لالی — شاذیہ خان

بارات کے بینڈ باجوں سے اُس کے کان پھٹ رہے تھے ۔ دو دن سے اُس نے کبوتروں کو بھی نہ دیکھا تھا۔ دل میں بہت درد تھا آخر کار وہ کمرے کی کُنڈی چڑھا کر افیون کی دو چار گولیاں کھا کر انٹا غفیل ہو گیا ۔
صبح آنکھ کھُلی تو سب کچھ لُٹ چکا تھا ۔ وہ پتھرائی آنکھوں سے ماں کو دیکھ رہا تھا جو ناشتہ دیتے ہوئے اُسے کچھ سمجھا رہی تھی۔ وہ ماں تھی اُس کی حالت سمجھ رہی تھی لیکن اُسے تسلی بھی تو اُس نے ہی دینی تھی نا۔ بے شک اس نے غصے کی حالت میں اُن سے تمام تعلقات توڑنے کی قسم کھا لی تھی مگر اُس نے بھی زینب کو ہی ہمیشہ اپنی بہو کے روپ میں دیکھا تھا۔افضل اُس کا بڑا بیٹا تھا ۔ اُس کے دُکھ کو اُس نے بالکل افضل کی طرح محسوس کیاتھا۔ اُسے فخر تھا کہ باپ کے مرنے کے بعد اُس نے ماں کی دی ہوئی قسم کی لاج رکھی ۔
وہ افضل کو سمجھاتے ہوئے خو دکو بھی سمجھا رہی تھی کہ اُسے جلد از جلد افضل کے لئے ایک خوب صورت بیوی ڈھونڈ لینی چاہئے جو اس زخم کا مرہم بن جائے اور قسمت نے اُسے یہ موقع دے بھی دیا۔ اب سارا مسئلہ افضل کو شادی پر راضی کرنے کا تھا۔لیکن سوچ سوچ کے پریشان تھیں کہ ایسا کیا کیا جائے جو بے نتھے بیل کو لگام ڈال سکیں۔
”اوہ آبھئی افضل اب تو تو صرف بلاوے پر ہی آتا ہے ۔ ویسے بھی کبھی اپنا دیدار کروا دیا کر ” چودھری نذیر نے کئی بلاوے دینے کے بعد آنے والے افضل کو دیکھ کر طنز کیا۔
”بس چودھری صاحب، جی کچھ اچھا نہیں رہتا”۔ اس نے منہ لٹکا کر کہا۔
”او کیا ہو گیا ہے تیرے جی کو، ابھی تیری عمر ہی کیا ہے اِن باتوں پر دل چھوٹا کرنے کے لئے۔ میرا خیال ہے تیری ماں ٹھیک ہی کہتی ہے کہ تجھے اب شادی کر لینی چاہئے”۔ حقے کی نے کو منہ میں دباتے ہوئے چودھری صاحب نے اردگرد بیٹھے ہوئے ملازمین کو دیکھا اور قہقہہ لگا یا ۔ اُن کی دیکھا دیکھی باقی سب بھی زور زور سے ہنسنے لگے اور افضل کو خفّت نے آ لیا۔ یہ اماں بھی نا بس ہر بات چودھری صاحب سے آ کر کر دیتی ہے ۔
”آپ بتائیے چودھری صاحب میرے لئے کیا حکم ہے ”۔ اس نے بات کو ٹالنا چاہا ۔ ”آپ نے کیسے یاد کیا”۔ ”اوہ افضل سُنا ہے اس دفعہ ملک نعیم مقابلے میں دو نئے کبوتر اتارنے والا ہے جن کی خوب پرورش ہوئی ہے ایک تو لق لقا ہے اور دوسرا ٹیڈی ”۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”جی چودھری صاحب سُنا تو میں نے بھی ہے لیکن آپ بالکل فکر نہ کریں، ہمارے ٹیڈی جوان بھی بالکل تیار ہیں مقابلے کے لئے، خوب دم ہے اُن میں۔ پھر سُچے موتیوں ، بادام ، پستے اور عنبر سے بنی خوراک ، ملک نعیم کا اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ یہ سب کھلا سکے۔ آپ سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ۔”
”اوئے ملکوں کو چھوٹا مت سمجھنا اور ویسے بھی دشمن دشمن ہوتا ہے، کم مت سمجھ۔” ”آپ فکر مت کریں چوہدری صاحب اتنے برسوں سے مقابلہ ہمارے کبوتر جیت رہے ہیں اور اب بھی ہمارے کبوتر ہی جیتیں گے۔ فتح سنیارا گاؤں کی ہی ہو گی۔”
”ان شاء اللہ ”۔ چاروں طرف سے لوگ انشاء اللہ انشاء اللہ کہنے لگے ۔ ”لیکن پھر بھی یار خیال کرنا ،مجھے ہارنا بالکل پسند نہیں اسی لئے تم سب پر اتنا پیسہ لگاتا ہوں کہ مجھے کسی ہار کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ خیر ایک کام بھی تھا تجھ سے کہ کبوترکے بچوں کے پر نکلنے لگے ہیں، انہیں جا کر باندھ اور روزانہ آ کر انہیں دیکھنا بھی ۔ جب وہ مانوس ہو جائیں تو ہماری مُہر لگا دینا ان کے پر وں پر ۔پچھلی دفعہ بھی ایک جوڑے پر مُہر لگنی رہ گئی تھی تو ملکوں کے ملازموں نے قبضہ کر لیا تھا”۔ بات مکمل کر کے چودھری صاحب نے حقے کی نے منہ میں دوبارہ لگا لی۔
پھر کچھ سوچ کر کہنے لگے ۔ ”دیکھ افضل میرے اور بھی ملازم ہیں لیکن تجھ پر میں بہت اعتبار کرتا ہوں ۔ تو پچھلی باتوں کو بھول کر دوبارہ کام میں دل لگا ۔ تیری ماں بتا رہی تھی کہ تو زمین کی دیکھ بھال میں بھی دل نہیں لگا رہا ۔ بچے، جو ہو گیا سو ہو گیا ۔ پرانی باتوں کو بھول نہیں تو کسی کام کا نہیں رہے گا۔ تیری ماں جہاں کہتی ہے شادی کر لے ۔ وقت سب سے بڑا مرہم ہے خود بہ خودہی بھر جائے گا۔ تو جتنی نظر اپنے زخم پر رکھے گا تیرا زخم اُتنا ہی خراب ہو جائے گا۔تو سمجھ رہا ہے نا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور تجھے کیا سمجھانا چاہ رہا ہوں ”۔ انھوں نے قدموں میں بیٹھے افضل کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اُس نے سر جھکا لیا ۔وہ اپنی آنکھوں کی نمی کو سب سے چھپانا چاہتا تھا ۔
وہ قطعاًکمزور مرد نہ تھا مگر زینب کی محبت نے اسے بہت کمزور کر دیا تھا ۔ رہ رہ کر اُس کی یاد آتی اور وہ بھیگتی آنکھوں کے پانی کو لوگوں سے چھپاتا پھرتا ۔ ”جی چودھری صاحب میں سمجھ گیا اب آپ کو شکایت کا کوئی موقع نہیں ملے گا”۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ”چودھری صاحب میں ذرا کبوتر کے بچوں کے پر باندھ دوں”۔ ”ہاں ہاں تو جا لیکن میری بات پر بھی غور کرنا، زندگی ایسی چیز نہیں کہ اُسے ضائع کیا جائے۔ وقت کسی کے لئے نہیں رُکتا ۔ تیری ماں جو کہتی ہے اُس کی بات مان کر کر لے شادی”۔ انھوں نے پھر ناصحانہ انداز میں سمجھایا ۔ ”جی چودھری صاحب آپ صحیح کہہ رہے ہیں میں کوشش کروں گا۔ اب مجھے اجازت ہے؟” وہ خاموشی سے سرجھکا کر باہر نکل آیا۔
اُسے ساری باتیں سمجھ آرہی تھیں مگر اس دل کا کیا کرتا جو صرف زینب کی غٹرغوں غٹرغوں پر ہمک رہا تھا۔ ہر چند کہ وہ اب اس کی پہنچ سے بہت دور تھی۔ گھر آ کر اُس نے پہلے تو اپنا غصّہ بہنوں پر اُتارا ۔ پھر ماں کے ڈانٹنے پراُس پر چڑھ دوڑا۔
”تو کیا میری شکایت چودھری صاحب تک پہنچاتی ہے۔ دس لوگوں کے درمیان میری بے عزتی ہوتی ہے۔ دیکھ اماں سمجھائے دے رہا ہوں تیری قسم کی لاج رکھ لی میں نے، اب اس سے زیادہ کی امید مت کرنا مجھ سے ”۔ اس وقت اس کی حالت کف اُڑاتے غصیل بیل کی مانند تھی ۔
ماں تھی نا، جانتی تھی بے نتھے بیل کو کہاں اور کیسے قابو کرنا ہے ۔ اس لئے اُس کے پاس بیٹھ کر شانے پر بڑے پیار سے ہاتھ رکھا، جسے افضل نے غصّے سے ہٹا دیا۔ ”دیکھ پتر جو ہو گیا سو ہو گیا میں تو چاہتی ہوں تیرا بھی گھر بس جائے ۔ زینب کے ماں باپ نے کتنی جلدی دکھائی اُسے دوسرے گھر بھیجنے کی ۔ تو بھی سب بھول اتنی سوہنی ووہٹی ڈھونڈی ہے تیرے واسطے کہ ”۔۔۔۔
”بس اماں بس آئندہ میری شادی کی کوئی بات نہیںہو گی ۔ ایک بات میں نے تیری مانی اب تو میری مان ۔ دیکھ میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں بس کر دے ، میرا دل بہت دُکھی ہے ”۔ اس نے ماں کے آگے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔”
”لیکن تو کب تک اپنی محبت کا سوگ منائے گاوہ تو خوش ہے اپنے گھر میں ”۔ ”وہ خوش نہیں ہے اماں اور شاید میں بھی”۔ افضل کے لہجے میں اتنا دکھ تھا کہ اماں خاموش ہو گئیں لیکن وقتاًفوقتاً اُسے سمجھاتی رہیں۔ افضل کسی صورت شادی کے لئے تیار نہ تھا ۔ آخر جب ماں نے زہر کھا کر مر جانے کی دھمکی دی تو یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور وہ شادی کے لئے بادلِ نہ خواستہ تیار ہو گیا ۔
رجو نے لالی کو چارہ کھلاتے ہوئے نہ جانے کتنی باتیں کیں ۔ ایک وہ ہی تو اس کی اچھی سہیلی تھی ۔ شروع سے اُس نے کوئی سہیلی نہیں بنائی تھی سوائے لالی کے ۔ لالی کی پیدائش کے بعد سے اب تک کی تمام ذمہ داریاں رجو نے ہی اٹھائیں تھیں ۔ ابّا نے اُسے لالی سونپ دی تھی کہ وہ اس کی دیکھ بھال کرے۔ اُسے کھلائے پلائے اور شادی کے بعد اپنے سُسرال بھی لے جائے ۔ وہ سب کام نپٹا کر اُسے کھلاتی پلاتی اور ڈھیروں ڈھیر باتیں کرتی اور لالی بھی اُس سے اتنی مانوس ہو گئی تھی کہ اس کے ہاتھوں ہی چارہ کھاتی ۔ کوئی اور کھلانے کی کوشش کرتا تو سخت ناراض ہوتی ۔ کاشی کو تو کئی بار ٹکر بھی مار دی تھی۔ سوائے رجو کے کوئی دودھ نہیں نکال سکتا تھا۔ لالی اس وقت بڑے مزے سے بیٹھی چارے کی جگالی کر رہی تھی ۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سر ہلاتی تو گردن میں پڑی گھنٹی بہت مدھر آواز سے بجنے لگتی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!