہ تھی۔ شاید یہی خوف غالب تھا کہ وہ کام چھوڑ کر چلی نہ جائے۔ اس سے پہلے کتنی ہی کام والیاں شیری کے ضدی رویے اور پھر اوپر سے بیگم صاحبہ کے ظالمانہ سلوک کی وجہ سے کام چھوڑ کر جاچکی تھیں۔ کوئی بمشکل مہینہ بھر ہی ٹکتی تھی۔ خود شہزادی کے محلہ کی پندرہ بیس سالہ نازی بھی بیگم صاحبہ کے قہر کا نشانہ بنی تھی۔ ہفتہ بھر بعد ہی جب وہ زخموں سے چور جسم لئے گھر واپس آئی تھی تو اس کے گھر والوں نے دوبارہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اُسے واپس کام پر بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت بیگم صاحبہ ان کی بستی کے قریبی پوش ایریا میں ہی رہتی تھیں۔ خود شہزادی نے بھی نازی کے جسم پر زخموں کے مندمل ہوتے ہوئے نشان اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ نازی سے اس کی تھوڑی بہت دوستی بھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی نازی نت ان کے گھر کے ماحول کے بارے میں عجیب و غریب قسم کی باتیں کی تھیں۔شیری جسے وہ لوگ سائیں کہتی تھیں،اس کا پاگل پن، بیگم صاحبہ کا چڑچڑاپن، ان کی گھریلو لڑائیاں اور صاحب جی کا نہ سمجھ میں آنے والا رویہ۔ بیگم صاحبہ کے دور دراز علاقے میں منتقل ہونے کے بعد بھی کئی بار انہوں نے اس کچی بستی کے کئی گھروں میں ملازمہ کے لئے بات کی تھی۔خود شیمو سے بھی انہوں نے بارہا شہزادی کے متعلق کہا تھا مگر نازی کی زبان سب حالات سننے کے باعث شہزادی صا ف انکار کردیتی تھی۔ جبکہ شیمو بھی ان کا گھر دور ہونے کے سبب تذبذ ب کا شکار ہوجاتی تھی۔مگر اس کی قسمت نے اُسے یہاں لاپھینکا تھا۔ اب تک وہ ان کے رویہ کی عادی ہوچکی تھی۔ مگر جسم اب تک درد اور مار کا عادی نہیں ہوا تھا۔ ہر بار کا زخم پہلے ہی کی طرح درد دیتا تھا۔
گھر میں ایک شیری ہی تھا جس سے وہ پیار محبت سے پیش آتی تھیں یاپھر جنت بوا جوان کے جہیز کے ساتھ اس گھر میں آئی تھیں۔ ورنہ تو اکثر وہ صاحب پر بھی چیختی چلاتی، غصہ کرتی ہی دکھائی دیتی تھیں۔ نوکروں کو تو وہ ذرا سی بات پر چراغ پا ہوکر بری طرح بے عزت کردیا کرتی تھیں۔
اکثر وہ اُسے ذہنی مریضہ لگتی تھیں۔ وہ بہت محتاط رہا کرتی تھی۔ پورے گھر میں ایک جنت بوا ہی تھیں جن سے وہ دل کھول کر بات کرلیا کرتی تھی۔ ورنہ باقی سب نوکروں کے ساتھ وہ ضرورتاً ہی بات کرتی تھی۔ جنت بوا نے اُسے بیگم صاحبہ کی کسی بھی بات پر بحث کرنے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا۔ اُن ہی کی زبانی اُسے معلوم ہوا تھا کہ وہ شیری کے معاملے میں اس قدر حساس بھی اس لئے تھیں کہ وہ ان کی پہلی اور آخری اولاد تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

محبوب چہرہ — محمد جمیل اختر

Read Next

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!