لالی — شاذیہ خان

گھنے پیپل، ببول اور بیریوں تلے چلتے چلتے وہ بہت مسرور تھی۔ اسے آج رہٹ چلنے کی آواز بھی سرور دے رہی تھی ۔ اس نے رہٹ کے گرد گھومتے بیل کو دیکھا۔کتنے مزے سے آنکھوں پر کھوپا چڑھائے گھوم رہا تھا۔ وہ مسکرا کر ایک نظر اس پر ڈالتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ درختوں کے سائے طویل ہو رہے تھے ۔ وہ تیزی سے قدم بڑھانے لگی ۔ اس نے دیکھا پگڈنڈی کے ساتھ ہی ہرا بھرا ساگ کا کھیت تھا۔ اس کا دل مچل گیا ساگ کھانے کے لئے، تازہ فصل دیکھ کر اُس سے نہ رہا گیا ۔ اُ س نے اِدھر اُدھر نظر ڈالی کوئی راکھا نظر نہ آیا کہ پوچھ کر توڑ لے ۔ کوئی نظر نہ آنے پراُس نے ساگ توڑنا شروع کیا کہ کوئی نظر آیا تو کہہ دوں گی۔ ابھی چند ڈالیاں ہی توڑی تھیں کوئی تیز تیز قدموں سے چلتا اس کی جانب آ گیا۔ رجو کی نظر اس کی بھاری چپلوں پر پڑی اس نے سر اٹھا کر دیکھا لمبی لمبی موٹی مونچھوں والا چوڑا چکلا سینہ ، مضبوط ہاتھ۔”اے بی بی کیا کر رہی ہے؟” کرخت آواز رجو کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ وہ ساگ چھوڑ کر ایک دم کھڑی ہو گئی ۔ ”وہ جی میں نے پکانے واسطے تھوڑاسا ساگ توڑا ہے ”۔ اس نے ہری بھری گندلیں اس کے آگے کر دیں۔ ”لیکن بی بی کم از کم کسی سے پوچھنا تو ضروری تھا ۔ بنا پوچھے کسی کی فصل سے کچھ لینا بُری بات ہے ”۔ اس کی کرخت آواز اب تھوڑی نرم پڑگئی ۔ ”وہ جی میں نے دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا۔ شام ہورہی تھی ، مجھے گھر جانا تھا ، انتظار نہیں کر سکتی تھی ”۔ وہ ہکلائی ، وہ خود بھی شرم محسوس کر رہی تھی۔ ”کس کی گھر والی ہے تو ”۔ اب کی بار سوال اُس کے پیٹ پر ایک بھر پور نظر ڈالنے کے بعد آیاتو وہ سمٹ کر رہ گئی۔”غلیظ آدمی”۔ دماغ میں صرف یہی بات آئی پھر بھی بڑی کڑواہٹ کے ساتھ اس نے جواب دیا۔ ”وہ جی افضل علی ”۔ اُس نے سرجھکا کر ساگ وہیں رکھا اور اپنی پوٹلی پکڑ کر جانے لگی ۔
”اے رُکو تم افضل علی کبوتر باز کی بیوی ہواور ساڈی بھرجائی ہوئی او بھرجائی معافی چاہتا ہوں، آپ یہ ساگ لے جاؤ بلکہ میں اور توڑ دیتا ہوں”۔ کرم داد افضل علی کا نام سُن کر سیدھا ہو گیا۔ ”نہ بھائی رہن دے ”رجو نے اُسے منع کیا۔ ”او نہ بھرجائی معافی چاہتا ہوں ”۔ وہ واقعی شرمندہ تھا۔ ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ رجو کا چھوٹا دیور اس کو ڈھونڈتا ہوا ادھر آگیا۔”بھابھی آپ ادھر ہو اور ادھر بھائی افضل بہت غصّے میں آپ کو ڈھونڈھ رہے ہیں ”۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک بھرپور نظر کرم داد اور رجو پر ڈالی تو رجو گھبرا گئی اور گھی اور میوے کا پوٹلا اُس کے ہاتھ سے چھٹ گیا ۔ کرم داد نے بڑھ کر پوٹلا اُسے تھمایا اور کہنے لگا۔ ”بھرجائی آپ گھر جاؤ ،میں ساگ کاٹ کر گھر بھجواتا ہوں اور بھائی افضل کو میرا سلام کہنا”۔ یہ کہہ کر وہ مڑا اور درانتی کی مدد سے ساگ کاٹنے لگا۔ رجو تقریباً دوڑتی ہوئی گھر پہنچی تو غصّے کی وجہ سے افضل علی کی ناک اور منہ سے تھوکیں اُڑ رہی تھیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”کہاں تھی تو ، جانے سے پہلے تو نے مجھ سے پوچھا تھا”؟ وہ تو پوری جان سے لرز گئی۔ ”وہ میں میاں جی کے گھر گئی تھی بڑی بی بی سرکار نے بلایا تھا ”۔ اُسے امید تھی بی بی سرکار کا نام سُن کر اُس کا غصّہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ ”ہاں جا وہیں مر جا ۔ اُن کے بلاوے کی فکر ہے ۔ یہاں میرے دس کام کیا وہ تیرا مرا ہوا باپ آ کر کرے گا ۔ شام ڈھل گئی اور تجھے بڑی بی بی سرکار کی پڑی ہے ۔ جھوٹ بولتی ہے تواتنی دیر کیا تو بیبی سرکار کی طرف رہی ۔ بتا کس یار سے مل کر آ رہی ہے؟ ” اب اُس کا غصّہ شیطان کے ساتھ پرواز کر رہا تھا۔ ”میں پہنچا تو بھرجائی کرم داد سے باتیں کر رہی تھی ۔ اس نے تجھے سلام بھی بھجوایا ہے”۔ اکمل نے کمینگی کی انتہا کر دی۔ ”کیا چودھری مظفر کے کھیتوں کا راکھا کرم داد ، وہ تجھے کہاں مل گیا؟”اس کی آنکھیں اپنے شک کے سچ ثابت ہو جانے پر اُبل پڑیں۔ وہ کرم داد کو اچھی طرح جانتا تھا۔ انتہائی کمینہ اور بد ذات شخص تھا وہ۔ اس نے لپک کر رجو کو چوٹی سے پکڑا اور زناٹے دار تھپڑ منہ پر جڑ دیا ۔ اُس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو دو تھپڑ اور جڑ دئیے ۔ ماں بہنیں بچانے آئیں تو انہیں بھی دھکا دے کر پیچھے کر دیا ۔ تب ماں نے دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دی اور رجو کو زمین سے سہارا دے کر اُٹھایا اور کمرے میں لے گئیں۔ بستر پر لٹا دیا۔ نند دوڑی دوڑی پانی لے آئی ۔ وہ بری طرح سے رو رہی تھی ۔” نیک بخت تو اُس کو موقع ہی کیوں دیتی ہے ، کیا ضرورت تھی اُس کم بخت کرم داد سے بات کرنے کی، تو بڑی بی بی سرکار کے پاس گئی تھی وہیں سے سیدھی واپس آتی”۔ انہوں نے اس کے منہ اور ناک سے بہتے خون کو کپڑے سے صاف کیا ۔ اتنی دیر میں وہ غصے سے بپھرا کمرے میں آ پہنچا۔ ”اماں سمجھا دے اُسے اگر آج کے بعد یہ باہر گئی تو میں اس کے ہاتھ پیر توڑ دوں گااور اُس کرم داد کو تو میں چھوڑوں گا نہیں ۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی افضل کی گھر والی سے بات کرنے کی۔ ضرور اس حرامزادی نے ہمت دی ہو گی” ۔ اس نے نفرت سے زمین پر تھوکا۔
رجو کو محسوس ہوا جیسے افضل کے شکی رویئے کے ہزاروں ڈنگ نکل آئے اور اس کے پورے جسم پر پھیل گئے ہوں۔ مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی وہ مجرم ٹھہرائی گئی ۔ وہ جانتی تھی کہ یہ غصّہ افضل کے اپنے پول کھُل جانے کا ہے۔ چند دن پہلے اس نے افضل اور زینب کو کبوتروں کی کابک تلے بیٹھے دیکھا تھا ۔ افضل زینب کا ہاتھ تھامے نہ جانے کیا کیا کہانیاں سنا رہا تھا ۔ وہ تھوڑی دیر کھڑی ان دونوں کو دیکھتی رہی پھر اچانک افضل کی نظر اس پر پڑی ۔ وہ خاموشی سے نیچے اُتر آئی ۔اس کی چھوٹی نند نے اگر ان دونوں کی داستانِ محبت اُسے نہ سنائی ہوتی تو شاید وہ پریشان ہوتی لیکن وہ سب جانتی تھی ۔ اس لئے کوئی واویلا نہ مچایا۔ وہ جانتی تو تھی کہ وہ پِیا مَن بھائی ہی نہیں۔ لیکن جو اس کے پیا کے من کو بھائی تھی اگر وہ اس کے برابر کی بھی ہوتی تو قرار آ جاتا ۔ چھوٹی نند نے اس کے خوب صورت بال سنوارتے ہوئے اُسے زینب کے بارے میں بتایا تھا کہ کتنی معمولی شکل کی تھی ۔ اس کے آگے زینب کی شکل تو چاند کو چراغ دکھانے کے مترادف تھی ۔
ابھی کچھ دن پہلے ہی تو وہ بڑی سرکار کے بلاونے پر ان کی طرف جانے کے لئے نکلی کہ نہ جانے کہاں سے زینب نکل کر اس کے سامنے آگئی اور اس کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی وہ تھوڑا پریشان ہوئی اور کترا کر نکلنے کی کوشش کی لیکن وہ پھر سامنے آگئی اور بولی:”کسی خیال میں نہ رہنا رجو افضل صرف میرا ہے” بھنوؤں کو اچکا کر اس نے رجو پر طنز کیا۔ ”اگر قسمت نے تجھے اس کی بیوی بنا دیا ہے تو اوقات مت بھولنا بہت جلد وہ میرا ہو گا۔” رجو کا دل چاہا کہ کوئی کرارا سا جواب دے لیکن افضل کے خیال سے خاموش ہو گئی اگر اُسے پتا چلا تو وہ ناراض ہو گا۔ ”تو بولتی کیوں نہیں افضل ٹھیک کہتا ہے تو بہت میسنی ہے۔” وہ بات کو بڑھاوا دے رہی تھی۔ اس کو کچوکے لگا رہی تھی تاکہ وہ بھی بولنے پر مجبور ہو جائے اور جھگڑا بڑھ جائے۔
اس نے خاموشی سے آگے کی جانب بڑھنے کی کوشش کی توزینب نے اس کا بازو پکڑ کر کھینچا ”یہ جو تو اپنی شکل پر گھمنڈ کرتی ہے نا یہ بہت جلد ٹوٹ جائے گا جب تجھے ”میرا افضل” طلاق دے گا۔” اس نے میرا افضل کہہ کر رجو کے تن بدن میں آگ لگا دی نہ جانے یہ استحقاق کا کیسا رشتہ ہے ؟کسی اور عورت کہ منہ سے اپنے شوہر کے لئے ”میرا” کا لفظ سننا بہت تکلیف دہ بات ہے کوئی عورت برداشت نہیں کر سکتی، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پھٹ پڑی:
سُن زینب! اگر وہ تیرا نصیب ہوتا تو آج تیرے پاس ہوتا تو اُسے کسی اور کے نصیب سے چھیننے کی کوشش نہ کرتی۔ سن! ہمیں وہ ملتا ہے جو ہمارے نصیب میں ہو اسی پر ہمیں صابر رہنا چاہئے ورنہ زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔” دل بڑا کر کے اس نے زینب کو بتا تو دیا مگر پھر پلٹ کر دیکھنے کی ہمت نہ تھی کہ زینب اس کی بات سن کر کس طرح سن کھڑی رہ گئی ۔
جیسے تیسے وہ وہاں سے بڑی سرکار کی حویلی تک پہنچی اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ وہ اس کی غم گسار تھیں انہوں نے تحمل سے ساری بات سنی اور اُسے سمجھایا۔ بہت بڑا سچ بول دیا تھا اس نے واقعی ہمیں وہ ملتا ہے جو ہمارا نصیب ہوتا ہے۔ ”نہ پُتر نہ ایسے بہت سے نیزے بھالے عورتوں کو سہنے پڑتے ہیں آدمی عورت کے لئے زرخیز زمین کی مانند ہوتا ہے اور اکثر زرخیز زمینوں پر جھگڑے ہو جاتے ہیں تو دل چھوٹا مت کر تیری سسرال اور ہم سب تیرے ساتھ ہیں وہ اپنی بات کبھی پوری نہ کر پائے گی۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!