صبح کا اجالا پھیل چکا تھا۔ شیمو گھنٹہ بھر واویلا کرنے کے بعد کھونٹی سے چادر اتار کر تھانے جانے کو تیار بیٹھی تھی۔ محلہ کی عورتیں پرسہ دینے کے بعد گھروں کو ہولی تھیں۔
”میں بھی چلوں اماں۔” شہزادی جھٹ کھونٹی سے اپنی چادر اُتار لائی۔ دس روپے کا نوٹ اُس نے چادر کے پلوسے باندھ لیا تھا۔ ہانپتے کانپتے دونوں ماں بیٹیاں بس میں سوار ہوئیں۔ پولیس والا انہیں کاکے سے ملنے بھی نہیں دے رہا تھا۔ خاصی دیر منت سماجت کرنے کے بعد اس نے احسان جتاتے ہوئے اجازت دے ہی دی تھی۔ سلاخوں کے پیچھے وہ گھٹنوں میں منہ دیئے بیٹھا تھا۔ شہزادی کا دل بھی اُسے روتے دیکھ کر بھر آیا تھا۔ ماں کا لاڈلہ تھا۔ اس نے کب مار پیٹ بھوک برداشت کی تھی۔ وہ چاہے خود بھوکا رہ لیتی مگر اُس کو اپنا اور باقیوں کے منہ کا نوالہ بھی کھلادیتی تھی۔ ایک آدھ تھپڑ کے علاوہ کبھی مارا بھی نہ تھا کہ وہ روٹھ جاتا تھا۔
”نہ رو میرے بچے۔” اس کا سوجا ہو اچہرہ دیکھ کر شیمو کو لگا کہ کسی نے اس کا کلیجہ نوچ لیا ہو۔ جسم پر بھی کئی جگہ نیل کے نشانات تھے۔
”اماں ۔ مجھے لے جا یہاں سے۔ بہت مارا ہے انہوں نے۔ بہت گالیاں دی ہیں۔” وہ لپک کر سلاخوں سے آلگا تھا۔ شیمو ہاتھ اندر کرکے اُس کے چہرے پر آہستگی سے پھیر رہی تھی۔
”اماں۔ انہیں کہہ نا مجھے چھوڑدیں۔میں بے قصور ہوں۔” وہ بلک بلک کر رو رہا تھا۔
”اماں تیری قسم میں نے کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا۔ میں نے بھلا کیا کرنا تھا زیور کا۔” رو رو کر اس کا گلا بیٹھ گیا تھا۔
”تو یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ پہلی بار تو مالکوں نے معاف کردیا تھا؟ پہلے بھی چوری کی تھی تو نے۔” شہزادی کو پولیس والے کی بات یا د آئی تو وہ مشکوک ہوگئی۔
”صرف دو سو روپے کی۔ پچھلے مہینے جب بسوں کی ہڑتال تھی تو کام پر نہیں جا سکا تھا۔ مالکوں نے تنخواہ کاٹ لی تھی۔ میں نے اماں کے لئے دوائی لینی تھی۔ تاپ تھا اُسے۔” نظری جھکائے وہ دھیمی آواز میں کہہ رہا تھا۔
”بے غیرتا تجھے حیا نہیں آئی؟” اس نے آنکھیں نکالیں۔
”اُستاد نے معاف کردیاتھا مجھے شہزادی۔” وہ پھر رونے لگا۔
”اور اماں میں کیااتنا کمینہ ہوں کہ ان کے احسان کے بدلے میں ڈاکہ مارتا۔” اسنے گھگھیائی ہوئی آواز نکالی۔
کاکے سے مل کر وہ اس کی دکان پر گئیں جہاں وہ کام کرتا تھا۔ شیمو ان کے پاؤں پڑ گئی۔ مگر معاملہ لاکھوں کا تھا۔ وہ لوگ مال واپس لئے بغیر کوئی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ دکان کے چوکیدار نے بھی کاکے پر شک ظاہر کیاتھا۔ شک کیا، الزام ہی لگایا تھا ۔ اس کی گواہی بھی تھی۔ ان کی طرف سے کورا جواب پاکر ماں بیٹیوں نے تھانیدار کی منتیں بھی کیں۔ کاکے کی حالت دیکھ کر ان کی سانس گویا رکنے لگی تھی۔
”جاؤ بی بی مغز نہ کھاؤ۔ تین لاکھ روپیہ کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی وہ لوگ معاف کردیں۔یا تو مالکوں کو رقم لادو سیدھی طرح یا پھر…” وہ کہہ کر مونچھیں مروڑنے لگا۔
”یا پھر کیا؟” شہزادی نے سوال کیا۔
”اوئے صلاح الدین ۔ ان کو سادہ زبان میں سمجھا دے میرے پاس ٹائم نہیں ہے ان کے متھے لگنے کا۔ میں جارہا ہوں ذرا ناکے پر۔” وہ ان پر نظر ڈالے بغیر باہر نکل گیا تھا۔ اس کے رویہ سے مایوس ہوکر وہ اس کے ماتحت کی منتیں کرنے لگی۔
”سنتری جی آپ ہی ہماری کوئی مدد کرو۔ کوئی حل نکالو۔ ہم غریب بے سہارا لوگ کہاں جائیں گے۔ اِک ہی پتر ہے میرا تو۔” اس نے التجا کی۔
”اچھا اچھا مائی صاحب نے کہا ہے تو نکالتے ہیں کوئی حل۔” ا س نے سرکھجایا۔
”بڑی مہربانی جی۔” اسے تھوڑی ڈھارس ہوئی تھی۔
”تم یوں کرو کہ اگر مالکوں کا زیور نہیں لوٹاسکتی ۔ تو ہمیں ساٹھ ستر ہزار لادو ہم کچھ حل نکالتے ہیں۔ کوئی سفارش کرتے ہیں تمہارے لڑکے کی۔”
اس نے کرسی پر بیٹھ کر کوئی رجسٹر کھولا۔
”اتنی رقم۔” شیمو کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”اب یہ کونسا اتنی بڑی رقم ہے۔لاکھوں کا زیور ڈکار گیا تمہارا لڑکا ۔ کچھ تو ہمارا بھی حصہ بنتا ہے نا۔” اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”نئیں جی۔ آپ یقین کریں میرے لڑکے نے کوئی چوری نہیں کی۔ ہم غریب مجبور لوگ ہیں۔ ہمارے پاس کہاں سے ہوں گے اتنے پیسے۔رعایت کریں ہمارے ساتھ۔” وہ ہاتھ جوڑنے لگی۔جبکہ شہزادی نے مارے غصہ کے لب بھینچ لئے تھے۔
”اب اس سے زیادہ تو ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ یا پیسے لے آؤ یا پھر لڑکے کوپڑا رہنے دو۔ دو چار چھتر اور لگے تو فوراً اعتراف جرم کرلے گا پھر چار چھے سال کی جیل تو سمجھو ہوئی کم از کم۔” اس نے دھمکایا۔
”یہ تو کھلی ناانصافی ہے۔ آپ کو بھی پتہ ہے کہ لڑکے نے کچھ نہیں کیا لیکن اب ہماری مجبوری کا ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہو۔” شہزادی بالآخر بول ہی پڑی تھی۔ اس نے غصہ بھری نظروں سے اُسے دیکھا۔ جبکہ شیمو بھی اس کے بولنے پر اُسے آنکھیں نکالنے لگی۔
”اوئے خدا بخش ۔ نکالو ان کو باہر۔ کہاں کہاں سے دماغ خراب کرنے آجاتی ہیں۔” اس کے آواز لگانے پر ایک اور پولیس والا بھاگا آیا تھا۔
”چلومائی باہر۔” وہ اُنہیں ڈنڈا دکھانے لگا۔
”معاف کردیں جی۔یہ بچی ہے۔ غلطی ہوگئی اس سے۔ ” شیمو منمنائی۔
”چلومائی باہر۔ صاحب نے جوراستہ بتادیا ہے مدد کا اس سے آگے مزید کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔” اس نے انہیں کمرے سے باہر دھکیل دیا تھا۔
٭…٭…٭
دو دن ہوگئے تھے کاکے کو حوالات میں ۔ شیمو ان دو دنوں میں کئی چکر تھانے کے لگا آئی مگر کسی نے اُسے کاکے سے ملنے نہیں دیا تھا۔ اتنی رقم کا بندوبست کرنے کی نہ حیثیت تھی نہ اوقات۔ جیولر شاپ والوں کا چوکیدار بھی اسے دیکھ کر دروازہ تک نہ کھولتا۔ وہ ماری ماری پھر رہی تھی۔ جگہ جگہ سے مانگنے پر بھی کوئی اسے ایڈوانس تنخواہ کے نام پر بھی پانچ ہزار تک دینے پر رضا مند نہ تھا۔ سبھی کو علم تھا کہ معمولی ملازمہ بھلاکہاں سے ان کا ادھار واپس کرے گی۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر اس نے مکان فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جو سالوں شہزادی کو غلامی میں رکھوا کر پیسہ پیسہ جوڑ کر اور پھر اس پر ہونے والے ظلم کے بدلہ میں ملنے والی رقم سے خرید پائی تھی۔ مگر ا س کے باوجود کچھ رقم مکان کے قرضہ کی باقی تھی جو وہ ہر ماہ کسی کے گھر میں مفت کام کرکے تھوڑی تھوڑی کٹوا تی رہتی تھی۔ ابھی مکا ن کا قرضہ ہی پورا نہ ہوا تھا مزید کوئی اسے قرض کیونکر دیتا۔
بس یہی ایک حل تھا کہ وہ پولیس والوں کا مطالبہ پورا کرکے کاکے کو چھڑوا لیتی۔
”اس ٹوٹے پھوٹے مکان کے تمہیں زیادہ سے زیادہ کتنے پیسے مل جائیں گے۔ اول تو اس کچی بستی میں اس کھنڈر کو خریدنے پر تیار کون ہوگا۔ جو خود گرنے کے قریب ہے گاہک کہاں سے ڈھونڈوگی اور مل بھی گیا تو کاغذ بنوانے پر خاصا وقت لگ جائے گا۔” فیقے نے گھرکا بغور جائزہ لیتے ہوئے بے رحمانہ تبصرہ کیا۔ شہزادی کام سے واپس آئی تھی مگر اندر سے آتی ہوئی فیقہ کی آوازوں سے اس نے بہتر یہی سمجھا کہ اس کی منحوس صورت دیکھنے کی بجائے باہر ہی کھڑی رہے۔
”ایک ماہ۔” شیمو کی آواز میں پریشانی جھلک رہی تھی۔
”ہاں کم از کم ایک ماہ تو کاغذوں کی تیاری میں لگے گا۔ پہلے کوئی خریدار تو ڈھونڈو وہ تو تمہیں چھے ماہ میں بھی مل گیا تو میرا نام بدل دینا۔” فیقے نے حقیقت بتائی۔
”اگر تم چاہو تو…” شیمو نے کوئی پیشکش کی تھی۔
”نہ بھئی نہ۔ میرے پاس فالتو کاپیسہ نہیں ہے جو اس کھنڈر پر ضائع کروں میرے کس کام کا یہ۔ نہ رہنے کے قابل نہ بیچنے کے۔ یہ تو پیسہ لگا کر پھنسنے والی بات ہے۔” اس نے صاف انکار کیا تھا۔ باہر کھڑے کھڑے شہزادی کی ٹانگیں شل ہونے لگیں تو وہ چپکے سے اندر آکر صحن میں بیٹھ گئی۔ اندر ان دونوں کے مذاکرات جاری تھے۔
”ایک آخری حل ہے میرے پاس۔” فیقے کی آواز آئی۔
”اگر تم چاہو تو پورے کے پورے پیسے ایک دن میں لاکر دے سکتا ہوں۔ وہ بھی بغیر واپسی کی شرط کے۔” وہ چند ثانیے کو رکا تھا۔
”وہ کیسے؟” شیمو اس کی اس عنایت پر حیران رہ گئی۔
”اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے۔ تم بھی تو بدلے میں میرا خیال کرو نا۔ میری گھر والی کو مرے کتنے سال ہوگئے۔ نہ کوئی بال بچہ نہ کوئی آگے پیچھے۔ کب تک یوں اکیلا رہوں گا۔ تم نے بھی تو بیٹیاں بیاہنی ہی ہیں نا۔ کہاں سے کروگی ان کی شادی اور جہیز کا بندوبست۔” اس نے رک کر شیمو کے ردعمل کا جائزہ لیا جو جواباً خاموش تھی۔ اس کی خاموشی نے اُسے مزید حوصلہ دیا تھا۔ جبکہ باہر بیٹھی شہزادی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔
”مجھے تو بھئی بس ایک جوڑے میںلڑکی چاہیے۔تم میرا گھر بسانے کا بندوبست کرو تو میں تمہارا گھر بچانے کا خیال کرتا ہوں۔ تمہارا ہی بوجھ ہلکا ہوگا۔ تم سوچ لولیکن ذرا جلدی۔” شیمو خاموش جبکہ شہزادی ساکت تھی۔
”دل جوان ہونا چاہیدا…” باہر نکل کر شہزادی کو دیکھ کر وہ گنگنایا اور پھر مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا دہلیز عبور کرگیا تھا۔
٭…٭…٭
”اللہ کا شکر ہے۔ کاکے تو گھر تو آگیا۔” وہ کام سے واپس لوٹی تھی۔ جب اندر آتے ہوئے اس نے ننھی کی آواز سنی۔ وہ بالکل اماں کی طرح بول رہی تھی۔
جذبات اور محبت سے گندھے ہوئے لہجے میں۔ جبکہ شہزادی لمحہ بھر کو اندر کا منظر دیکھ کر ٹھٹک گئی تھی۔
پولیس والوں نے مار مار کر اس کاحلیہ بگاڑ دیا تھا۔ منی پکی اور لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ اُٹھا اٹھا کر انہیں بد دعائیں دے رہی تھی۔ جبکہ اماں اور ننھی گرم پانی کی بوتل سے اس کی ٹکور کررہی تھیں۔ شہزادی بھی اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کاکے کے واپس لوٹنے پر وہ خوشی کا اظہار کرے یا دو دن پہلے کی اماں اور فیقہ کی گفتگو پر اپنے خدشات پر پریشان ہو۔ اماں اس کے لئے دودھ اور دوائیاں لینے نکل کھڑی ہوئی تھی۔
”کیسے رحم آگیا اُنہیں جو انہوں نے خود ہی چھوڑ دیا تجھے؟ یا مالکوں کا سونا واپس مل گیا؟” ننھی نے کپڑا سینک کر اس کے ماتھے پر رکھا۔
”رحم کہاں آتا ہے ان قصائیوں کو۔ اتنا مارتے تھے جیسے میں نے قتل کردیا ہو اور گالیاں الگ۔” اس کی آواز بھرا گئی تھی۔
”تو پھر؟ کیا مالکوںکو رحم آگیا؟” منی نے سوال کیا۔
”نہیں اوئے۔ چاچے فیقے کا رب بھلا کرے۔ اس نے بات کی ان تھانے والوں سے اور کوئی تگڑی رقم بھی دی ہے۔ پتہ نہیں بیس تیس ہزار تو ہوگی۔تب کہیں جا کر چھوڑا ہے مجھے ان … نے۔” اس نے ساتھ ہی گالی بھی دی۔ ا س کی بات سن کر شہزادی کے ہاتھ سے گرم پانی کا کٹورا چھوٹ کر پاؤں پر گرا تھا۔ مگر اُسے جلن محسوس نہ ہوئی تھی۔ کیونکہ کاکے کے الفاظ کسی پگھلے ہوئے سیسے سے کم نہ تھے۔ اس کا پورا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔
”چاچا اتنا اچھا کب سے ہوگیا؟” منی نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔
”مجھے کیاپتہ۔” اس نے لاپرواہی سے کہا۔ ”وہ تو کسی کو مفت اپنا بخار بھی نہ دے۔” منی نے اماں کا فقرہ دہرایا۔
”اتنا روپیہ اماں کیسے واپس کرے گی۔ ” ننھی فکر مند تھی۔
”کر دے گی کسی نہ کسی طرح۔” کاکے نے ہاتھ جھٹکا اور ساتھ ہی سی کی آواز بھی نکالی۔
”کیسے کرے گی۔ اماں کے پاس کونسا خزانہ دھرا ہے؟” منی بھی فکر مند ہوگئی تھی۔
”کردے گی۔ تین تین صندوق ہیں اماں کے پاس خزانے کے جو ویسے تو اماں کے لئے نرا سیاپا ہیں۔ کھوٹا سکہ۔ مگر اماں ان ہی کھوٹے سکوں کو سونے کے مُل(مول) تولتی ہے اوکے ویلے۔” شہزادی کے لہجے میں چھپا طنز کوئی نہ جان پایا۔
”کیا بولے چلے جارہی ہے؟ مغز تو نئیں پھر گیاتیرا۔” کاکا ہنسا تھا۔
”توچھوڑ اسے۔ کملی ہے یہ تو۔” یہ بتا کہ تو تھانے سے کلا واپس آیا ہے؟” ننھی نے سوال کیا۔ جواباً اس نے نفی میں سرہلایا۔ اور دودھ کا پیالہ ختم کرکے اُسے تھمایا۔
”چاچا گیا تھا لینے۔ بستی تک ساتھ ہی تھا۔ پھر کہیں کَم پر چلا گیا۔”
”اسے گھر لے آتا۔ اماں خفا ہوگی کہ اُس نے اتنا احسان کیا اور تونے اسے چاء پانی بھی نہیں پوچھا۔” منی کی ہمدردی شہزادی کو زہر لگ رہی تھی۔
”میں نے تو کہا تھا کہ چاچے آ تجھے سوجی کا حلوہ کھلاتا ہوں۔ پر وہ کہنے لگا حلوہ کیوں مٹھیائی کھائیں گے مل کر ۔ ابھی مجھے بڑی تیاریاں کرنی ہیں۔ دو دن میں آؤں گا مٹھیائی بتاشے اور پٹاخے انار لے کر۔” اس کی بات نے شہزادی کے تمام خدشات پر گویا مہر ثبت کردی تھی۔
”نہ بتاشے اور پٹاخے کیوں؟ ویاہ ہے اس عمر میں اس مہندی کے ٹرک کا یا تجھے پھر گود لے لیا ہے چاچے نے۔ ولے کا کیا۔” منی منہ پھاڑ کر جو ہنسی تو ہنستی ہی چلی گئی۔ ننھی بھی مسکرانے لگی تھی۔ جبکہ کاکے نے لاعلمی میں سرہلادیا تھا۔ شہزادی کے کان سائیں سائیں کررہے تھے۔
”ارے تو کدھر چل پڑی ہے اب؟” اُسے چادر اوڑھتے دیکھ کر ننھی حیران ہوئی تھی۔
”میں کم پر جارہی ہوں۔” اُسے جواب دے کر وہ یوں سرپٹ بھاگی جیسے ایک بار پھر بیگم صاحبہ گرم استری لے کر اس کا ماتھا داغنے لگی ہوں۔ بھاگتے بھاگتے اُس کے پاؤں شل ہوگئے تھے۔ خشک حلق میں کانٹے چبھنے لگے تھے۔
مگر وہ پاگلوں کی طرح بھاگتی چلی جارہی تھی۔ بھاگتے بھاگتے تھک گئی تو نیچے زمین پر ہی بیٹھ گئی۔ پھولی سانس پر قابو پاکر سامنے دیکھا تو کچھ فاصلے پر بس اسٹاپ تھا۔ وہ سامنے سے آتی ہوئی بس میں بغیر کچھ سوچے سمجھے سوار ہوگئی تھی۔ بس کے پائیدان سے لٹکتے ہوئے بھی وہ بار بار کبھی مسافروں کا اور کبھی بس سے باہر کا جائزہ لیتی۔ ذہن میں بس ایک ہی خوف تھا کہ کوئی اُسے ایک بار پھر جلانے کے لئے بھاگا آرہاتھا۔ کنڈیکٹر نے اُس سے کرایہ مانگا تو اس نے چادر کے پلو سے بندھے ہوئے پیسے اُسے پکڑا دیئے۔
آخری اسٹاپ پر پہنچ کر جب آخری سواری نے ا س کا کندھا ہلا کر اُترنے کا کہا تو جیسے وہ نیند سے جاگی تھی۔ بس سے اُتر کر وہ حیرت سے اپنے سامنے پھیلے راستوں کو دیکھ رہی تھی۔ اُسے کس راستے جانا تھا۔ اور منزل کہاں تھی اُسے کچھ خبر نہ تھی۔ اندھیرا پھیل رہا تھا اور وہ خالی ذہن لئے ساکت کھڑی تھی۔
”کہاں جانا ہے؟” بس کی آخری سواری اُسے کشمکش میں دیکھ کر پلٹی تھی۔
”ہاں۔ وہ ۔ وہ پتہ نہیں۔” ا س نے بوکھلا کر جواب دیا۔
”راستہ بھول گئی ہو؟” عورت نے بچہ ایک بازو سے دوسرے میں منتقل کرتے ہوئے اُس کی طرف مشکوک نظروں سے دیکھا۔ وہ جواباً خاموش رہی۔
”کہاں سے آئی ہو؟ گھر سے بھاگی ہو؟” اس نے پھر پوچھا۔
”نہیں مقدر سے۔” وہ خود پر قابو پانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئی تھی۔
”ہوا کیا ہے؟ مجھے بتاؤ ۔ کوئی مدد کروں تمہاری۔ میرا نام نذیراں ہے۔ ادھر مزارپر شاہ صاحب سے تعویذ لینے آتی ہوں۔ دو اسٹاپ پیچھے گھر ہے میرا۔” اس نے دوستانہ انداز اختیار کیا۔
”کیا مدد کروگی میری۔” اس کی آنکھوں میں نمی اُمڈ آئی۔
”کسی نے دھوکا دیا ہے۔ کوئی چھوڑ کر بھاگ گیا ہے؟” اُسے یوں بے سروسامان خالی ہاتھ۔ خالی ذہن لئے وہ اسی نتیجے پر پہنچی تھی۔
”ہاں اپنے سگوں نے۔” اس کے انداز میں تلخی تھی۔
”اچھا یہ بتاؤ کہ کہاں جانا ہے؟” وہ اب اکتا گئی تھی اور دیر بھی ہورہی تھی۔
”کہیں بھی جہاں سر چھپانے کو جگہ مل جائے۔” اس نے بے بسی سے جواب دیا۔
”پھر پیر سائیں کے آستانے سے اچھی کوئی جگہ نہیں۔ معاف کرنا میں تجھے اپنے گھر نہیں لے جاسکتی۔ جوان جہان ہو اور …” وہ پتہ نہیں کیا کیا بول رہی تھی مگر شہزادی کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ آخر کار وہ اُسے مزار کے احاطے میںباقی فقیرنیوں کے پاس چھوڑ گئی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});