لالی — شاذیہ خان

اُن کی جگہ صحن میں شام کو صاف ستھری چارپائیاں ، گھڑونچی پر رکھے مٹکے اور مٹکے پر دھرے صاف ستھرے گلاس جنہیں استعمال کے فوراً بعد رجو دوبارہ دھو کر رکھتی ۔کچے صحن کی روزانہ صفائی کے بعد پانی کے چھڑکاؤ سے دھول بٹھا دی جاتی ۔ غسل خانے میں موجود بدبودار اور میلے کپڑے صبح سویرے ہی دُھل کر چھت پر ڈال دئیے جاتے جو تیز دھوپ میں دوپہر سے پہلے سوکھتے اور رجو انہیں اتار کر نندوں سے کہتی کہ تہ لگا کر الماریوں میں رکھ دو۔ باورچی خانے کا بھی حال بہت بہتر تھا ۔ صبح صبح لسی بلو کر چاٹی کو صاف ستھرا کر کے رکھ دیا جاتا تاکہ مکھیاں نہ بھنبھنائیں ۔ اماں سبزی بناتیں اور رجو آٹا گوندھ کر روٹی بنا کر رکھ دیتی۔ کسی ایک نند کو کہہ کر برتن دھلواتی اور چارپائی پر سوکھنے رکھ دیتی۔ برتن سوکھنے کے بعد نعمت خانے میں رکھ دئیے جاتے ۔ جو برتن جھوٹے ہوتے ہاتھوں ہاتھ دھو لیتی ۔ جب تک اماں سبزی بناتیں وہ دوسری نند کے ساتھ کمروں کی صفائی بھی کر لیتی۔ پھر ہانڈی چڑھا کر فارغ ۔ اماں سر پر چادر لے کر کبھی پڑوس میں چلی جاتیں۔
کبھی پڑوس سے اماں فیضاں ان کے گھر چلی آتیں۔ وہ لپک جھپک لسی کا ایک گلاس اُن کو دیتی اور وہ جواب میں ڈھیروں ڈھیر دعائیں دیتیں ۔ ”اری رحمتے تیری بہو جیسی تو پورے گاؤں میں کوئی نہیں، ہیرا ہے ہیر، اتنی پھرتیلی ، اتنی سبھاؤ والی۔ تو بچ گئی جو زینب سے افضل کی شادی نہیں ہوئی۔ اتنی لمبی زبان اور آتا جاتا کچھ بھی نہیں۔ آج کل پھر لڑکر میکے بیٹھی ہے ۔ ماں کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے کہ میں نے اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا۔ میرا اُس کے ساتھ گزارا نہیں”۔
”بس آپا، رب جو کرتا ہے بندے کی بہتری کے لئے کرتا ہے لیکن بندا ہی ناشکرا ہے ۔ ہیرا چھوڑ کر کنکر اپنے لئے چنتا ہے اور اُسے ہی بہتر سمجھتا ہے ۔ میرا افضل آج بھی مجھے قصور وار ٹھہراتا ہے کہ اماں تم نے میرے ساتھ زیادتی کی ”۔ اماں نے ٹھنڈی سانس لی ۔ ”اگر اتنی اچھی بیوی کو وہ زیادتی کہتا ہے تو اللہ اُسے عقل دے ، سمجھ دے ”۔ اماں فیضاں نے باورچی خانے میں کام کرتی رجو کودیکھتے ہوئے کہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
درمیانے درجے کے سنیارا گاؤں میں ابھی زندگی کی آسائشیں بہت کم تھیں ۔ حویلی والے علاج معالجے کے لئے شہر کا رُخ کرتے ۔ چھوٹے سے گاؤں کے چھوٹے سے ہسپتال میں بہت ہی کم کوئی ڈاکٹر ٹِکتا تھا۔ اس وقت بھی رجو کے زخم دودھ ہلدی اور حکیم صاحب کی دوائیوں نے مندمل کر دئیے ۔ کوکھ میں موجود جنس بہت ہی سخت جان تھی ۔ اس کا اندازہ رجو کو بہت اچھی طرح ہو گیا تھا ۔ دائی نے مکمل معائنے کے بعد کہا : ”چھٹا مہینہ ہے احتیاط بہت ضروری ہے۔ اگر احتیاط نہ کی تو ماں اور بچے دونوں کی جان کو خطرہ ہے۔” ساس نے افضل پر واضح کر دیا کہ اب اگر اُس نے رجو پر ہاتھ اُٹھایا تو وہ چودھری صاحب سے اُس کی شکایت کر دے گی ۔ افضل صرف بڑے چودھری صاحب سے ہی ڈرتا تھا۔ ”تو بھی اپنی لاڈلی کو سمجھا دے کہ میرے سامنے زیادہ نہ بولا کرے ، بولے گی تو پٹے گی بھی ”۔ چودھری صاحب کا نام سُن کر افضل بُڑبڑاتا باہر نکل گیا۔
بڑی حویلی سے رجو کے لئے پیغام آیا کہ بڑی بی بی کو رجو سے کچھ کام ہے، انہوں نے فوراً یاد کیا ہے۔ وہ گھر کے کام تیزی سے نپٹا کر اماں کی اجازت سے ان کے پاس چلی آئی۔ برآمدے میں ڈھیروں ڈھیر مرچیں سوکھنے کے لئے رکھی تھیں۔ بڑی بی بی حقے کی نے منہ میں دبائے چند ملازماؤں کے گھیرے میں تھیں ۔کوئی اُن کے پاؤں دبا رہی تھی تو کوئی دیگر کام ۔ ”سلام بڑی بی بی”۔اس نے سلام کر کے پاس پڑے موڑھے کی جانب دیکھا تو بڑی سرکار نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے بیٹھنے کو کہا ۔ وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔ ”جا فاتاں، اندر سے دیسی گھی اور میوہ لا رجو کے واسطے ” بڑی سرکار نے اپنی ملازمہ کو حکم دیا ۔ انہیں پتا تھا کہ وہ پیٹ سے ہے۔ اسی لئے گھی اور کچھ میوہ جات اور گوند کتیرہ انہوں نے رجو کو دینے کے لئے رکھا تھا ۔ انہیں یہ معصوم سی ہرنی جیسی آنکھوں والی رجو بہت پسند تھی ۔ جب بھی بلواتیں وہ گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر اُن کی جانب دوڑی چلی آتی اور اُن کے دو چار ضروری کام نپٹا ڈالتی۔ آج بھی وہ یہی سوچ کر آئی کہ کوئی کام ہو گا لیکن انہوں نے کام کے بجائے اصلی گھی اور میوہ جات کا تھیلااُسے تھماتے ہوئے کہا۔ ”لے یہ رکھ لے ۔ دیکھ گھر والوں کو اس کی خبر نہ ہونے دینا۔ خود کھانا یہ تیرے اور تیرے ہونے والے بچے کے لئے بہت ضروری ہے ۔ اگر بچہ صحت مند چاہتی ہے تو یہ پورا ختم کرنا ۔ مجھے پتا ہے گھر میں ان سب چیزوں کی گنجائش نہیں ۔ اسی لئے تیری رنگت پیلی پڑی ہے”۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ اٹھ کر ان کے تخت پر بیٹھ گئی اور ان کے پاؤں دبانے لگی ۔ ”بڑی بی بی اللہ آپ کو بہت دے آپ ہم غریبوں کا کتناخیال رکھتی ہیں ”۔ اس کے ہاتھوں کی دھیمی دھیمی لرزش بی بی سرکار کے پیروں سے اُن کے دل میں اُتر گئی۔ کتنا دُکھ تھا اس لرزش میں، انہیں اندر تک محسوس ہوا ۔ ”تو بچے کی پیدائش پر اپنے گھر جائے گی ”؟ اس سوال کا جواب وہ جانتی تھیں مگر ایک آس لئے انہوں نے اُس سے پوچھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بھل بھل بہنے لگے ۔ ”بی بی میکہ صرف ماں کے دم سے ہوتا ہے ۔ بعد میں صرف گھر والے رہ جاتے ہیں، باقی سب رشتے ختم ۔”
”لیکن تیرے تو دو بھائی ہیں نا کیا وہ تجھے نہیں لے جائیں گے؟ ” ”بھائی صرف شادی سے پہلے بھائی تھے اب صرف بھرجائیوں کے شوہر ہیں”۔اتنی گہری بات سُن کر بی بی سرکار سے اور کچھ نہ پوچھا گیا۔ ”پچھلے دنوں ہی بھابھی کا پیغام آیا تھا کہ بہن سے کہوکہ کوئی امید نہ رکھے ساری زمینیں بک چکی ہیں اور وہ خود بہت مشکلوں میں گزارا کر رہے ہیں ”۔ اُس کی آواز کی نمی بی بی سرکار کو روح کے اندر اترتی محسوس ہوئی ۔ ”رجو تو دل چھوٹا نہ کر ہم سب ہیں نا یہاں تیرے پاس، بس جھلّی نہ بن چپ کر ”۔
”تیری ساس نے پوتے کے لئے کچھ بنایا ”؟ ایک ملازمہ نے پھر دل دکھانے والا سوال داغا۔ ”ہاں جی چند پرانے کپڑے نکال کر دئیے تھے کہ دیکھ بچے کے لئے رضائی وغیرہ بنا لے وہ تھوڑا بہت میں نے کر لیاہے۔” اس نے شرمندگی سے کہا ”چل تو فکر نہ کر میں ہوں ناوقت آنے دے سب ہو جائے گا ۔ فی الحال تو یہ سب اُٹھا اور گھر لے جا،استعمال ضرور کرنا اپنے میاں کو نہ کھلا دینا ۔ اصلی گھی روٹی پر لگا کر کھائے گی تو طاقت پیدا ہو گی اور وقت آنے پر آسانی ہو گی۔ چل میری پُتر ورنہ تیرے گھر سے بلاوا آجائے گا”۔ وہ بہت ممنون سی اُن کے پاس سے اُٹھ آئی ۔ اس محبت پر وہ جتنا بھی شکریہ ادا کرتی کم تھا۔ شاید اُس کی اپنی ماں ہوتی تو ایسی ہی محبت سے خیال رکھتی لیکن وہ جو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کر تا تھا اپنی محبت کو ایک اور رشتے میں بدل کر اس کو دے رہا تھا۔ ”ربا سوہنیا! تو اپنے ہر بندے کا انتظام رکھتا ہے ۔ بس تجھ پر ایمان رکھنے کی بات ہے ۔”
حویلی سے نکل کر وہ بڑے راستے کے بجائے چھوٹا راستہ اختیار کرتی پگڈنڈی کی جانب چل پڑی۔ درمیانے درجے کے گاؤں میں زیادہ تر مکانات مٹی اورگارے سے بنے تھے ۔ کچھ مکانات کچی اور کچھ پکی اینٹوں کے بھی تھے ۔ پگڈنڈی کے دونوں جانب لہلہاتے سرسوں کے کھیت جو ہلکی ہلکی ہوا سے لہرا رہے تھے، ان کی وسعتیں لامحدود تھیں۔ دور کہیں درخت پر بیٹھے کسی پرندے کی مَستی بھری آواز فضا میں رَس گھول رہی تھی۔ وہ بھی تھوڑی مَست ہو گئی کیوںکہ دوسرا خیال اس کو اپنے ہونے والے بچے کا آ رہا تھا۔پگڈنڈی کی گارے جیسیگیلی مٹی سے بچ بچ کر چلتی رجو صرف اپنے ہونے والے بچے کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی ۔ وہ جو ابھی دنیا میں آیا ہی نہ تھا ۔ اس سے ایک خاص قسم کی اُنسیت محسوس کر رہی تھی ۔ شاید یہ رشتہ ہی کچھ ایسا تھا۔ اس کا خیال ہی رجو کے دل میں ایک گد گدی پید ا کر رہا تھا ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!