یہ کتاب پڑھ کر مجھے ٹراما ہو گیااور اس ٹراماسے نکلنے کے لیے میں نے کسی دوسری کتاب کا سہارا لیناچاہا ۔اس کوشش میں جوکتاب میرے ہاتھ لگی اس کانام تھامہا بھارت۔ یہ بھی اپنی طرزکی ایک کتاب ہے لیکن چوں کہ یہاں مذہبی و جذباتی وابستگی نہیں تھی لہٰذا اس کتاب کو قصے کہانیوں کی کتاب سمجھ کر خوب انجوائے کر کے پڑھا۔ مہا بھارت ایک رزمیہ نظم ہے جس کے ایک لاکھ بند ہیں۔ اس میں عسکری افسانوں کے ساتھ اخلاقیات، سماجی قوانین اور آئینِ حکمرانی کے موضوعات وضاحت سے بیان کیے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ قصہ دو بھائیوں کی اولادوں کے درمیان تخت کی وراثت کی جنگ کا ہے۔ ایک گروہ کورو اور دوسرا پانڈو کہلاتا تھا۔ کورو وِلن تھے اور پانڈو ہیرو ۔اس کتاب میں دیوتا ہیں، پراسرار شکستوں والے جوگی ہیں، پچھلے جنموں کے کرموں کا پھل ہے، دیوتا اور مچھلی کے ملاپ سے جنم لینے والی حسین مچھیرنیں ہیں اور راجکماریوں کے سوئمبر ہیں۔ ایسی ہی ایک راجکماری دروپدی ہے۔ پانچ پانڈو بھائی بن باس لیے ایک شہر میں آٹھہرتے ہیں اور برہمنوں کا بھیس بدل کر کشکول ہاتھ میں لیے خیرات اکٹھی کر کے لاتے ہیں، جسے ان کی ماں ان میں برابر تقسیم کر دیتی ہے۔ ایک روز انہیں حسین و جمیل راجکماری دروپدی کے سوئمبر کی خبر ملتی ہے۔ وہ اس سوئمبر میں جا پہنچتے ہیں۔ وہاں چھت پر ایک گھومنے والی چرخی پر ایک مچھلی جڑی ہے اور اس کے نیچے فرش پر کھولتے تیل کا کڑھاﺅ رکھا ہے۔ اس تیل میں دیکھتے ہوئے مچھلی کی آنکھ میں تیر مارنے کی شرط ہے جو کہ ظاہر ہے کہ کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ آخر پانڈو بھائیوں میں سے ارجن یہ معرکہ سر کرتا ہے ۔ راجکماری خوشی خوشی اسے ورمالا پہنا دیتی ہے اور پانچوں بھائی اسے لیے گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ گھر پہنچ کر وہ دروازے سے ماں کو آواز دیتے ہیں اور مذاق میں کہتے ہیں کہ دیکھو ماں آج ہم خیرات میں کیا لے کر آئے ہیں۔ ماں جو باورچی خانے میں مصروف ہے بغیر دیکھے جواب دیتی ہے کہ پانچوں بھائی آپس میں بانٹ لو۔ اب چوں کہ ماں کا کہا تو پتھر پر لکیر ہے اور دیوتاﺅں کا حکم ہے لہٰذا میڈم دروپدی پانچوں بھائیوں کی مشترکہ بیوی بنا دی جاتی ہیں اور سب لوگ ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
یہ دونوں کتابیں جن کا میں نے ذکر کیا ان لوگوں کو پڑھنی چاہئیں جو ( خواہ کسی بھی مذہب سے ہوں) دہریہ ہونا چاہتے ہوں اور مذہب سے متنفر ہونے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہوں ان دونوں کتابوں میں انہیں متنفر ہونے کا کافی مواد مل جائے گا۔
اور کچھ ہو نہ ہو مہا بھارت سے میں نے دو نئے لفظ سیکھے۔ ایک لفظ ہے ”نامختتم“ یعنی کبھی نہ ختم ہونے والی چیز ۔ مثال کے طور پر ” ان کی محبت نا مختتم تھی۔“ اور دوسرا لفظ ہے۔ ”حبزرو توبیخ۔“ اس کے معنی مجھے لغت میں تو نہ ملے البتہ تحریر میں پڑھ کر اندازہ ہو گیا کہ کیا مطلب ہے۔ جملہ یہ تھا ”دروپدی ایک دلیر عورت تھی جو موقع بموقع اپنے پانچوں شوہروں کو حبزرو توبیخ کرنے سے باز نہیں رہتی تھی۔“ یہ لفظ مجھے بہت پسند آیا اور میں نے دل میں ٹھان لی کہ میرے بچے ،جو اب گھر میں بند رہ رہ کر تنگ آچکے ہیں، اگر مجھے تنگ کریں گے تو میں ان کی حبزرو توبیخ کر دوں گی۔
گھر کے نامختتم کاموں سے نبٹ کر میں نے سردیوں کے کپڑے رکھنے اور گرمی کے نکالنے کا ارادہ کیا اور اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے جب میں عمر کے کمرے میں گئی تو وہاں مہا بھارت کا نقشہ پایا۔ میلے اور صاف کپڑے خلط ملط کرسیوں پر، پلنگ پر اور فرش پر پڑے پائے ۔الماری کا حال بھی ایسا تھا کہ گویا اس میں بھوت ناچتے رہے ہوں۔ کمبل پلنگ کی پائنتی زمین پر پڑا تھا اور چادر اکٹھی ہو کر سرہانے سے لپٹی تھی۔ فرش پر پانی کی بوتلیں اور گلاس لڑھک رہے تھے اور سائیڈ ٹیبل پر چھوٹی پلیٹس اور چمچے پڑے تھے۔ بے بسی سے کھڑی میں کمرے کا حال دیکھتی رہی۔ یہ کمرا، یہ بستر میں نے کل صاف کیے تھے اور آج ۔۔۔میں خاموشی سے آگے بڑھ کر کپڑے سمیٹنے لگی۔ عمر صاحب سمجھ گئے کہ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ جلدی سے بڑھ کر میرے ہاتھ سے کپڑے لینے لگے۔ ”آپ کیوں کر رہی ہیں؟ چھوڑیں میں ابھی سب کچھ صاف کر دیتا ہوں۔“ اس نے لجاجت سے کہا۔
”تم پہ چھوڑا تو کبھی نہیں ہو گا۔“ میں نے بگڑ کر کہا۔ ”ہٹو پیچھے مجھے کام کرنے دو۔“
عمر فوراً ناراض ہو گیا۔ اوندھے منہ بستر پر لیٹ گیا اور لگا مچلنے۔ ”مجھے میری مرضی سے کیوں نہیں رہنے دیا جاتا؟ میں ان بکھری چیزوں کے ساتھ اتنا کمفرٹیبل ہوں۔ میں گندا رہنا چاہتا ہوں مجھے گندا رہنے دیں میں اپنی پروفیشنل لائف میں بھی خوب گندا رہوں گا۔ صاف رہنا بورنگ ہے، گندا رہنا cool ہے۔ میں گندا رہنا چاہتا ہوں میں گندا رہوں گا۔ گندا، گندا، گندا۔۔۔۔“
ایک مرتبہ تو جی میں آئی کہ اٹھاﺅں ہینگر اور اچھی طرح حبزروتوبیخ کر ڈالوں، پھر صبر کے گھونٹ بھرے اور عمر کے واویلے کو نظرانداز کر کے بے نیازی سے کپڑے سمیٹتی رہی۔ میلے کپڑے ٹوکری میں ڈالے، سردیوں کے پیک کیے اور گرمیوں کے نکال کر پلنگ پر ڈھیر کیے۔ اتنی دیر میں عمر کا tantrum ختم ہو چکا تھا ۔اس نے نیچی آواز میں مجھ سے کہا۔ ”اب آپ جائیں، یہ میں کر لوں گا۔“
میں نے کندھے اچکائے اور اپنے کمرے میں آگئی۔ عمر کے کمرے سے مجھے ہلچل کی آوازیں آتی رہیں۔
کچھ دیر بعد عمر ایک پلیٹ میں شہد اور دارچینی سے بنے پین کیک لے کر میرے پاس آیا اور لاڈ سے بولا: ”یہ میں نے آپ کے لیے بنا ئے ہیں۔ اور آکر میرا کمرا بھی دیکھ لیں۔“
میں اٹھ کر کمرے میں گئی۔ کمرا چمک رہا تھا۔ پلنگ کی چادر پر سلوٹ کا نام نہ تھا، کمبل سلیقے سے تہہ کیا رکھا تھا، کپڑے الماری میں لٹک رہے تھے، گندے برتن اٹھا دیے گئے تھے اور جھاڑ پونچھ کر دی گئی تھی۔
اے میرے رب! ہم بھی تیرے سامنے عمر کی طرح ہیں۔ گناہوں کی زندگی پر اصرار کرتے ہیں۔ تو اپنی طرف بلاتا ہے تو مچل جاتے ہیں کہ ہمیں معصیت میں گندا رہنے دو، ہم نافرمانی کے گناہ میں خوش ہیں، صاف رہنا بورنگ ہے، گندا رہنا cool ہے، ہم گندے رہنا چاہتے ہیں، ہم گندے رہیں گے۔اور اے ستر ماﺅں سے بڑھ کے محبت کرنے والے ، تو ہمارے tantrums سے بے نیاز ہمیں نوازنے میں لگا رہتا ہے ۔اور جب گناہ کی گندگی سے تنگ آکر شرمندہ ہوتے ہوئے تیرے پاس آتے ہیں ، توتو فوراً مان جاتا ہے اور ذرا بھی ہماری حبزروتوبیخ نہیں کرتا۔
اے مہربان رب! ہمیں معاف کر دے، ہمارے نامئہ اعمال کو گناہوں کے گند سے اس طرح صاف کر دے جیسے ایک ماں اپنے پاس آنے والے شرمندہ بچے کے لیے اپنا دل صاف کر لیتی ہے۔ اے اللہ ،اس وبا کو انسانوں پر سے ٹال دے۔ یہ وائرس بھی تیری مخلوق ہے اور ہم بھی ۔اگر تو اسے گھٹائے گا یا بڑھائے گا تو اسے تو کوئی فرق نہ پڑے گا۔ لیکن اگر تو نے ہم پر رحم نہ کیا تو ہمارا کوئی اور ٹھکانہ نہیں۔ رحم کر میرے مالک، اپنے مجبور بندوں پر رحم کر۔ آمین یا رب العالمین۔
سارہ قیوم