شادی کے تمام تر فنکشن بہ خیروخوبی اختتام پذیر ہوئے تو رانی رخصت ہوکر پیادیس سدھار گئی۔ رانی تو شوکت کا ساتھ پا کر یوں خوش تھی، جیسے اس نے کسی وزیر کے بیٹے سے شادی کرلی ہو۔ وہ شوکت کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی اور شوکت رانی سے خوش بھی تھا۔ دونوں کی شادی شدہ زندگی اچھی بسر ہورہی تھی۔ ان کی شادی کو ایک مہینہ ہوچکا تھا اور بالآخر وہ دن بھی آپہنچا جس کا رانی کو بے صبری سے انتظار تھا۔ دبئی جانے کا خواب جو اس نے شوکت کا رشتہ آتے ہی آنکھوں میں سجا لیا تھا۔ دبئی کے بڑے سے گھر میں رہنے کا خواب۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے کا شوق۔ دبئی کے بڑے بڑے مال میں جاکر خریداری کرنے کا خیال۔ سب کچھ سوچ کر اتنا حسین لگتا تھا تو آج تو اس کے خوابوں کو تعبیر ملنے والی تھی۔
وہ شوکت کے کندھے پر سر رکھے سورہی تھی جب شوکت نے ہلکا سا جھٹکا دے کر اس کو جگایا۔
”رانی اُٹھ جاؤ ہم دبئی پہنچ گئے ہیں۔” شوکت نے مسکرا کر رانی سے کہا تو وہ جلدی سے سیدھی ہوگئی۔
”میں نے سارا سفر سوکر گزار دیا کیا؟” رانی نے بوجھل آواز میں آنکھیں مسلتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں چلو اب اٹھو کیا اسی جہاز سے ہی واپس پاکستان جانے کا ارادہ رکھتی ہو۔” شوکت نے شرارت سے اس کو چھیڑتے ہوئے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
چند لمحوں میں وہ دبئی ائیر پورٹ سے باہر کھڑے تھے۔ رانی اتنی بُلند عمارتیں دیکھ کر تو ایک بار چکرا ہی گئی تھی۔
شوکت نے ایک ٹیکسی کروائی اور رانی کے ہمراہ اس میں آن بیٹھا۔
چند منٹ کی مسافت کے بعد وہ ایک عمارت کے سامنے اُترے۔ رانی اور شوکت نے سامان اٹھایا اور عمارت کی جانب بڑھ گئے۔
”کتنی بڑی بلڈنگ ہے۔” رانی بڑ بڑائی۔
شوکت بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی ایک فلیٹ کے سامنے رُک کر چابی سے دروازہ کھولنے لگا۔ رانی مسکراتے ہوئے اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لے رہی تھی جب شوکت نے دروازہ کھولا اور اسے اندر آنے کی دعوت دی۔ اندر داخل ہوئی تو گہرا اندھیرا تھا۔ ”شوکت یہ لائٹس تو جلا دیں۔” رانی نے کسی چیز سے ٹکراتے ہوئے کہا۔
”بیگم صاحبہ یہاں بجلی نہیں ہے۔” شوکت کی آواز سے اپنے آس پاس سے آتی محسوس ہوئی۔
”کیا لائٹ نہیں ہے؟” وہ چونکی تھی۔
”ہاں دراصل میں رات کو تو کام پر ہوتا ہوں دن میں کبھی کبھار آتا ہوں تو لائٹ کی کبھی مجھے خاص ضرورت نہیں پڑی اس لئے میں نے یہاں لائٹ کا بندوبست ہی نہیں کروایا۔ لیکن اب تم آگئی ہو تو کل ایک پنکھا اور بلب لگوا دوں گا۔” شوکت کی باتوں پر وہ بت ہی تو بن گئی تھی۔
”تم رکو میں ساتھ والے دوست سے ٹارچ لے کر آتا ہوں۔” شوکت کہتا ہوا باہر کی جانب بڑھا۔
”کیا ایک ٹارچ بھی نہیں ہے۔” رانی کو دوسرا جھٹکا لگا۔
شوکت ٹارچ تھامے اندر داخل ہوا تو رانی اس خستہ حال فلیٹ کو دیکھ کر دنگ رہ گئی کہاں اس نے بڑے بڑے محلوں کے خواب سجا رکھے تھے اور کہاں یہ اپنے پاکستان والے گھر سے بھی بدتر گندا سا ایک فلیٹ تھا۔ اسے شدت سے اپنے گھر کی یاد آئی جس میں رہتے ہوئے وہ اکثر اپنی قسمت کو کو ستی تھی۔
”کیا ہوا رانی؟ ایسے بت بنی کیوں کھڑی ہے؟” شوکت نے اسے گہری سوچ میں ڈوبا دیکھا تو اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
”کچھ نہیں بس یونہی۔” رانی نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا۔
”اچھا تم بیٹھو میں کھانے کا بندوبست کرتا ہوں۔ تمہیں بھوک لگ رہی ہوگی۔” شوکت کہتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا اور رانی ایک ٹوٹے پھوٹے سے پلنگ پر آبیٹھی، جو اس کے گھر کی چارپائی سے بھی گیا گزرا لگ رہا تھا۔ رانی کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔ اس کا دل چاہا وہ چیخ چیخ کر رو دے مگر اس نے صبر کا دامن تھامے رکھا کہ اس کے علاوہ اب اس کے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔شوکت جلدی ہی کھانا لے کر آگیا اور اس سے کہے بنا خود ہی کھانا برتن میں ڈال کر رانی کے قریب چلا آیا۔
”لو اب آرام سے بیٹھ کر کھانا کھاؤ اور پھر سو جاؤ مجھے صبح جلدی اٹھ کر کام پر بھی جانا ہے۔” شوکت نے رانی کے لئے پلیٹ میں کھانا ڈالتے ہوئے کہا توہ وہ کام کے نام پر چونکی۔
کام؟ شوکت کیا کام کرتا تھا؟ رانی نے سوچا۔
شوکت کیا کام کرتا تھا یہ تو نہ رانی نے کبھی شوکت سے پوچھا تھا نہ رانی کی ماں نے پوچھنا ضروری سمجھا تھا۔ کیوں کہ ان کے لئے تو یہی کافی تھا کہ شوکت دبئی میں نوکری کرتا ہے۔
”کون سے کام پر؟” رانی نے مدھم آواز میں بمشکل پوچھا۔
”ارے تمہیں ممانی فرزانہ نے نہیں بتایا تھا؟ ایک ہوٹل میں ملازمت کرتا ہوں وہاں کے سارے برتن دھونا اور صفائی ستھرائی کا کام سب میرے ذمے ہی تو ہے۔ شوکت نے کھانا کھاتے ہوئے پر سکون انداز میں جواب دیا۔
رانی کا دل اچھل کر جیسے حلق میں آگیا ہو شوکت یہاں ایک ہوٹل میں برتن دھوتا تھا صفائی کرتا تھا؟ یہ بات رانی کے لئے ناقابلِ برداشت ہی تو تھی۔ اس نے تو ایسا خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ شوکت یہاں ایسا کوئی کام کرتا ہوگا۔ اس نے کیا ایسا تو اس کی ماں رشیدہ نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔
رانی کا دل چاہا وہ سب کچھ یہیں چھوڑ چھاڑ کر واپس چلی جائے لیکن ان کے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ بدلنے والا تو نہیں تھا۔ ان دونوں ماں بیٹی نے تو اتنے اچھے اچھے رشتے بہتر سے بہترین کی تلاش میں ٹھکرائے تھے۔
آخری رشتہ جو آیا تھا تو اس کی ماں نے کہا تھا ہمیں بھلا لڑکے کی ڈگریوں سے کیا لینا دینا ہم تو اپنی بیٹی لڑکے کی کمائی دیکھ کر دیں گے۔ اس وقت رانی کو اپنی ماں کی بات بالکل ٹھیک لگی تھی لیکن آج اس کو احساس ہورہا تھا اگر شوکت پڑھا لکھا ہوتا تو یہاں پردیس میں لوگوں کے جوٹھے برتن دھوتا نہ ہوٹلوں کی صفائی کرتا۔
شوکت جو کررہا تھا وہ محنت تھی۔ لیکن رانی اور ماں نے جس بنیاد پر شوکت سے رشتہ جوڑا تھا وہ لالچ تھی۔ دبئی کی کمائی کی لالچ۔ دبئی کی بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے کی لالچ، بڑے کوٹھی نما گھر میں رہنے کی لالچ، امیر شخص سے شادی کرکے خاندان کے لوگوں میں اپنی واہ واہ کرنے کی لالچ۔ رانی کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا، جس کو اس نے بے رحمی سے انگلیوں کی پوروں سے رگڑا۔
”کیا ہوا رانی رو کیوں رہی ہو؟ اور جب سے آئی ہو چپ چپ ہو؟ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟” شوکت نے نرم لہجے میں اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”جی بس امی کی یاد آرہی ہے۔” رانی نے بھرائی ہوئی آواز میں جھوٹ بولا۔
کیوں کہ اب یہ کہہ کر شوہر کی نظروں میں نہیں گرنا چاہتی تھی کہ اس نے تو پیسے کی لالچ میں اس سے شادی کی تھی اس نے تو سوچا تھا کہ وہ یہاں کوئی دفتری کام کرتا ہوگا۔ اس نے تو سوچا تھا اس کا یہاں کوٹھی نما محل نہیں تو اچھا سا گھر ضرور ہوگا۔ لیکن اس کے اپنے ہی خوابوں کی کرچیاں اس کی آنکھوں میں چبھنے لگی تھیں۔
خواب کی بھی بہت سی اقسام ہوا کرتی ہیں اور جس قسم کے خواب رانی نے سجائے تھے ان میں صرف لالچ تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});