اماں نے عید کے لئے اُسے جو فراک دیا تھاوہ دِکھنے میں نیا ہی لگتا تھا۔ شاید دو تین بار ہی استعمال میں آیا تھا۔ رات کو سب کے سوجانے کے بعد وہ اپنے بیگ میں سے اس جالی کے پھولے ہوئے فراک کو نکال کر دیکھتی۔ نرم و ملائم فراک پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اس کی گردن فخر سے اکڑ جاتی۔ بڑی ہی بے صبری سے وہ عید کا انتظار کررہی تھی۔ تب ہی اس کے دماغ میں ان چاندی اور گلابی چوڑیوں کا خیال آیا جو اس نے چند دن پہلے ایک دکان پر دیکھی تھیں۔ آدھے بازو والے فراک کے ساتھ میچنگ چوڑیوں کا سیٹ پہنے وہ تصور میں خود کو کسی سچ مچ کی شہزادی کے روپ میں دیکھا کرتی۔ بڑی بی کی دی ہوئی جو چند کہانیاں اس کے پاس جمع تھیں ان میں تصویریں بھی تھیں۔ وہ تصویر میں بنی ہوئی شہزادی کے کپڑے جوتے اور عالیشان محل دیکھ کر ان میں کھوسی جاتی تھی۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جھونپڑیوں کے کھردرے فرش اور محلوں میں مخمل کے بستروں پر سونے والوں کے خواب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ کاکے کو بہلاتے ہوئے وہ خود سے گھڑ کر اُسے کوئی کہانی سنانے لگتی۔ جس میں وہ خود تصویروں والی شہزادی کا روپ دھارے بیش قیمت لباس ، ہم رنگ چوڑیاں پہنے نہایت شان سے اپنے محل میں گھوما کرتی تھی۔ اس کے کمرے میں کھلونوں ، کتابوں اور قیمتی چیزیوں کا انبار لگا ہوتا۔ ننھی اور منی کے پاس بھی انواع اقسام کے کھانے، اور کھلونے ہوتے۔ کاکا بھی کسی شہزادے کا روپ دھارے چابی والے کھلونوں سے کھیلتااور بجلی کے جھولوں میںجھولتا۔ اماں کے اردگرد نوکرانیوں کا ہجوم ہوتا جن پر وہ ٹھاٹ سے حکم چلاتی۔ بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر وہ لوگ گھومنے جاتے۔ ابھی عید آنے میں کچھ دن باقی تھے۔ ہر بار وہ چوڑیوں والی دکان کے سامنے پہنچ کر ان کے سحر میں جکڑی جاتی ۔ قد م جم سے جاتے تھے۔
تب ہی کسی کوٹھی والی بیگم صاحبہ نے اُسے معاوضہ کے عوض کام پر بلوایا تھا۔ صبح سویرے اس نے اماں اور ننھی کے کام پر روانہ ہوتے ہی منی کو آئس کریم کا لالچ دے کر کاکا اس کے حوالے کیا۔ اماں سے ذکر نہ کرنے کا کہہ کر وہ کام پر آگئی۔ ڈھیر ساری چادریں، پھول، گلدان دھوتے ہوئے اس کے ہاتھ دکھنے لگے تھے۔ مگر چوڑیوں اور کہانیوں کا تصور ہی اُس کے تھکے ہوئے جسم کے لئے ایندھن کا کام کررہا تھا۔ جب وہ تھکی ہاری کام سے فارغ ہوئی تو سورج سوا نیزے پر تھا۔ بیگم صاحبہ نے کھانا اُس کے آگے رکھا تو بھوک اور بھی چمک اُٹھی۔ مگر پیسوں کا تصور کرتے ہوئے کھانا بھی اُس نے بے حد عجلت میں ختم کیا۔
آخری کام کے طور پر قربانی کے بکروں کی مہندی دھلاتے ہوئے اُس نے جھاڑو لگایا۔ اب اُس کی نظریں اندر کمرے کی جانب مرکوز تھیں۔ جہاں بیگم صاحبہ گئی تھیں۔ انہوں نے چند نوٹ لاکر اُس کی ہتھیلی پر رکھے تو اُنہیں گنتے ہوئے اُس کے مردہ وجود میں جان سی پڑگئی۔ اتنے پیسے تو اس کی توقع سے کچھ زیادہ ہی تھے۔ خوشی سے جھومتی ہوئی وہ بھاگم بھاگ چوڑیوں والی دکان پر جاپہنچی۔ ہاتھ میں رقم آئی تو کانچ کی گلابی چوڑیوں کی رقم یکدم مانند سی پڑگئی۔
”اتنی بھی اچھی نہیں ہیں؟” اس نے اُنہیں رد کیا۔
”یہ سیٹ کتنے کا ہے؟” اس نے دھات کے سلور اور گلابی نگوں والے سیٹ کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ دکاندار نے اُس کا ہاتھ پیچھے کیا۔
”ہاتھ کیوں لگارہی ہء شیشے پر نشان پڑجائیں گے۔” انداز میں حقارت تھی۔
چوڑیوں میں جڑے ہوئے نگ ہیروں کی مانند لشکارے مار رہے تھے۔
”دوسو کا۔” اُس نے ایک نظر مٹھی میں دبے ہوئے پیسوں اور دوسری چوڑیوں پر ڈالی۔ پھر اُس کی نظر میں منی اور کاکے کے چہرے گھوم گئے۔ ان چوڑیوں سے رخ موڑ کر اُس نے پہلے والے گلابی سیٹ کی ہی قیمت پوچھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”ستر روپے کا ہے۔” اتنے پیسوں میں یہ سیٹ خرید کر وہ باقی کی رقم سے اور چیزیں بھی خرید سکتی تھی۔
سیٹ خرید کر وہ کھلونوں والی ریڑھی کی طرف بڑھی۔ چابی اور سیلوں والے کھلونوں کی قیمتیں پوچھ کر اُس نے مایوس ہوتے ہوئے کاکے کے لئے ایک باجا خرید لیا۔ سارا بازار خرید لینے کی اُس کی خواہش اب جھاگ کی مانند بیٹھ چکی تھی۔ بازار میں گھومتے ہوئے اُس کی نظر چپل والی ریڑھی پر پڑی تو نگاہوں میں اماں کی چپل گھوم گئی جو اس قدر بوسیدہ تھی کہ منی کی خبر لیتے ہوئے ٹوٹ گئی تھی۔ اتنے دن سے وہ ٹوٹی ہوئی چپل ہی پاؤں میں زبردستی اڑائے پھر رہی تھی۔ دن میں کتنی بار اُس کے سیاہ، کھردرے پیروں میں تنکے اور کنکر چبھ جاتے۔ مگر وہ اُنہیں ہاتھ سے نکال کر پھر سے اُسی میں پیر گھسیڑ لیتی۔ ہیل والے ٹک ٹک جوتوں پر حسرت بھری نظر ڈالتے ہوئے اُس نے اماں اور ننھی کے لئے پلاسٹک کی چپلیں خرید لیں۔ آئس کریم والے سے دو کپ خرید کر وہ ساری رقم خرچ کرچکی تھی۔ گھر پہنچ کر وہ اور منی دونوں چمچ بھر بھر کر خوشی سے آئس کریم کھانے لگیں۔ ٹھنڈی میٹھی آئس کریم نے اندر تک ٹھنڈاُتار دی تھی۔ کاکا سو کر اُٹھا تو باجا منہ میں ڈالے مارے خوشی کے صحن میں گھومنے لگا۔ اماں اور ننھی کی چپل اور اپنی چوڑیاں اس نے اپنے کپڑوں والے بیگ کے نیچے پڑی ہوئی پیٹی میں چھپا کر رکھ دی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ چوڑیاں نکالتی اور فراک کے ساتھ اُنہیں رکھ کر دیکھتی۔ پھر منی کے آنے کے ڈر سے چھپا دیتی۔
”را ت کو جب سب سوجائیں گے تو پہن کر دیکھوں گی۔” اس نے مطمئن ہوکر سرہلایا۔
”اگر میں ہفتے میں ایک دو باری کسی باجی کے گھر کام کرنے چلی جایا کروں اماں سے چھپ کر تو مہینے میں کاکے کے لئے چابی والا ایک کھلونا، منی کے لئے آئس کریم اور چھوٹی موٹی چیزیں خرید کر بھی ہزار روپیہ بچا سکتی ہوںاور ہر ہفتے کہانیوں کی ایک کتاب بھی۔” کتابوں والی دکان بند ہونے کی وجہ سے وہ کہانی خریدنے کی خواہش کو دل میں ہی دبا کر رہ گئی تھی۔
”میرے اللہ ہزار روپیہ!” انگلیوں پر حساب کتاب لگاتے ہوئے وہ ریت کے محل تعمیر کئے جارہی تھی۔
”اتنے پیسو ں میں تو میں اور کاکا دونوں سکول جاسکتے ہیں۔ منی اور ننھی کو تو کتابیں ویسے بھی زہر لگتی ہیں۔ نہ اُن کا پڑھنے کو دل کرتا ہے۔ چلو پھر بھی وہ گھر پر ہی مجھ سے پڑھ لیں گی۔ اس کے بعد اماں غسل خانہ بھی پکا کروا سکتی ہے۔ سلائی مشین بھی لے سکتی ہے۔” ذہن میں جمع تفریق کرتے ہوئے وہ انڈوں کی ٹوکری سر پر رکھے اونچے اونچے محل تعمیر کئے جارہی تھی۔
”کاکے کے داخلے میں تو پھر ابھی بڑا ٹیم ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلی عید پر ہم سب نئے کپڑے لیں گے۔ نئی چوڑیاں بھی اور اگر میرا کام زیادہ چل پڑا تو اماں سے کہہ کر ایک چھوٹا سا بکرا بھی لے لیں گے۔ ثواب ملے گا۔”
خیالوں ہی خیالوں میں وہ دو گز کے صحن میں بکرے کی رسی تھامے کھڑی تھی۔ ننھی اور منی اُسے چارہ کھلارہی تھیں۔ اماں پرات میں مہندی گھول رہی تھی۔ اور کاکا بکرے کو دیکھ کر آنگن میں خوشی سے تالیاں بجاتا ہوا ”مم مم میں میں ” کی آوازیں نکال رہا تھا۔
٭…٭…٭
شام ڈھلے شیمو گھر میں داخل ہوئی ۔ ننھی بھی ہمراہ تھی۔ کاکے کے ہاتھ میں نیا نکور باجا دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی۔ پھر اُس کی نظر منی اور شہزادی پر پڑی جو شوخی سے ابھی تک آئس کریم والے کپ لہرا رہی تھیں۔ لفافہ اُٹھائے وہ اٹھلاتی ہوئی باقی چیزیں بھی باہر لے آئی۔ چوڑیاں لفافے میں ہی چھوڑتے ہوئے اُس نے چپلیں باہر نکال کر فرش پر رکھیں۔
”ارے یہ کون لایا ہے؟ کہا ں سے آئیں اتنی چیزیں۔” وہ حیران رہ گئی۔
”اماں یہ سب شہزادی لائی ہے۔” منی کی آواز میں بھرپور شوخی تھی۔
”ارے کم بخت کیا لاٹری نکل آئی تھی؟ کہاں سے لائی اتنے پیسے؟” وہ برس پڑی۔
”اماں میں نے کام کیا ہے خود کمائے ہیں۔” وہ کہنا چاہتی تھی ۔ مگر ہونٹ ہی نہ ہل رہے تھے۔
”کمینی۔ مردود چوری کی ہے تو نے۔”
”چوری۔” لفظ تھا کہ چابک حلق سے نکلتی ہوئی آواز ساتھ چھوڑ گئی تھی۔
”بتا مجھے چوری کی ہے تو نے؟ اور دکھا یہ پیچھے کیا ہے۔” اماں وہی چپل ہاتھ میں لئے اُس کی طرف لپکی۔ چوڑیاں سنبھالتی ہوئی وہ اندر کی جانب بھاگ کھڑی ہوئی۔ مگر اماں نے کَس کر نئی چپل اُس کی کمر میں ٹھوکی۔ ہاتھ میں موجود لفافے پر گرفت مضبوط کرتی ہوئی وہ دروازے سے ٹکرائی تھی۔
”چھن۔” آوا ز کے ساتھ ہی چوڑیاں صحن میں بکھر گئی تھیں۔ پلکیں جھپکائے بغیر وہ ان بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو دیکھ رہی تھی۔ ریت کا محل ڈھے چکا تھا۔ انڈوں کی ٹوکری بیچ راستے میں ہی پھوٹ گئی تھی۔
اماں کی چپل پھر اُس پر برسی۔
”اماں میں نے مزدوری کی تھی۔” اُٹھا ہوا ہاتھ فضا میں معلق ہوگیا تھا۔ چوڑیوں کے ملبے پر بیٹھ کر وہ ماتم کئے جارہی تھی۔
٭…٭…٭
وقت پر لگا کر اُڑ رہا تھا۔ اب اُس کے تھوڑا بڑا ہوجانے پر اماں اُسے الگ سے کام پر بھجوادیا کرتی تھی۔ واپسی پر وہ ساری کمائی اماں کے ہاتھ میں لا دھرتی۔ چوڑیوں کے شوق کو اُس نے گزرے ہوئے وقت کی دھول میں دفنا دیا تھا۔ بلکہ چوڑیوں کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ دانستہ سر جھکا کر چال تیز کرلیتی تھی کہ مڑ کر دیکھنے پر کہیں پتھر کی نہ بن جائے۔ کا کا دن بھر گلی محلہ کے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا اور منی گھر کا تھوڑا بہت کام نمٹا دیا کرتی تھی۔ جب اُسے کسی بیگم صاحبہ کے گھر سے کوئی استعمال شدہ چیزیں بھی مل جاتیں تو وہ ضرورت کا ایک جوڑا رکھ کر باقی سب بانٹ دیا کرتی تھی۔ خود اپنے لئے وہ کسی ردی والے سے کہانیوں کی کتابیں لے کر رکھ لیتی۔
”اری تو نے کیا کہیں پر افسر لگنا ہے یا اُستانی بننا ہے۔ کیا ڈھونڈتی ہے ان کتابوں میں؟ چار پیسے بچا کر رکھ سچ مچ کی شہزادی نہ بن۔” اماں کو اُس کے نام سے بھی خدا واسطے کا بیر تھا جو اُس کی دادی نے بڑے چاؤ سے رکھا تھا۔ اماں کی گھن گرج سے ڈر کر وہ یہ کتابیں اپنے بیگ میں چھپا دیا کرتی کیونکہ چوڑیوں کا حشر اُسے اب تک یاد تھا۔ اکثر کوڑے کی ٹوکریاں خالی کرتے ہوئے وہ پنسلوں، ربڑ کے بچھے کھچے ٹکڑے سنبھال کر اپنے پلوسے باندھ لیا کرتی تھی۔ کبھی کسی فٹ پاتھ یا ردی والے سے کوئی کتاب خرید لاتی اور رات کو چھپ کر دیکھا کرتی۔
برسات کی گرمی اور جس سے گھبرا کر وہ رات کو صحن میں بیٹھ جاتی تھی۔ وہاں بھی کونسا اے سی چل رہے ہوتے تھے۔ مگر اندر تو گھٹن سے سونا محال تھا۔ گزشتہ کئی راتوں سے بارش ہورہی تھی۔ ننھی اور اماں کے ساتھ اُس کی ساری رات ٹپکنے والی چھت کے نیچے بالٹیاں رکھنے اور سامان ادھر اُدھر کرنے میں گزر جاتی۔ نشیبی علاقہ ہونے کی وجہ سے پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہ تھا۔ پانی کے ساتھ محلہ بھر کا کوڑا کرکٹ اور گھر کے کونوں میں چھپے حشرات الارض بھی پورے گھر میں تیر رہے ہوتے۔ ڈر کے مارے وہ چارپائی پر چڑھ جاتی۔
گھنٹہ بھر پہلے اماں اور ننھی پانی باہر نکال کر سوئی تھیں۔ باہر موسلادھار بارش پھر شروع ہوگئی تھی۔ وہ کچن کے اندر کھڑی اپنی کتابوں میں گم تھی۔ ٹین کی چھت پر گرتا پانی خاصا شور مچارہا تھا۔ کاکا ابھی تک گھر واپس نہیں آیا تھا۔ اُسے بے حد فکر ہورہی تھی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اماں نے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں اُس کی بابت سوال کیا تھا جس پر اُس نے کاکے کے غسل خانے میں ہونے کا بہانہ کردیا تھا۔
”کاکے کہاں رہ گیا تھا؟ اتنی دیر کیوں کردی تو نے؟” دس بجے کے قریب کنڈی کھڑکنے پر اُس نے دروازہ کھولا ۔ اندر سب سوچکے تھے۔ اس نے کاکے کو گھورتے ہوئے دل میں شکر کا کلمہ پڑھا۔
”کتنی بار بولا ہے مجھے کاکا نہ کہا کر۔ سب لڑکے مذاق اڑاتے ہیں میرا۔” اُس نے جواباً تیوری چڑھائی۔
”اچھا اچھا۔ تو عمران باؤ کدھر مر گیا تھا تو ؟” اُسے پھر بھی بھائی پر پیار ہی آیا۔
”یہ دیکھ۔” اس نے قمیض کی جیب سے بڑی سی چاکلیٹ نکال کر اُس کے سامنے لہرائی۔
”یہ کہاں سے لے آیا تو؟”
”آج چاچا فیقہ نے اپنی ہٹی پر بٹھا دیا تھا۔ خود اُسے مال خریدنے جانا تھا۔ میں نے خود شام تک سب کو سودا تول تول کردیا۔ واپس پر چاچے نے مجھے پورے وی روپے دیئے۔” اس نے فخر سے اپنا کارنامہ بتایا اور ساتھ ہی جیب سے دس کا نوٹ برآمد کرکے لہرایا۔
”اچھا چل اب جاکر لیٹ اپنی منجی پر۔ اماں نے کتنی دیر پہلے تیرا پوچھا تھا تو میں نے تیرے غسل خانے میں ہونے کا بہانہ کردیا تھا۔” اس نے ہاتھ سے اُسے اندر دھکیلا۔
”تو میرے یہ دس روپے سنبھال کر رکھ لے۔” اسے شہزادی کے علاوہ اور کسی پر بھروسہ نہیں تھا۔ منی کو دیتا تو وہ فوراً خرچ کردیتی اور ننھی کے حوالے کرتا تو وہ فٹ اماں کو دے دیتی۔ بس ایک وہی تھی جو ایسے مواقع پر کام آیا کرتی تھی۔ اُس کے پیسے اپنی کتاب میں رکھتے ہوئے وہ اُسے جلدی آنے کی تاکید کرتی ہوئی کمرے میں آگئی۔ جبکہ وہ چاکلیٹ کھانے کیلئے اُدھر ہی رک گیا تھا۔ ابھی اُس کی بمشکل آنکھ لگی ہی تھی کہ ایک دھماکے کی آواز نے سب کو بیدار کردیا تھا۔ لگتا تھا جیسے پورا گھر ہل گیا ہو۔
”کیا ہوا اماں؟” منی ڈر کے مارے اماں سے چمٹ گئی۔ جبکہ ننھی نے جو اُس کے برابر میں لیٹی ہوئی تھی۔ اُس کا ہاتھ سختی سے پکڑلیا۔ گھپ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ دو دن سے لائٹ بھی نہیں تھی۔ اچانک اُسے شدید گھبراہٹ کا احساس ہوا۔ گھر کے مکینوں میں سے کسی کی کمی کے احساس نے اُس کے رونگٹے کھڑے کردیئے تھے۔
”نواں خرچا۔ لگتا ہے کہ غسل خانے اور کچن کے بیچ کی دیوار گر گئی ہے۔” شیمو نے فکر مندی سے موم بتی جلائی۔ موم بتی کی روشنی میں اس نے کمرے میں نگاہ دوڑائی تو اس کا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ باہر کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ لگ رہی تھی۔
”کاکے۔ وے کاکے۔” سب کو حیرت زدہ چھوڑ کر دیوانہ وار چیختی ہوئی وہ ننگے پیر باہر بھاگی تھی۔
٭…٭…٭
کاکے کے خون میں لت پت وجود پر نظر جمائے وہ ہسپتال کے برامدے میں اُس کے سرہانے کھڑی تھی۔ اس کے ساکت وجود میں صرف اس کے حرکت کرتے ہوئے ہونٹ کچھ ورد کررہے تھے۔ ہسپتال پہنچے اُنہیں گھنٹہ سے اُوپر ہوگیا تھا۔ سٹریچر پر کاکے کو لٹا کر شیمو ڈاکٹر کی تلاش میں مار ی ماری پھر رہی تھی۔ مگر دور دور تک ڈاکٹر تو کیا کسی نرس کا بھی نام و نشان نہ تھا۔
اس کے دیوانہ وار اینٹوں کے ملبے کی طرف بھاگتے اور پھر اُسے اُٹھانے کی ناکام کوشش کرتے دیکھ کر باقی تینوں بھی بھاگ کر باہر آئی تھیں۔ اینٹوں کے اس ڈھیر میں سے باہر نکلا ہوا خون آلودہ ہاتھ پکڑے وہ چیخیں مار رہی تھی۔ کاکے کے ہاتھ میں چاکلیٹ کا خالی ریپر ابھی بھی دبا ہوا تھا۔ شیمو اور ننھی دھواں دار روتے ہوئے اینٹیں اُٹھا کر پھینک رہی تھیں جبکہ منی ان کے کہنے پر واویلا مچاتی پڑوس میں سے کسی کو مدد کے لئے بلانے بھاگ کھڑی ہوئی تھی۔ کاکے کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے اُس نے اُس کی نبض ٹٹولی اور پھر کچھ سمجھ نہ آنے پر شیمو اور ننھی کی مدد کرنے لگی۔
”اماں صدقے اماں واری۔ میرے کاکے پر رحم کر میرے ربّا۔” شیمو اُس کے خون آلودہ جسم کو گو دمیں اُٹھائے چومنے لگی۔ اس کے کپڑے خون میں لتھڑے تھے اور آنکھیں بند تھیں۔ شیمو نے اُس کی سانس چیک کی۔ اُس کے زندہ ہونے کا ثبوت پاکر اُس کے مردہ وجود میں جان پڑگئی تھی۔ منی پڑوس سے لوگوں کو بلا لائی تھی۔ دونوں کو وہ ساتھ والی خالہ کے پاس چھور کر رکشہ میں کاکے اور شہزادی کو لے کر ہسپتال پہنچ گئی تھی۔ سارا راستہ شیمو اپنے دوپٹے سے اس کے زخموں سے رستا ہوا خون صاف کرتی رہی۔
”بھائی صاحب ۔ ڈاکٹر کو بلاؤ جلدی۔” استقبالیہ پر موجود آدمی فون پر مصروف تھا۔
”بی بی اس وقت ڈاکٹر نہیں ہے۔ صبح آنا۔” اس نے رخ موڑے بغیر درشتی سے کہا۔
”میرے کاکے کی حالت دیکھو جی۔ صبح تک کچھ ہوگیا تو۔” اس نے چیخ کر کہا۔ ناگواری سے اس آدمی نے اُسے دیکھا اور کاکے پر بھی سرسری نظر ڈالی۔ پھر حالات کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے اس نے کال کرکے اسٹریچر منگوایا۔ اُنہیں نرس کے آنے کا انتظار کرنے کا کہہ کر وہ دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
”یا اللہ میرے بچے کی حفاظت فرما! کیسے سنگدل لوگ ہو تم۔ تم لوگوں کے اپنے بچے نہیں ہیں کیا؟”شیمو ان کی بے حسی پر چلا اُٹھی تھی۔ اُسے کاکے کے پاس چھوڑ کر وہ خود ہی ڈاکٹر کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی تھی۔ کافی دیر بعد ایک کمرے سے نرس برآمد ہوئی تھی۔ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوئی شہزادی اس کی طرف لپکی۔
”باجی میرا بھائی بہت زخمی ہے۔ اسے بچالو۔ اللہ کے واسطے۔” نرس نے اسٹریچر اندر کمرے میں منگوا کر روئی سے اُس کا خون روکنے کی کوشش شروع کی تھی۔ اس کے بعد اس نے زخم صاف کرکے جگہ جگہ پٹی باندھ دی تھی۔ اتنی دیر میں اماں سفید کوٹ والے ڈاکٹر کے پیچھے چلتی ہوئی اندر آئی۔ وہ اب کاکے کو چیک کرنے لگا۔
”ڈاکٹر جی ہڈی تو بچ گئی ہے نا۔” ٹانکے لگتے دیکھ کر اس نے سوال کیا۔
”بی بی چپ کرکے بیٹھو۔ شور مچا کر تم نے پورا ہسپتال سر پر اُٹھا رکھا ہے۔ اب اگر تم بولی تو میں باہر نکال دوں گا۔ ہمیں آرام سے اپنا کام کرنے دو۔” ٹانکے لگاتی نرس نے سختی سے جھڑکا۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کرنے کے بعد اب کاغذ پر کچھ لکھنا شروع کردیا تھا۔ نرس نے کاکے کو درد اور نیند کے انجکشن لگادیئے تھے۔
”پورے جسم کا ایکسرے کروانا پڑے گا۔ مگر فی الحال تم یہ گلو کوزکی بوتل اور دوائیں خرید لاؤ۔” نرس نے اُسے چٹ پکڑا کر اب ہدایات دے رہی تھی۔ کاکے کو وارڈ میں شفٹ کردیا تھا۔ گھٹن زدہ اور بدبو دار وارڈ میں مریضوں کی حالت دیکھ کر اس کی اپنی حالت ابتر ہورہی تھی۔ گلوکوز کی بوتل اسٹینڈ فارغ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑکی کے ہینڈل سے لٹک رہی تھی۔ جس میں سے گلوکوز قطرہ قطرہ اس کے جسم میں جارہا تھا۔ کچھ ابتدائی ٹیسٹ کرکے نرس نے خون کا انتظام کرنے کا بھی کہا تھا۔
بمشکل خون کی ایک بوتل کا انتظام کرنے کے بعد وہ خالی ہاتھ لئے وارڈ بوائے سے دوائیوں کا پوچھ رہی تھی۔
”میں غریب بیوہ عورت ہوں جی۔ ایک ہی کاکا ہے میرا۔ دوائیوں کے لئے اتنے پیسے کہاں سے لاؤں۔” میڈیکل سٹور سے تو وہ دوائیوں کی قیمت پوچھ کر ہی لوٹ آئی تھی۔
”کیا کیا جاسکتا ہے بی بی۔ ادھر سرکاری اسپتالوں میں کونسے لینڈ لارڈ آتے ہیں۔ ادھر سب کا یہی دکھڑا ہے۔” اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
”سرکاری اسپتالوں میں تو دوائیاں مفت ملتی ہیں نا جی۔ علاج مفت ہوتا ہے سارا۔” شہزادی نے آگے بڑ ھ کر اپنی معلومات کا رعب جھاڑنا چاہا۔
”اچھا تمہیں یہ کس نے بتایا؟” اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا تو وہ جھجک گئی۔
”وہ جی میں نے ٹی وی پر سنا تھا۔” وہ منمنائی تھی۔
”بال سفید ہونے کو آئے۔ میں نے نہیں دیکھا ایسا اسپتال کبھی۔” اس کی باتوں پر محظوظ ہوتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا تھا۔
”کوئی صدقے ، کوئی زکوٰة کا کھاتا تو ہوتا ہوگا نا صاحب جی۔ ہم جیسے لاچار غریبوں کے لئے۔” شیمو اس کے پیچھے ہی گئی تھی۔
”ہاں ہے۔ مگر سب کھاتے، کھاتے پیتوں کے لئے ہوتے ہیں۔ جاؤ کوئی جان پہچان ڈھونڈ کر لاؤ اور میرا دماغ نہ کھاؤ اب۔” وہ اب چڑسا گیا تھا۔
٭…٭…٭
دن چڑھ آیاتھا ۔ مگر کاکا ابھی بھی دوائیوں کے زیر اثر بے سدھ پڑا تھا۔ ہسپتال کی ایکسرے مشین بھی خراب تھی اور جو دستیاب تھی اس پر مریضوں کی لمبی لائنیں اور کئی دن بعد کی ڈپٹ۔ ڈاکٹر نے اُنہیں باہرسے ایکسرے کروانے کا مشورہ دیا تھا۔ وہ دونوں بیڈ کے ساتھ نیچے بیٹھیں کاکے کی صحت یابی کے لئے دعائیں کررہی تھیں۔ اُس کے آنکھیں کھولنے پر دونوں نے شکر ادا کیا تھا۔
”اماں ، اماں۔ ہائے ہائے اماں۔” اس نے جیسے ہی ہلنا چاہا اس کی چیخیں پورے وارڈ میں گونجنے لگی تھیں۔ وہ دونوں دل تھام کر رہ گئیں۔
”اماں بہت درد ہے۔” اس کا ٹوٹا پھوٹا جسم درد سے بے حال ہورہا تھا۔ درد کی شدت سے وہ چیخ چیخ کر رونے لگا۔
”میں صدقے، میرا پتر، نہ رو پتر۔” وہ آگے بڑھ کر اُس کا ماتھا سہلانے لگی۔ جگہ جگہ زخم ہونے کے سبب اُسے گود میں بھی نہیں اُٹھا سکتی تھی۔ اُسی وقت شیمو کے واویلا کرنے پر کمپاؤڈر آکر اسے درد اور نیند کا انجکشن لگا گیا تھا۔ درد سے کراہتے ہوئے اس پر پھر غنودگی طاری ہونے لگی۔ شیمو کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا جبکہ شہزادی بھی روتے ہوئے بیڈ کے کونے سے لگی کھڑی تھی۔ اپنے خراش زدہ ہاتھوں سے وہ اُس کے پیر ملنے لگی۔ نرس چیک کرنے آئی تو سختی سے اُنہیں جلد از جلد ایکسرے کروانے کی تاکید کرکے گئی۔ ورنہ اس کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا تھا۔ اتنے سارے ایکسرے پرائیوٹ کروانے کی ساکت کہاں تھی مگر سوال اس کے بیٹے کی جان کا تھا سو وہ شہزادی کو کاکے کے پاس چھوڑ کر پیسوں کا انتظام کرنے چلی گئی۔
”گھر میں تو کچھ بھی نہیں رکھا ہوا۔ اماں بے چاری پیسے کہاں سے لائے گی۔” وہ بھی خاصی پریشان تھی۔ دوپہر تک جاکر شیمو پیسوں کا انتظام کرکے واپس آئی۔ ایکسرے کی رپورٹ اگلے دن ملنی تھی۔ ”میرے کاکے کی حالت بڑی خراب ہے جی آج ہی رپورٹیں دیدو۔” اس نے منت سماجت کی۔ ”اماں ایک تمہارا کاکا ہی تو نہیں ہے نا۔ رپورٹ تو باری سے ہی ملے گی۔” رکھائی سے جواب ملا تھا۔ ڈاکٹر نے اُسے صرف نرم غذا کھلانے کی ہدایت کی تھی۔ رات سے اب تک شیمو کی اچھی خاصی رقم خرچ ہوچکی تھی۔ وہ بھی اس نے ہزاروں منتوں اور وعدوں کے بعد کہیں سے ادھار لی تھی۔ اب پر ہیزی غذا کا بندوبست کہاںسے کرتی۔ ہسپتال میں ملنے والا کھانا تو بھلے چنگے بندے کے حلق سے بمشکل اترتا تھا۔ وہ شش و پنج میں پڑگئی تھی۔ اِدھر اُدھر سے ادھار اور ایڈوانس لے کر اُس نے اگلے دو دن گزارے۔ شہزادی مسلسل دو دن سے کاکے کے سرہانے لگی بیٹھی تھی۔ کیونکہ شیمو کو تو بھاگ دوڑ سے ہی فرصت نہ تھی۔ ننھی کا کام پر جانا بھی ضروری تھا۔ چھٹی کرنے پر لگی لگائی نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا۔ کاکے کے جسم میں تین جگہ پر فریکچرز تھے۔ ہڈی جوڑنے کے لئے آپریشن ناگزیر تھا۔
”ڈاکٹر صاحب آپریشن کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں ہے۔” وہ آپریشن کی تکلیف اور خرچے دونوں سے خوفزدہ تھی۔
”بی بی ٹائم ضائع نہ کرو۔ وقت پر ہڈی نہ جڑی تو عمر بھر کے لئے معذور ہوجائے گا تمہارا بچہ پھر بستر پر پڑا رہے گا۔” ڈاکٹر کی بات سن کر وہ دہل گئی تھی۔
”خرچا کتنا ہوگا جی؟” اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا۔ جواب میں ڈاکٹر نے دواؤں کے علاوہ جو خرچہ بتایا، سنتے ہی وہ دل تھام کر رہ گئی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});