مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

”اب کوئی شہزادہ، راستے کی مشکلیں پار کرتا شہزادی کو کھوجنے نہیں آتا۔ بلکہ مشکلوں سے گھبرا کر واپس لوٹ جاتا ہے۔” اس کی ذہنی رو پھر بہکنے لگی تھی۔
”صحیح والی کہانی سناناں۔” کاکے نے اُسے جھنجھوڑا۔ عین اُسی وقت دروازے پر کھٹکا ہوا۔ فیقہ درواز ے کا پردہ اُٹھا کر اندر داخل ہورہا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی کاکا بھاگ کر چارپائی پر لیٹ گیا اور پیٹ پکڑ کر ہائے ہائے کرنے لگا۔
”کیوں بے کاکے۔ آج دکان پر کیوں نہیں آیا؟’ ‘ اس نے گھورا۔
”اُف چاچا… ہائے! ہائے!” اس نے کروٹ بدلی۔
”کیابتاؤں رات سے پیٹ میں کتنا درد اور مروڑ ہے۔ اُف اماں۔” وہ کراہنے کی ایکٹنگ کرنے لگا۔شہزادی حیرت سے اُسے دیکھنے لگی اور منی ہنسی دباتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔
”پیٹ میں ہی درد ہے نا۔ کوئی دل کا دورہ تو نہیں پڑگیا نا۔”
چاچے کے بارے میں ننھی کا کہنا تھا کہ چاچا جب بھی بولے گا اپنے منہ کی طرح منحوس بات ہی کرے گا اور اس وقت اُسے ننھی کا قول سو فیصد درست لگا تھا۔
”اور سناؤ جی۔ کیا حال ہے بادشا ہو؟” باہر نکلتے ہوئے وہ اس کا حال پوچھنے کو مڑا تھا۔ اس کے ابے کی عمر کا چاچا فیقہ جب بھی اُسے دیکھتا تو اس کی آنکھوں کی چمک اُسے ہراساں کردیتی تھی۔ اس کا بولنے او ر دیکھنے کا انداز شہزادی کو زہر لگتا تھا۔ تیل اور مہندی میں گندھے ہوئے لال چمکتے بال، آنکھوں میں من من سرمہ، گلے میں سونے کی زنجیر سے جھولتا ہوا تعویذ ۔ اس کے حلیہ کی بنا پر منی اُسے تیل کا ڈرم،جبکہ کاکا اسے سرمے کا ٹرک کہا کرتا تھا۔
”جس کام سے آئے تھے ہوگیا تو راستہ ناپواپنا۔” اس کی سفید رنگت غصہ سے لال ہوگئی تھی۔
”واہ جی واہ۔ آج تو چاند پر بادل چھائے ہوئے ہیں۔ بجلیاں چمک رہی ہیں خیر تو ہے؟” اس نے اپنے سونے جیسے پیلے دانتوں کی نمائش کی اور ساتھ ہی ساتھ رنگ برنگی انگوٹھیوں والا ہاتھ نچایا۔ ننھی اُسے بالکل ٹھیک ہی ”گہنوں والی سرکار” کہا کرتی تھی۔
”چاند۔ اونہہ۔” وہ اس کے طنز پر دل مسوس کر رہ گئی تھی۔
”نہ جی ۔ اس میں غلط بات کیا ہے؟ داغ تو چاند پر بھی ہوتے ہیں نا کہ کہیں اس کو نظر نہ لگ جائے۔ پھر بھی وہ لگتا تو سب کو سوہنا ہی ہے۔” اپنی بات پر وہ خود ہی منہ پھاڑ کر ہنسا تھا۔ جبکہ وہ غصہ میں پیر پٹختی باورچی خانے میں گھس کر برتن زور زور سے مارنے لگی۔
”سوہنی دے نخرے سوہنے لگدے۔” وہ اپنے لال بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا دروازہ عبور کرگیا۔ اس کے جاتے ہی کاکا جھٹ چارپائی سے اٹھ بیٹھا تھا۔ وہ اسے جھوٹ بول کر کام پر نہ جانے پر ڈانٹنا چاہتی تھی۔ مگر خاموش ہی رہی۔
شا م ڈھلے اماں کام پر سے واپس لوٹی۔ چاچا پہلے ہی کاکے کی شکایت لگا چکا تھا۔ اس کی دکان ان کے محلے میں ہی تھی۔ شیمو آتے ہی کاکے پر برس پڑی۔
”ہاں میں پوچھتی ہوں کَم پر کیوں نہیں گیا تو؟” کمرپر ہاتھ ٹکائے وہ اسے گھور رہی تھی۔
”میرے پیٹ میں بڑا درد تھا اماں۔”
”درد جب ٹھیک ہوگیا تھا فیر چلا جاتا۔ کَم چھوڑ کر کڑیوں کی طرح چوڑیاں پہن کر گھر بیٹھ جا۔” پسینہ پونچھتی ہوئی وہ چارپائی پر بیٹھ گئی۔
”بلاوجہ اماں تو تو میرے پچھے پڑجاتی ہے۔” اس نے منہ بسورا۔
”ٹھیک کیا تونے کاکے۔ آج کل مکر اور جھوٹ ہی چلتا ہے۔ مکر کرو تو تھوڑی سی تکلیف بھی لوگوں کو زیادہ نظر آتی ہے۔ چپ رہو تو زخموں سے رستا خون بھی کسی کو نظرنہیں آتا۔” اس کے لب و لہجہ میں کڑواہٹ گھل گئی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”اس کا تو مغز کَم نہیں کرتا۔ ا س کی باتوں میں آئے گا تو جتیاںہی کھائے گا۔” اماں بڑبڑا کر رہ گئی ۔ جواباً وہ ہنسنے لگی تھی۔
”تو تو الٹی مت ہی دینا اسے۔ چار دن محل میں کیا رہ آئی ہے سچ مچ کی شہزادی بن بیٹھی ہے۔” اس کی ہنسی اماں کو اور تاؤ دلاگئی۔ اس کے دل میں ماں کے لئے جو گرہ پڑی تھی تو اب وہ اس سے کم ہی بات کیا کرتی تھی۔ مگر اماں کی بات پر اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
”کیوں تو خود کو بھی تکلیف دیتی ہے اور اماں کو بھی غصہ دلاتی ہے۔” ننھی اس کے برابر لیٹی اسے سمجھا رہی تھی۔
”پتہ نہیں ننھی مجھے خود بھی سمجھ نہیں آتی کہ گزرے ہوئے وقت کا ماتم کروں کہ شکر ادا کروں رب کا کہ اس نے مجھے اس قید سے رہائی تو دلائی۔ عزت تو محفوظ رکھی میری۔ اپنی چھت تو نصیب ہوئی مجھے سالوں بعد۔ اس تمام گزرے ہوئے وقت میں میں کم از کم لوگوں کے چہرے تو پہچاننا سیکھ گئی ہوں۔ جو بڑی بڑی کتابیں بھی نہیں سکھاتیں۔” وقت اور حالات نے اسے کم عمری میں ہی اپنی عمر سے بڑی باتیں کرنا سکھا دیا تھا۔ ننھی اس کی پرنم آنکھیں دیکھ کر مزیدکچھ بولے کی ہمت نہ کرسکی۔
”سوگئی ہے کیا؟” کافی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے ننھی کو پکارا جو ابھی جاگ ہی رہی تھی۔
”اماں کو کہنا کہ اب تو اپنے پرائے میں فرق کرنا سیکھ لے۔ یہ چاچا کیا کرنے منہ اُٹھا کر گھر آجاتا ہے۔ منع کرے اُسے۔” نیند میں جاتے جاتے اس نے بس اتنا کہا تھا۔
٭…٭…٭
”یہ لو تمہاری تنخواہ۔” وہ برتن مانجھ کر صحن میں آبیٹھی تھی کہ گھر کی مالکن نے کچھ نوٹ لاکر اسے پکڑائے۔
”باجی وہ اگر کوئی آپ کا پرانا جوڑا…” کہتے کہتے وہ جھجک گئی تھی ۔ ایک نظر اس نے اپنے بوسیدہ سوٹ پر ڈالی جو جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا کہ اب تو مرمت کی گنجائش بھی نہ تھی۔ باجی سرہلاتی ہوئی اندر چلی گئیں۔
”ایک تو یہ لوگ مانگتے مانگتے نہیں تھکتے۔ تنخواہ بھی دو پھر بھی روز کا نیا دکھڑا۔” اندر باجی کی ساس اونچی آواز میں بول رہی تھیں۔
”کیا کریں۔ پیٹ بھی تو روز روٹی مانگتے مانگتے تھکتا نہیں ہے۔ آسمان والا روز ایک نئی مصیبت میں ڈال دے تو دکھڑے بھی تو روز کے نئے ہی ہوں گے۔ روز ایک نئی مصیبت آجاتی ہے۔ بس ایک موت ہے جو نہیں آتی۔” وہ بے بسی سے صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ باجی نے اپنا ایک سوٹ اُسے لا کردیا تھا۔ نیا نہ سہی مگر اس کے بوسیدہ جوڑے سے لاکھ درجے بہتر تھا۔ پہننے لائق تو تھا۔
”اور یہ بھی لے لو ۔ نئی ہیں پر مجھے پوری نہیں ہیں۔” انہوں نے ایک سینڈل اور چوڑیوں کے دو سیٹ بھی اس کی جانب بڑھائے۔
”مجھے شوق نہیں ہے جی۔ ان کی آواز تنگ کرتی ہے۔” اس نے سادگی سے کہہ کر چوڑیاں واپس کردی تھیں۔
”رکھ لو۔ چھوٹی بہنوں کو دے دینا۔” انہوںنے دوبارہ اس کے آگے رکھ دیں۔
”نہیں جی۔ وہ بھی نہیں پہنتیں۔” وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
”ماں جی بھی ٹھیک ہی کہتی ہیں۔ ان لوگوں کے نخرے بھی آسمان کو چھونے لگے ہیں۔” ان کی بڑبڑاہٹ بخوبی ان کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔
”ہماری تو دعائیں بھی آسمان نہیں چھوتیں۔ نخرے کرنے کا حق تو ہمیں رب نے دیا ہی نہیں۔” اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔
ان کے گھر سے نکل کر وہ سوچوں میں گم اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھی۔ اچانک کیچڑ کی چھنٹیں اس پر آگریں تو اُسے ہوش آیا۔ بستی کے قریب بارشوں کے پانی سے گندے پانی کا تالاب سا بن گیا تھا۔ جہاں بستی کے بچے اور منچلے نوجوان نہاکر اپنی گرمی دور بھگا رہے تھے۔ گھرمیں پانی کی بوند کو ترسے ہوئے اب کیچڑ ملے پانی کو بھی صاف ستھرا سوئمنگ پول سمجھ کر اس میں چھلانگیں لگانے کا مقابلہ کررہے تھے۔ اس نے چادر کے پلو سے چہرہ صاف کیا۔ سیاہ چادر ماتھے سے کھسک کر ذرا سا پیچھے ہوگئی تھی۔
”یہ شہزادی کے متھے پر کیاہے؟” کسی بچے نے آواز لگائی تھی۔
”تاج ہے بھئی۔” کھی کھی کرکے دوسرا ہنسا تھا۔
”او۔ نئیں اوئے۔ ا س نے اپنے کوٹھے کی لیپائی کرتے ہوئے متھے کی بھی کرلی ہے۔” وہ اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔
”مٹی سے یا گوبر سے؟” کوئی تیسرا بھونڈی آواز میں بولا تھا۔ وہ دل ہی دل میں اُنہیں گالیاں دیتی آگے بڑھ گئی۔ سیاہ چادر سے اُس نے اپنا چہرہ اور بھی ڈھانپ لیا تھا۔
”آج کالا جوڑا پا ساڈی فرمائش تے۔” وہ فیقے کی دکان کے سامنے سے گزری تو اس کی بے سری آواز سنائی دی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ا س نے کسی بات پر کاکے کو نوکری سے نکال دیا تھا۔ تنخواہ بھی نہیں دی تھی۔ وہ بے چارا روتا ہوا گھر آیا تھا۔ کچھ دن تو وہ گلی محلہ کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتا رہا پھر شیمو نے مالکوں کی منت سماجت کرکے اُسے کسی جیولر شاپ پر رکھوا دیا تھا۔ صبح نکلتا تو رات بارہ بجے سے پہلے واپسی نہیں ہوتی تھی۔ تب تک شیمو ہولتی رہتی تھی۔ اس کی دکان گھر سے کافی دور تھی۔ دو بسیں بدل کر گھر آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا تھا۔مگر پیسے اچھے مل رہے تھے اور کاکے نے نئے مالکوں کے ڈر سے ناغے کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔
”وے چاچے کُج تے اپنی عمر تے اس سوہے رتے سر دا خیال کر۔” اس کے چاچا کہنے پر وہ جی بھر کر بے مزہ ہوا تھا۔ دل تو اُس کا چاہ رہا تھا کہ محض زبانی کلامی سنانے کی بجائے ہاتھ میں پکڑی چپل بھی دے مارے۔ فیقہ اس عزت افزائی پر کھسیانی ہنسی ہنس دیا تھا۔
”دل جوان ہونا چاہیدا۔ عمراں وچ کی رکھیا۔” باز وہ پھر بھی نہیں آیا تھا۔ اُسے بھی روز اس کی بے سری گنگناہٹ کی عادت ہوگئی تھی۔ بس آج باجی کی باتوں کے بعد بچو ں کے مذاق نے جلتی پر تیل کا کا م کیا تھا جو وہ چاچے سے اُلجھ بیٹھی۔ ورنہ روز خاموشی سے گزر جایا کرتی تھی۔
”کتے بھونکتے رہتے ہیں۔ درویش اور مسافر اپنا راستہ نہیں بدلتے۔” اسے جنت بوا کی بات یاد آتی اور وہ ہونٹ بھینچے آگے نکل جایا کرتی تھی۔
٭…٭…٭
”کیا ٹیم ہواہے؟” اس نے کروٹ بدل کر انگڑائی لی۔
”پتہ نہیں شاید دو بجے ہیں۔” منی نے پرانے ٹائم پیس کو دو چار مکے مارے جو حسب معمول چلتے چلتے بند ہوگیا تھا۔ اس نے غسل خانے سے واپس آکر کمرے میں بچھی چارپائیوں پر ایک نظر ڈالی اور چونک اُٹھی۔ دوبارہ چپل گھسیٹتی کمرے سے باہر آئی تو ننھی باہر چارپائی پر بیٹھی اُونگھ رہی تھی اور شیمو پاس ہی بیٹھی جمائیاں لے رہی تھی۔
”اماں! کاکا نہیں آیا ابھی تک۔” اس نے اماں کا کندھا ہلایا۔
”نہیں ۔ جانے کہاں رہ گیا ۔ رستہ ہی نہ بھول گیا ہو۔” اس نے پریشانی کے مارے باہر گلی میں جھانکا جہاں آوارہ کتوں اور کہیں کہیں نشہ میں دھت پڑے مردوں کے علاوہ اور کوئی نظر نہ آتا تھا۔ پچھلے ڈھائی گھنٹہ میں وہ کوئی دس بار گلی میں جھانک چکی تھی۔ آس پاس کے گھروں میں تھکے ہارے وجود کب کے نیند کی آغوش میں جا سوئے تھے۔ سو اس وقت گلی میں بھونکتے کتوں یا کہیں پر لڑتی بلیوں کی آوازوں کے علاوہ اور کوئی آواز کان نہ پڑتی تھی۔
”بیٹھ جا اماں ۔ وہ اب کوئی کاکا نہیں رہا۔ مونچھیں نکلنے کو آئی ہیں۔ اس عمر میں تو لوگوں کے لڑکے مزدوری کرنے دوسرے شہر چلے جاتے ہیں۔” ننھی بھی اُٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
”میرا دل بہت سوڑاہورہا ہے سویرے سے۔ یا اللہ میرے کاکے کو خیر سے اپنے گھر پہنچانا۔” اُسے کسی طرح بھی چین نہیں آرہا تھا۔
شہزادی بھی پریشان ہوکر ان کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کا دل بھی ہول رہا تھا۔ دل ہی دل میں خیریت کی دعائیں کرتے ہوئے وہ کبھی بیٹھتی تو کبھی اٹھ کھڑی ہوتی۔ نہ جانے کتنا وقت اور گزرا ہوگا کہ دروازہ دھڑ دھڑ انے کی آواز سے سب کھڑی ہوگئیں۔ اندر گھوڑے بیچ کر سوتی منی بھی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔ ان تینوں نے تو ساری رات آنکھوں میں کاٹی تھی۔ باہر اب کہیں موذن اذان کی تیاری کررہا تھا۔
”یا اللہ خیر۔” شیمو نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا تو کوئی دھکا دے کر سیدھا اندر ہی گھس آیا۔
”چور۔” گھبراہٹ کے مارے منی چلائی تھی۔ جبکہ وہ تینوں وردی میں ملبوس پولیس والوں کو دیکھ چکی تھیں۔
”چوروں کے گھر چور کیا کرنے آئیں گے؟” اندر آتے ہوئے پولیس والے کے لہجے کی کرفتگی پر وہ سب سہم گئی تھیں۔
”کیا ہوا تھانیدار صاحب۔ میرا کاکا تو ٹھیک ہے نا۔” شیمو نے ہمت کرکے پوچھا۔
”تلاشی لینی ہے تم لوگوں کی بتاؤ کہاں چھپایا ہے مال۔” اس نے سوال نظرانداز کرکے آگے بڑھ کر ادھرے ادھر نظر دوڑائی۔
”کونسا مال ؟ جی آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میرے کاکے کا بتائیں؟”
پولیس والے نے بھوکے کتے کی طرح بو سونگھتے ہوئے شیمو کو دھکا دے کر پیچھے کیا۔ وہ دیوار سے جا ٹکرائی تھی۔ اس کی آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگے۔
”وہی مال جو تمہارے لڑکے نے ڈاکے بعد غائب کیا ہے۔ بتاؤ کہاں چھپا کر رکھا ہے؟” اس کی بات نے ان چاروں کے پیروں تلے سے زمین نکال دی تھی۔
”کیا کہہ رہے ہو تھانیدار صاحب! میرا کاکا کدھر ہے جی؟ ” اس کا دل ڈوبنے لگا تھا۔
”ڈاکہ ڈال کر کہاں ہوسکتا ہے بھلا۔ فائیو اسٹار ہوٹل میں مہمان بنا رکھا ہے وی آئی پی قسم کا۔” دوسرا سپاہی ہنسا تھا۔
”ڈاکہ؟” تینوں حیران رہ گئیں۔
”ہاں پہلی بار تو مالکوں نے معاف کردیا تھا پر اس با تو بڑا ہاتھ مارا ہے تمہارے کاکے نے۔” تھانیدار کے پیچھے کھڑے سپاہی اب گھر کے کونے کونے کی تلاشی لے رہے تھے۔ سارا سامان اُٹھا کر پٹخ رہے تھے۔ باہر شور سن کر محلے والے بھی اُٹھ کر باہر آگئے ۔ مگر پولیس کو دیکھ کر دوبارہ دروازوں کے اندر دبک گئے تھے ۔ وہ تینوں ماں سے لگے تھر تھر کانپ رہی تھیں۔
”میرا کاکا بے قصور ہے جی۔ وہ تو اتنا بھولا اتنا معصوم ہے۔ آپ کو کسی نے غلط بتایا ہے جی۔” وہ ہاتھ باندھے انہیں یقین دلارہی تھی۔جیسے انہوں نے سنا ان سنا کردیا۔
”ہمارے گھر مال کہاں سے آئے گا۔ ہم تو گھروں میں جھاڑو پونچھا کرنے، برتن مانجھنے والے لوگ ہیں۔” وہ التجائیں کرکے انہیں یقین دلانے کی ناکام کوششیں کررہی تھی۔
”او چپ کر مائی مغز نہ خراب کر! دو ہتر لگیں گے نا تو سارا مال برآمد کردیگا تیرا بھولا۔” اس کے لہجے میں حقارت تھی۔
”ہمیں معاف کردیں جی۔ ہمارے گھر میں کوئی مال نہیں ہے۔ پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔ آپ کی مہربانی ہوگی جی میرے بچے کو چھوڑ دیں۔ اس نے کوئی چوری نہیں کی۔” وہ ان کے آگے ہاتھ جوڑ کر واسطے دینے لگی۔
”مال تو ہم برآمد کرہی لیں گے۔ چاہے انگلیاں ٹیڑھی کیوں نہ کرنی پڑیں۔” تلاشی مکمل کرنے کے بعد وہ چند ثانیے کو رکا تھا۔
”سیدھی طرح بتادو مال کا بھی اور اس کے گروہ کا بھی تو شاید کچھ رعایت مل جائے۔ ورنہ تو لمبی جیل اور چھتر الگ۔” اس نے دیدے پھاڑے۔
”ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے جی۔ کوئی قصور نہیں ہمارا نہ ہمارے لڑکے کا۔” وہ رو دینے کو تھی۔
”جج جی ہمیں کسی مال کا نہیں پتہ۔” منی منمنائی تھی۔
”اونہہ۔ اتنا قیمتی خزانہ رکھا ہو ا ہے اور ابھی کہتی ہو کہ کوئی مال نہیں رکھا ہوا۔” وہ ان تینوں پر ایک گہری نگاہ ڈالتا ہوا باہر نکل گیا تھا۔ باقی سپاہی بھی معنی خیز انداز میں ہنستے ہوئے اس کی تقلید میں چل پڑے۔
”ہائے ربّا کیسا ظلم ہے یہ میرے کاکے کو تھانے میں بند کردیا ۔ ہائے میں لٹ گئی۔ میری سالوں کی محنت مٹی میں رُل گئی وے۔ عمر بھر کی کمائی لٹ گئی۔ ہائے میرا پتر میرا سہارا۔”
شیمو نیچے بیٹھ کر ماتھا پیٹنے لگی۔ تینوں نے مل کر اُسے اُٹھایا ۔ چارپائی پر بٹھا کر منی جھٹ پانی کا گلاس بھرلائی۔ جسے شیمو نے ہاتھ کے دھکے سے پرے دے مارا۔
”پرے ہوجاؤ منحوسو۔ نحوست کی ماریو۔ بدبختوں۔ نرا سیاپا ہو تم لوگ تو۔ ایک ہی تو میرا سہارا تھا۔وہ بھی ظالموں نے تھانے میں بند کردیا۔” منی سہم گئی تھی۔ شہزادی کو شیمو کا رویہ ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔ مگر وقت کی نزاکت کی وجہ سے وہ خاموشی سے ایک طرف ہوگئی۔ اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی سارا گھر بکھرا پڑا تھا ۔ وہ مصروف ہونے کے بہانے سامان سمیٹنے لگی کہ ایک جگہ پہنچ کر ٹھٹک گئی۔ کچن کے باہر اُس کا صندوق الٹا ہوا تھا۔ اسی سامان کے بیچوں بیچ کہانیوں کی پھٹی ہوئی کتابوں میں دس کا ایک نوٹ پھڑپھڑا رہا تھا۔ تیزی سے اس کی جانب لپکتے ہوئے اس نے کتابوں میں سے وہ نوٹ نکال لیا۔
”تیری امانت کا… عمران۔” نوٹ ہاتھ میں لیتے ہوئے اس کی آنکھیں دھند لا گئی تھیں۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!