مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

اُس نے آنکھیں کھولیں تو پہلا خیال دماغ میں یہی آیا تھا کہ قیامت سے گزر کر وہ کسی اندھیری قبر میں جاپہنچی تھی۔ قیامت کے بعد ایک اور قیامت شاید وہ یوم حشر تھا۔ حساب کتاب ہونے والا تھا۔ اسی امید نے اس کے بے جان جسم میں نئی جان ڈال دی تھی کہ سزا جزا کا دور آچکا تھا اور اُسے یقین تھا کہ اگر یہ یوم حشر تھا تو آج اُس کے ساتھ انصاف ضرور ہونے والا تھا۔
اس سے پہلے بھی کئی بار وہ اس نے مکمل بے ہوشی سے نیم بے ہوشی تک کا سفر کیا تھا۔ مگر آج انصاف کی اُمید جاگتے ہی وہ اپنے پورے حواسوں سمیت بیدار ہوچکی تھی۔ مگر نہیں۔ ابھی سزاؤں کا دور ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ زندہ تھی اور پٹیوں میں لپٹے جسم کے ساتھ کسی اچھے اور مہنگے اسپتال کے بستر پر موجود تھی۔ اس نے گردن موڑ کر خود کو حرکت دینے کی کوشش کی۔ مگر پورے جسم سے اُٹھتی درد کی ٹیسوں نے اُسے کراہنے پر مجبور کردیا تھا۔ اُسی وقت دو ہاتھوں نے اُسے سہارا دے کر پانی کا گلاس اُس کے لبوں سے لگایا تھا۔ نظروں کے سامنے بہت سے اجنبی چہروں کے درمیان وہ ایک شناسا چہرہ تھا۔ اس نے پہچاننے کی کوشش میں ذہن پر زور ڈالا۔
”ننھی۔” اس کے لب کپکپائے۔ گزرے ہوئے کئی سالوں میں اماں کے سوا ہر چہرہ دھند لا گیا تھا۔ ننھی نے پانی کا گلاس رکھ کر سہارا دے کر اُسے بٹھایا تھا۔ جسم کے ہر حصے کی چیخ و پکار پر کان دھرے بغیر اس نے اپنے ہاتھوں سے ننھی کا چہرہ ٹٹولا۔ تبھی ایک اور جانا پہچانا چہرہ اس کے سامنے آگیا۔
”کاکا۔”
”نن ۔ نہیں عمران۔” نفی میں سرہلا کر اس نے اس کا اصل نام لیا۔ اس کے بلانے پر وہ آگے بڑھاتھا۔ کتنا بڑا ہوگیا تھا۔ اس کے کندھوں تک بمشکل پہنچنے والا اب اس سے بھی لمبا ہوچکا تھا۔ کاکے کے پیچھے کھڑی اماں کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
”اماں۔ میری پیاری اماں۔” وہ بلک بلک کر رونے لگی تھی۔ مگر اس کے اس طرح بین ڈالنے پر بھی اماں سر درویہ لئے بیڈکے کنارے پر بیٹھ گئی تھی۔ نہ اُسے سینے سے لگایا، نہ ماتھا چوما، نہ پیار کیا۔
”چپ کر جا بدبخت۔” وہی بے زار سے لہجہ اس کے کچھ اور زخم ہرے کرگیا تھا۔ پھر چارونا چار وہ اس کے قریب کھسک کر اُس کا سر سہلانے لگی تھی۔ وہ اماں کے قریب ہوکر اُس سے لپٹ گئی۔
”اماں مجھے بچالو۔ وہ مجھے مار ڈالے گی۔ اس نے مجھے جلا دیا ہے اماں۔ میرے بال ، میرا ماتھا، میری چوڑیاں۔ ہائے نی مائے۔” بے ربط جملے بولتے ہوئے وہ بین ڈال رہی تھی۔ اس کا ماتھا دیکھ کر شیمو نے اپنا منہ دوپٹہ میں چھپا لیا تھا۔ کتنا خوبصورت گورا اور کشادہ ماتھا تھا اس کا ۔ مگر اس وقت اسی پیشانی سے کھال کے ٹکڑے اُکھڑ کر نیچے لٹک رہے تھے۔ روتے ہوئے اس کے درد میں اضافہ ہونے لگا تو وہ بے حال ہوکر چلانے لگی۔ نرس نے اُسے درد کے علاوہ نیند کا انجکشن بھی لگادیا تھا۔ اُس کی تکلیف دیکھ کر اماں اور ننھی بھی دوپٹے منہ پر ڈال کر روپڑی تھیں۔ جبکہ وہ تھوڑی دیر رونے کے بعد اب غنودگی میں تھی۔
کئی روز سے اُس کی یہی حالت تھی کہ ہوش میں آتے ہی وہ بے قابو ہوکر چلانا شروع کردیتی۔ بستر سے اُتر کر بھاگنے کی کوشش میں اس کے ٹھیک ہوتے ہوئے زخم بھی خراب ہوگئے تھے۔ مگر وہ کسی کو بھی قریب نہیں آنے دیتی تھی۔ عجیب پاگلوں جیسی حرکتیں اور دیوانوں جیسی باتیں۔ جنت بوا آئیں تو اُنہیں دیکھ کر وہ پہلے تو بالکل چپ سی ہوگئی۔ پھر زاروقطار رونے لگی۔ انہوں نے اُسے سینے سے لگایا تو عجیب سا درد دل میں جاگ گیا تھا۔ ایسی ٹھنڈک اور مٹھاس کا احساس تو اماں کے گلے لگ کر بھی نہ ہوتا تھا۔ آہستہ آہستہ حواس بحال ہوئے تو پہلا خیال اُسے اس کا آیا تھا جس سے خاموش محبت کا رشتہ اور تحفظ کا تعلق تھا۔ نظریں اُسے تلاشنے لگی تھیں۔ مگر نہ جانے وہ اُس پر ڈھائے جانے والے مظالم سے ناواقف تھا یا پھر باقی سب کی طرح بے حس ہوگیا تھا۔ شاید ایسا ہی تھا مگر دل تھا کہ امید کے اس آخری چراغ کو گل کرنے پر آمادہ نہ تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

کچھ دن بعد پولیس اُس کا بیان لینے آئی تھی۔ وہ گونگے کا گڑ کھائے چپ چاپ بیٹھی رہی تھی۔
”تھانیدار جی۔ ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا کڑی کا۔” اس کی ماں روانی سے جھوٹ بول رہی تھی اور وہ حیرت سے اس کا منہ تکنے لگی۔
”اور یہ جو جلنے کے نشان ہیں۔” تھانیدار نے کاغذ پکڑ کر لکھنا شروع کیا۔
”جی وہ تو گڈی کا سلنڈر پھٹ گیا تھا تاں گیس والا۔ اگ بھی لگ گئی اس کے ساتھ ہی تو اس کا متھا بھر سڑ گیا۔ میں تو جی نال ہی تھی ناں۔ میں پہلے ہی پرے گرگئی تھی تو زیادہ چوٹ نہیں آئی جی۔” وہ ہاتھ ہلا ہلا کر بتارہی تھی۔
”کس جگہ ہوا تھا یہ واقعہ؟”
”وہ جی۔ وہ جی … شہدرے سے تھوڑا اگے کوئی جگہ تھی۔ ناں تو مجھے نہیں پتہ جی۔” اب کے وہ ان پڑھ عورت گڑبڑاگئی تھی۔ مگر تھانیدار کو بھی خاص دلچسپی نہ تھی۔ اس نے معمول کی کاغذی کارروائی مکمل کی۔
”یہ اس پر لڑکی کا انگوٹھا لگوا دینا۔” اس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذات ماتحت کے حوالے کئے۔
وہ ٹکٹکی باندھے ماں کا منہ تک رہی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ چیخ چیخ کر پولیس کو بتائے کہ گزرے ہوئے سالوں میں وہ کن مظالم کاشکار رہی تھی۔ کتنی بار اُسے نیل پڑے، زخم آئے، تعداد تو اُسے خود بھی یاد نہیں تھی۔ کتنی بار تنہائی میں صاحب جی نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی اور گزرتے گزرتے اُسے چھونے کی کوشش کی۔ کتنی بے دردی سے اس کے بال کاٹے گئے، کتنی بے رحمی سے اُسے استری سے جلایا گیا۔ مگر ا سکے پاس وہ الفاظ ہی نہیں تھے جو ا س کی ایک بارکی مار اور درد کی بھی ترجمانی کرسکتے۔ ویسے بھی سننے کی پرواہ بھی کسے تھی۔ ماں نے اس کا ہاتھ آگے کرکے کاغذوں پر انگوٹھا لگوایا۔ شکایت بھری نظروں سے ماں کی جانب دیکھ کر اس نے رُخ موڑ لیا تھا۔
”سیانی ہو تم بی بی۔ جیسا میں نے سمجھایا تھا تم نے بالکل ٹھیک ویسا ہی کیا۔ تھانے کچہری کے چکر میں پڑ کر کیا ملتا۔ نری خواری اور ذلت۔ اُلٹا تیری ہی لڑکی پر کیس بنتا کہ ایک تو اس نے مالکوں کے زیور چرائے اور دوسرا اُن کے خانساماں کے ساتھ…” تھانیدار نے بڑے افسر کے جاتے ہی اس کی ماں کی شاندار ایکٹنگ کو سراہتے ہوئے مونچھوں کو تاؤ دیا۔
”جی جی تھانیدار جی۔ اب تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا نا کڑی کے لئے۔” اس نے خوش آمدانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے ہاتھ جوڑے۔
”بے فکر رہو مائی۔ بس تم سمجھ رہی ہو ناں میری بات۔ پکا پکا حدود کا کیس بنتا اور ڈاکے کا الگ۔ تمہاری لڑکی کے علاج کا سارا خرچہ پانی تو وہی لوگ دیں گے نا۔ ان بڑے لوگوں کا کچھ نہیں جاتا۔ صلح صفائی ہوگئی تے کج تواڈا بھلا تے کج ساڈا (کچھ تمہارا بھلا کچھ ہمارا)۔” اس کے ہنستے ہوئے اس کی موٹی سی توند بھی ہلنے لگی تھی۔ نکلتے ہوئے اس نے ہزار ہزار کے کچھ نوٹ اس کی ماں کو پکڑائے تھے۔
”بس اب پکی رہنا اس بیان پر۔ اور خبردار جو صاحب لوگوں کے آس پاس بھی نظر آئی۔ اندر کردوں گاسیدھا سیدھا۔” اس نے تڑی لگائی ۔ شہزادی کی سمجھ میں آدھی بات آئی تھی اور باقی کی سر پر سے گزر گئی تھی۔
”خانساماں؟ وہ نواز بابا۔”
حیرت و استعجاب سے وہ بت بن کر رہ گئی تھی۔
٭…٭…٭
کتنا عرصہ وہ اپنوں سے ملنے، ان کی صورت دیکھنے کو ان سے دل کی باتیں کرنے کو ترستی اور روتی رہی تھی مگر اب ان سے مل کر اُسے لگتا تھا کہ سارے الفاظ ختم ہوگئے تھے۔ سب احساسات بھاپ کر اُڑگئے تھے۔ تشنگی اور بڑھ گئی تھی۔ تقریباً ایک ڈیڑھ ماہ وہ ہسپتال میں زیر علاج رہی ۔ ننھی کام سے واپسی پر روز اُسے ملنے آتی تھی۔ کاکا اور منی چکر لگا لیا کرتے تھے۔ ننھی بیان نہ دینے پر دل ہی دل میں اُس سے سخت خفا تھی۔ دوسری طرف اماں کا سرد ، بے مہر رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ بھی اس سے اکھڑی اکھڑی رہتی تھی۔ وہ سوچ سوچ کر پاگل ہوتی مگر اپنا قصور نہ جان پاتی۔ اب اس کا واحد سہارا جنت بوا تھیں۔ اس کی آخری امید۔ انہوں نے بہت دن سے چکر نہیں لگایا تھا۔
”شاید بیمار ہوں یا گاؤں چلی گئی ہوں۔ مگر جیسے ہی وہ واپس آئیں گی۔ میں اُنہیں ساری صورت حال بتاؤں گی۔پھر یقینا وہ اور وسیم میری مدد کریں گے۔ دوبارہ جاکر بیان دوںگی تھانے۔”
اس نے پکا ارادہ کررکھا تھا۔ مگر ان کے چکر نہ لگانے پر پریشان بھی تھی۔ پھر اُس کے گھر جانے میں دو دن باقی تھے تو آخر کار وہ آہی گئیں۔
”بیٹا تمہیں تو پتہ ہے نا صاحب لوگوں کا۔ ان سے چھپ کر آنا پڑتا ہے۔ ورنہ تم پر تو جو ظلم ہوا سو ہوا۔ مجھ بڑھیا کو بھی نکال باہر کیا تو کہاں جاؤں گی۔ پچھلی دو بار تو وسیم ہی کہیں کام سے جاتے ہوئے چھوڑ گیا تھا۔ مگر یہ نیا لڑکا ایک تو گاڑی ایسے چلاتا ہے جیسے جہاز اُڑا رہا ہو ۔ دوسرا اس کا کیا بھروسہ گھر جاکر شکایت ہی کردے۔ آج بھی اپنی دیورانی کی بہن کاکہہ کر دو اسٹاپ پیچھے اُتر گئی ۔ آدھا گھنٹہ اُدھر بیٹھی رہی پھر رکشہ کرکے ادھر آئی ہوں۔” وہ اس کے لئے سیب کترنے لگیں۔ مگر اس کا ذہن تو کہیں اور ہی اٹکا ہوا تھا۔
”نیا لڑکا؟” اس نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا۔
”ہاں نیا ڈرائیور ہے صاحب لوگوں کا عجیب، بدتمیز، بد لحاظ لڑکا ہے باتیں تو ایسی کرتا ہے…” اُسے بھلا کیا دلچسپی ہونی تھی اس نئے ڈرائیور کے ذکر میں۔
”تت تو کیاوسیم کو نکال دیا ہوگا۔” واہمے دماغ میں جگہ بنانے لگے تھے۔
”کیا خبر اس نے میرے ساتھ ہونے والا ظلم دیکھ کر خود ہی لعنت بھیجی ہو ایسے جلادوں کی نوکری پر۔”مگر دل پھر سے خوابوں کے سنگ ہولیا۔
”ہوسکتا ہے اس نے میرے حق میںکچھ کہا ہو۔ حمایت کی ہو میری۔ تو بھلا بیگم صاحبہ کیوں برداشت کرتیں۔” اس کی خوش فہمیوں نے ایک بار پھر سے اُسے خوابوں کے راستے کا مسافر بنادیا تھا۔
”جنت بوا آپ کو تو پتہ ہے نا میرے ساتھ کیا ظلم ہوا ہے۔ اور پھر میری ظالم ماں جو میرے حق میں بولنے کی بجائے پتہ نہیں کیا بیان دیتی رہی پولیس والوں کو۔ صاحب لوگوں اور تھانیدار کے ڈر سے اس نے سارا جھوٹ بتایا اور…”
وہ اپنی بپتاان کے گوش گزار کرنے لگی۔ انہیں بھی خاصا افسوس ہوا تھا۔ مگر ان کے حیران نہ ہونے پر وہ ضرور حیران ہوئی تھی۔
”ماں کو ظالم نہ کہو بیٹا۔ رب کے بعد سب سے زیادہ مہربان اور شفیق ہوتی ہے ماں۔ بس مجبور ہوجاتی ہے۔ صاحب لوگوں سے بھلا کون مقابلہ کرسکتا ہے۔ یہ بھی ان کی مہربانی کہ تمہارے علاج کا خرچا دے دیا۔ ورنہ ایسے بڑے لوگوں کو کون پوچھ سکتا ہے۔ تمہاری ماں کہاں اسپتالوں میں دھکے کھاتی پھرتی بے چاری۔”
وہ نرمی سے اُسے سمجھا رہی تھیں۔ پہلی بار اُسے ان کی باتوں سے اختلاف ہوا تھا۔ مگر وہ خاموش رہی۔ وہ خود جیسی نرم دل اور محبت کرنے والی تھیں، شاید ہر ماں کو ایسا ہی سمجھتی تھیں۔
”صاحب لوگوں نے نیا ڈرائیور رکھ لیا تو وہ پرانا…میرا مطلب ہے وہ وسیم باؤ۔” نام لیتے ہوئے وہ جھجک گئی تھی۔
”ہاں وسیم۔ وہ چلا گیا۔” سرسری سا جواب دے کر وہ پھر خاموش ہوگئیں۔
”کہاں؟” نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے پوچھنا پڑا تھا۔
”اپنے شہر۔ اس کی ماں اکیلی تھی ناں شیخوپورہ میں۔” وہ جتنا اس موضوع سے بچنا چاہ رہی تھیں اس کے تجسس کو اور ہوا دے رہی تھیں۔
”پر اس کی تو نوکری تھی ناں ۔ کوئی اور مل گئی کیا؟” اس کے انداز میںبے چینی تھی۔
”کتنا غیر ت مند تھا جو اس کی خاطر لگی لگائی نوکری چھوڑ گیا تھا۔” دم توڑتی ہوئی اُمیدوں کو خوش فہمی نے آخری سہارا دیا تھا۔
” ہاں مل گئی تھی۔” انہوں نے زیر لب دہرایا۔ مگر زیادہ دیر اس کی آنکھوں میں چھپے ان گنت سوالوں کو نظر انداز نہ کرسکیں۔
”اس کی ماں نے منگنی کردی تھی اس کے ماموں کی بیٹی سے۔ ماموںنے دکان کھول دی۔ اُسی پر ہوتا ہے آج کل۔” نظریں چرا کر وہ اتنا ہی کہہ پائی تھیں۔
٭…٭…٭
وقت تھا کہ گزرتا جاتا تھا مگر اس کا دل جیسے کہیں ٹھہر سا گیا تھا۔ جس میں اب نہ کسی سے ملنے کی خواہش جاگی تھی اور نہ ہی کچھ کھونے کا اندیشہ تھا۔ سب ہار کر اور دل ہار کر وہ خود بھی جیسے مرگئی تھی۔ بس کبھی کبھی اماں کا سر د رویہ دیکھ کر وہ خود سے اپنا قصور ضرور وپوچھنا چاہتی تھی۔ ننھی بھی اب اس سے کم کم ہی بات کرتی تھی۔ وہ ان سب کی بے زاری کی وجہ سے بے خبر تھی۔ مگر جاننا ضرور چاہتی تھی۔
”اماں تو نے مجھے چپ کروا دیا تھا۔ ورنہ میں پولیس والوں کو سب سچ بتا کر ان کمینوں کو ہتھ کڑی ضرور لگواتی۔” ننھی کمرے میں کسی کام سے آئی تھی مگر اُسے اندھیرے میں بے آواز آنسو بہاتا دیکھ کر باہر جاکر اماں سے اُلجھ پڑی تھی۔ وہ اکثر ہی بے سبب اماں سے اُلجھ پڑا کرتی تھی۔
اس کے باقی زخم تو مندمل ہوگئے تھے۔ مگر بازو میں چوڑیاں کھب جانے سے گہرا زخم آیا تھا۔ جس کا نشان باقی رہ گیا تھا۔ ایک روز پہلے ہی اس نے آئینہ منگواکر دیکھا تو اس کی چیخیں نکل گئی تھیں۔ آئینہ اس کے ہاتھ سے گر کر کرچی کرچی ہوگیا تھا۔
کتنے دن تو اماں اور ننھی نے آئینہ چھپائے رکھا تھا۔ وہ پوچھتی تو وہ نہ ملنے کا بہانہ کردیتیں۔ مگر اس نے آخر کھوج ہی نکالا تھا۔ مگر کبھی کبھی انسان کچھ کھوجنے کی خواہش میں سب گم بھی کر بیٹھتا ہے۔ بہت دیر تک وہ ننھی کے گلے لگ کر سسکتی رہی۔ ماتھے کی جگہ گوشت اور کھال کا ملا جلا سیاہی مائل سرخ لوتھڑا لٹک رہا تھا۔ بازو کا نشان تو وہ آستینوں میں چھپا لیا کرتی تھی۔ مگر ماتھے پر گوشت کا بدنما لوتھڑا تو چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا اعلان کررہا تھا۔ جسے سوائے اس کے سب بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ ننھی اس کے یوں ٹوٹ جانے پر خود بھی روپڑی تھی۔
”ہاں۔ تو تو بڑی افسرنی لگی ہوئی ہے کہیں پر۔ باپ تیرا وزیر تھاماں تیری ٹی وی پر خبریں پڑھتی ہے۔ جب اپنی تھالی میں چھید ہو تو بندہ دوسرے کے متھے کیوں لگے۔” اس کی روز کی بڑبڑ سے تنگ آکر اماں نے بھی جوتی ہاتھ میں لے لی تھی۔ جوان اولاد جو دوبدو کھڑی تھی کڑے تیور لئے۔
”کیا مطلب ہے تیرا؟” ننھی چونک گئی تھی اور اس کے بھی کان کھڑے ہوگئے تھے۔
”منہ نہ کھلوا میرا۔ کسی کو پتہ چلانا تو صورت سے تو گئی ہی ہے لوگ اس کی مشہوری سنیں گے تو کسی لولے لنگڑے، شرابی نے بھی نہیں ویاہنا اسے۔” اماںنے ہاتھ میں پکڑی چپل زمین پر دے ماری تھی۔
”صورت بگڑی ہے تو اس میں اس کا کیا قصور؟ الٹا ظلم بھی اسی کے ساتھ ہوا ہے۔ اور کیا مشہوری ہونی ہے۔” ننھی کو اور تاؤ آگیا۔
”انہوں نے اسے گھر کا بندہ سمجھ کر رکھا ہوا تھا تو اپنی اوقات میں رہتی۔ خود کو مالکن سمجھنے لگی تھی نواب زادی۔ کیا ضرورت تھی اوقات سے باہر ہونے کی۔ فیشنی بال کٹوا کر خود کو مالکن بنا کر بیٹھے گی۔ ناز نخرے دکھائے گی ووہٹیوں کی طرح کے تو مرد تو آخر مرد ہوتا ہے۔ پھسل گئی اس کی نظر۔ مرد کے قدم بہکنے میں کیا دیر لگتی ہے۔ عورت کو تو حیا والا بن کر رہنا چاہیے۔ کتنے سال ہوگئے تیرے پیو کو مرے۔ جوان سوہنی اونچی لمبی تھی میں۔ یہ تو اب بڈھی ہوگئی ہوں، ہڈیاں نچڑ گئیں کم کر کر کے۔ کما کما کر تم لوگوں کو پال کر بھک برداشت کرکے۔ مگر مجال ہے جو اس کے مرنے کے بعد کبھی سرمہ بھی لگایا ہو کہ پرائے مردوں کی نظر پڑے گی تو جینا مشکل کردیں گے اور اسے دیکھو۔ کنواری کڑی۔ بھکے گھر کی اور نخرے میموں والے۔ ہک ہاہ۔ اپنی تقدیر کھوٹی ہو تو دوسروں پر الزام کا ہے کودھریں۔” وہ ہانپتی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ ننھی پر سکتہ طاری ہوگیا تھا اور خود اس کی وہ حالت تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اماں کے الفاظ کسی گولی کی طرح اس کے سینے میں پیوست ہوگئے تھے۔ اُسے لگ رہا تھا کہ اُس کے سر سے آسمان ہی نہیں پاؤں تلے سے زمین بھی کھسک گئی ہو۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین پھٹتی اور وہ اس میں سماجاتی۔ خود پر ہونے والے تمام مظالم برداشت کرکے اُس نے اپنی ماں کو جن پتھروں سے بچائے رکھا تھا آج اُسے وہی پتھر اُٹھا کر مارنے والا کوئی اور نہیں اس کی اپنی سگی ماں ہی تھی۔ تیر کی طرح وہ اُٹھ کر باہر آگئی تھی۔
”میں اور میری تقدیر نہیں خراب۔ میری مت ماری گئی تھی کہ تجھے کبھی بتایا ہی نہیں کہ کس طرح معمولی سی بات پر میری چمڑی اُدھیڑی جاتی تھی کس طرح میرا نیلوں سے بھرا بدن، پھوڑے کی طرح دکھتا جوڑ جوڑ تیرے ہاتھوں کے مرہم کو تڑپتا تھا۔ صرف اس لئے اس نے میرے بال کاٹ ڈالے کہ میں جوان تھی، سوہنی تھی، اور اس کے گھر والے کی خراب نظر ان پر پڑگئی تھی۔ میرا مغز خراب تھا جو میں سمجھتی تھی کہ تو ماں ہے۔رب کے بعد سب سے زیادہ محبت کرنے والی۔ تو میری ہر تکلیف سمجھ جائے گی۔ میں بھول گئی تھی کہ جب ہم غریبوں، بھکوں کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں ہوتی۔ تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں ہوتا، سر پر چھت نہیں ہوتی تو ماں کی محبت اور مامتا بھی ہمارے لئے نہیں ہوتی۔ ماں تو کیا ہمارا تو اللہ بھی نہیں ہوتا۔ سب امیروں کے چونچلے ہیں۔ سولہ سنگھار بھی ان کے لئے، فیشن نخرے بھی ان کے لئے، خواب بھی ان کے ، رشتے ناتے، ماں پیو بھی اور خود اللہ بھی اُن ہی کا ہے۔ ہمارے تو نہ پیروں کے نیچے زمین ہوتی ہے نہ سر پر آسمان اور نہ ہی آسمان والا اپنا ہوتا ہے۔ اُس کو بھی ہم سے پیار نہیں۔ وہ بے نیاز ہے ناں۔ ہم کیڑے مکوڑوں کی طرح گٹر میں زندگی گزارنے والوں کو بنا کر وہ بے نیاز ہوجاتا ہے۔ پھر ہم جیئیں یا مریں ۔ اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”
اپنے جسم کو صحن کے بیچوں بیچ عریاں کئے وہ تازہ زخموں کے ساتھ ساتھ پرانے گھاؤ کے نشان دکھاتی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ ننھی ساکت تھی۔ منی کا منہ کھل گیا تھا۔ جبکہ کاکا رخ موڑ گیا تھا۔ سفید لٹھے کی مانند چہرہ لئے شیمو اس کی جانب بڑھی تھی مگر وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر بھاگتی ہوئی اندر چلی گئی۔
٭…٭…٭
”شہزادی ! دیکھ میں نے تیرے لئے کیا ڈھونڈا ہے۔” وہ پیالہ ہاتھ میں لئے چاول کھانے میں مگن تھی۔ جب ننھی اٹھلاتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔
”کیا ہے؟” سرسری سالہجہ تھا۔
ننھی نے ہاتھ آگے کئے تو اس کے دل سے آہ نکل گئی۔ اس کے ہاتھ میں اس کی بہت پرانی کہانیاں تھیں۔ وہ نہ جانے گھر کے کس گوشے سے ڈھونڈ لائی تھی۔ اور نادانستگی میں اس کے کتنے زخموں کے کھرنڈ اکھیڑ گئی تھی۔ اس کا دل بہلانے کے لئے ننھی اب اُسے وہ کتابیں کھول کھول کر دکھا رہی تھی ۔ مگر وہ خاص متوجہ نہ تھی۔
”یہ اتنی رنگ برنگی تصویروں والی، مزے مزے کی کہانیاں تیری ہیں؟” کاکا خوشی سے ان کی طرف لپکا تھا۔
”ہاں۔” وہ دوبارہ چاول کھانے لگ گئی۔
”پتہ ہے باورچی خانے کی جھاڑ پونچھ کرتے ہوئے مجھے ایک بار صندوق میں سے یہ ملی تھیں تو میں نے صاف کرکے دوبارہ تھیلے میں ڈال کر سنبھال دی تھیں یہ لے۔” ننھی نے کہانیاں اُس کی جانب بڑھائیں۔
”میں کیا کروں گی اِ ن کا۔ پھینک دے انہیں۔” اس کی سرد مہری پر ننھی کا چہرہ بجھ سا گیا تھا۔
”سچی شہزادی تو نے یہ ساری پڑھی ہیں؟ مجھے سنائے گی نا روز؟”وہ خوشی سے اٹھلایا۔
”کیا کرے گا سن کر؟ سب جھوٹ اور بکواس لکھا ہوتا ہے ان میں۔” اسے کہانیاں دیکھ کر وحشت سی ہورہی تھی۔دل چاہ رہا تھا کہ اُٹھا کر باہر پھینک دے مگر کاکا بھی بے حد ضدی تھا۔ اس کے سر ہوگیا اور مناکر ہی دم لیا۔ روز رات کو اس کے پاس آکر بیٹھ جاتااور تب تک جان ہی نہ چھوڑتا جب تک وہ اُسے ایک دو کہانیاں سنا نہ لیتی۔ آنکھیں بند کئے اُسے سناتے ہوئے شہزادی کا دل کرتا کہ وہ سب کہانیوں کا انجام بھیانک کردے۔ اپنے جلے ہوئے ماتھے اور سیاہ مقدر کی طرح۔ جس کی وجہ سے بچے اُس سے ڈرنے لگے تھے۔ وہ کام پر جاتی تو لوگوں کی ہمدردی اور ترس بھری نظریں اُسے زہر لگا کرتی تھیں۔ اکثر اوقات چھوٹے بچے اُسے دیکھ کر ماؤں کی گود میں جا گھستے۔ اس نے چادر کا گھونگھٹ سا بناکر ماتھا ڈھانپنا شروع کردیا تھا۔
”بتانا پھر آگے کیا ہوا؟” وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ کاکے کی آواز اُسے حال میں لے آئی۔ اُس نے کہانی کا سلسلہ پھر سے جوڑا۔ مگر دل چاہ رہا تھا کہ کہانی کے انجام کو حقیقت میں لاکھڑا کرے۔ تاکہ پھر کبھی کوئی لڑکی ان کی کشش میں آکر خواب نہ بنے۔
”پھر سینڈریلا کی ماں اور بہنوں نے اس پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی اور شہزادہ مایوس لوٹ گیا۔”
”پھر سنو وائٹ کو ظالم جادوگرنی نے مار ڈالا۔”
”جب تک شہزادہ سوئی ہوئی شہزادی کو جگانے پہنچا چڑیل اس کا بھیس بدل کر لیٹ چکی تھی اور شہزادہ چڑیل کو شہزادی سمجھ کر ساتھ لے گیا۔”
”پھر ریڈرائڈنگ ہڈ راستہ بھول کر جنگل کے خونی درندوں کے ہاتھ لگ گئی۔”
”پھر شہزادی کو بونوںنے قید کرکے رکھ لیا اور اُس سے اپنے سب کام کروانے لگے اور وہ ان کے مظالم کا شکار ہوکر رہ گئی۔”
”شہزادے کے جسم کی آخری سوئی چڑیل نے نکالی۔”
کبھی کبھی اس پر دورہ پڑ جاتا تو وہ جنونی انداز میں ایسی باتیں کرنے لگ جاتی۔
”ایسا بھلا کب ہوتا ہے؟ تو جھوٹی کہانیاں سناتی ہے۔” کاکا منہ پھلا کر چلاجاتا ہے۔
”ایسا ہی ہوتا ہے۔ کہانیاں تو جھوٹی ہی ہوتی ہیں۔” وہ آنکھیں میچے خو د اذیتی کی منزلیں پار کرتی سفاک انداز میں ہنستی تو ہنستی ہی چلی جاتی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ ان کہانیوں کی رحم دل پری جو جادو کی چھڑی گھماتی اور آن کی آن میں سب اچھا کردیتی کو ان کہانیوں سے غائب کردے۔ جس کا مقصد صرف معصوم اور بھولی بھالی لڑکیوں کو خواب دکھانا تھا۔ خود حقیقت میں تو اُس کا واسطہ کم عمری میں ہی درندوں اور شیطانوں سے پڑا تھا۔ جنہوں نے اس کی پلکوں سے سارے خواب نوچنے کے ساتھ ساتھ خواب دیکھنے والی آنکھیں بھی بھسم کر ڈالی تھیں۔مگر کوئی رحمدل پری اس کی مدد کو نہیں آئی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!