قرنطینہ ڈائری ۔ پندرہواں دن

دو گارڈز نظر آئے۔ چہروں پر ماسک چڑھا کر اکٹھے موٹرسائیکل پر بیٹھے جا رہے تھے۔ دل چاہا روک کر سماجی فاصلے پر لیکچر دوں۔ لیکن انہوں نے زور سے سلام جھاڑا اور زن سے نکل گئے۔

ایک موڑ مڑی اور آنکھوں کے سامنے شعلے سے لپک گئے ۔یہ چنار کے درخت تھے۔ درختوں کی شاخیں اور ان کے نیچے پوری سڑک شوخ نارنجی پھولوں سے لدی تھی۔ میں نے اپنی رنگوں کی لسٹ میں چنار کا رنگ بھی شامل کر لیا۔ اگر سفید بالوں پر فیروزی اور گلابی رنگ کیا جا سکتا ہے تو نارنجی نے کیا قصور کیا ہے۔

کہتے ہیں شہنشاہ بابر ہندوستان آیا تو پہلی بار یہ درخت نظر پڑے۔ اس نے جو شعلہ رنگ پیرہن اوڑھے اس سروناز کو دیکھ اتو اچنبھے سے پوچھا ”چہ نار؟“ (یہ کون عورت ہے؟) تب سے اس درخت کو چنار کہا جاتا ہے ۔نہ جانے اس سے پہلے کیا کہتے تھے۔

میں مسجد تک آپہنچی تھی میری زندگی کے متنوع اور متفرق تجربات میں سب سے انوکھا اور حسین تجربہ مسجد کا تھا۔ ساری زندگی گھر کے مردوں کو مسجد جاتے دیکھا تھا۔ عورتوں کے جانے کا نہ رواج تھا نہ مسجد میں جگہ۔ پھر آج سے پانچ سال پہلے ہمیں فضائیہ کی ایک کالونی میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر ایک نئی مسجد بنی تھی جس کی اوپری منزل پر دو ہال عورتوں کے لیے مختص تھے۔ پہلی مرتبہ میں وہاں جمعے کی نماز پڑھنے گئی تھی۔ اب تک کی زندگی میں میں سمجھتی تھی کہ میں نے دنیا کی ہر خوشی دیکھ لی ہے، ہر نعمت، ہر مسرت کے ذائقے سے آشنا ہو چکی ہوں۔ دنیا کے بہترین ذائقے چکھ لیے ہیں، سفر کر چکی ہوں، نئی نئی جگہیں دیکھ لی ہیں، گھر کا اور اولاد کا سکھ دیکھ چکی ہوں۔ اب زندگی میں نیا دیکھنے کو کچھ نہیں۔ لیکن قدرت نے میرے لیے ایک سرپرائز رکھ چھوڑا تھا ۔میں مسجد سے نا آشنا تھی ۔میں ان جذبات سے ناآشنا تھی جو میں نے اس جمعے کے دن مسجد میں کھڑے ہوئے محسوس کیے تھے۔ مجھے لگتا تھا میرا دل پگھل کر بہہ جائے گا۔ میری آنکھوں سے چپ چاپ آنسو بہتے تھے اور میری روح کو ایسا سکون محسوس ہوتا تھا جیسا آج تک نہ ہوا تھا۔ میرے اردگرد بہت سی عورتیں تھیں۔ میں اپنے دل کو ان سب کی محبت سے لبریز پاتی تھی۔ میرا دل چاہتا تھا ان سب کو گلے لگا لوں اور بہت عاجزی سے ان سے پوچھوں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں؟ صف میں میرے ساتھ ایک خاتون کھڑی تھیں۔ شاید ان کے گھٹنوں میں تکلیف تھی کیوں کہ وہ بڑی مشکل سے رکوع و سجود کرتی تھیں۔ اگلی صف میں ایک ماں تین چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھڑی تھی ۔وہ قیام میں کھڑی ہوتی تو بچے صف پر لوٹنے لگتے، سجدے میں جاتی تو اس کے کندھوں پر چڑھ جاتے۔ اس سے اگلی صف میں مجھے ایک نئی دلہن کے کرن لگے دوپٹے، کانوں کے جھمکے اور ہاتھوں میں رچی سرخ مہندی کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ اس دن میں نے ان سب کے لیے دل سے اور عاجزی سے دعا کی۔ ان کی صحت کے لیے، ان کے مستقبل کے لیے، ان کی خوشیوں کے لیے۔ دل کی یہ نرمی، یہ عجز، یہ رقت مسجد کا اعجاز تھی۔

عجیب بات تھی کہ یہ کیفیت مسجد سے باہر نکل کر ویسی نہ رہتی تھی۔ ہم وہاں تین سال رہے ان تین سالوں میں ہر رمضان میں تراویح کی نماز میں مسجد میں پڑھتی تھی۔ اگر کچھ تراویح پڑھ کر میں گھر آگئی اور باقی تراویح گھر میں پڑھیں تو حضوری اور عاجزی کی کیفیت کے لحاظ سے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا تھا۔ جو آنسو مسجد میں نیت باندھتے ہیں بہنا شروع ہو جاتے تھے، وہ گھر میں کیوں نہیں بہتے تھے؟دل کی وہ نرمی، وہ عاجزی، وہ رقت مسجد سے باہر قدم رکھتے ہی ویسی نہ رہتی تھی۔ میں حیران تھی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور جو چیز سمجھ میں نہ آئے، اس کی کھوج لگ جاتی ہے۔

اس سوال کا جواب بھی مجھے مسجد ہی میں بیٹھے ملا۔ حسب معمول میں مسجد میں بیٹھی اردگرد کی عورتوں کو دیکھ رہی تھی اور ان کے لیے اپنے دل میں امنڈتی محبت پر حیران ہو رہی تھی کہ اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ یہ روحانی کیفیت اس لیے ہے کہ اس وقت یہاں بشمول میرے، جتنے لوگ ہیں، سب اپنی انا اور اپنا نفس باہر چھوڑ کر آئے ہیں۔ یہاں جو آیا ہے جھکنے آیا ہے، عاجز ہونے آیا ہے، اپنی ”میں“ اپنے ساتھ نہیں لایا۔ یہ مجموعی عاجزی کی فضا ہے جو روح کو سکون کی تھپکیاں دیتی ہے اور دل پر رقت طاری کرتی ہے۔ یہ ہے وہ سکینت جو اللہ کے گھر میں نازل ہوتی ہے۔ اس گھر سے نکلتے ہی ہم اپنی اپنی انا کا، ”میں“ کا ٹوکرا پھر سے اپنے سروں پر دھر لیں گے اور اسی بوجھ کو اٹھائے زندگی کے دن بے حسی اور ناخوشی سے کاٹتے رہیں گے۔

اے مہربان رب! ہم پر اپنے گھر کے دروازے بند نہ کر، ہم انا کے اور ”میں“ کے اور نفس کے ان ٹوکروں کو اٹھائے تھک گئے ہیں۔ ان کے بوجھ سے ہمارے کندھے ٹوٹ رہے ہیں اور ہمارے دل بوجھل ہیں۔ اے دلوں کے بھید جاننے والے، اے پریشان ہونے والوں کو قرار دینے والے، اے تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے، ہم پر رحم کر۔ اس وبا کو ہم پر سے ٹال دے۔ اپنی مسجدوں کو پھر سے آباد کر یارب! ہم پر وہ سکینت ایک بار پھر نازل کر جو ہمارے دلوں سے غم کو دھو ڈالے۔ آمین یا رب العالمین۔

٭….٭….٭

 

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری ۔ تیرہواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ سولہواں دن

One Comment

  • مشرق وسطی’ میں تمام مساجد میں خواتین کا حصہ مخصوص ہوتا ہے،روزانہ نمازوں کے علاوہ جمعہ اور عید کی نمازوں میں عورتوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔ مسجدوں کو اللہ کا گھر شاید اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ دلی کیفیت کہیں اور پیدا نہیں ہو تی جو وہاں ہوتی ہے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!