”میں نماز پڑھ کر نکلاتو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کتا…” ایک بزرگ نے کسی کے سوال کا جواب دیا۔
”میں گھر پر ابا جی کے لئے چائے بنارہی تھی کہ…” کسی عورت نے دوسری کو مخاطب کیا۔ سب اپنی اپنی سنارہے تھے۔ ہر ایک کے دل میں ہمدردی اور ترس سے زیادہ قصہ سننے اور آگے بیان کرنے کا شوق انگڑائیاں لے رہا تھا۔افسوس کی بجائے لعنت و ملامت سے کام لیا جارہا تھا۔عین اسی وقت مردوں اور عورتوں کے ہجوم کو چیرتی ،دھکے دیتی ہوئی وہ آگے آئی تھی۔ بچیوں پر جھکی اور حیرت سے نظریں پھیلائیں۔
”سوگئیں؟”
”اُف کیسی ظالم ماں تھی۔کلیجہ کانپ جاتا ہے یہ سوچ کر۔” کسی عورت نے دل پر ہاتھ رکھا۔
”شش…شی… ماں مجبور ۔ ماں ظالم نئیں۔” اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اُنہیں ڈانٹا تھا۔
”ارے یہ کہاں سے آگئی آج پھر اِدھر۔” کسی کے لہجے میںتحقیر تھی۔
اُس کا جسم دوپٹہ اور پاؤں جوتے سے بالکل خالی تھے۔
”ابھی پچھلے ماہ میں نے اسے دیکھا تھا۔ تب تو اس کی حالت بتارہی تھی کہ…”
کسی عورت نے اس کا سرتا پیر بغور جائزہ لیا اور اپنے ساتھ کھڑے ہوئے مرد کا شانہ ہلاکر اُس کے کان میں کچھ کہا۔ بات ایک کان سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے تک پہنچی تھی۔
”تو یہ ہے ان کی ماں۔” کسی نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے تو کسی نے تاسف سے سرہلایا۔ کچھ چہروں پر حقارت تھی تو کچھ پر ترجم کے تاثرات۔ نیلی سویٹر والی عورت کسی صاحب عزت کو پولیس اورایمبولینس بلوانے کامشورہ دے رہی تھی۔مگر کوئی تیار ہی نہ تھا۔
”ارے اب کونسا یہ زندہ ہیں جو پولیس آکر ان کے لواحقین کو تلاش کرے گی۔ اُلٹا ہم شریفوں کو تھانہ کچہری بھگتنا پڑے گا۔” ان صاحب نے انکار کیا۔
”تو اور کیا؟ پولیس کے متھے لگ کر کون اپنی گردن پھنسائے۔”
”اچھا تو بھائی صاحب پھر اس قبرستان کے گورکن کو ہی جاکر کوئی خبر کردے۔” نیلی سویٹر والی نے بچی کو ایک بازو سے دوسرے میں منتقل کیا۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
”میں تو چلوں۔گھرمیں بچوں کو ناشتہ کرواکر سکول بھی چھوڑنا ہے۔” کچھ لوگ کم ہوگئے تھے۔
”میں بھی چلوں۔ قرآن کی تلاوت کررہا تھا وہ جاکر مکمل کروں۔” دو چار اور گھر کی جانب ہولئے تھے۔
”اس سے پوچھو۔ اس کے کوئی رشتہ دار ہیں تو وہ آکر نپٹائیں یہ کام۔” کسی نے پیچھے کھڑی ان کی ماں کی طرف اشارہ کیا۔ نیلی سویٹر والی نے مڑکر اس کی جانب دیکھا تو اسے یوں لگا کہ کوئی خنجر کی تیز دھار اُس کی گردن پرپھیر رہا ہو۔ وہ ان پڑھ عورت یہ تو شاید نہ جانتی تھی کہ دنیا گول ہے مگر مکافات عمل سے بخوبی واقف تھی۔
”شش… شہزادی۔” اس کی زبان نے بہت دیر بعد اس کا ساتھ دیا تھا۔ آگے بڑھ کر اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
”اسے کیا پتہ ہوگا گھر والوں کا ۔ رب جانے جھلی ہے یا جان کر بنی ہوئی ہے۔ گھر سے بھاگی ہوئی لگتی ہے۔” ایک اور تبصرہ۔
”چپ کرو سارے۔ یہاں کوئی تماشہ لگا ہوا ہے۔ مدد نہیں کرسکتے تو جاؤ اپنے کم سے لگو۔” اس نے تیکھے انداز میں بچے کھچے لوگوں کو جھڑکا تھا۔
”ناں تو کیوں روکھی ہوتی ہے مائی۔ تیری دھی یا رشتہ دار لگتی ہے یہ۔” ایک بڑی بی نے کمرپر ہاتھ ٹکائے۔
”کسی کی تو لگتی ہوگی نا۔ اللہ والی ہے یہ کیوں اس پر لعن طعن کرکے اپنے گناہوں کا بوجھ بڑھاتے ہو۔” اس نے بھی جارحانہ انداز اختیار کیا۔
”اونہہ اللہ والی۔ ایسی ہوتی ہیں اللہ والیاں۔ ڈھونگی ہے نری۔” کسی نے تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
”ناں۔ تو کیا اللہ والیوں کے لئے اونچے منبر بنے ہوں تب ہی ان کے نیک ہونے پر مہر لگتی ہے۔رب کا کیا ہے وہ تو بے نیاز ہے ملنے کو گھر پر ہی مل جائے نہ ملے تو کعبہ اور مسجد میںبھی نہ ملے۔ دلوں کا حال ہم کیا جانیں۔” اس کی بات پر کسی نے شرمسار ہوکر نظریں چرائیں تو کوئی سرجھٹک کر چل دیا۔ جبکہ ”کملی” ہاتھ میں چھوٹا سا فیڈر پکڑے اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔
”چل میرے ساتھ۔” وہ ہلنے کو تیار نہ تھی۔
”چل میری دھی اب کیا رکھا ہے یہاں۔ اب کیا بچا ہے جانوروں نے نوچ لیا اِنہیں۔ بس اتنی ہی زندگی تھی ان کی۔” اس نے اُسے آگے کی جانب کھینچا۔
لوگ اب اس تماشے سے اکتا کر اپنے گھر وں کو جانے لگے تھے۔
”جانور تو پھر بھی جانور ہے یہاں تو انسان بھی نوچ لیتے ہیں۔” اس نے چادر سے آنکھیں رگڑیں۔ اپنی بچی کو کندھے سے لگائے، شہزادی کا ہاتھ تھامے ماسی نذیراں کسی گورکن کی تلاش میں نکل گئی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اب یہ میری دکان کے باہر ہی بیٹھی رہتی ہے یاپھر روزانہ دو تین میل پیدل چل کر قبرستان پہنچ جاتی ہے جہاں اس کی بچیاں دفن ہیں۔ رات کو یہیں آکر اس دکان میں سوجاتی ہے۔” الطاف بخش نے پھلوں اور سبزیوں پرپانی کا چھڑکاؤ کیا۔
”تم اسے دارلامان کیوں نہیں چھوڑ آتے؟” میں نے قلم بند کرکے جیب میں رکھا ۔
”دارلامان میں کونسی امان ملے گی اسے۔ جسے ماں کی گود بکنے سے نہ بچاسکی۔ جسے مزار کے احاطے میں مذہب کے نام پر ہوس کا کاروبار کرنے والوں نے بیچ دیا ہو۔ اُسے اب اور کہاں تحفظ ملے گا۔ اس کانام شہزادی نہیں کرم جلی ہونا چاہیے تھا۔” اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔
”تم اسے کیسے جانتے ہو؟ تمہیں اس کی ساری کہانی کس نے بتائی۔” مجھے بڑی دیر بعد یہ پوچھنے کا خیال آیا تھا۔
”نذیراں میری گھر والی تھی جی۔” اس نے مرے ہوئے لہجے میں انکشاف کیا۔
”اوہ۔” بے ساختہ میرے منہ سے نکلا تھا۔
”آٹھویں لڑکی کے بعد میں نے اُسے گھر سے نکال دیا تھا۔ بیٹے کی بڑی خواہش تھی۔ اس لئے دوسری شادی کرلی۔ رب نے مراد پوری بھی کی۔ مراد بخش کی صورت میں مگر اُس کے سر میں پھوڑا تھا۔ آپریشن کے لئے بڑا پیسہ چاہیے تھا۔ سائیں نے اُسے لالچ دیا اور ساتھ ہی دھمکایا بھی۔ بس جی بڑی مجبور ہوگئی تھی وہ بدبخت۔” انسان چاہے خد اکی نظر میں ہی گناہ گار ہو، ضمیر کی عدالت میں لاکھ خودکو مجرم ٹھہرائے مگر لوگوں کی نظر میں خودکو بری الذمہ یا کم قصور وار ٹھہرانے کے لئے دلائل ڈھونڈ ہی لاتا ہے۔
”رب سے نہیں شرماتا۔ رب کے تخلیق کردہ انسانوں سے شرما بھی جاتا ہے اور ڈر بھی جاتا ہے۔” میں سوچ کر رہ گیا۔
”رب نے اپنے کرم سے جو عطا کی تھی پھر ہمارے کرم کہ اُس کے غضب نے وہ چھین بھی لی۔ آپریشن کروا کر بھی نہیں بچا ہمارا مراد۔ آخری وقت میں اس کی ماں نے مجھے یہ با ت بتائی تھی اور ساتھ ہی وعدہ بھی لیا تھا کہ اس کملی کا خیال رکھوں گا۔ بہت شرمندہ تھی۔ بس رب ہم سب کے گناہ معاف کرے۔” اس کے آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔
”مکافات ِ عمل۔” نہ چاہتے ہوئے بھی میرے منہ سے نکل گیا تھا۔ وہ نظریں جھکا کر رہ گیا۔ حالانکہ میرا مقصد اُسے شرمندہ کرنا ہرگز نہ تھا ۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھ کر ایک گہرا سانس لیا۔
”صاحب جی ہمیں معاف کردیں۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہے۔ جی کسی کو کچھ مت بتایئے گا۔ ورنہ میری لڑکی کی منگنی ٹوٹ جائے گی۔ لوگ تھوہ تھوہ کریں گے۔” اس نے ہاتھ جوڑے۔
”جب مقتول نے ہی مجرم کو معاف کردیا تو ہم کون ہوتے ہیں کسی کو سزا و جزا دینے والے۔ ویسے بھی اس قصے میں تمہارا یا تمہاری اولاد کا کیا قصور ہے۔” میں نے اُس کا شانہ تھپتھپایا۔
”قصور کون دیکھتا ہے۔ آج کل تو سزا اُسی کوملتی ہے جس کا قصور نہ ہو۔ بڑے بڑے گناہ گار تو صاف بچ جاتے ہیں۔ میں نے آپ کو صرف اس لئے بتادیا کہ آپ پڑھے لکھے ہیں۔ بڑا نام اور اُونچا مقام ہے آپ کا۔ لوگ آپ کی سنتے بھی ہیں اور مانتے بھی۔ بڑے بڑے لوگوں میں اُٹھنا بیٹھنا ہے تو ہوسکے تو اس کملی کے لئے کچھ کریں جی۔” اس نے پرامید لہجے میں کہا تو میں بے بسی سے لب کاٹ کر رہ گیا۔
”جہاں انصاف باٹنے والے یا بک جاتے ہوں یا رُل جاتے ہوں۔ وہاں میرے جیسا ”بڑے نام اور اونچے مقام” والا آدمی خود اپنے لئے بھی کچھ نہیں کرسکتا الطاف بخش۔” میں نے طنزیہ لہجے میں کہہ کر کملی کی طرف دیکھا جو کیلے کا چھلکا توڑ توڑ کرنیچے پھینک رہی تھی۔
”بھائی یہ آم کس طرح کلو ہیں؟” ایک عورت چھوٹی سی بچی کا ہاتھ پکڑ کر خریداری کی غرض سے آئی تو میں فوراً جانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا۔
”ایک سو بیس روپے کلو۔” الطا ف کے جواب پر وہ حسرت بھری نگاہ اُن پر ڈال کر آگے بڑھنے لگی تھی کہ اُس نے آواز دی۔
”یہ والے لے لو۔ اسی روپے کے لگا دونگا۔” اس نے پیشکش کی۔ عورت نے تذبذب کے عالم میں ہاتھ میں پکڑے پیسے گنے پھر نفی میں سرہلا کر آگے بڑھ گئی۔
”اماں ایک ہی لے دے نا۔ میں اور جید اَدھااَدھا بنڈ کر کھالیں گے۔” تقریباً پانچ سال کی بچی مچل گئی تھی۔
”پندرہ بیس روپے کا ایک آم لے دوں۔ تو رات کو بُھکا ماروں سب کو۔ میرے پیو کے باغ لگے ہوئے ہیں پیسوں کے۔” اس نے بچی کو بازو سے پکڑ کر کھینچا۔
”اماں تو میری کبھی بھی بات نہیں مانتی۔ کیسی ظالم پتھر دل ہے تو۔” وہ ہٹ دھرمی سے اپنی جگہ پر جم گئی تھی۔
”شش… شی … ماں ظالم نیئں۔” کملی کے بولنے پر بچی اُس سے ڈر کر ماں کے پیچھے چھپ گئی۔
”ماں ظالم نیئں۔ ماں ظالم نیئں۔” اپنی ہی دھن میں کہتی ہوئی وہ سڑک پارکر کے کسی انجانی سمت میں چل پڑی تھی۔ میں الطاف بخش سے آم خرید کر آگے بڑھا ہی تھا کہ بچی کی ماں اُسے دو تھپڑ جڑ کر گھسیٹتی ہوئی چل پڑی اور میں آموں کو بس دیکھ کر رہی رہ گیا۔ ایک اور شہزادی ماں کا ہاتھ پکڑے آموں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔
٭…٭…٭
جو کوئی دیکھے تو سب تماشہ
ہماری آنکھوں کے سامنے ہے
مگر نہ دل کو یقین آئے
مگر نہ دل کو یقین آئے
کہ ایک جانب اسی زمیں پر کر وڑوں انسان مررہے ہیں
شکم کے دوزخ نے اُن کو اپنی ”طلب” کا ایندھن بنالیاہے
اور اس طرف یہ مہیب منظر
جو رزق ان کو نہیں میسر
اُسے جہازوں میں بھر کے ظالم، سمندروں میں بہارے ہیں
بتارہے ہیں
کہ اس کی بازار میں ”اسد” سے ”طلب” کا میزاں خراب ہوگا
برس کے آخر میں جب کتابیں کلوز ہوں گی، حساب ہوگا
تو اس میں ہندسوں کی۔ صرف ہندسوں کی بات ہوگی
کہ سارے لیجر فقط دماغوں کو جانتے ہیں
کسی بھی خانے کی روشنائی میں دل نہیں ہے…
بلیک پینٹ اور آف وائٹ شرٹ پہن کر میں نے فائل اُٹھا کر ٹیبل پر رکھی۔ میرا اپنا فیچر تیار تھا جسے آج میں نے ایڈیٹر صاحب کو دینا تھا۔ ہلکے پھلکے کی جگہ ایک اور بھاری فیچر پر ان کے چہرے کے تاثرات تصور کرتے ہوئے میں بہت محظوظ ہوا تھا۔ جسے بظاہر میرے سامنے تو انہوں نے پڑھ کر کوئی گھنٹہ بھر مجھے گھورنا تھا ۔ بری بری شکلیں بناکر مجھے خوب کھری کھری سنانی تھیں اور فائل ٹیبل پر پٹخ دینی تھی۔ مگر ان کا غصہ بھی ماؤں کے جیسا ہی ہوتا تھا کہ اس وقت تو جو دل میں آیا کہہ دیا اور سامنے موجود اولاد کو بھی اُن پر بہت غصہ آتا۔ مگر گھنٹہ دو گھنٹہ بعد دونوں کے دل صاف۔ سو آج بھی یہی ہو ناطے تھا کہ اُن کی ڈانٹ کھا کر میں نے بھی سنجیدگی سے اپنے کیبن میں جاکر بیٹھ جانا تھا اور کوئی گھنٹہ بھر بعد اُن کی آواز آنی تھی۔
”سنو مجھے ذرا میرے کمرے سے اخبار لادو۔” وہ ساس کی طرح مجھے اُٹھا کر میری کرسی پر روٹھے روٹھے انداز میں بیٹھ جاتے اور میں بھی کسی جلی تپی بہو کی طرح اٹھتا اور نہایت سنجیدگی سے اخبارلاکر ا ن کے سامنے رکھ دیتا۔ اور منہ بسور کر ایک طرف کھڑا ہوجاتا۔
”اگر میں تمہارا باس ہوں تو میں کام لینے کا حق بھی رکھتا ہوں اور ڈانٹنے کا بھی۔” وہ چشمہ پیچھے کرکے مجھے بغور دیکھتے اور نظروں کے تصادم پر ہم دونوں مسکرادیتے۔ ساس بہو کا رشتہ پھر سے ماں بیٹی میں ڈھل جاتا۔
”مجھے پتہ ہے۔” میں کہہ کر پھر سے اپنا کالم اُن کے سامنے رکھ دیتا۔
”لکھا تو تم نے بہت جاندار ہے۔ مگر تمہیں پالیسی تو پتہ ہے نا۔ اچھا چلو اس بار تو میں چھاپ دیتا ہوں ۔ مگر اب کسی سے اس ڈانٹ ڈپٹ کا ذکر نہ کرنا۔” اور میں جانتا تھا کہ ”اس بار” کا مطلب اگلی بار بھی تھا، اس سے اگلی بار بھی اور ہر بار بھی ان کو دیکھ کر مجھے اپنے مرحوم بابا یاد آجاتے تھے۔
اور اس بار بھی یہی سب ڈرامہ ہونا تھا۔ بالوں میں برش کرکے میں نے اخبار اٹھالی اور اس پر سرسری سی نگاہ دوڑانے لگا۔
”کنواری ماں نے گناہ چھپانے کے لئے…”
آج پہلی بار اخبار میں یہ خبر دیکھ کر میرا دماغ کھول اُٹھا تھا۔ غصہ سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے میں نے وہ مقامی اخبار میز پرپٹخا۔ اس طرح کی خبریں ہماری روز مرہ زندگی کا معمول بن چکی تھیں۔ مگر انہیں پڑھنے اور چھاپنے والے ایک بار بھی یہ نہیں سوچتے ہوں گے کہ ا س سارے کھیل میں عورت کو ہی مورد الزام کیوں ٹھہرایا جاتا ہے۔ بات بات پر ماں بہن کی گالیاں دینے والے کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ نسل انسانی کو وجود میں لانے کے لئے ایک بنت حوا کے ساتھ ایک ابن آدم کا ہونا بھی لازم ہے۔ کیوں ہم اس ابن آدم کو پس پشت ڈال کر یہ تمغہ حوا کی بیٹی کے ماتھے پر سجا دیتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ”تخلیق ” کا تکلیف دہ اور جان لیوا عمل فطرت نے عورت کے حصہ میں ڈالا ہے۔ پورے یقین کے ساتھ جسے عورت کے گناہ کا نام دیا جاتا ہے وہ محض عورت کا گناہ تو نہیں ہوتا۔ اور کیا ضروری ہے کہ اس گناہ میں عورت بھی معتوب ٹھہرائی جائے۔ یہ کسی ابن ِ آدم کے گناہ اور بنت حوا کے ساتھ ہونے والے جبر اور درندگی کا کوئی واقعہ بھی تو ہوسکتا ہے۔
چائے کا کپ ختم کرکے میں نے فائل اُٹھالی۔ موبائل اور والٹ جیب میں ڈال کر میں باہر نکل آیا۔ ایڈیٹر صاحب کو کال کرکے آدھے گھنٹے میں پہنچنے کا بتایا اور گاڑی کی رفتار تیز کردی۔
”صاحب جی میں نے آپ کو اس لئے بتایا ہے کہ آپ اپنے اخبار کے توسط سے اسے انصاف دلائیں۔” الطاف کی آواز میرے کانوں میں گونجی میرے اس کالم کے بعد کئی روز تک ٹاک شوز میں اس واقعہ کا ذکر جاری رہنا تھا۔
میڈیا اور مارننگ شوز نے اسے خاصی کوریج دینی تھی۔این جی اوز نے سڑکوں پر نکل آنا تھا۔ پولیس کو ربورٹ درج کرنے اور شہزادی کو انصاف دلانے پر مجبور کرنا تھا اور پھر…
اس پھر کے آگے مکمل خاموشی تھی۔ تاریکی تھی۔ چند روز بعد یہ کیس فائلوں کے نیچے دب جانا تھا۔ ریٹنگ کے تھیلے پر مسالہ دار چٹ پٹی چاٹ بیچنے والوں کی چاندی ہوجاتی، این جی اوز اپنا مطلوبہ ہد ف حاصل کرکے بڑی بڑ ی گرانٹ حاصل کرتیں۔ ”سعد ملک” کے فینز میں اضافہ ہوجاتا۔ خوب پذیرائی ملتی۔ واہ واہ ہوتی۔ بڑے بڑے چینلز پر مجھے بطور ہیرو مدعو کیاجاتا۔ جذباتی تقاریر کروا کر انصاف کی اپیل کروائی جاتی۔ پھر منہ بند رکھنے کے لئے ایک ”بند لفافہ” ملتا اور لفافے کو شرفِ قبولیت نہ بخشنے پر دھمکیاں۔ میری ذات اور خاندان کے بخیے اُدھیڑے جاتے۔میرے باپ اور بھائیوں کی کسی پارٹی کے ساتھ سیاسی وابستگی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی۔میرے دادا پر دادا کو ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار اور ملک کا غدار بتایا جاتا۔ یہ میڈیا تھا۔ جہاں سیاست سے بھی زیادہ سیاست اور گٹر سے بھی زیادہ غلاظت تھی۔ جہاں لفافہ قبول نہ کرنے والا سمندر کا تیراک ہوتا جس کی کم از کم لاش تو سطح پر اُبھر آتی۔ مگر قبول کرلینے والا تو گویا دلدل کا شکار ہوجاتا اور دلدل جسے نگل لے اُسے دوبارہ اُبھرنے کا موقع نہیں دیتی۔ مجھے اپنی فکر نہ تھی مگر میں جس حصول انصاف کے لئے کوشاں تھا۔ اس سب سرکس میں وہ بکا ہوا انصاف، اندھے قانون کے ہمراہ دور کھڑا قہقہے لگا رہا تھا۔
”جہاں سرکاری افسر کا بیٹا قتل ہو اور طاقتو ر بااثر قاتل ، لواحقین کو مک مکا کرکے ملک بدر ہونے پر مجبور کردے۔ جہاں معصوم طیبہ کی پاکیزگی روندی جاتی ہو اور خدا کے گھر میں حاضری دینے والے والدین کی ننھی کلی کو خدا کے بندے پامال کردیتے ہوں۔ مسائل سائل پیدا کرتے ہیں اور جہاں انہی مسائل کے ہاتھوں مامتا اور عزت کی بولی لگائی جاتی ہو اور وسائل کے انبار ہنگاموں یا پروٹوکول کی نذر کردیئے جاتے ہوں، جہاں بیروزگار ڈاکو بن جاتے ہوں۔جہاں چندمٹھی آٹا چرانے والے کو ڈاکو مان کر پیٹا جاتا ہو اور کرپشن کے کیسز کے ریکارڈز کو آگ لگادی جاتی ہو، وہاں کون سا انصاف اور کیسا قانون۔ جہاں یزید کو برا کہا جاتا ہو مگر یزیدیت کا راج ہو وہاں سچائی کا عیسیٰ صلیبوں پر چڑھتا ہی رہے گا۔” میں نے گاڑی کی رفتار کم کی اور پھر اُسے سڑک کے کنارے لاکھڑا کیا۔ جہاں اپنے ضمیر کی عدالت میں انصاف کا طالب بھی میں ہی تھا اور مجرم بھی میں خود ہی۔ غائب دماغی کی حالت میں فائل ہاتھ میں پکڑ کر میں وہیں نہر کنارے بیٹھ گیا۔
”سعد ملک! کیا تمہارے قلم میں وہ روشنائی ہے جو اس واقعہ کے ذمہ داران کی نشاندہی کرسکے۔ کیا تمہارے الفاظ میں وہ طاقت ہے جوکسی محمد بن قاسم کو جگا سکے یا تم خود آج کے غازی علم دین شہید بن کر اُن لوگوں کو بے نقاب کرسکتے ہو جومذہب کے نام پر ہوس کا کاروبار کرتے ہیں۔یا تم بھی محض ایک تماشائی ہی ہو؟ مذہب کے لبادے میں سیات، مذہب کے نام پر تجارت یہ سب تو اب معمول کا حصہ ہے کیا تم روک سکتے ہو؟” اپنے ضمیر کے ہر سوال کا جواب نفی میں پاکر میں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ ابھی چند روز پہلے ہی میرا دیرینہ دوست اور کولیگ اسد ایسے ہی کسی انقلاب کی تلاش میں کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بن گیا تھا۔ اس کا خیال آتے ہی میں فرسٹریشن کا شکار ہونے لگا۔ وہ جن کی رسی اس کی موت نے مزید دراز کردی تھی۔ انہوںنے ا س کی ذات کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی اور ساتھ ہی کیمرے کی چمکتی روشنیوں اور اخبارات کے سامنے پانچ لاکھ کا چیک اس بیوہ کی نذر کرکے گویا قصاص ادا کردیا تھا۔
اپنے موبائل پر ایڈیٹر صاحب کا نام چمکتے دیکھ کر، جو یقینا میرا بے صبری سے انتظار کررہے تھے۔ میں نے موبائل آف کرکے واپس جیب میں ڈال دیا تھا۔
”کیا ملے گا اخبار کے دو چار صفحات کالے کرکے؟ کونسا انقلاب آجائے گا۔؟ تمہارے قلم سے نکلے ہوئے چند بے مول الفاظ ان سوئے ہوئے بے ضمیر لوگوں کو نہیں جگاسکتے جو کسی قومی سانحہ پر بھی چائے کی میز پر چند منٹ کا تبصرہ کرکے،” فیس بک پر Feeling sad and heartbrokenکا اسٹیٹس ڈال کر اور چند تصاویر کا تبادلہ کرکے پھر سے اپنے کاموں میں یوں مگن ہوجاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ جو زندگی جیتے نہیں گزارتے ہیں، تہوار واٹس ایپ پر مناتے اور رسومات سوشل میڈیا پر اد ا کرتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کی غذا پر پلے ہوئے لوگ، انسان نہیں محض روبوٹ ہیں اور روبوٹ کے پا س بھلا دل اور دماغ کہاں۔ اس لئے مسٹر سعد ملک اپنے سمیت بس اس منافق معاشرے کا جنازہ دفنانے کی تیاری کرو۔”
میری سوچ مایوسیوں کی انتہائیں چھورہی تھی۔
”مگر کسی کو تو ابتدا کرنی ہے۔ کوئی تو بارش کا پہلا قطرہ بنے۔ پھر چاہے یہ سعی، سعی لاحاصل ٹھہرے۔” دماغ نے ہمت بندھائی۔ دل اور دماغ کی جنگ میں دماغ نے ایک دلیل اور دی تھی۔ میں نے چشم تصور سے اپنی کوششوں کے صلہ میں حاصل ہونے والے نتائج پر پھر سے نظر ثانی کی۔ شاید کہ کوئی روشن پہلو بھی عیاں ہوجاتا مگر بے سود۔
کسی گوشے میں منہ چھپائے عمر کاٹتی، بے خبر اور لاعلم شیمو اور ا س کی اولاد کے زخم تازہ ہوجاتے۔ رسوائی پھر سے دامن گیر ہوجاتی۔ ٹی وی پر شہزادی کی خبریں دیکھ کر بے بس ننھی تا عمر پچھتاووں کا شکار رہتی۔ اگر الطاف کا نام منظر عام پر آتا تو گناہ گار نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی بیوی کے حصے کی سزا تا عمر رسوائی کی صورت میں اُس کی اولادکو کاٹنی پڑتی۔ یقینا شہزادی ایسا کچھ بھی ہر گز ہر گز نہیں چاہتی تھی۔
”سعد ملک ! تم کیا اتنے لالچی اور بے ضمیر ہو کہ محض چند نوٹوں کے عوض کسی کی مجبوریوں کا سودا کروگے۔ اشتہار لگاؤ گے کسی کی بے بسی کا کیا ملے گا کسی کے ڈھکے چھپے زخم عریاں کرکے؟ چند ستائشی جملے، اخبارات میں کچھ تصاویر، کچھ ٹاک شوز اور بس کھیل ختم۔” میں اپنے بے بس اور بندھے ہاتھوں کو دیکھ کر پھیکی سی ہنسی ہنس دیا۔ مگر اس ہنسی کے پیچھے بے بسی اور لاچاری کے کتنے ہی آنسو دم توڑ رہے تھے۔ دلا اور دماغ کی جنگ میں نہ کوئی فاتح قرار پایا نہ مفتوح، دونوں کا پلڑا برابر تھا۔ دل نے جہاں انسانیت کو مقدم جانا تھا وہیں دماغ نے اصلاح کا کچھ سجھاؤ بھی سجھاد یا تھا۔ تھوڑی تگ و دو اور کوشش سے شہزادی کے اپنوں کا سراغ بھی مل ہی جانا تھا۔ مگر اس سے پہلے مجھے کچھ اورکرنا تھا۔ میں نے الطاف کوفون کرکے اسے شہزادی کے ہمراہ کسی جگہ آنے کا کہا اور پتہ سمجھایا۔
فائل ”بی آر بی” کے پانیوں کی نذر کرکے اب میرا رخ اپنے پرانے شناسا ڈاکٹر شعیب کے Mental Rehabilitation Center کی طرف تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});