تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مصطفی آگیا۔ آکر ہاتھ دھوئے، مجھے سلام کیا اور اوپر چلا گیا۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ابھی پوری طرح سکون سے بیٹھی بھی نہ تھی کہ مصطفی واپس آگیا۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں نرمی۔ آکر میرے پاس بیٹھا اور مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ”ابراہیم کو کیوں ڈانٹا ہے آپ نے؟“
میں نے حیران ہو کر کہا۔ ”ڈانٹا تو نہیں۔ کیوں کیا ہوا؟“
معلوم ہوا کہ ابراہیم جو اماں ابا کے لاڈلے آنکھ کے تارے ہیں اور جنہیں کبھی ڈانٹ نہیں پڑتی، آج اماں کی خفگی کو سہار نہ پائے اور جونہی مصطفی بھائی کا مہربان چہرہ نظر آیا، پھٹ پڑے ۔ آنسوﺅں سے روئے کہ آج اماں نے ڈانٹا ہے اور کہا ہے کہ تم پڑھتے نہیں حالانکہ میں سارا دن پڑھتا ہوں۔ سب سے زیادہ صدمہ انہیں اس بات کا تھا کہ اماں نے کہا کہ تمہاری شکایت بابا سے کروں گی۔
میں ہنس پڑی۔ میں نے مصطفی کو بتایا کہ میں اس کے باہر جانے سے پریشان تھی۔ اس لیے شاید ابراہیم کو کچھ سخت باتیں کہہ دیں۔
”کیوں پریشان تھیں؟“ مصطفی نے سادگی سے کہا۔ ”واپس تو میں نے آہی جانا تھا۔“
میں پھر سے ہنس پڑی۔ پھر میں نے اٹھ کر ایک چاکلیٹ نکالا اور مصطفی کے ساتھ اوپر گئی۔ ابراہیم کو چاکلیٹ دیا، پیار کیا۔ وہ فوراً مان گیا اور میری گردن میں بازو ڈال کر لاڈ کرنے لگا۔
شام کو سمبا اندر آیا اور میاﺅں میاﺅں کرتا میری ٹانگوں سے لپٹنے لگا۔ لیکن میں اس سے خفا تھی۔
”سمبا تم سے یہ امید نہ تھی۔ “ میں نے ڈانٹا۔ ”کتنی بری حرکت کی تم نے ۔یاد کرو وہ وقت جب بڑے بلے تمہیں مارا کرتے تھے۔ کیسا لگتا تھا تب تمہیں؟ اور اب تم خود چھوٹی بلیوں کو مارنے لگے ہو۔ کتنی شرم کی بات ہے۔ کیا سوچیں گے لوگ کیسی تربیت کی ہے ہم نے تمہاری۔“
سمبا چپ چاپ سر جھکائے کھڑا ڈانٹ کھاتا رہا۔ ایسے موقعوں پر نہ وہ سر اٹھاتا ہے نہ نظر ملاتا ہے۔
”سب سمجھتے ہو تم کہ غلط کام کر کے آئے ہو اور اب ڈانٹ پڑ رہی ہے۔“ میں نے خفگی سے کہا۔ ”اب تمہاری سزا یہ ہے کہ آج کھانا بھی تم گھر سے باہر کھاﺅ گے اور سو گے بھی باہر۔ Time out for you۔“
یہ کہہ کر میں نے اس کا کھانا اس کی پلیٹ میں نکالا اور دروازے کی طرف چلی۔ سمبا وہیں کھڑا مجھے دیکھتا رہا میں نے بڑھ کر دوسرے ہاتھ میں سمبا کو اٹھایا اور دروازے سے باہر لا کر پورچ میں چھوڑ دیا۔ جب میں اس پر دروازہ بند کر رہی تھی تو وہ مجھے مڑ کر دیکھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں اتنی حیرت، اتنی بے یقینی، اتنا صدمہ اور اس قدر دکھ تھا کہ ایک مرتبہ تو میرا دل چاہا کہ بھاگ کر گود میں اٹھا لوں اور گلے سے لگا کر اندر لے آﺅں۔ بھلا اس کا کیا قصور؟ وہ تو اپنی فطری جبلت سے مجبور تھا ۔ میں ہر اس ماں کی طرح سمبا کے لئے بہانہ تراشنے کی کوشش کی جو اپنے بیٹے کے گلی میں لڑ بھڑ کے آنے کے بعد اسکے کئے کا سارا الزام دوسرے لڑکوں پر ڈال دیتی ہے۔ آخر سمبا بچہ ہی تو ہے۔ وہ معاشرے کو وہی لوٹا رہا ہے جو اس نے معاشرے سے پایا ہے۔ میں نے اپنی سوچ کی لہر کو وہیں تھاما اور خود کو یاد دلایا کہ سمبا کسی بالی وڈ فلم کا ہیرو نہیں ہے۔ اور اسے یہ سبق سکھانا ضروری ہے کہ اس گھر میں لڑائیاں جھگڑے کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ گھر بدری بہت وقتی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں بابا گھر آئیں گے اور سمبا کو اندر لے آئیں گے۔
اے میرے مہربان رب! میں نے تجھے ہر جگہ ڈھونڈنا اور پھر اپنے ہی اندر تجھے پایا۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ، چھوٹے سے چھوٹا واقعہ، اہم سے لے کر غیر اہم، ہر بات تیری نشانیوں سے منور ہے۔ میں مصطفی کے جانے سے پریشان رہی، اس پر بھروسا کرتی تو سمجھ لیتی کہ اس نے گھر آہی جانا تھا۔ ابراہیم میری خفگی سے آزردہ ہوا کہ اماں جو کبھی ناراض نہیں ہوتیں ، اب بگڑ گئی ہیں اور ان کی ڈانٹ سے جو صدمہ مجھے پہنچا ہے اب کبھی ٹھیک نہ ہو گا۔ سمبا کو میں نے آدھے گھنٹے کے لیے گھر سے نکالا اور وہ یہ سمجھا کہ یہ دیس نکالا شاید ہمیشہ کے لیے ہے۔ یہ تو میں ہی جانتی تھی کہ یہ ناراضی، یہ ڈانٹ، یہ جدائی وقتی ہے۔ یہ وقت گزرے گا تو میں اپنے بچوں کو پھر سے گلے لگا لوں گی۔
اے ستر ماﺅں سے بڑھ کر محبت کرنے والے! ہم بھی تیری پلاننگ کو سمجھ نہیں پاتے۔ تو ہم پر ذرا دیر کے لیے سختی کرتا ہے تو سمجھتے ہیں یہ ابتلا ہمیشہ رہے گی۔ ناشکری کی باتیں کرتے ہیں، شکوے کرتے ہیں،بے صبری سے جھلانے لگتے ہیں۔ نہیں جانتے کہ ان مع العسری یسریٰ۔ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور تیری رحمت نے تو آہی جانا ہے۔
اے یوسفؑ کو کنوئیں میں سے نکالنے والے، اے یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ میں سے نکالنے والے، اے ابراہیمؑ کو نمرودکی آگ میں سے نکالنے والے، ہمیں اس وبا کی ابتلا سے نکال دے۔ اے دونوں جہانوں کے رب ہم پر اپنی رحمت کا دروازہ کھول دے اور ہمیں اندر آنے دے۔ آمین یا رب العالمین۔
٭….٭….٭
One Comment
آمین