مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

مزار پر کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہوئے سیاہ کھلے لمبے لباس پر ہم رنگ چادر اوڑھے وہ اسی مزار کا کوئی حصہ معلوم ہوتی تھی۔ مزار پر آنے جانے والے اسے مزار کی کوئی خادمہ سمجھتے تھے جو کبھی کنویں سے پانی نکال کر مٹکے بھرتی دکھائی دیتی، کبھی مزار کے احاطے میں جھاڑو لگاتی، کبھی زنانہ مسجد میں جھاڑ پونچھ کا کام کرتی اور کبھی کبوتروں کو دانہ ڈال دیتی۔ ان کاموں کے عوض اسے لنگر پر تینوں وقت کا کھانا تو مل جاتا تھا مگر اس کی یہ خدمات اسے مزار کی باقی فقیرنیوں سے جدا رکھتی تھیں۔ باقی سب فقیرنیاں تھیں تو اس کا رتبہ ان سے معتبر تھا۔ وہ مزار کی خادمہ تھی۔ باقی سب کشکول تھامے مانگتی تھیں تو لوگ ثواب حاصل کرے کے لئے انہیں حسب فیق کچھ نہ کچھ دے دیتے تھے۔ مگر وہ نہ مانگتی تھی اور نہ اُسے کوئی کچھ دینے کی جرأت کرتا تھا کہ خادمہ برا مان گئی تو کہیں رب بھی خفا نہ ہوجائے۔مزار پر آنے والی عورتیں جب کوئی منت مانگتیں یا منت پوری ہوجاتی تو وہ دیگیں بانٹ کر یا خیرات تقسیم کرکے نذر نیاز کرتیں۔ مگر اس کے لئے وہ چادر یا جوڑا لے کر آتیں۔ اترن نہیں بالکل نیا خریدا ہوا۔ بعض تو عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے اپنے ہاتھوں سے سلائی بھی کرلاتیں۔ مگر وہ کسی چیز کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھتی۔ تب سب کو اور بھی یقین ہوجاتا کہ وہ واقعی ”اللہ والی ” ہے۔ جسے دنیاوی چیزوں کی نہ تو طلب ہے اور نہ ہی ان سے کوئی غرض۔ وہ ان کی لائی ہوئی چیزوں کو شرف قبولیت نہ بخشتی تو وہ اُسے دعا کرنے کا کہہ کر اٹھ جاتیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ اس کی دعاؤں اور مرشد سائیں کے تعویذ سے ان کی مراد ضرور پوری ہوگی۔
”جس کی دعائیں خود کو نہ لگیں اور وں کو کیا لگیں گی۔” وہ سوچتی رہتی۔
اُس کی حقیقت کوئی نہ جانتا تھا سوائے ماسی نذیراں کے۔ جو ہفتہ دس دن میں ایک بار تعویذ لینے اور دعا کروانے ضرور آجاتی تھی۔ رب نہ جانے سائیں کی دعاؤں میں اثر نہیں تھا یا اس کی قسمت کھوٹی تھی کہ نویں بار بیٹا تو پیدا ہوا مگر اس سے چند دن پہلے ہی اس کے گھر والے نے دوسری شادی بھی کرلی اسے بیٹا تو مل گیا پر ہدایت مل کر ہی نہیں دے رہی تھی کہ اپنی بیوی بچوں کو واپس بھی لے جاتا۔ ننھی دوبارہ نہیں آئی تھی۔ خود اس نے اپنے آپ پر وہاں نہ جانے کی پابندی عائد کرلی تھی۔
”ننھی کے ہاں خوش خبری آگئی ہوگی اب تک تو۔” انگلیوں پر دن گنتے ہوئے وہ سوچتی رہتی۔ جب کبھی دل زیادہ گھبراتا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سڑکوں پر ماری ماری پھرنے لگتی۔ کسی دکان پر کام کرتا اور مالک سے جھڑکیاں کھاتا ہوا کم عمر لڑکا اسے کاکے کی مانند لگتا۔ کسی امیر عورت کے پیچھے اپنی عمر اور قد سے دوگنا وزن اٹھائے حسرت بھری نظروں سے دکانوں پر سجی ہوئی اشیاء کو دیکھتی ہوئی بچی میں اُسے منی کا عکس نظر آتا۔ ہر مجبور اور گڑگڑاتی ہوئی عورت اُسے اماں نظر آتی تھی۔ بس دل کا ایک کونہ تھا جہاں سکون اور عافیت کا بسیرا تھا۔ اس ایک کونے میں جھانک کر وہ ننھی کو چھوٹا سا بچہ گود میں لئے اسے لوریاں سناتے لاڈ اٹھاتے دیکھتی تو دل کو اطمینان حاصل ہوتا۔ مزار والے اس غائب دماغی کے باعث اُسے ”کملی” کہہ کر بلانے لگے تھے۔ جبکہ مریدوں کے لئے وہ ”اللہ والی” تھی۔ ماسی نذیراں کو بھی اس بار بہت عرصہ ہوگیا تھا مزار کا چکر لگائے۔ نہ جانے اس کا مسئلہ حل ہوگیا تھا یا وہ مایو س ہوگئی تھی۔ ہر بار وہ اس سے وعدہ کرتی کہ اس کا مسئلہ حل ہوگیا تو سائیں سے اس کے لئے دعا کروا کر اس کے گھر والوں کو ڈھونڈنے میں مدد کرے گی۔نہ اس کا مسئلہ حل ہونا تھا اور نہ ہی اس کا وعدہ پورا ہونا تھا۔
بیچ میں وہ بس ایک بار آئی۔ بہت پریشان اور گھبرائی ہوئی تھی۔ بس اتنا پتہ چلا کہ اُس کا منتوں مرادوں سے حاصل ہونے والا ”کاکا” کافی بیمار تھا۔ جلدی میں تھی اس لئے شہزادی سے زیادہ بات چیت بھی نہ ہو سکی۔ مگر اب تو اس بات کو بھی دو تین ماہ ہوگئے تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”شہزادی۔ اوو شہزادی۔ جلدی چل میرے ساتھ۔” وہ پانی کے مٹکے بھر رہی تھی جب عرصہ بعد ماسی کا چہرہ دکھائی دیا۔ وہ بڑی عجلت میں تھی۔ اسے اپنے ساتھ کہیں لے جانا چاہ رہی تھی۔ وہ پریشان سی ہوگئی۔
”پر کہاں ماسی؟” اس نے ڈول نیچے رکھ دیا۔ ایک لمحے میں ہی عجیب عجیب سے خیالات ذہن میں براجمان ہوگئے تھے۔
”کاکا تو ٹھیک ہے نا تیرا؟” اس نے سوال کیا۔
”تو چل میرے ساتھ۔ تیرے گھر والوں کا پتہ لگا لیا ہے میں نے۔” اسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا تھا۔
”کک۔ کیا؟ کس کا پتہ ماسی؟” وہ ایک قدم آگے بڑھی اور پھر رک سی گئی۔
”ارے تیرے گھر والوں کا پتہ چل گیا ہے۔ چل میرے ساتھ۔” ماسی اتنی بڑی خوشخبری لائی تھی کہ وہ فوراً چادر درست کرتی ہوئی اس کے ہمراہ ہولی۔رکشہ میں بیٹھے ہوئے بھی مارے خوشی کے اس کا دل قابو میں ہی نہیں آرہا تھا۔ رکشہ انجانے راستوں پر رواں دواں تھا اور اس کا ذہن اپنے پیاروں سے ملنے کے خوابوں میں کھویا ہوا تھا جو اب جلدی ہی حقیقت بننے والے تھے۔ اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ گھر والوں کے ملتے ہی وہ اماں کے پیر پکڑ کر معافی مانگ لے گی۔ پھر چاہے اماں اسے جوتے مارے یا کسی بھی بڈھے سے بیاہ دے وہ اُف تک نہیں کرے گی۔ بے شک اماں نے کاکے کو بچانے کے لئے فیقے کا رشتہ قبول کیا تھا مگر وہ گواہ تھی کہ ننھی کس قدر خوش اور مطمئن تھی۔ آسودگی اور تحفظ سے بڑھ کر تو اس نے خود بھی کبھی کچھ نہیں مانگا تھا۔ گھر والوں سے ملنا اور خالہ بننے کی خوشی اتنی بڑی تھی کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔
”سچ ماسی مجھے اپنی خوشی میں پوچھنا یاد ہی نہیں رہا تھا کہ تیرا کاکا کیسا ہے۔ اب کیا ہوا تھا؟” اسے اتنی دیر بعد خیال آنے پر شرمندگی ہوئی تھی۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ ار ے بھائی بس اِدھر اُتار دو۔”ماسی نے رکشہ والے کو کرایہ دیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھنے لگی۔
دو تین گلیاں کراس کرکے وہ ایک عالیشان سے بنگلے میں داخل ہوگئیں۔ بنگلے کی شان و شوکت ، اس کا پھیلا ہوا رقبہ اور گیٹ پر کھڑے باوردی گارڈز کو دیکھ کر وہ مبہوت رہ گئی۔ اس نے تو صرف ٹیلی ویژن میں ہی اتنے عالیشان بنگلے دیکھے تھے۔ خود اسنے تو جس بستی میں زندگی گزاری تھی وہاں کچھ چوری کے لائق تھا ہی نہیں تو چوکیدار کی ضرورت کیونکر پیش آتی ۔ اتنے بڑے بنگلے میں اُن کی پوری بستی بھی سماجاتی تو بھی باہر کا لان خالی ہی رہتا۔
”ماسی ! کیا اماں یہاں پر کام کرتی ہے؟” وہ اپنی حیرت پر قابو نہیں رکھ پائی تھی۔
”آں۔ ہاں اِدھر نوکروں کی کمی تھوڑے ہی ہے۔” وہ کچھ اُلجھی ہوئی تھی یا شاید بوکھلاہٹ کا شکار تھی۔ بڑے سے لان اور گیراج میں کھڑی گاڑیوں کی قطار کو پیچھے چھوڑتے ہوئے وہ ایک آرائشی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ لمبی سی راہداری کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ دائیں بائیں ہر طرف کمرے ہی کمرے تھے۔ وہ ماسی کے ہمراہ ایک وسیع ہال نما کمرے میں داخل ہوئی۔ جہاں کا فرنیچر اور سجاوٹ دیکھ کر اُس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئی تھیں۔
”ماسی سرونٹ کوارٹر میں لے جاتی۔ ادھر کہاں لے آئی۔ مالکوں نے ناراض ہو کر اماں کو نکال دیا تو…” ماسی نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
”میں چلتی ہوں۔” وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”ماسی رُک نا۔ اماں کو تو آلینے دے۔” وہ گھبرا گئی۔
”شہزادی مجھے سالوں بعد رب نے کاکا دیا اور میاں بھی مگر میں قسمت کی ماری کے کاکے کو ڈاکٹروں نے پتہ نیئں کونسی خطرناک بیماری بتائی۔ مررہا ہے میرا کاکا۔ اس کے آپریشن کے لئے بہت پیسہ چاہیے تھا مجھے…” ماسی پتہ نہیں کیا اول فول بکے جارہی تھی۔ اُسے اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگی۔
”مم… مجھے معاف کردینا شہزادی۔ میں ایک مجبور بے سہارا ماں…” اس نے ہاتھ باندھے ہی تھے کہ اندرونی دروازے پر کھٹکا ہوا۔ وہ فوراً سیدھی ہوگئی۔ کوئی اندر آرہا تھا۔ اُسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔
”سائیں۔” اس کے لبوں نے بے آواز جنبش کی۔ اس نے پیچھے مڑ کر ماسی کی جانب دیکھا مگر وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ پیچھے کھائی تھی آگے موت اور وہ خلا میں معلق ۔ سارا جسم سن ہوچکا تھا۔ اس نے لمحہ بہ لمحہ اپنی طرف بڑھتی ہوئی قیامت کو دیکھا تھا۔ نہ فرار کا کوئی راستہ تھا اور نہ چلانے کا کوئی فائدہ۔ سامنے شیطان تھا اور وہ خود رحمن کی مصلحت سے ناآشنا۔ اس کے بھیدوں سے ناواقف ۔ اسے ماسی کے مجبور چہرے میں اماں کا چہرہ نظر آیا۔
”میںنہ بکتی تو تیرے آنگن کی ننھی بک جاتی۔ مجھے نہ روندا جاتا تو تیری کوئی شہزادی پامال کردی جاتی۔میںنے تجھے معاف کیا ماسی۔ تو غریب ہے۔ مجبور ہے۔ اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ تو موت کے منہ میں کھڑی کسی اولاد کی ماں بھی ہے۔” سر پر کھڑی قیامت کو دیکھ کر وہ لہرا کر گری اور بے ہوش ہوگئی۔
٭…٭…٭
مائے نی میں کنوں آکھاں۔
درد و چھوڑے دا حال نی
مائے نی…
دکھاں دی روٹی…
سولان دا سالن
آہیں دا بالن بال نی !
مائے نی میں کنوں آکھاں
جنگل بیلے پھراں ڈھوڈ یندی
اجے نہ پاون لال نی!
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد چھوڑے دا حال نی
”مزاوالی خادمہ جھلی ہوگئی ہے۔”
”کملی اللہ والی ہوگئی ہے۔”
”جانے دکھیاری کیا روگ پال بیٹھی ہے۔”
”سائیں ہوگئی ہے۔ رب کی راہ پر چل نکلی ہے۔”
جتنے منہ تھے اُتنی ہی باتیں۔ وہ ان سب باتوں سے بے نیاز آنکھیں موندے گھنٹوں چپ چاپ بیٹھی رہتی۔ آنکھیں کھولتی تو کھوئی کھوئی نظریں نہ جانے آسمان میں کیا تلاش کرتیں۔ شاید آسمان والے کو ۔ شاید اُسے کسی ایسے مسیحا کی کھوج تھی جو دلوں کے دکھ جان کر اُن میں چھپے ہوئے زخموں کو ناسور بننے سے روک سکتا۔ کوئی ایسا منصف جو محافظ کا بھیس بدلے ہوئے ڈاکوؤں اور رہنما کے نقاب میں چھپے ہوئے رہنزنوں کی دراز رسی کھینچ کر انہیں تختہ دار پر لٹکا سکتا۔ جو اس کے درد کی دوا ڈھونڈ لاتا۔
کتنے ہفتے گزرے، نہ تو ا س نے کسی سے بات کی اور نہ ہی مزار کا کوئی کام کاج کیا۔ نہ ہی مزار کے احاطہ سے باہر جاکر کسی کو کھوجنے کی کوئی کوشش کی۔ ایسا لگتا تھا کہ مسافتیں انجام پذیر ہوئیں اور مسافر منزل تک جاپہنچا تھا۔ وہ بیٹھی بیٹھی کبھی ہنستی کبھی روتی اور کبھی مزار کے کبوترو سے باتیں کرنے لگتی۔
”اُڑ جاؤ۔ اُڑ جاؤ۔ یہاں کوئی زبان والوں کی نہیں سمجھتا تو تم بے زبانوں کی کون سنے گا۔ یہاں سکون کی تلاش میں بیٹھے ہو، مگر یہ تو جنگل ہے۔ یہاں کے درندے تمہیں نوچ ڈالیں گے۔” وہ ہاتھ ہلا کر شش شی شی کرتی ہوئی انہیں اڑانے کی کوشش میں خود کو ہلکان کرتی رہتی۔ مگر انہیں اس غائبانہ اسیری سے اُنیست ہوگئی تھی۔ واپس یہیں پر لوٹ آتے تھے۔ وہ کونساانسان تھے جو انسانوں سے خوفزدہ ہوتے۔
”میں نے معاف کیا۔ تم ماں ہونا۔ اس لئے معاف کیا۔” وہ خود سے جانے کیا کیا باتیں کرتی رہتی۔
”ماں مجبور ہوتی ہے۔ بے بس ہوتی ہے۔ ماں ظالم نہیں ۔ ماں ظالم نہیں۔” اکثر اُسے دورہ پڑجاتا تو وہ چلاتے ہوئے ننگے پیر نہ جانے کہاں بھاگ نکلتی۔ مگر تھک ہار کر وہیں لوٹ آتی۔ مزار کے کبوتروں کی طرح اب شاید اُسے انسانوں سے کوئی خطرہ نہیں رہا تھا یا وہ انسانوں کی درندگی سے ابھی بھی ناآشنا تھی۔
ان ہی دنوں جب وہ ہوش و خرد سے بیگانہ اور کم عمری کے باعث اپنی ظاہری اور اندرونی حالت سے بے خبر تھی۔ تجربہ کار اور زمانہ شناس نظروں نے اس کی دیوانگی کی وجہ بھانپ لی تھی۔ سائیں کا جلال اپنے عروج پر تھا۔ تمام ملنگ، مرید اور فقیر ان کی غیرت سے بھری ہوئی لال انگارہ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے رحم رحم کرتے کونوں میں جادبکے تھے۔ ان کے مطابق سائیں ناراض تھے تو رب نے کیوں خوش ہونا تھا۔
”اُٹھا کر پھینک دو باہر اس گندگی کو۔ مزار کی بے حرمتی ہے اس جیسے ناپاک وجود کا یہاں ہونا۔” وقت کا فرعون، جا ہ و اقتدار کے نشے میں چور ہوکر خود اپنے ہی خون کو گندگی قرار دے رہا تھا۔ آنے والے وقت کے کسی موسیٰ سے ڈر کر خود اپنی ہی نسل کو روندنے کے در پر تھا۔ سب تو یہ استغفار کا ورد کرتے ہوئے رحم کی اپیل کررہے تھے۔ بس ایک وہ تھی جو اپنے ہی حال میں مست بیٹھی تھی۔
”تم مجبور ہو۔ تم ماںہو۔ میں نے معاف کیا۔ کوئی تو روندا جاتا۔ میں ہی سہی میں ہی…” اب کھونے کو بچا ہی کیا تھا جو وہ خوفزدہ ہوتی۔
”کوئی کام نہیں ہے ایسی پاک جگہ پر ایسوں کا جو اپنے نفس کے منہ زور گھوڑے کو لگام نہ ڈال سکیں۔ جن کی ہوس انہیں اندھا کرکے گمراہی اور غلاظت کی دلدل میں لاگرائے۔” اس کے حکم پر اس کے وفادار اور مرید کملی کی جانب بڑھے تھے۔ وہ بھاگی تھی۔ اپنے لئے نہیں اپنی مامتا کے لئے۔ وہ سانپ نہ تھی سائیں کی طرح جو اپنے بچوں کو نگل جاتی، وہ کوئل بھی نہ تھی اماں کی طرح جو انہیں بے اماں چھوڑ دیتی۔ وہ چڑیا تھی ماسی نذیراں کی طرح اور بیگم صاحبہ کی طرح جو اپنی اولاد کے بچاؤ کے لئے کسی سے بھی لڑسکتی تھی۔ کسی حد تک بھی جاسکتی تھی۔ سو اپنی طرف بڑھتی ان کٹھ پتلیوں کی جانب اس نے زمین سے پتھر اُٹھا کر برسائے تھے زندگی میں پہلی اور آخری بار اس نے کسی پر حملہ کیا تھا کیونکہ یہ ایک ماں کی طرف سے اولاد کے لئے کھیلی جانیوالی بازی تھی۔ بقا کی بقای۔ پھر چاہے وہ کامیاب رہتی یا شکست سے ہمکنار ہوتی۔ مگر آن کی آن میں وقت کے قاضیوں اور منصفوں نے اسے مجرم قرار دے کر باہر نکال دیا تھا۔ اس ظلم پر نہ تو آسمان سے کنکر برسے تھے نہ زمین کانپی تھی اور نہ ہی مزار کا کوئی پرندہ اس گدھ کے ناپاک جسم کی بدبو پہچان کر مزار چھوڑ کر گیا تھا جس کا کام نوچنا، بھنبھوڑنا اور پامال کرنا تھا۔
”ماں مجبور۔ ماں ظالم نہیں۔” اپنی ہی دھن میں مگن وہ نہ جانے کس سمت کو نکل گئی تھی۔
٭…٭…٭
بلکتی مامتا پر ترس نہ کھاؤ
اگر انصاف چاہتے ہو
تو گھر کے آنگن میں نہیں
شہر کے بیچ چوراہے پر
بیٹیاں جلا ڈالو
کہ یہ انصاف کی راہ میں حائل
چند بھیڑیوں کی نظرمیں ہیں
یہ بھیڑیئے جو قابض ہیں
ہمار قسمت پہ
جو جھکادیتے ہیں عدل کے ترازو کو
یہ بھیڑیئے جلاڈالو
یہ ترازو پھونک ڈالو
ورنہ
میں اپنی مریم جلاتا ہوں
تم اپنی ماریہ جلا ڈالو
بیٹیاں جلاڈالو
کہ شاید پھر انصاف ہوجاؤ
صبح کی نماز سے فارغ ہوکر دو بزرگ لاٹھی ٹپکتے ہوئے تسبیح ہاتھ میں تھامے مسجد سے گھر واپس جارہے تھے کہ ایک جگہ پہنچ کر وہ ٹھٹک کر رہ گئے۔ چشمہ درست کرتے ہوئے انہوں نے چند قدم اور آگے جاکر قبرستان میں اس ہولناک منظر کو دیکھا۔ چند لمحوں کے لئے ان پر یوں سکتہ طاری ہوگیا جیسے آنکھوں پر یقین نہ آرہا ہو۔ پھر ”ہش ہش شی شی ” کی آوازیں نکالتے ہوئے انہوں نے اپنی لاٹھیاں ہوا میں یوں لہرائیں جیسے کسی جانور کو دور بھگارہے ہوں۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے کا منظر دیکھتے ہوئے وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھے تھے۔ ان کی واپسی چند ہی منٹ بعد ہوئی تھی مگر اب ان کے ساتھ اہل خانہ اور اہل محلہ کاایک ہجوم موجود تھا۔ قبرستان میں مسجد سے واپس آتے ہوئے نمازیوں کا بھی اچھا خاصا ہجوم جمع ہوچکا تھا۔ یہ سارا قافلہ بھی ان سے جا ملا تھا۔
”استغفراللہ۔ قیامت کی نشانیاں ہیں۔”
شہر کے اس درمیانے درجے کے رہائشی علاقے کے قبرستان میں لوگوں کی بھیڑ ہی بھیڑ تھی۔ مردوں کے علاوہ عورتیں بھی بچے تھامے نکل آئی تھیں۔ جہاں سامنے کامنظر دیکھ کر عورتوں کے دل کانپ اُٹھے تھے وہیں معصوم بچے بھی دہشت زدہ ہوکر ماؤں سے چمٹ گئے تھے۔
”اللہ معاف کرے ۔ ڈوب مرنے کامقام ہے۔”
”توبہ توبہ کیسا زمانہ ہے۔ بے حیائی اور بے راہ روی بڑھتی چلی جارہی ہے۔”
”بس بھیا کیا کہیں اور کیا نہ کہیں آ ج کل کے دور نے توبچوں سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا۔” کسی نے شرمسار لہجے میں کہا۔
”اور کیا۔ جب ایسے چاند چڑھانے ہوتے ہیں تو ان تحفوں کو جھولے میں کیوں نہیں ڈال آتے۔” ایک عورت نے بچہ گود میں لے کر ہاتھ نچائے۔
”کیسے پتھر دل ہوتے ہیں لوگوں کے۔اُف اللہ معاف کرے۔ اور ا س قوم پر زلزلے اور عذاب نہیں آئیں گے تو کیا من و سلویٰ اُترے گا۔” کسی نے کانوں کوہاتھ لگایا۔
”سب حکومت کی غفلت ہے۔جگہ جگہ پر چیکنگ اور ناکے ہوں۔ ٹی وی پر دینی پروگرام دکھائیں تو قوم کچھ سدھرے بھی۔” ایک بزرگ نے کوسا۔ عین اسی وقت پچاس سال کے لگ بھگ عمر کی عورت نیلا سویٹر پہنے دو تین سالہ بچی کو گود میں لئے مجمع کو چیرتی ہوئی آگے تک آئی۔مگر سامنے کا منظر دیکھ کر اُسے اپنی زبان دانتوں تلے دبانی پڑی تھی۔
سامنے دو نومولود بچے سخت سردی میں بغیر لباس کے ایک سیاہ چادر کے اوپر لیٹے ہوئے تھے۔ دونوں کے جسم سرد ی سے اکڑ کر نیلے اور بے جان ہوچکے تھے۔ ان میں سے ایک کا کٹا پھٹا خون آلودہ جسم دیکھ کریوں لگتا تھا کہ اُسے کسی جانور نے بھنبھوڑا تھا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اُن دونوں نے جنوری کی یخ پستہ ہواؤں سے لڑتے ہوئے ہار مانی تھی یا کسی جانور کے بھنبھوڑنے کے بعد۔
بہر حال جو بھی تھا زندگی کی کمائیاں موت سے ضرب کھاکر صفر میں ڈھل چکی تھیں۔
”کیسی بے حیائی اور سنگدلی ہے۔ ایسا سلوک تو جانور بھی اپنی اولاد سے نہیں کرتے۔” کسی نے تبصرہ کیا تھا۔ ہر ایک اپنی ہی کہے جارہا تھا۔ نیلی سویٹر والی عورت نے اپنی بچی نیچے اُتار کر آگے بڑھ کر اُسی سیاہ چادر سے بچوں کو ڈھانپا تھا۔ ان کی نبض اور سانس چیک کی۔ ایک تو لڑکی تھی جبکہ دوسری کے بچے کھچے خون آلودہ جسم سے یہ پتہ لگانا بھی مشکل تھا۔ دونوں کے ننھے ننھے پھول پنکھڑی جیسے ہونٹ جنوری کی برفانی ہواؤں سے لڑتے لڑتے ”ماں” کا لفظ کہے بغیر ہی خاموش ہوگئے تھے۔ ا ن کی معصوم روشن آنکھیں دنیا دیکھے بغیر ہی اس کی سنگدلی پر تاریک اور ویران ہوگئی تھیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!