اس کچی بستی میں بھلا کون سے کنال کے علیشان بنگلے تھے۔ ایک کمرے کے مکان کے بیچوں بیچ دوچار گز کا صحن، جس میں کھڑے ہوکر آسمان بھی بمشکل دکھائی دیتا تھا۔ اسی صحن کے ایک کونے میں ٹین کی چھت ڈال کر دو چار برتنوں کے ساتھ ایک زنگ آلود چولہا رکھا گیا تھا۔ جو کم کم ہی استعمال میں آتا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی اوپر تلے اینٹیں رکھ کر بنائی گئی چار دیواری کو وہ غسل خانہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ٹاٹ کا پردہ اُٹھا کر اس نے تھیلا گھسیٹ کر اندر رکھا اور صحن میں چارپائی پر چپ چاپ بیٹھ گئی۔ شیمو نے کونے میں پڑے گھڑے سے سلور کے کٹورے میں پانی ڈال کر پیا اور ساتھ ہی پڑا دستی پنکھا اُٹھا کر جھکنے لگی۔پھر ہاتھ روک کر اس نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی۔
”منی اور منی کدھر مر گئی ہے۔ کہاں گھسی بیٹھی ہے؟ کاکے کو باہر لے کر آ۔” اندر تاریک کمرے سے پانچ چھے برس کی سو کھی سڑی بچی سال بھر کے بچے کو اُٹھا کر باہر لائی تھی۔
”اماں تو نے اتنی دیر کردی۔ کاکے کو بڑی بھوک لگی ہے۔بڑی دیر کاروئے جارہاتھا۔” اس نے جھٹ بچہ شیمو کی گود میں ڈالا۔
”میں صدقے۔ میرے کاکے کو بھک (بھوک) لگی ہے۔” اس نے بچے کو چمکارا۔ ماں کی گود میں جاتے ہی وہ گلے میں جھولتا تعویذ چوسنا چھوڑ کر خوشی سے اس کا چہرہ تھپتھپانے لگا۔ وہ ذرا سار خ موڑ کر اُسے دودھ پلانے لگی تھی۔
”اماں مجھے بھی بڑی بھوک لگی ہے۔” منی اس کے پاس چارپائی پر بیٹھ گئی ۔ صبح سے کاکے کو اُٹھا اُٹھا کر اس کے بازو دکھ گئے تھے۔
”پراں مر۔ کام کی باری موت پڑتی ہے تجھے۔ بس کھانے کو دن میں سو بار منہ کھولے بیٹھی ہوتی ہے۔” اس نے ہاتھ میں پکڑی پنکھی کاکے کو جھلاتے ہوئے اُسے دے ماری۔
منی بھاں بھاں کرکے رونے لگی تھی۔
”شروع ہوگیا تیرا باجا بجنا۔” شیمو تلملائی۔
”شہزاد ی چل اُٹھ۔ اندر رات کی روٹی پڑی ہوگی۔ وہ اسے لادے۔” اُسے روتی ہوئی بچی پر ترس آگیا۔ شہزادی منہ بسورتی ہوئی اُٹھی اور کچن میں سے چنگیر لاکر اُس کے آگے رکھ دی۔
شیمو نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کچن میں رکھے برتن ٹٹولے۔ روٹی کے چند ٹکڑے پڑے تھے۔ صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلتے ہوئے اس نے آدھی روٹی کھائی تھی اور اس کے بعد سے ایک کھیل بھی اڑ کر حلق میں نہیں گیا تھا۔ اس نے پانی سے تر کرکے وہ ٹکڑے حلق میں اتارے اور رب کا شکر ادا کرتی ہوئی باہر نکل آئی۔
”میں سفید کوٹھی والوں کے ہاں کام پرجارہی ہوں۔ ان کے ہاں کوئی دعوت ہے رات کو۔ واپسی پرکھانا بھی اُدھر سے لیتی آؤں گی۔” اس نے چادر کھونٹی سے اُتار کر جھاڑی۔
”سچی اماں۔ میں بھی چلوں تیرے نال۔” منی مارے خوشی کے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”ہاں تیرے لئے تو انہوں نے خاص کارڈ بھیجا ہے۔ پتہ نہیں ہے تجھے کہ باجی غصہ ہوتی ہیں بچوں کو ساتھ لے کر آنے پر؟” اس نے گھرکا۔
”اماں میں تیرے ساتھ جھاڑ پونچ کروادوں گی۔ برتن دھلوادوں گی۔” اس نے خوش آمدانہ لہجہ اختیار کیا۔
”رکھ اپنی جھاڑ پونچ اپنے کول۔ پچھلی واری جوان کا اتنا مہنگا سیٹ تو نے توڑ دیا تھا نا وہ پھول رکھنے والا گلدان، ساری تنخواہ کٹوا کر بھی اس کے پیسے پورے نہیں ہوئے تھے!” ماں کے گھورنے پر وہ دبک کر بیٹھ گئی تھی اور اس کو یکدم جیسے باجی کے ہاتھ سے لگنے والا تھپڑ یاد آگیا تھا۔
”شہزادی! کاکے کا خیال رکھنا اور مکان مالک آئے تو کہہ دینا کہ کرایہ اماں آپے دے جائے گی دو رو ز تک۔ اور منی تو اندر نواب زادیوں کی طرح یکھا(پنکھا) لگا کر نہ لیٹ جائیں۔ بل تیرے ابے نے نہیں بھرنا۔” تاکید کرتے ہوئے اس نے چادر اوڑھی اور باہر نکل گئی۔
”اماں واپسی پر ایک کٹورا برف بھی لیتی آئیں۔ صبح سے ٹھڈا(ٹھنڈا) پانی نہیں پیا۔” منی نے پیچھے سے آواز لگائی اور پورے جوش و خروش سے کاکے کو پنکھا جھلنے لگی۔ کھانے اور دعوت کا سن کر اس کے ننھے ننھے ہاتھوں میں بجلی سی بھرگئی تھی۔ منہ میں پانی بھر آیا تھا۔
”شہزادی رات کو ہم کتنے مزے کا کھانا کھائیں گے۔ بوٹیاں، نان، چاول ہے نا؟ ” اس نے زبان لبوں پر پھیری۔
”ہاں۔” اس نے منی کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا تھا۔
”اور ساتھ کوئی مٹھا(میٹھا) بھی ہوگا۔ کھیر یا زردہ یا پھر وہ رنگ برنگا کسٹرڈ۔” اس نے شہزادی کو مخاطب کیا مگر وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔
”پتہ نہیں ننھی کب آئے گی۔” اس کی توجہ نہ پاکر وہ بے چینی سے ننھی کا انتظار کرنے لگی تھی۔
تیزی سے کام نمٹاتی ہوئی وہ برتنوں میں بچا کچا کھانا اور ہڈیاں پاس پڑی ہوئی ٹوکری میں انڈیلتی جارہی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”واہ میریا ربا تیرے رنگ۔ تیری شان۔ ہم لوگ تو روٹی کے ساتھ سالن چٹنی مل جانے پر بھی تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور یہ لوگ تو کھانے کی ودیا(اعلیٰ) چیزیں بھی ایسے ضائع کرتے ہیں جیسے کوڑا کرکٹ ہو۔” اس نے ادھ کھائی بوٹیوں اور سلاد کے ٹکڑوں کو کوڑے میں ڈالتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری۔
”شیمو جلدی جلدی ہاتھ چلا۔ ایک تو تو پانی بہت ضائع کرتی ہے برتن دھوتے ہوئے۔” بیگم صاحبہ نے بچ جانیوالا کھانا فریزر میں رکھتے ہوئے اُسے ٹوکا۔ اس کے ہاتھوں میں مزید تیزی آگئی تھی۔
برتن دھو کر سکھاتے ہوئے اُسے رات کے گیارہ بج گئے تھے۔ اندر آکر اُس نے پنکھے کے نیچے فرش پر بیٹھتے ہوئے پسینہ خشک کیا۔ بیگم صاحبہ سے پیسے پکڑ کر وہ کسی انتظار میں کھڑی تھی کہ انہوں نے جانے کاا شارہ دیا۔
”باجی وہ…” اس نے الفاظ ترتیب دینے کی کوشش کی جبکہ وہ اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔
”باجی میں نے تو روٹی کھالی تھی۔ مگر بچے گھر میں بھوکے ہوں گے۔” اُسے ہمت کرنا ہی پڑی۔
”بچے بھوکے مرتے ہوں تو کیسی شرم غیرت۔” وہ سوچ کر رہ گئی۔
”اچھا۔ اچھا۔ خالی پیسوں پر کہاں ٹلتے ہو تم لوگ۔” نخوت سے کہتی وہ اندر چلی گئیں۔
”کتنے بچے ہیں تمہارے۔” ان کی ساس نسبتاً رحم دل تھیں۔
”تین لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے جی۔” اس نے پلو سے منہ پونچھا۔
”کتنی عمر کے ہوں گے؟” ان کے سوال پر وہ سوچ میں پڑگئی۔ عمریں تو ٹھیک سے اُسے خود بھی یاد نہیں تھیں۔
”بڑی ننھی تو جی ہوگی کوئی دس سال کی۔ سکول والی میڈم کے گھر اُن کا کاکا سنبھالتی ہے صبح میں۔ پھر شہزادی ہے۔ اس سے سال بھر چھوٹی۔ پھر منی ہے کوئی تین چار سال چھوٹی۔ پھر کاکا ہے جی دوسرے سال میں لگا ہے۔ تین بچے بیچ میں بھی ہوئے تھے پر مرگئے۔” اس نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے بچوں کی عمریں یاد کیں۔
”اب تو جی بڑی دونوں ہی ہتھ بٹانے لگی ہیں۔ چھوٹی بھی گھر میں کاکے کی دیکھ بھال کرلیتی ہے۔” اس نے فخریہ بتایا۔
”اور تمہا را میاں؟”
”وہ تو جی کاکے کے پیدا ہونے سے کج ماہ پہلے ہی فوت ہوگیا تھا ۔ اُسے کینسر تھا۔” اس نے عام سے انداز میں بتایا۔
”بڑا افسوس ہوا۔ وہ ہوتا تو تمہا را سہارا بنتا۔” انہوں نے تاسف سے سرہلایا۔
”اس نے بھلا کون سا سکھ دیا تھا مجھے۔ اُلٹا کمائی ساری کی ساری نشے میں لگا دیتا تھا اور مار پیٹ الگ کرتا تھا جی۔ جب منجی لگا تب بھی سارا پیسہ اس کے دوا دارو میں ہی لگ جاتا تھا۔ فاقے کرتے تھے ہم۔ اب تو جی پھر بھی پیٹ بھر کر کھانا مل ہی جاتا ہے دن میں ایک دو بار ہی سہی۔” اس نے پھسکڑا مار کر بیٹھتے ہوئے بے پروائی سے بتایا۔
چھوٹی بیگم صاحبہ نے ایک بڑا سا شاپر لا کر اُس کے سامنے رکھا۔ پھر بڑی بی بی کے کہنے پر وہ ایک اور تھیلا لے آئی تھیں۔
”اس میں بچوں کے کچھ کپڑے ہیں ۔ چھوٹے ہوگئے تھے۔ ٹھیک کروا کر اپنی بچیوں کو بنوالینا۔”
اس نے سرہلا کر شکریہ ادا کیا تھا۔ کتنے عرصہ سے سوچ رہی تھی کہ ایک سیکنڈ ہینڈ سلائی مشین قسطوں پر رکھ لے۔ رات میں کاکے کو سلا کر تھوڑا سلائی کا کام بھی کرلیا کرے مگر گھر کے خرچے مانگ تانگ کر بھی پورے نہیں ہوتے تھے تو سلائی مشین کہاں سے لاتی۔ گھر کی جانب تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے اُس نے مٹھی میں دبے سو سو کے نوٹ پھر سے گنے ۔
”مکان کا کرایہ کل ہی د ے دوں گی۔ مالک بڑا ہی رولاڈالتا ہے پورے محلے میں۔” وہ مطمئن ہوکر مسکرائی۔
٭…٭…٭
اس کے گھر پہنچنے تک منی دروازے کے بیسیوں چکر لگا چکی تھی۔ خالی پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ ننھی تو بھوک کی پروا کئے بغیر ہی تھک کر سوگئی تھی۔ جبکہ شہزادی کاکے کی توجہ بھوک پر سے ہٹانے کے لئے اُسے کوئی کہانی سنارہی تھی جو اس کی سمجھ سے باہر تھی۔ وہ ”اماں اماں” پکارے مسلسل رو رہا تھا۔
”اماں آگئی۔ آگئی اماں۔” منی کی خوشی سے چہکتی آواز نے ننھی کو بھی نیند سے جگادیا تھا۔ جمائی لیتے ہوئے اُس نے منی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔ مگر اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں پکڑے تھیلے سے اُٹھتی اشتہا انگیز خوشبوؤں نے اُس کی نیند بھگادی تھی۔وہ دونوں کاکے کو لے کر کمرے کے بیچوں بیچ فرش پر آکر بیٹھ گئی تھیں۔ تھیلا کھولتے ہی تینوں ماں بیٹیوں کے چہرے پر خوشی کی رمق دوڑ گئی۔ دن بھر کی محنت مشقت کے بعد مزید ار کھانا ان کا منتظر تھا۔ نان، مرغ، چاول کباب اور ساتھ ہی تھوڑا سا پھل بھی۔ تینوں کھانے پر ٹوٹ پڑیں۔ شیمو تھکے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ لئے نوالے بنا بنا کر کاکے کے منہ میں ڈال رہی تھی۔ وہ تھوڑا چباتا ، تھوڑاگراتا اورباقی ایسے ہی نگل جاتا ۔ ننھی اور منی کے بیچ بوٹیوں پر لڑائی جاری تھی۔ ایک وہ ہی تھی جو سب سے الگ تھلگ منہ بنائے چارپائی پر بیٹھی تھی۔
دن بھر بھی اُس نے چوڑیوں کے غم میں کھانا نہیں کھایا تھا۔ سو اس وقت مارے نقاہت کے برا حال تھا۔
”تو آج کیا چوڑیوں کا ہی ماتم کرتی رہے گی؟” شیمو کا دھیان کافی دیر بعد اُس کی طرف گیا تھا۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ بلکہ رُخ موڑ کر بیٹھ گئی۔
”نہ۔ کب تک بوتھا سجائے رکھے گی؟ اپنے پیو(باپ) کو رو رہی ہے۔ اُٹھ جا رزق سامنے پڑا ہے ناشکری نہ بن۔” منی کے سالن سے لتھڑے سیب کی طرف بڑھتے ہاتھ اس نے ایک دھکے سے پیچھے کئے تھے۔
”بس کر ندیدی ۔ یہ کاکے کیلئے رہنے دے۔” منی برا سا منہ بناکر ہڈی چبانے لگی تھی۔ چارونا چار شہزادی بھی کھانا کھانے آبیٹھی۔ کب تک نخرے کرتی۔ صبح کا کیا پتہ تھا کہ کچھ کھانے کو ملتا بھی کہ نہیں۔ خالی پیٹ نخرے کس کام کے۔ منی ابھی بھی بھوکی نظروں سے سیب کو ہی دیکھے جارہی تھی۔
”تو تو نظر لگا کر ہی رہے گی بھوکی کہیں کی! لے کھا مر۔” شیمو نے ایک سیب کاٹ کر ایک قاش اس کی جانب بھی بڑھائی۔باقیوں کا حصہ رکھ کر اس نے چھلکا اتار کر ایک حصہ کاکے کے ہاتھ میں بھی پکڑایا۔
”ماں صدقے۔ ماں واری۔ کھا میرا پتررج کے کھا۔ جلدی جلدی وڈا ہوکر اماں کا سہارا بن۔” وہ اس کے گال چومنے لگی۔ جبکہ تینوں لڑکیاں اس کا والہانہ محبت کے اظہار پر حیرت سے اس کا منہ تکنے لگی تھیں۔ وہ کاکے کیلئے تو اکثر و بیشتر ایسی والہانہ محبت کا اظہار کرتی رہتی تھی جبکہ باقی تینوں سے تو نرمی سے بات کرنا بھی بڑی بات تھی۔
منی کا ہاتھ اب آم کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس نے پہلے تو گھورنے پر ہی اکتفا کیا مگر جب اس پر اثر نہ ہوا تو جوتی کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ وہ ڈر کر ننھی کے پیچھے دبک گئی۔
”بس کر شودی۔ خبردار جو اَم کی طرف دیکھا بھی تو آنے (آنکھیں) نکال لوں گی تیری! یہ کاکے کے لئے رکھا ہے میں نے۔ کل دن میں اسے یاد سے کھلا دینا شہزادی۔” اس نے شہزادی کو تنبیہ کی۔
”اماں تو ہماری کیوں ایسی اماں نہیں ہے؟” شہزادی کی بات اس کے سر سے گزر گئی تھی۔ جب سے وہ دو سال بڑی حویلی میں ایک بڑی بی کے پاس گزار کر آئی تھی، بڑی عجیب سی ہوگئی تھی۔ چپ چاپ گم صم یا پھر مشکل مشکل باتیں کرنے والی۔ بڑی بی کی اولاد کے پاس ان کے لئے وقت نہیں تھا۔ اس لئے شہزادی کو ان کے پاس رکھوا دیا تھاجو بھاگ بھاگ کر ان کے سارے کام نمٹا دیتی تھی۔ بالوں میں تیل ڈالنا، کھانا لا کر دینا، اخبار ترتیب سے لاکر رکھنا اور بس ایسے چھوٹے موٹے کام جو وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر نہیں کرسکتی تھیں۔ وہ ان کی بڑھاپے کی ساتھی بن گئی تھی۔ ان کا شفقت بھرا لہجہ اسے بے حد پسند تھا۔ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ان کے ہاتھ دھلواتے اور کلی کرواتے وہ اتنا تو جان ہی گئی تھی کہ سالن والے ہاتھ کھانے کے بعد کپڑوں سے صاف کرنا اور آستین سے منہ رگڑ لینا بدتہذیبی ہوتی ہے۔ وہ جب سے اُن کے زیر سایہ گئی تھی اسے اپنے گھر کی گندگی اور بہن بھائی کے گندے حلیوں اور عادتوں سے چڑ ہونے لگی تھی۔ بڑی بی اسے کبھی کبھار کلپ ، چوڑیاں ، رنگ برنگی پنسلیں منگوا کر دیتیں ۔ اسے شام میں ”نورانی قاعدہ” اور ”پھول اور کلیاں” والا قاعدہ پڑھاتیں۔ دو سال کے عرصہ میں اس نے پندرہ سپارے تو ختم کر ہی لئے تھے۔ وہ کند ذہن نہ تھی نہ ہی کام چور۔ پڑھنے لکھنے اور سیکھنے کا شوق بھی تھا۔ کہانیوں کی کتابیں کھولے وہ لفظوں کے توڑ جوڑ کرتی رہتی۔ ٹوٹ بٹوٹ کی نظمیں، سینڈریلا، سویا ہوا محل، جھولنے کتنی ہی کتابیں اس نے ان کی مدد سے ٹوٹی پھوٹی اردو میں پڑھ لی گئیں۔ ان کی وفات کے بعد اسے گھر واپس آناپڑا۔ مگر اب وہ ایک بدلی ہوئی شہزادی تھی۔ جس کی باتیں اور حرکتیں یا تو عجیب تھیں یا پھرسب کے لئے تفریح طبع کا سامان۔
”اماں مجھے ایک بکسہ چاہیے۔ ” اس نے ننھی اور منی کو اخباروں کے اوپر پڑے کپڑوں کے ڈھیر سے اُلجھتے دیکھا تو شدید کوفت ہوئی۔ اس ڈھیر میں سے قمیض کوئی اور شلوار کوئی مڑتے تڑے کپڑے پہنے وہ اُسے عجیب الخلقت مخلوق دکھائی دیتی تھیں۔
”نہ کس لئے۔ جہاز میں جانا ہے تو نے کہیں۔” اماں کے تمسخرپر وہ دونوں بھی کھی کھی کرکے ہنسنے لگیں۔ ”میں اپنے کپڑے استری کرکے اُس میں ترتیب سے رکھوں گی۔” اس شاندار فرمائش کے اظہار پر اُسے جو کچھ سننے کو ملا وہ آئندہ کے لئے ہی کافی تھا۔ پھر بھی اُس نے اپنے کپڑے تہہ کرکے اسی بیگ میں ڈال دیئے جو وہ بڑی بی کے گھر سے لے کر آئی تھی۔
”تو نے دانت برش نہیں کئے کتنے پیلے ہورہے ہیں۔’ ‘ منی کسی بات پر منہ پھاڑ کر ہنس رہی تھی جب اس نے ٹوکا اور اس کی ہنسی میں اضافہ ہوگیا۔
”نہ وہ جیسے ابا کا پرانا بوٹوں والا برش ہے اس سے صاف کروں۔” اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا یہ جان کر کہ گھر میں ٹوتھ برش نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں۔ بس ایک منجن تھا جسے ننھی تو کبھی کبھار استعمال کرلیتی تھی مگر منی تو تھی ہی سدا کی کاہل اور گندگی کی پوٹ۔
”کاکے نے نیکر گیلی کردی۔ اماں بدلا دے۔ میں سرف سے دھو دیتی ہوں۔” اسے سخت ابکائی آتی جب کاکا گیلی نیکر میں سارا دن پھرتا رہتا تھا۔
”اور یہ سرف باہر کسی بوٹے پر لگا ہوا ہے ناں۔ بچہ ہے سارا دن نیکر گیلی کرتا رہتا ہے۔ اس میں کونسا نئی بات ہے۔” اماں نے سرجھٹکا۔
”تو اماں تو اسے پیمپر کیوں نہیں لگاتی۔” وہ کہتے کہتے رک گئی تھی۔ پھر اس نے بہت کوشش کے بعد خاموش رہنا سیکھ لیا تھا۔ اس کے کہنے سے کون سا کسی نے ہاتھ منہ دھو لینے تھے یا دانت صاف کرنے تھے۔مگر وہ اپنی صفائی ستھرائی کا پھر بھی جتنا ممکن ہوتا خیال رکھتی۔ اب ٹوتھ پیسٹ ، شیمپو، سرف، استری جیسی عیاشیان تو ممکن نہ تھیں۔ مگر پھر بھی وہ صبح سویرے بال بناکر ہاتھ منہ دھو کر دانت صاف کرنا نہ بھولتی تھی۔ کپڑے بھی سلیقے سے تہہ کرکے رکھتی اور دوسروں کے مذاق کا نشانہ بنی رہتی۔
”اماں تو ہماری کیوں ایسی اماں نہیں ہے؟” سوال دہرانے پر اماں تپ گئی تھی۔
”نہ کیا بک بک کرہی ہے تو؟” سوال ہی ان پڑھ شیمو کی سمجھ سے باہر تھا جواب کہاں سے ملتا۔
”امان د ے دے نا تھوڑا سا۔ سارا کچھ تو کاکے کو کھلادیتی ہے۔ ہمیں نہیں دیتی۔ وہ تیرا زیادہ لاڈلہ ہے۔” منی پھر سے آم کے گرد ہوگئی تھی۔
”تو ہماری ایسی اماں کیوں نہیں ہے جیسی کاکے کے لئے ہے۔” اس نے دل میں ہی اپنا ادھورا سوال مکمل کیا۔
”ہاں ہے لاڈلہ۔ تم تینوں کا میں نے اچار ڈالنا ہے؟ کھلاؤ پلاؤ بڑاکرو۔ اچھا برا سکھاؤ۔ حفاظت کرو۔ جہیز بناؤ۔ رشتہ ڈھونڈو۔ نرا سیاپا۔” ا س نے بے رحمی سے تبصرہ کیا۔
”تو کاکے کو بھی تو کھلا پلا کر بڑ اکرے گی ہی نا۔” اب کے ننھی بھی بول اٹھی تھی۔
”میرا کاکا تو بڑا ہوکر میرا سہارا بنے گا۔ اپنی اماں کو راج کرائے گا۔” اس نے کاکے کو چارپائی پر لٹا کر تھپکی دی۔
اس کے مشکل سوال کا اماں نے نہایت آسان جواب دے دیا تھا۔
اسے بڑی بی کی باتیں یاد آنے لگیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر اولاد میں برابری اور انصاف نہ رکھو تو قیامت کے دن اللہ اس کا حساب لے گا۔ اس وقت یہ باتیں اس کی سمجھ سے باہر تھیں مگر سمجھ آنے لگی تھیں۔ مگر اماں کے آگے یہ باتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ وہ نہ سمجھتی تھی اور نہ ہی سمجھنا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
صبح کھڑ پڑ کی آواز سے وہ وقت سے پہلے ہی بیدار ہوگئی تھی۔ حسب معمول اس نے پہلے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر بال بنائے اور پھر غسل خانے میں گھس گئی۔
”کب سے آوازیں لگارہی ہوں کہ آکر کاکے کو اُٹھا۔ نواب زادی کا بناؤ سنگار ہی نہیں ختم ہوتا۔” اماں کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔ رات کو جو تھیلا لے کر آئی تھی کپڑوں والا وہ ننھی اور منی کے ہاتھ لگ گیا تھا اور دونوں اب گتھم گتھا ہورہی تھیں۔
”منہ ہتھ دھو رہی تھی اماں۔” اس نے بے زاری سے جواب دیا۔
”ہاں جنج آرہی ہے نا تیری صبح صبح۔” اماں کا وہی انداز اور جواب میں بہنوں کی کھی کھی جس کی اب وہ عادی ہوتی جارہی تھی۔ اس لئے خاموش ہی رہتی تھی۔ کاکا اس کے حوالے کرکے اماں نے چپل اتاری اور دونوں کی اچھی خاصی خبر لی۔ ننھی تو اماں کو دیکھ کر سائیڈ پر ہوگئی تھی مگر منی تھی ازل کی ڈھیٹ اور زبان کی تیز۔ سارا سارا دن گلی محلہ کی عورتوں اور بچوں میں گھس کر بیٹھی رہتی اور نت نئی گالیاں اور بد دعائیں سیکھ کر واپس آتی۔ اماں سے اچھی طرح پٹنے کے بعد اس نے کوسنے دینے شروع کردیئے تھے۔
”اللہ کرے تو مرجائے اماں۔” وہ کونسا پیرنی تھی۔ جو اماں پر اثر ہوتا سوسنی ان سنی کر گئی تھی۔
”اللہ کرے کاکے کو بچے اٹھانے والے لے جائیں اور بھیک منگوائیں اس سے۔” الفاظ تھے کہ چھری کی تیز دھار ۔ کلیجے پر وار کیا تھا اس نے ۔ شیمو نے بھی اُٹھا ئی چپل اور اس کی وہ دھنائی کی کہ اُسے ہاتھ جوڑ کر توبہ کرنی پڑی۔ جبکہ خود اس کی چپل بھی ٹو ٹ کر ہاتھ میں آگئی تھی۔ ا س کے ہاتھ سے تھیلا اور کپڑے واپس لیتے ہوئے وہ چارپائی پر آکر بیٹھ گئی تھی۔ دو فراکوں میں سے ایک تو منی کے ناپ کا تھا۔ بھیں بھیں کر کے روتی ہوئی منی فراک لے کر فوراً چپ کرگئی تھی۔ دوسرا فراک تھوڑا بڑا تھا۔ ساتھ چوڑی دار پاجامہ بھی۔ ننھی اور شہزادی کے قد سے تھوڑا بڑا۔ دونوں قد کاٹھ میں ایک برابر ہی تھیں۔ ننھی ہمت کرکے قریب آئی اور جھٹ فراک ہاتھ میں لے لیا۔ جبکہ شہزادی کا کے کا منہ ہاتھ دھلارہی تھی۔ شیمو کو کل والی چوڑیوں کی بات یاد کرکے تر س آگیا تھا۔ ماں کا دل تھا کب تک پتھر بنی رہتی۔
”شہزادی یہ فراک تجھے پسند ہے تو تو لے لے۔ عید پر پہن لینا اس پاجامے کے ساتھ۔” اس نے فراک ننھی کے ہاتھ سے لے کر شہزادی کی جانب بڑھایا۔ گلابی رنگ اس کا پسندیدہ تھا اور اس کی گوری رنگت پر جچتا بھی خوب تھااس کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا تھا ۔
”میری پیاری اماں۔” وہ خوشی سے فراک اپنے ساتھ لگا کر دیکھنے لگی تھی۔
”اماں میں کیا پہنوں گی عید پر۔” ننھی کا چہرہ پل بھر میں ہی بج سا گیا تھا۔ آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ تھوڑی دیر پہلے والا منی کا حشر یاد تھا ورنہ ضرور ردِعمل شدید ہوتا۔
”صبر کرلے۔ بلال کی امی نے وعدہ کیا تھا بچوں کے کپڑے نکالنے کا۔ کل وہ جاکر لے آؤں گی۔ تجھے اور کاکے کو بالکل ٹھیک پورے آئیں گے۔
اس کے تسلی دینے پر ننھی منی کے پاس جاکر بیٹھ گئی تھی۔ جبکہ منی فراک ساتھ لگا لگا کر خوشی سے بے قابو ہوئے جارہی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});