مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

بہت دن تک وہ ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح یہاں سے وہاں پھرتی رہی۔ سارا دن اِدھر اُدھر ماری ماری پھر کر جب تھک جاتی تو مزار کے احاطے میں واپس آجاتی۔ لنگر پر تینوں وقت پیٹ بھر کھانا مل جاتا ۔ کم از کم یہاں اُسے کوئی جانتا نہیں تھا تو انسانوں بلکہ اپنوں کا خوف بھی نہیں تھا۔ چند ہی دن میںدل کو قرار بھی آگیا تھا۔ وہ خود کو محفوظ تصور کرنے لگی تھی۔
ایک دن یونہی بے مقصد پھرتے پھراتے اس کی نظر بس اسٹاف پر کھڑے اخبار والے کی سائیکل پر پڑی تھی۔
”شہریوں نے ڈاکوؤں کو تیل چھڑک کر آگ لگادی۔” اس خبر میں ایسا کیا تھا کہ وہ چونک اُٹھی اُسے خود بھی سمجھ نہ آئی۔ مگر اخبار میں لکھی تاریخ پڑھتے ہی اُس کا دماغ چکرا گیا تھا۔ دو ماہ ہوگئے تھے اُسے گھر سے نکلے ہوئے۔
”اتنے عرصہ میں تو چاچے نے پیسے واپس نہ ملنے پر قیامت کھڑی کردی ہوگی۔ اماں اور کاکے کا نہ جانے کیا حال کیا ہوگا۔ خالہ نوراں کے بیٹے نے اُس کی دکان سے ہزار روپیہ اُٹھایا تھا تو چاچے نے مار مار کر بچارے کا بازو توڑ دیا تھا۔ یہ تو پچاس ساٹھ ہزار کا معاملہ تھا۔ وہ بھلا کیوں معاف کرسکتا تھا۔ ضرور بات تھانے کچہری تک پہنچی ہوگی۔ کیا خبر کاکا ایک بار پھر حوالات میں مار کھا رہا ہو یا پھر…” اس سے آگے کچھ سوچنے کا اس میں حوصلہ نہ تھا۔ مگر سوچ پر پہو بٹھانا بھی بس میں نہ تھا۔ ڈاکوؤں کی جلی ہوئی لاشوں میں سے ایک کا چہرہ کاکے کی طرح دکھنے لگا تھا۔
”کیا خبر ان میں سے کوئی کتنی بہنوں کا اکلوتا بھائی ہو۔”
”کوئی بیوہ ماں کا سہارا ہو۔”
”کسی نے پیو کا کتنا قرض اُتارنا ہو۔” درد کا ایسا احساس جاگا تھا جیسے کسی نے اُس کے جسم کی بوٹیاں نوچ لی ہوں۔ چادر کے پلو سے بندھے ہوئے برسوں پرانے دس کے نوٹ پر اُ س کی گرفت اور بھی مضبوط ہوگئی تھی۔
”کہاں گھسی چلی آرہی ہو؟” وہ جیسے ہی ٹاٹ کا پردہ اُٹھا کر اندر داخل ہوئی۔ ایک اجنبی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ ایک بے حد بھاری بھرکم عورت کو لہوں پر ہاتھ ٹکائے اُسے کھا جانیوالی نظروں سے گھور رہی تھی۔ وہ ٹھٹک کر رک گئی۔
”ننھی، اماں، کاکے۔” وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے آوازیں لگانے لگی۔
”کاکے کی ماں سے ملنے آئی ہو؟” اس نے جواباً ہاں میں سرہلایا تھا۔
”وہ تو یہاں سے چلی گئی مکان بیچ کر۔” عورت موڑھے پر بیٹھ کر دال صاف کرنے لگی تھی۔ اس نے دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچایا تھا۔
”کہاں چلی گئی؟ کب چلی گئی؟” اس نے تقریباً چلا کر کہا تھا جس پر اس عورت نے ناگواری سے اُسے دیکھا۔
”ہمیں کیا پتہ۔ ہماری کونسی رشتہ داری تھی ایسیوں سے۔ اللہ بچائے توبہ توبہ۔” اس نے حقارت سے کہا۔
”کیا مطلب ہے؟”
”بس پتہ نہیں قسمت کی ماری تھی یا اولاد کے کرتوتوں کی۔ پہلے لڑکا چوری کرتے پکڑا گیا۔ رشوت دے کر اس نے لڑکے کو چھڑوایا۔ تو لڑکی گھر سے نہ جانے کس کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئی۔ بڑارولا بنا تھا۔ بڑی بدنامی ہوئی۔ اُوپر سے قرضہ بھی چکانا تھا۔ اس نے کچے پکے کاغذوں پر مکان بیچ کر چلتی بنی۔” اس نے سرجھٹکا۔
”تم کوئی رشتہ دار ہو اُس کی؟” اس کے پوچھنے پر وہ محض سرہلا کر رہ گئی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”یہ دو گلیاں چھوڑ کر کریانہ کا مالک ہے رفیق۔ اس نے ہی مکان خرید کر ہمیں دیا ہے۔ شاید اُسے پتہ ہو۔ جاکر پوچھ لو۔” انداز ایسا تھا کہ گویا اُسے جانے کا کہہ رہی ہو۔
اپنا وجود بمشکل سنبھالے وہ باہر نکل آئی تھی۔ سر پر آسمان تو پہلے بھی نہ تھا اب تو پیروں کے نیچے سے زمین بھی سرک گئی تھی۔ اس کا وجود خلا میں معلق رہ گیا تھا۔ چلتے ہوئے بھی اس کا دھیان اپنے مکان کی جانب ہی تھا۔ جو اس کے لئے کبھی گھر نہ بن سکا تھا۔ بار بار وہ رک جاتی۔ مڑکر دیکھتی کہ شاید کہیں پر اماں نظر آجائے۔ ننھی جھاڑو لگانے کے ساتھ ساتھ منی کو صلواتیں سنارہی ہو جو ہر وقت گند مچائے رکھتی تھی۔ منی کہیں چھپ کر بیٹھتی مونگ پھلیاں کھا رہی ہو۔ گلی کا موڑ مڑ کر بھی اُس نے پلٹ کر دیکھا تھا۔ قریبی کچرے کے ڈھیر نما گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے ہوئے اس نے ایک ایک لڑکے کا چہرہ بغور دیکھا کہ شاید کاکا بھی ان میں کھیل رہا ہو۔ ایک ہاتھ سے نقاب سنبھالے وہ کافی دیر اُدھر ہی کھڑی رہی۔ قریبی بس اسٹاپ کا رخ کرتے ہوئے دو گلیاں آگے اُس کی نظر کسی مکان پر پڑی تو آنکھوں کے بجھتے دیئے جل اُٹھے تھے۔ سامنے پانچ مرلے کا دو منزلہ پکا مکان جس کی پرانی بد رنگ اور سیلن زدہ دیواروں پر تازہ تازہ پینٹ کرایا گیا تھا۔ لکڑی کے پرانے دروازے کی جگہ لوہے کے نئے مضبوط گیٹ نے لے لی تھی۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے یکا یک اُس کے کانوں میں جیسے کوئی آواز گونجی تھی۔
”تو اک واری من کر تو دیکھ۔ ہاں تو کر۔ دیکھنا سارے کوٹھے پر تیری پسند کی چٹی سفید قلعی کرادوں گا۔ لکڑی کی جگہ نویں ڈیزائن کا دروازہ لگاؤں گا لوہے والا۔ بالکل نواں نکور چم چم کرتا موٹر سائیکل لوں گا۔” اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا۔
”تت۔ تو کیا ننھی یا پھر منی؟” ایک ادھورا سا سوال ذہن میں آکر براجمان ہوگیا۔ کسی خیال کے تحت اُس نے پوری قوت سے گیٹ دھڑدھڑانا شروع کردیا۔
اپنوں کا نشان ملنے کی جہاں اُمید جاگی تھی وہیں پر دل شدت سے یہ دعا بھی کررہا تھا کہ اس دستک کا کوئی جواب نہ آئے۔ گھر ہمیشہ کی طرح خالی ہی ہو۔ اندر سے کوئی نہ نکلے۔مگر اندر سے آتی آواز نے اس بار بھی اس کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف نہ دیا تھا۔
”کون ہے؟ نظر نہیں آتا گیٹ پر تالا لگا ہوا ہے۔” اندر سے کسی نے تیز آواز میں کہا تھا۔ گیٹ پر شدت سے برستے اُس کے ہاتھ یکدم ہی بے جان ہوگئے تھے۔ جیسے کہ اُس کے طوطے میں سے کسی نے جان نکال دی ہو۔ دل کی دھڑکن تھم سی گئی تھی۔
”ننھی۔ ننھی میں ہوں۔” وہ تڑپ اٹھی تھی۔
”کک۔ کون؟” دوسری طرف اب الجھن واضح تھی۔
”میں ہوں ننھی۔” وہ اپنی ماں جائی کی آواز پہچان لے گی ایک مان تھا جو ابھی بھی قائم تھا۔ دوسری طرف بہت دیر خاموشی طاری رہی تھی۔ پھر بیٹھک کی کھڑکی کھلی تھی۔ اُسے اندر سے جھانکتا ہوا ننھی کا چہرہ جیسے برسوں بعد نظر آیا تھا۔ وہ اُس کی طرف لپکی اور سلاخوں سے سرٹپک لیا تھا۔ ننھی بدک کر پیچھے ہوگئی تھی۔
”اب کیا لینے آئی ہے یہاں؟ جا یہاں سے منحوس کہیں کی۔” زندگی میں پہلی بار اُس کے تیور جارحانہ دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی تھی۔
”اب کیوں اپنی بوتھی دکھانے آگئی ہے۔ دفع ہو جا ۔ جدھر تھی اُدھر ہی مرجاتی۔” ننھی کو دھواں دار روتے دیکھ کر اُس کا دل غم سے پھٹ گیا تھا۔
اپنے ہاتھوں سے وہ اس کے آنسو صاف کرتی رہی۔ مگر اس سیلاب پر بند باندھنا اُس کے بس کی بات نہ تھی۔ بہت دیر تک وہ سلاخوں کے آر پار ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے، سر جوڑے آنسو بہاتی رہیں جیسے بچھڑ جانے والوں کا ماتم کررہی ہوں۔
”اماں نے تجھے بیچ دیا۔ اپنے لاڈلے کو بچانے کے لئے کبھی اُس نے مجھ پر ظلم کیا۔ کبھی تجھ پر۔ تو تو اماں کی اتنی فرمانبردار تھی تجھ پر بھی اُس ظالم نے ترس نہیں کھایا۔” چادر کے پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے شکوہ کیا۔
”ناتو فیر کیا کرتی وہ۔ کاکے کو ساری زندگی جیل میں مار کھانے کے لئے چھوڑ دیتی یا خود کو بیچ کر فیقے سے جان چھڑاتی۔ اُس نے نہیں بیچا مجھے۔ میں نے خود ہاں کی تھی شادی کے لئے۔” اس کی بات سن کر شہزادی سناٹے میں رہ گئی تھی۔
”تو نے کیوں ہاں کی تھی اُس بڈھے، نظر باز فیقے کے لئے۔” اس نے احتجاج کیا ۔
”کیا کرتی؟ پولیس گھر تک آگئی تھی فیر سے۔ کاکے کو بھیج دیتی تھانے؟ محلے والے تھو تھو کررہے تھے۔ سب بیگموں نے کام سے ہٹا دیا تھا۔ دو دن تک گھر میں کسی کو روٹی نصیب نہیں ہوئی۔ منی کو تو جانتی ہے نا تو۔ بھو ک کی کتنی کچی تھی وہ۔ خالی پیٹ اُلٹیاں کرتی رہی وہ۔ کیاکرتی میں؟” وہ پھر سے رو پڑی تھی۔
ایک ایک کرکے وہ اس پر آگہی کے عذاب اُتار رہی تھی۔
”ننھی تو نے میرے حصے کے گنڈے کیوں چُنے؟ کیوں میرے حصے کے زہر کا پیالہ تو نے ہونٹوں سے لگا لیا؟” گرم گرم آنسو تواتر سے اُس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔
”صرف اماں کے لئے۔ اب تو کبھی اُس کی صورت دیکھنی بھی نصیب نہیں ہوگی۔ چلی گئی وہ ظالموں کا یہ شہر چھوڑ کر۔ تو بھی اُسے معاف کردینا۔ سوہنا رب سب کو معاف کرے سب کی مصیبتیں دور کرے۔” وہ سلاخوں سے سرٹکرانے لگی تھی۔
”مگر یہ تالا؟” اس نے گیٹ پر لگے تالے کی جانب اشارہ کیا۔ بہت دیر بعد اُس کے ذہن میں یہ سوال آیا تھا۔
”فیقے کو اعتبار نہیں ہے مجھ پر۔ کہتا ہے تیرا بھی کیا پتہ کہ تو بھی اپنی بہن کی طرح…” اس نے زبان دانتوں میں دبائی۔ جبکہ شہزادی نظریں چرا کر رہ گئی تھی۔
٭…٭…٭
”بس بیٹی یہاں سب کی اپنی ہی کہانی ہے۔ سب کے اپنے ہی دکھ ہیں۔” ماسی نذیراں نے اُس کی کہانی سن کر دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھے۔ وہ جب بھی تعویذ لینے مرشد سائیں کے پاس آتی اُس کا حال چال پوچھنے کے لئے گھڑی دو گھڑی رک جاتی تھی۔ مگر تفصیلی بات کا موقع پہلی بار ملا تھا۔
”ماسی کس بات کا تعویذ لینے آتی ہے یہاں؟”
”آٹھ بیٹیاں ہیں۔ چھوٹی والی کے چند ماہ بعد تو گھر والے نے گھر سے نکال دیا۔ مگر سوہنے رب کی مرضی کہ نویں جی سے ہوں۔ گھر والے کو پتہ نہیں ہے۔ وہ تو دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ بس پیکے والوں پر بیٹیاں لے کر بوجھ بنی بیٹھی ہوں۔ سائیں کے پاس تعویذ لینے آتی ہوں ۔ شاید رب ان کی دعاؤں سے اس بار لڑکا دے دے۔ یا پھر ان کے پیوکو ہدایت دیدے۔” ماسی نے ہاتھ میں پکڑے لفافے میں سے تبرک والے چنے اُس کی جانب بڑھائے۔
”لے کھالے۔ دم کیا ہے سائیں نے۔” اس کے لئے تو یہ تبرک سے بھی بڑھ کر تھے۔ صبح شام قطار میں لگ کر لنگر کھانے کی عادت جو ہوگئی تھی۔
پہلے پہل تو وہ مزار پر آنے والی ہر عورت کے چہرے میں ماں کا چہرہ تلاش کرتی تھی مگر اب دل کو قرار آگیا تھا کہ اب ان لوگوں نے واپس نہیں لوٹنا تھا۔ اس کے اپنے خون کے رشتے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے تھے۔ بس جب کبھی گھر والوں کی یاد زیادہ ستاتی تو وہ منہ ڈھانپے، چھپتی چھپاتی ننھی سے ملنے چلی جایا کرتی تھی۔ گیٹ پر تالا دیکھ کر اُسے فیقے کے نہ ہونے کا یقین ہوجاتا تھا۔ ویسے بھی اب اس نے بڑے بازار میں کپڑے کی دکان لے لی تھی۔ اس لئے گھر بس دن میں کھانا کھانے ہی آیا کرتا تھا۔
”کیا ننھی مجھ سے ملنے آئی ہے؟ فیقے نے اُسے اجازت دے دی؟” وہ مزار کے احاطے میں کبوتروں کو دانہ جگتے دیکھ رہی تھی۔ جب سامنے سے ننھی کو آتے دیکھ کر پہلے تو اُسے اپنا وہم لگا تھا۔ مگر ا س کے پیچھے نئی نکور چم چم کرتی بائیک کو تالا لگاتا فیقہ بھی چلا آرہا تھا۔ اس کے دل میں خوش فہمیاں انگڑائیاں لینے لگی تھیں۔ مگر پھر فوراً یاد آیا کہ اُس نے کبھی ننھی کو مزار کی بابت تو بتایا ہی نہیں تھا۔ اس کی ساری خوشی جھاگ کی مانند بیٹھ گئی۔ ماتھے تک آئی چادر اُس نے سرکاکر منہ تک کرلی تھی۔
سبز ریشمی ستاروں سے مزیں چمچماتا جوڑا، آنکھوں میں کاجل کی لکیر، ہونٹوں پر لپ اسٹک ، دونوں بازوؤں میں بھر بھر چوڑیاں، گولڈن سینڈل اور چادر کے نیچے سے لہراتے ہوئے پراندے میں آج تو سانولی سلونی ننھی کا روپ اُسے بھی مات دے رہا تھا۔ چہرے پر عجیب سی رونق اور آنکھوں میں چمک تھی۔ فیقے نے بھی گہرے رنگ کے لباس کی بجائے ہلکے بادامی شلوار قمیض کے ساتھ چمڑے کی سینڈل پہن رکھی تھی۔ آنکھوں میں سرمہ، اور بالوں میں تیل کی مقدار خاصی کم تھی اور بالوں میں مہندی کی جگہ خضاب نے لے لی تھی۔ اچھا بھلا انسان لگ رہا تھا۔کھلے ہوئے گریبان سے جھولتا ہوا تعویذ اب سلیقے سے بند ہوئے بٹنوں والی قمیض کے اندر تھا۔ اس نے چہرہ مکمل چھپا لیا تھا۔ اس کے پاس سے گزر کر وہ دونوں مزار کے اندر چلے گئے تھے۔
کافی دیر دعا کرنے اور تعویذ لینے کے بعد وہ باہر آتے نظر آئے اور چاولوں کی دیگ فقیروں میں بانٹنی شروع کردی۔ لائن میں لگی شہزادی خالی کٹورا لئے ہی واپس پلٹ گئی تھی۔ اس کے نصیب میں ہی نہ تھا اپنوں کی دی ہوئی خیرات پر بھی حق جمانا۔ کافی دیر بعد وہ دونوں واپس لوٹ گئے تھے اس کی نظر نے ان کی بائیک آنکھوں سے اُوجھل ہونے تک اُن کا تعاقب کیا تھا۔
٭…٭…٭
”اماں کا کوئی اتا پتہ؟” ہر باروہ یہی سوال دہراتی اور ہمیشہ کی طرح ننھی کا سفر نفی میں ہل جاتا۔ اُسے مزار پر دیکھ کر وہ بے چین ہوگئی تھی اور اگلے ہی دن ملنے آگئی تھی۔
ننھی پہلے کی نسبت بہت بدلی بدلی سی دکھائی دیتی تھی۔ بلکہ بہت بہتر حلیہ میں تھی۔ چہرہ پر عجیب سی رونق اور نکھار تھا۔ بلکہ آج تو وہ اُسے کسی ملکہ سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ نئے سوٹ میں بنی سنواری وہ اُسے بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اُسے دیکھتے ہی وہ جھٹ فرج سے ٹھنڈی بوتل نکال لائی۔ کھانا بناتے ہوئے بھی وہ مسلسل چہک رہی تھی۔ صرف ایک ماہ میں ہی سوکھی کڑی ننھی کا جسم کافی بھر گیا تھا۔ رنگ بھی پہلے کی نسبت صاف ہوگیا تھا۔ آج تو فیقہ گیٹ پر تالا بھی نہیں لگا کر گیا تھا۔ شاید بھول گیا تھا یا پھر اُسے ننھی پر اعتباد آگیا تھا۔ شہزادی پوچھتے پوچھتے رہ گئی تھی۔
”گیس والا چولہا بھی ہے تیرے گھر۔” اس نے دھنیہ صاف کرنے میں اُس کی مدد کرنا چاہی۔
”نہیں رے تو رہنے دے تو تو مہمان ہے۔” اس نے اسے باز رکھنا چاہا۔
”ارے کیا ہوگیا۔ یہ کونسا بڑا مشقت کا کام ہے؟” اس نے دھنیہ کاٹ کر پلیٹ میں ڈالا۔
”ویسے بھی بڑے دن ہوگئے کچن کا کوئی کام کئے۔” پکا پکا یا مل جاتا تھا۔ بغیر ہاتھ ہلائے مگر اُسے مسالے پیستی ننھی پر رشک آیا تھا۔
”بلکہ تو بیٹھ میں ہی پکا دیتی ہوں۔” اس نے گوشت صاف کرکے اُس کے آگے دہرا۔
”ارے نہیں رہنے دے تو۔ وہ اصل میں اُسے میرے ہاتھ کا پکا ہی پسند ہے۔” اس کے لبوں پر مسکراہٹ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ شہزادی بغور اسے دیکھنے لگی۔
”کیا ہوا؟ تیری طبیعت توپھک ہے۔” چولہے کے آگے کھڑے کھڑے ننھی کی رنگت ہلدی کی مانند زرد ہونے لگی تو وہ پریشان ہوگئی۔
”ہاں بس۔ وہ کچھ طبیعت ٹھیک نہیں رہتی آج کل۔” اس نے نظریں چرائیں۔
”کل تو مزار پر آئی تھی فیقے کے ساتھ۔ اپنی صحت کے لئے ہی تعویذ لینا تھا کیا؟” اس ن سمجھتے ہوئے سرہلایا۔
”ہاں وہ رفیق کہہ رہا تھا کہ پیر جی سے تعویذ بھی لے آتے ہیں اور دعا بھی کرا آتے ہیں۔ کوئی صدقہ نیاز بھی دے آئیںگے۔” اس کے منہ سے ”فیقے” کی جگہ رفیق سن کر وہ حیران ہوئی۔
”آ…اچھا ۔ ہوا کیا ہے تجھے۔ تعویذ دیا پھر سائیں نے؟”
”ہاں دیا۔ میں نے اپنے لئے نہیں وہ کاکے کے لئے تعویذ لینا تھا۔” اس کے لبوں پر شرمگیں مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک نے شہزادی کو چونکا دیا۔
”ہیں؟ سچی؟” اس نے خوشی سے اچھلتے ہوئے پوچھا تو ننھی بھی شرما کر ہنس دی۔
”میں ماسی بنوں گی۔ کتنا مزہ آئے گا جب تیرے کاکے یا کاکی کو گود میں لے کر میں…”
”کاکی نہیں ۔ صرف کاکا۔” ننھی نے اُس کی بات کاٹی تھی۔ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے اُسے دیکھنے لگی۔
”مجھے صرف کاکا چاہیے۔ دعا کر اللہ مجھے چاہے ایک اولاد دے چاہے دس پر لڑکا ہی دے۔” اس نے ٹھونس لہجہ اختیار کیا۔ اس کا یہ رویہ اور انداز بھی نیا تھا۔
”کیوں بے؟”لڑکیاں بھی تو اچھی ہوتی ہیں۔ ” اس نے اعتراض کیا۔
”ہوتی ہیں اچھی۔ سب کا خیال کرنے والی۔ مگر ان کا احساس کوئی نہیں کرتا۔ ان کے نصیبوں میں دکھ اور قربانیاں وہی لکھی ہوتی ہیں۔” اس وقت وہ اُسے بے حد کٹھور لگی تھی۔ اماں سے بھی کہیں زیادہ۔
”کہیں فیقے نے تو کاکے کا…” اس نے اپنے خدشات کو سوال میں ڈھالا۔
”نہیں وہ کیوں کہے گا کچھ۔ وہ تو بڑا خوش ہے۔ اس عمر میں جوان بیوی مل گئی۔ بچہ کا سن کر تو اُسے یوں لگتا ہے جیسے پرائز بانڈ نکل آیا ہے۔ کہتا ہے پورے شہر میں مٹھائی بانٹوں گا۔ اگر لڑکا ہوا تو میرے مکان اور دکان کا کلّا مالک ہوگا اور لڑکی ہوئی تو جمالے کو گھر داماد بنالیں گے۔ دور نہیں بھیجیں گے اپنی دھی کو۔” اس نے فیقہ کے چار سالہ یتیم بھانجے کا نام لیا۔
”اور کہتا ہے کہ اپنی اولاد کو پہلے بڑے مدرسے سے حفظ کرائیں گے۔ پھر انگریزی والے اسکول بھیجیں گے۔ سوہنے رب کی مرضی چاہے لڑکی دے یا لڑکا۔” اس نے نہایت آسودہ لہجہ میں کہا تھا۔
”بہت اچھا ہے۔ بالکل ٹھیک ہے۔” خوش اور مطمئن ہوکر وہ میز پر دھرا کھانا کھانے لگی تھی۔
”تو بھی کھانا۔ بڑا اچھا بنا ہے۔” اس نے اُسے پاس بٹھایا۔
”نہیں۔ آج کل زیادہ جی نہیں کرتا۔ ابھی تیرے آنے سے پہلے ہی دودھ کا گلاس پیا تھا۔” اس نے انکار کیا۔
”اچھا یہ تھوڑے چاول ہی کھالے۔ بڑا اچھا کھانا بنانے لگی ہے تو۔” اس نے چاول کی پلیٹ اُس کی جانب بڑھائی ۔
”نہیں میں رفیق کے ساتھ ہی کھاؤں گی۔ اُسے یہ گوشت والا پلاؤ بڑا اچھا لگتا ہے۔ تو کھا نا اور۔ میں ذرا نماز پڑھ لوں۔”
شہزادی اس تبدیلی پر مزید حیران ہوئی۔
”واہ رے۔ تو نے نماز کا سبق بھی دہرالیا۔” اسے یاد تھا کہ ننھی اور منی کو نمازٹھیک سے یاد بھی نہ ہوتی تھی۔ وقت بھی کس کے پاس تھا جو اُنہیں یاد کرواتا۔ جنت بوا نے اُسے نماز اور دعائیں یاد کروائی تھیں۔ قرآن پڑھنا بھی سکھایا تھا۔ اس کے باقی گھر والوں کو تو شاید ایک دو سپارے ہی آتے ہوں گے۔ وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔ بہت دن کے بعد عزت کی روٹی نصیب ہوئی تھی۔ وہاں مزار پر کھانا تو بہت تھا مگر لائن میں لگ کر کٹورا ہاتھ میں لئے اُسے اپنا آپ کسی بھکاری سے بھی کم تر لگتا تھا۔ ننھی نماز پڑھ کر اُس کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگی۔ وہی ہر بات میں فیقے کا ذکر ۔ مگر حیرت کی بات تھی کہ اس بار اُسے اس کے ذکر سے چڑ نہیں ہورہی تھی۔ بلکہ اُسے ننھی کی باتیں سننا اچھا لگ رہا تھا۔
”وہ میرا بڑا خیال کرنے لگا ہے۔ دودھ، بادام پھل اور نہ جانے کیا کیا لاکر رکھتا ہے میرے لئے۔ بازار جاتا ہے تو کبھی پراندہ لے آتا ہے کبھی بالیاں۔” وہ اُسے اُس کی لائی ہوئی چیزیں بڑے چاؤ سے دکھا رہی تھی۔
”کل کہہ رہا تھا۔ ننھی بالکل اچھا نہیں لگتا۔ آئندہ میں تجھے تیرے اصلی نام سے بلاؤں گا۔ سچ شہزادی مجھے تو بھول ہی گیا تھا کہ میرا نام رضیہ ہے۔ رضیہ رفیق۔” اس کے چہرے پر قوسِ قرج کے رنگ تھے۔
”ایسے ہی خوش اور ہنستی رہا کر ۔بڑی سوہنی لگ رہی ہے۔” وہ محبت سے ننھی کو دیکھے جارہی تھی۔
”فیقے کی محبت نے تجھے بڑا سوہنا بنادیا ہے۔” ا س نے چھیڑا تھا۔
”محبت کا تو پتہ نئیں۔ پر اُس کے بھروسے اور عزت نے مجھے سچی خوشی دی ہے شہزادی۔ پہلے کبھی مجھے ایسی عزت ایسا مان ملا ہی نئیں تھا۔ ہمارے جیسی غریب گھر کی لڑکیاں جو لوگوں کے گھروں میں گالیاں کھا کر ان کے جوٹھے برتن مانجھ کر پیٹ پالتی ہوں۔ شرابیوں، یا آوراہ مردوں سے بیاہ دی جاتی ہوں اور پھر ان کے بچے پیدا کرکے اور مار کھا کھا کر زندگی گزارتی ہوں۔ ہماری جیسی ترسی ہوئی عورتوں کے لئے عزت کی روٹی اور سر پر چھت سے بڑی نعمت کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ عزت اور مان مل گیا اب اور اس رب سے بھلا کیا چاہیے ہوسکتا ہے۔” کتنی بڑی اور گہری باتیں کرنے لگی تھی وہ۔ شہزادی کو اُس پر ڈھیر سارا پیار اور رشک آیا۔
”نئیں رے۔ ہمارے جیسی نئیں۔ عورت چاہے بھکے گھر کی ہو یا کسی محل کی ملکہ۔ اس کے لئے عزت کی چھت سے بڑی کوئی نعمت نیئں ہوتی۔” اُسے بیگم صاحبہ یاد آگئی تھی، جو اتنا کچھ ہوکر بھی شوہر سے عزت اور وفا نہ ملنے کی وجہ سے بالکل بے مول تھی۔ بے چین، غیر مطمئن اور دھتکاری ہوئی عورت دوسروں پر اپنی بے بسی کا غصہ اتارنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتی تھی۔
”اچھا سن۔ وہ آج کل رفیق دوپہر کا کھانا گھر پر ہی کھاتا ہے۔ کہتا ہے بازاری کھانوں میں سواد نیئں ہے اور پھر تیری طبیعت کی بھی فکر رہتی ہے۔ وہ ابھی بس…” اس نے گھڑی دیکھ کر بات ادھوری چھوڑی۔
”ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔” اس نے اس کی الجھن کو سلجھایا۔
”میں نہیں چاہتی کہ رفیق تجھے دیکھ کر تجھے کچھ اُلٹا سیدھا بولے۔ یا خفا ہوجائے کہ میں نے اُس کا مان توڑ دیا۔” اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔
”ارے پگلی میں کیوں برا مانوں گی۔ جب اُس نے تجھے سو سکھ دیئے ہیں تو مجھے وہ کیوں برا لگے گا۔ تیرا بھی تو فرض ہے نا اس کے مان کو قائم رکھنا۔ اللہ تجھے ہر طرح کا سکھ دے۔” اس نے مطمئن ہوکر دعا دی۔ ننھی بھی اس کا اطمینان دیکھ کر مطمئن ہوگئی تھی۔
”سائیں عورت تو ایسی ہی ہوتی ہے۔ مرد کے جوتے کھا کر بھی اُسی کے جوتوں سے لپٹ جانے والی۔ وہ جو بھی کرے جیسابھی کرے پر جی میں تو عورت ہوں نا۔ باندی ہوں اس کی۔ میں اس کے گھر بسنا چاہتی ہوں۔ میری دھیوں کا پیو ہے ناجی۔ اتنا عرصہ ساتھ رہ کر محبت تو ہو ہی جاتی ہے نا جی۔” اسے ماسی نذیراں اور سائیں کے درمیان ہونیوالی گفتگو یاد آگئی۔ وہ کہنا چاہتی تھی کہ اتنا عرصہ مرد بھی تو ساتھ رہتا ہے۔ پھر کیوں محبت نہیں کرپاتا۔ وفا نہیں نبھاتا۔ مگر سائیں جی کا لحاظ آڑے آگیا۔ سو چادر کا گھونگھٹ نکالے خاموش اور باادب ہی بیٹھی رہی۔
”بالکل ٹھیک تو جس کے نکاح میں ہے تیرا فرض ہے اس سے وفا کرنا۔ یہ کوئی احسان نہیں ہے اُس پر۔ مگر ساتھ ہی اگر تو اس کے برے سلوک اور دھتکارے جانے پر بھی محبت کرے۔ عزت نہ ملنے پر بھی عزت دے تو یہ نفل ہی سہی پر اور بھی افضل ہوا۔ احسان ہوا تیرا اس پر۔ اب شوہر کی عزت اور اطاعت کرنے کا حکم تو ہر حال میں دیتا ہے پر تو اس کے برے سلوک کے باوجود بھی اس سے محبت کرے تو یہ نفل عبادت ہے تیری۔ احسان ہے تیرا اُس پر۔ حسن سلوک ہے اور تجھے اس کا اجر رب دے گا۔” سائیں کی وضاحت نے اس کی گتھی سلجھا دی تھی کہ اُس کی ماں، اس کے باپ کے جوتے کھا کر، گالیاں سن کر بھی کیوں اس کا دم بھرتی تھی۔
”کس سوچ میں گم ہے؟” ننھی کمرے سے باہر آئی تو اُس کے خیالوں کا سلسلہ بھی ٹوٹا۔
”کچھ نہیں۔” وہ ٹال گئی۔ ننھی اسے گیٹ تک چھوڑنے آئی تھی۔
”میںجانتی ہوں تیری مجبوری۔ مگر تو اپنے بچے کو لے کر مزار پر ضرور آنا۔ تو فکر نہ کر میں دور سے ہی دیکھ کر خوش ہولوں گی۔” اس کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔
”اچھا یہ رکھ لے۔” ننھی نے بند مٹھی اس کے سامنے لاکر کھولی تھی۔ اس کے ہاتھ میں کچھ نوٹ دیکھ کر اُسے کرنٹ سا لگا تھا۔
”ارے نئیں۔ مجھے نئیں چاہیں۔” ا س نے انکار کیا۔ مگر ننھی اصرار کرنے لگی تھی۔
”مجھے ضرورت ہی نیئں ہوتی پیسوں کی اب۔ میں نے کیا کرنے ہیں بھلا۔” وہ شرمندہ سی ہوگئی تھی۔
”میری خوشی کی خاطر ہی رکھ لے۔ بہن نئیں ہے میری۔” اس نے خوشامدانہ انداز اختیار کیا۔
”اچھا مگر پہلے ایک وعدہ تو کر۔” وہ ڈٹ گئی۔
”وہ کیا؟”
”کہ تو اپنی لڑکی کو بھی لڑکے جتنا ہی لاڈ کرے گی۔” ا س کے لہجے میں مان تھا۔
”پتہ ہے سائیں جی کہتے ہیں کہ اگر اولاد میں انصاف نہ رکھو تو رب قیامت والے د ن سوال کرے گا۔” اس نے سمجھایا۔ اس کی ہٹ دھرمی دیکھتے ہوئے ننھی کو وعدہ کرنا ہی پڑا۔ نوٹ پکڑ کر وہ تیزی سے دروازہ پار کر گئی۔ ننھی اس کے موڑ مڑنے تک وہیں گیٹ پر کھڑی ہاتھ ہلاتی رہی۔ موڑ مڑتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔ آج آخری در بھی اُس پر ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا تھا۔ بس اسٹاپ پر پہنچی تو کشکول لئے ایک عورت کے پاس آکر کھڑی ہوگئی تھی۔
”وے سوہنی دھی۔ اللہ دے ناںتے کج دے جا۔ رب سائیں تیرے گھر والے نوں سلامت رکھے تیرے بچے جیون۔”اس نے پیالہ آگے بڑھا کر رٹے رٹائے جملے بولنے شروع کئے۔
”منگتوں سے کیا مانگتی ہے اماں۔ جو خود خالی ہاتھ ہوں وہ تجھے کیا دیں گے۔” اس نے خود کلامی کی۔
”جا اماں۔ نئیں ہے میرا کوئی گھر والا اور بچے ۔” اس نے جھڑکا ۔
”رب تیرے گھر والیاں دی خیر کرے۔ تیرے ویراں (بھائی) وی خیر۔ اپنے ویر دا صدقہ دیندی جانی۔” اپنوں سے ملنے کی خواہش نہ سہی پر انہیں دیکھنا تو وہ چاہتی تھی۔ ان کی خوشی اور سلامتی اسے دل و جان سے عزیز تھی۔ اس نے بند مٹھی کھول کر ننھی کے دیئے ہوئے نوٹ اس کی کشکول میں ڈال دیئے۔ پھر ساتھ ہی چادر کے پلو سے بندھا دس کا نوٹ بھی اس کی جانب بڑھا دیا۔ اتنی سخاوت کے مظاہرے پر اس بھکارن کی آنکھوں میں چمک سی بھرآئی تھی۔
”وے رب تینوںبہتادے۔ تیرے پیاریاں دی خیر کرے۔ تیرے ویراں دا سہارا قیم رکھے۔ تیرے ماں نے سینے نوں ٹھنڈ پاوے۔” اس نے اور زور و شور سے دعائیں دیں۔
”منگتے تو سب ہی ہیں۔ کسی کو روٹی چاہیے، کسی کو عزت، کسی کو چھت اور کسی کو اپنوں کی سلامتی۔” بس اس کے قریب آکر رکی تو وہ سوچوں کے گھیرے سے باہر نکلی۔
”وے کاکے۔ تیری امانت سوہنے رب دے حوالے۔ تیرے پیسے تیرے پاس رب پہنچائے گا۔ دعاؤں کی صورت۔” اس نے ان جانے پہچانے راستوں پر الوداعی نگاہ ڈالی۔ ننھی کے ساتھ ساتھ آج اس نے گھر والوں سے ملاقات کی آخری اُمید بھی کھو دی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!