لالی — شاذیہ خان

اور آج کی مار کے بعد تو وہ بالکل خاموش ہو گئی ۔ افضل اُس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا جو دل کے ساتھ جسم کا بھی مالک بن گیا ۔ چھاپ بہت گہری تھی۔ دل بھی بہت گہرائی میں ڈوبا۔ اُس کی دادی کہتی تھیں پُتر عورت کا دل ایک قبر کی مانند ہونا چاہئے ۔ اُس کی اپنی قبر جس میں وہ اپنے مرد کی ہر بات اچھی ہو یا بُری، دفن کر دے ورنہ مرد اس کی قبر خود اپنے ہاتھوں سے کھودتا ہے اور روز اس میں دفن کرتا اور نکالتا ہے۔ اُس نے بھی اپنی قبر بنوانے کے بجائے اپنے دل کو اپنی قبر بنا لیا ۔عورت کی زندگی میں آنے والے پہلے مرد کی بے وفائی کی تکلیف دردِ زہ کی تکلیف سے بھی زیادہ شدت رکھتی ہے ۔ پورا جسم گھائل ہو کر پل پل تکلیف سے کُرلاتا ہے ۔ وہ کافی دنوں گُم صُم رہی ۔
پھر وقت اور حالات کے ہاتھوں اندر ڈستے ناسوروں کو خود ہی مرہم لگا لیا ۔ مگر اُسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی خلش کا بدلا اس پر ایسا گندا الزام لگا کرلے گا۔ دونوں جانتے تھے کہ اصل بات کیا ہے؟ لیکن ایک دوسرے سے نگاہیں چُرا رہے تھے۔ وہ خاموشی سے چارپائی پر آنکھیں بند کئے پڑی تھی ۔ منہ پر پڑے تھپڑوں کی چوٹ اتنی تکلیف دہ نہیں تھی جتنا یہ جھوٹا الزام ۔ وہ اپنی صفائی میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی ۔ وہ جتنا بولتی اتنا ہی افضل کا غصّہ بڑھتا ۔ وہ بک جھک کرتا ہوا چودھری نذیر کی حویلی کی طرف چلا گیا۔ کبوتروں کا دانہ پانی دیکھنا تھا ۔ مقابلے سے پہلے چودھری صاحب نے اُسے چار پیغام بھیجے تھے ۔چوپال میں کافی لوگ بیٹھے تھے اور کبوتر بازی کا مقابلہ ہی زیرِ بحث تھا ۔ چودھری اُسے دیکھ کر دور سے بولا ”افضل کدھر تھا بھئی شام سے چار بندوں کو بھیج چکا ہوں” ۔” بس چودھری صاحب ذرا کبوتروں میں ہی مصروف تھا۔ آپ فکر نہ کریں کل کے مقابلے کے لئے ہمارے ٹیڈی (کبوتر) تیار ہیں”۔ وہ اُن کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ کر اُن کے پاؤں دابنے لگا۔ اُسے معلوم تھا کہ چودھری نذیر کا غصّہ اُسے مقابلے سے باہر کر وا دے گا۔ اردگرد کے گاؤں سے کل کے مقابلے کے لئے کافی لوگ آ رہے تھے ۔ کچھ پہنچ چکے تھے اور کچھ پہنچنے والے تھے۔ دیگیں پک رہی تھیں ۔ جشن کا سماں تھا ۔
”اوئے مزار پر دیگ اور چادر بھجوائی کسی نے ”؟ چودھری صاحب نے ایک رعب سے کسی کو کہا تو جواب ملا: ”جی چوہدری صاحب لالو کاانتظار ہے وہ دوسرے گاؤں سے مہمانوں کو لینے گیا ہے ، آتا ہی ہو گا۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”اوئے لالو نہ ہو گا تو کوئی کام نہ ہو گا، تم میں سے کوئی چلا جائے وہاں، دیر مت کرو”۔ ”چوہدری صاحب اگر آپ اجازت دیں تو میں لے جاؤں چادر، میں نے مزار پر جانا بھی تھا”۔اُسے یاد آیا کہ زینب نے آج اُسے بابا بلّھے شاہ کے مزار پر بلایا تھا ۔ وہ چاہتی تھی دونوں مل کر منت مانیں۔”ہاں ہاں لے جا، تو ہی لے جا ، غریبوں کو کھانا کھلا کر دل سے جیت کی دعا مانگنا ۔ چوہدری نذیر کو ناکامی بالکل پسند نہیں ”۔ ”آپ بالکل فکر مت کریں چوہدری صاحب آؤ رفیق گاڑی میں ذرا دیگ رکھوا دو”۔ اس نے پاس کھڑے ملازم خاص کو کہا اور دونوں باہر نکل گئے ۔
غریبوں میں دیگ بانٹ کر دونوں مزار پر آگئے اور وہاں درخت کے نیچے بیٹھے دو افراد بابا جی کا کلام پڑھ رہے تھے ۔ پاس ہی لاتعداد دئیے جل رہے تھے۔ لوگ اپنی منتیں مرادیں لے کر آتے اور دیا جلا کر جاتے۔ حالاں کہ وہ جانتے تھے دعا کی قبولیت کا دئیے کے جلنے سے کوئی سروکار نہیں بلکہ دل میں جلنے والے دئیے کی شدت سے ہے۔ وہاں جتنے بھانبھڑ جلیں گے جتنی شدت سے دعا مانگی جائے ۔ دعا کی قبولیت کے اتنے ہی امکانات بڑھ جائیں گے۔
کوئی اونچی آواز میں بابا بلّھے شاہ کا ہجروفراق بھرا کلام پڑھ رہاتھا اور محبت کی کسک افضل اور زینب کے دل میں ٹیسیں بن کر اُٹھ رہی تھیں ۔ زینب کی نظروں میں ڈھیر سارے شکوے شکایتیں تھیں جن سے افضل چاہتا بھی تو نظر نہیں چُرا پاتا۔
”تو ایک ہی سوال ہر بار کیوں کرتی ہے زینب؟” افضل تپ گیا ۔ ”ہاں تو تُو اس ایک بات کا جواب کیوں نہیں دے دیتا ۔ بول کیوں چھوڑ دیا مجھے اکیلا ۔ میں تو کمزور تھی تو طاقت ور تھا۔ لڑسکتا تھا میرے لئے”۔ ”میں تجھ سے نہیں اپنی کمزور ماں کے آگے ہارگیا تھازینب، نہیں لڑ سکتا تھا اپنی ماں سے ۔ باپ تو گنوا چکا تھا ماں کو گنوانے کا حوصلہ نہیں تھا مجھ میں ۔ زہر کھا رہی تھی وہ۔خود ہی شادی طے کر دی اور گلے میں پٹہ ڈال دیا میرے ۔ میں بہت مجبور تھا”۔ زینب تپ کر بولی: ”اس نے پٹا ڈالا اور تو نے کھونٹا مضبوط کر دیا”۔”کیا مطلب؟” افضل نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا۔ ”تو جانتا ہے تو باپ بننے والا ہے ، تم مرد بہت خودغرض ہوتے ہو ”کہہ کر وہ رونے لگی ۔
”او بس کر دے جھلی میرا دل نہ جلا میں پہلے ہی بہت تکلیف میں ہوں ۔ تیرے آنسو نہیں دیکھے جاتے مجھ سے ، تو جانتی ہے نا ”۔ اب وہ بلبلایا ۔ ”ہاں تب ہی رُلاتے ہو۔ افضل کچھ کر میں اب ماجد کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور نہ ہی تجھے اس چڑیل کے ساتھ دیکھنے کی ہمت ہے جوتیرے بچے کی ماں بن رہی ہے” زینت کی وہی پرانی رٹ تھی ”تو ہی بتا کیا کروں اماں کی زندگی میں تو کچھ ممکن نہیں”۔ افضل بے بسی سے بولا۔” تو مجھے کیوں دھوکے میں رکھا ہے ، کیوں ملتے ہو مجھ سے ، پیغام بھیج بھیج کر بلواتے ہو ”۔ اس نے زبردستی آنکھیں رگڑیں ۔
”تو جانتی ہے تیرے بغیر بھی نہیں رہ سکتا ”۔ اس نے ہاتھ جوڑے ۔ ”بس کر یہ ڈرامے بازیاں میں اب تیری باتوں میں نہیں آؤں گی ۔ کمزور مرد کی محبت کوڑھ کی طرح ہوتی ہے جو اُسے کوئی راحت نہیں دے سکتی بس ناسور کی طرح پھیلتی ہے ، کچھ کر افضل ورنہ مجھے بھول جا”۔ وہ ناز سے منہ پھیر کر کھڑی ہو گئی۔ ”میں مر جاؤں گا زینب مت کر ایسا، تجھے دیکھ کر تو تیرا افضل جیتا ہے ۔ اچھا تو پریشان مت ہو میں کرتا ہوں کچھ ۔ جااب تو گھر جا شام بہت ہو چلی ہے ۔ کہے تو میں تجھے چھوڑ آؤں”۔ ”نہیں کسی نے دیکھ لیا تو بڑامسئلہ ہو جائے گا میرے لیے، میں خود ہی چلی جاؤں گی ”۔ کہہ کر وہ باہر کی طرف چل دی۔ کلام پڑھنے والے کی آواز کی لے اونچی ہو گئی تھی ۔
جس تن لگیا عشق کمال نچے بے سر تے بے تال
زینب نے ایک روتی ہوئی نظر اس پر ڈالی اور پھیر لی ۔ وہ جانتا تھا کہ اس نظر میں کتنی تکلیف تھی۔ کوئی بھالا ا س کے دل اور جگر کے درمیان زور سے لگا اور اتنی ہی قوت سے واپس کھینچ لیا گیا۔ تکلیف کی شدت وقت نزع کا احساس دلا گئی ۔ بہت دور تک وہ زینب کو جاتا دیکھتا رہا۔
رجونے روٹی گھی سے چپڑی اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے لالی کی جانب آ گئی۔ ”لالی پہلے تو کھا لے۔” اس نے ٹکڑے لالی کی پرات میں ڈال دئیے ۔ اصلی گھی اس کی اپنی ضرورت کا تھا لیکن اُسے احساس تھا کہ وقت زہ میں آسانی کے لئے جتنی اس کو ضرورت اتنی ہی لالی کو بھی ضرورت ہے ۔اس کا وقت بھی قریب تھا۔ اپنی روٹی بنائی اور ڈھک کر آ گئی تھی کہ لالی کو کھِلا کر خود بھی آرام سے کھا لے گی ۔ تھوڑا گھی اس نے صبح افضل کی روٹی پر بھی لگا دیا تھاجس پر اس نے چونک کر پوچھا کہ یہ اصلی گھی کہاں سے آیا؟ اس نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ بڑی سرکار نے دیا ہے میرے واسطے کہ وقت پر آسانی ہوگی۔ افضل نے ایک چبھتی نظر اس پر ڈالی اور روٹی پرے کر دی۔ ”پھر تو ہی کھا ، مجھے کِھلا کر کیوں احسان جتا رہی ہے” اور غصہ کرتا ہوا باہر نکل گیا ۔
وہ خاموش کھڑی سوچتی رہی کہ کیا واقعی عورت کو مرد کی ٹیڑھی پسلی سے بنایا گیا ہے؟ مگر پھر مرد کوکس چیزسے بنایا گیا؟ جس کی نہ سیدھ سمجھ آتی ہے اور نہ ہی ٹیڑھ ۔ کب ناراض ہو جائے ، کس بات پر بدک جائے کچھ سمجھ نہیں آتا ۔ نہ پوچھتی تو طعنہ دیتا کہ تجھے صرف اپنا خیال ہے ۔ اُس نے آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کو دوپٹے کے پلو سے صاف کیا اور کام میں جُت گئی۔ وہی روٹی اب اس نے لالی کو کِھلا دی اور اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا ۔ لالی خوشی سے گردن میں بندھی گھنٹی ہلانے لگی جیسے اس بات کو محسوس کر رہی ہوکہ ہم دونوں ایک جیسے وقت سے گزررہے ہیں اور میں اُس درد کا احساس کر سکتی ہوں۔
رات سے رجو کی تکلیف بڑھ رہی تھی۔ حکیم صاحب کو نند بلا لائی تو حکیم صاحب نے دیکھتے ہی کہاکہ کیس خراب ہو سکتا ہے ۔ اس کو شہر لے جاؤ ۔ اماں نے افضل سے کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا ۔ میرے پاس پیسے نہیں کہ یہ نخرے بازی برداشت کروں ۔ دائی کو بلاؤ کہ کوئی دوائی دے تو ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن رات بھر رجو کی ہائے ہائے نے اماں کو بے چین کر دیا ۔
صبح ہوتے ہی وہ اس کے سرہانے کھڑی تھیں ۔ ”اُٹھ جا افضل جا انتظام کر جا کر پیسوں کا اُس کوشہر لے جانا ضروری ہے ورنہ وہ مر جائے گی”۔ ”او سونے دے اماں، نہیں مرتی وہ بڑی سخت جان ہے اتنی جلدی میری جان نہیں چھوڑے گی”۔ ”مت کر افضل ایسی بات اللہ کا خوف کر، لو گ جانور کے لئے بھی ایسی بات نہیں کرتے اور وہ تو تیری بیوی ہے ”۔ اماں لرز کر رہ گئیں ۔ ”بیوی ہے اسی لئے تو ایسی بات کر رہا ہوں ، جانور ہوتی تو۔۔۔۔”۔ بات ادھوری چھوڑ کر اس نے کروٹ بدل لی ۔
شام تک رجو کی کراہٹوں میں اضافہ ہو گیا تو ماں کے لعن طعن کرنے پر اُس نے ایک فیصلہ کرلیا۔ لالی کو بیچنے کا۔ ویسے بھی رجو سے ہر جُڑی چیز اُسے بہت کھٹکتی تھی ۔ لالی کو بیچ کر پیسوں کا انتظام کر نے کا فیصلہ کر کے وہ چارپائی سے اُٹھا اور خاموشی سے باڑے کی طرف آیا، جہاں لالی بیٹھی جُگالی کر رہی تھی۔ ”چل بھئی لالی تیرے دن تو پورے ہوئے۔ آج تیرا فیصلہ کر دیتے ہیں ۔ تیری مالکن نے تو تجھے بہت پیار سے رکھا ہے ۔اب تجھے اس وقت اُس کے کام آنا ہے۔ دوسرا مالک نہ جانے کیسا ہو”؟اس نے ٹب میں پانی بھر کر لالی کے آگے رکھا ۔”چل جلدی جلدی منہ چلا مجھے اور بھی کام ہیں”۔
ڈھلتی شام میں چڑیوں کی چہچہاہٹ ،باڑے میں گائے بھینسوں کی ڈکرانے اور مرغیوں کی کڑکڑ سے عجیب سی فضا تھی۔ گھر میں اُس نے لالی کے سودے کے متعلق کسی کو کچھ نہ بتایا اور وہ سب اس وقت رجو کے ساتھ مصروف تھے وہ بڑی خاموشی سے باڑے تک آیا تھا، جو گھر سے ذرا پرے تھا۔ وہ جانتا تھا سب اس بات کی مخالفت کریں گے اُسے خاموشی سے رجو کی لالی کو بیچنا ہے۔ اُس نے رسی کھولی اور لالی کی پیٹھ تھپتھپائی ۔ لالی نے گلے کی گھنٹی یوں ہلائی جیسے افضل کے ہاتھ پسند نہیں آئے ۔ ”چل بھئی اُٹھ اب تیرا دانہ پانی یہاں سے اُٹھ گیا ہے”۔ اس کی بات سُن کر لالی ایسے ڈکرائی جیسے سب کچھ سمجھ رہی ہو اوراپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اس نے زبردستی اٹھانے کی کوشش کی اور رسّی کو آگے کی جانب کھینچا تو اس نے بھی زور لگایا جیسے وہ پورا احتجاج کر رہی ہو اور جانا نہیں چاہتی۔ افضل نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی ۔ پاس ہی ایک سوٹی نظر آئی ۔ اس نے سوٹی لالی کی پیٹھ پر زور سے برسائی ۔ لالی یکدم بِدکی لیکن جگہ چھوڑنے کو تیار نہ ہوئی ۔
افضل کا غصّہ آسمان پر جا پہنچا۔ اُس نے زور زور سے سوٹیا ں برسانا شروع کر دیں ۔ دھڑا دھڑپیٹتا جا رہا تھا اور وہ بدک رہی تھی مگر جگہ نہ چھوڑتی۔ اچانک ایک ضرب پر وہ اتنی زور سے بدکی کہ رسّی افضل کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور لالی نے ایک زوردار ٹکرافضل کے ماری ۔ افضل منہ کے بل گرا، اِس کی ناک سے خون بہنے لگا ۔ لالی نے ڈکراتے ہوئے اس کو ایک اور ٹکر رسید کی اور پھر تو جیسے اس پر خون سوار ہو گیا ۔ اس نے متواتر اتنی ٹکریں ماریں کہ افضل کی چیخیں آسمان کو چھونے لگیں لیکن لالی باز نہ آئی۔ اپنی پوری وحشت کے ساتھ لالی نے افضل کے جسم پر اس جگہ ہی زیادہ وار کئے جہاں اُس نے رجو کو تکلیف پہنچائی تھی۔ اس لمحے افضل کو اپنی تکلیف کے علاوہ وہ وقت یاد آرہا تھا جب اس نے رجو کو اسی طرح کوٹا تھا اور اس بے چاری نے اُف تک نہ کی۔
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!