لالی — شاذیہ خان

”لالی تجھے پتا ہے چند دن کے بعد میں اس گھر سے رخصت ہو جاؤں گی لیکن تجھے ساتھ لے کر جاؤں گی۔ بھائی سے میں نے کہہ دیا ہے بھلے کچھ نہ دو مگر لالی کے بغیر میں نہیں جا سکتی ”۔ وہ جوش میں تیز تیز بولتی لالی کے سر پر ہاتھ بھی پھیر رہی تھی۔ ”لالی تو سُن رہی ہے یا صرف کھا رہی ہے ۔ جا میں نہیں بولتی تجھے اپنا پیٹ رجو سے زیادہ پیارا ہے ”۔ وہ روٹھ کر لالی سے تھوڑا دور بیٹھ گئی ۔ لالی نے جگالی چھوڑی اور رجوکی طرف دیکھنے لگی ۔
جب رجو منہ پھیرے بیٹھی رہی تو لالی کھڑی ہو گئی اوررجو کے قریب آ کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے زمین پر پاؤں مارنے لگی اور زور زور سے سر ہلانے لگی جیسے وہ رجو کو منا رہی ہو ۔رجو اپنی ناراضگی بھول کر اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ ”لالی، بھائی نے کہا ہے کہ میں تجھے اپنے ساتھ لے جا سکتی ہوں ۔ میں بہت خوش ہوں۔ بس ہم دونوں وہاں بھی ساتھ ہی رہیں گے۔ بھابھی بھی نہیں چاہتی کہ تو میرے ساتھ جائے مگر یہاں بھی کاشی نے میرا ساتھ دیا ۔ بھائی کو منا لیا کہ تجھے تو ابا نے مجھے تحفے میں دیا تھا کہ تو ساری عمر میرے ساتھ رہے گی ”۔وہ بولتے بولتے تھوڑا ٹھہری اور بڑے لاڈ سے لالی کو تھپکتے ہوئے بولی:”لالی تو تیار ہے ناچلے گی نا میرے ساتھ بول”۔ لالی نے خوشی سے سر ہلایا جیسے اُس کی بات سمجھ رہی ہو ۔ گلے میں پڑی گھنٹی زور زور سے بجنے لگی ۔
افضل کے گھر میں ماں کی وجہ سے روشنی اُتر آئی جسے وہ اندھیرا گردانتا ۔ بات بات پررجو کی بے عزتی اور کبھی کبھی تو ہاتھ بھی اُٹھا لیتا۔ جس پر افضل کی ماں اکثر رجو کی ڈھال بن جاتی اور وہ بکتا جھکتا زمینوں پر اور کبھی کبوتر بازی کے لیے نکل جاتا ۔ ہر اتوار کو ہونے والے کبوتربازی کے مقابلے میں اپنے کبوتر اتارتا اور اکثربڑی رقم جیت جاتا۔ ہر اُڑان میں پارٹیاں سات سات کبوتر اُڑاتی تھیں۔ ان میں سے سب سے آخر میں اپنے ڈیرے پر اُترنے والا کبوتر کامیاب ٹھہرتا ۔ اسی طرح سات میں سے چار اڑانیں جیتنے والی پارٹی کامیاب رہتی ۔ وہ خاصی رقم جیتتا مگر کبھی گھر نہ دیتا تھا۔ بلکہ سارا پیسہ اپنے کبوتروں پر ہی لگا دیتا۔ اُن کے لئے طرح طرح کے کُشتے اور دوائیں جو اکثر بہت مہنگی ہوتیں، تیار کرواتا اور بہت پیار سے انہیں کھلاتا ۔ زینب سے جدائی کے بعد اس شوق میں اور شدّت آ گئی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
شدید گرمی اور سردی میں بھی وہ چھت پر اپنے کبوتروں کے پاس ہی پایا جاتا اور اب بھی زینب گاہ بہ گاہ چھت پر آتی مگر ایک ڈبڈبائی نظر اس پر ڈال کر سیڑھیاں اُتر جاتی ۔ وہ روز اُس کا آنا اور جانا محسوس کر تا پر خاموشی سے اپنے کام میں مشغول رہتا۔اُسے زینب کے ساتھ ساتھ خود پر بھی شدید غصہ تھا ۔ اگر وہ تھوڑی سی ہمت دکھاتی تو شاید وہ بھی زینب کے لئے بہت کچھ کر سکتا تھا۔ کبھی اُسے خود پر شدید غصّہ آتا کہ کیوں اُس نے اماں کی بات مان لی ، کیوں اپنی نہیں منوائی؟ کیوں؟ مگر اب کیا ہوسکتا تھا ۔ کبوتروں کی ٹہل سِوا کرتے اکثر وہ ایسی ہی باتیں سوچتا ۔ اب اُس کا دل کبوتروں کی غٹرغوں سے اور اُداس ہونے لگتا۔ اسے لگتا غٹرغوں میں ایک آواز زینب کبوتری کی بھی ہے جو کہہ رہی ہے کہ تم نے اتنی آسانی سے مجھے دوسرے کا ہوجانے دیا۔کیا محبت نہ تھی مجھ سے؟ اُس وقت اُس کا دماغ غصّے سے کھولنے لگتا اور اگر نیچے آکر پہلی نظر رجو پر پڑتی تواُس کا غصّہ اس پر اُترتا ۔
آخر مرد تھا ،خدا نے اُسے مرد بنا کر عورت کے روپ میں ایک سہولت دی تھی۔ باہر کا سارا غصّہ گھر میں موجود عورت پر اتارنے کی سہولت، جب چاہے گالیاں دو ، جب چاہے لاتوں، تھپڑوں اور گھونسوں کی سوغات اور وہ بے غیرت جنس ان ساری سوغاتوں کے بعد رات کوتیار روٹی کی طرح مرد کا پیٹ اور اُس کی بھوک بھرنے کو پھر تیار۔
آج بھی زینب پر نظر ڈالے بغیر اُس کی ڈبڈبائی آنکھوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر کے اُسے خواہ مخواہ ہی رجو پر شدید غصّہ آیا اور رجو کی بد بختی کہ بے چاری سارے کاموں سے فارغ ہو کر اب لالی کی دیکھ بھال میں لگی تھی ۔ پہلے اُس نے چارہ کُترا اور افضل کی دو بھینسوں اور ایک بیل کو دینے کے بعد لالی کی طرف آئی ۔ لالی نے اُسے دیکھ کر جھومنا شروع کر دیا۔ سر ہلانے کی وجہ سے اُس کے گلے میں پڑی گھنٹیاں مُدھر سی آواز پیدا کرنے لگیں ۔ اس نے پہلے لالی کی پشت پر ہلکے ہاتھوں سے مالش کی ۔ پھر چارہ ڈالا وہ بڑے مزے سے کھانے لگی ۔ رجو بالٹی لے کر باہر نلکے پر آئی جہاں سے ابھی اس نے ٹب میں پانی ڈالنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ آدھا پانی زمین پر اور آدھا ٹب میں گرا کیوں کہ اُس کی چٹیا کسی نے اتنی سختی سے دبوچی کہ بالٹی اس کے پاؤں پر گری اور وہ پیچھے کی جانب۔ ”حرام زادی اپنی گائے سے فرصت ملے تو میرے کبوتروں کی کابک اور جنگلے بھی صاف کر دیا کر ۔ دودن سے صفائی نہیں ہوئی وہاں اور تو یہاں اپنی ماں جائی کی رکھوالی میں لگی ہے”۔ یہ کہہ کر ایک کرارا تھپڑ اس نے رجو کے منہ پر جڑ دیا۔ وہ اُلٹ کر پیچھے کی جانب گری ۔ زمین پر خشک چارے نے اس کی کمر کو کسی بھی شدید چوٹ سے بچا لیا ۔ وہ خاموشی سے کھڑی ہو گئی ۔ ”وہ جی تم نے ہی پچھلی باری سختی سے منع کیا تھا کہ چھت پر نہ آؤں ۔ میں تو جی اسی وجہ سے دو دن سے چھت پر نہیں گئی ”۔ اس نے جواب دینے کی کوشش کی اور تکلیف کے مارے تڑپ کر رہ گئی ۔”الو کی پٹھی جواب دیتی ہے آگے سے جواب دیتی ہے ”۔ یہ کہہ کر اس نے ہاتھ کا بے دریغ استعمال کیا اور لاتوں سے اس کی سر سبزکوکھ پر بھی کئی کاری وار کیے۔ہر چند وہ جانتا تھا کہ رجو امید سے ہے لیکن شایدوہ اپنے اُن کمزور لمحوں سے بھی جان چھڑانا چاہتا تھا جس کی وجہ سے وہ باپ بننے والا تھا۔ وہ پِٹ پِٹ کر ادھ موئی ہو گئی ۔ افضل کی خوش قسمتی تھی کہ اماں گھر پر نہیں تھیں ۔ دونوں بہنوں کے ساتھ نکلی ہوئی تھیں سو افضل اس پر خوب بھڑاس نکالنے کے بعد کَف اُڑاتا باہر نکل گیا ۔ اس وقت لالی کی پوری کوشش تھی کہ رسی تُڑا کر آگے بڑھ آئے لیکن بے زبان جانور صرف دیکھتی رہی اور کچھ کرنہ سکی۔
فرش پر پڑے سوکھے چارے نے رجو کا سر بچا لیا ۔ مگر کوکھ پر پڑنے والی ضربیں بہت بے درد تھیں۔ کہاں کہاں پڑیں اس کا احساس تو رجو کو اس وقت ہوا جب دو گھنٹے کے بعد اُسے ہوش آیا اور اماں گھر پہنچیں۔ اُسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے گھر سے ذرا پرے گائے بھینسوں کے باڑے تک آئیں ۔ اماں اور بہنوں نے بڑی مشکل سے اٹھایا اور گھر تک لا کر چارپائی پر لٹا دیا۔ ایک نند گھر کے قریب ہی موجود حکیم صاحب کو لے آئی۔ جہاں دیدہ اور سیانے حکیم نے اماں کی بات کو باطل قرار دیا جو سمجھ رہی تھیں کہ گائے بھینسوں کو چارا ڈالتے وقت پاؤں پھسلنے سے گری اور بے ہوش ہو گئی ۔ حکیم صاحب مرد تھے اور ایسی چوٹوں سے آشنا بھی۔ آئے دن نیلو نیل اور چوٹوں سے کملائی درد سہتی عورتوں سے اُن کا واسطہ پڑتا ۔ کچھ تو اپنی عزت چھپانے کو جھوٹ کہتیں مگر کچھ منہ بھر بھر کر اپنے خاوندوں کو کوسنے اور بددعائیں دیتی تھیں۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی ۔ ان کے گھر میں بھی اکثر ان کی زور آوری کے خاتمے کا آخری حربہ بالآخر یہی ہوتا۔ بے چاری عورت!
کچھ دواؤں اور دودھ ہلدی کے بارے میں کہا اور چلتے چلتے اماں کے لئے شک کا ایک دروازہ کھول گئے ۔”بی بی کسی سیانی دائی کو ضرور دکھا لینا کہ بچے کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا۔ مجھے شک ہے کہ کوکھ پر پڑنے والی ضربیں کہیں گود نہ اجا ڑ گئیں ہوں ”۔
اماں ہکا بکا رہ گئیں ۔ ”آنے دو آج افضل کو۔ آئے دن اس یتیم پر غصّہ، اب تو باپ بننے والا ہے اب تو سدھر جائے نہ کہ وہ اپنی اولاد کو ہی مار ڈالنا چاہتا ہے۔” وہ انتہائی غصّے میں تھیں۔ کچھ بھی تھا رجو نے ان چھے مہینوں میں ان کی بے حد خدمت کی تھی۔ اتنا خیال رکھتی کہ پورا محلہ اُن کی قسمت پر رشک کر تا ۔ وہ تو سوچتی رہتی تھیں کہ نہ جانے کس نیکی کے صلے میںرجو ان کو اللہ کی طرف سے تحفہ ملا ۔ اتنی خدمت تو کبھی اُن کی بیٹیوں نے بھی نہ کی تھی جتنی رجو کر رہی تھی۔ وہ گھر جو کبھی کباڑخانے کا نقشہ پیش کرتا تھا اب جنت کی صورت اختیار کر گیا ۔ صحن میں بکھری چارپائیوں کو جگہ مل گئی۔ گندی پیالیاں اور لسی کے لڑھکتے گلاس جن میں بچی کھچی باقیات پر مرغیاں ٹھونگیں مارتیں ، گندے غسل خانے سے اٹھتیبد بو ، میلے کپڑوں کے ڈھیر ، باورچی خانے میں بکھرے برتن ، باسی روٹی کے ٹکڑے، ہڈیاں اور گندے بد بود ار دسترخوان سب نہ جانے کہاں غائب ہو گئے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!