اس موضوع پر سب سے پہلے ایک کتاب ”The Secret” کے نام سے لکھی گئی۔ اس کتاب کے چند چیدہ نکات یہ ہیں۔
1۔ جو بھی آپ سوچتے، کہتے یا کرتے ہیں وہ آپ کو کائنات کی پازیٹو یا نیگٹو طاقتوں سے براہ راست جوڑ دیتا ہے۔ آپ نیگٹو سوچیے، شکوے شکایتیں کیجئے، مایوسی کا اظہار کیجئے، آپ کی زندگی میں نیگیٹو طاقتوں کا عمل دخل بڑھ جائے گا۔ وہ آپ کو مزید مایوسی، تلخی اور مصیبت کی طرف دھکیل دیں گی۔ آپ خوش رہیے، پرامید رہیے، شکر گزار رہیے، آپ کا رابطہ پازیٹو طاقتوں سے ہو جائے گا، جڑا رہے گا اور وہ آپ کو زندگی میں مزید خوش، پرامید اور شکر گزار ہونے کے مواقع فراہم کرتی رہیںگی۔
2۔ کسی بھی خواہش کو پورا کرنے کی طرف پہلا قدم شکرگزاری ہے۔ شکرگزاری جسمانی اور ذہنی بیماریوں کی شفا ہے اور مزید خوشیاں پانے کی خواہش کا اظہار ہے۔
لیجئے جو بات ان لوگوں کو آج پتا چل رہی ہے وہ تو ہمیں صدیوں سے معلوم ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ” تم شکر کرو تو میں تمہیں اور دو ں گا۔” ہمیں یہ بھی بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکوے شکایت کرنے سے گریز کیا جائے۔ بچپن میں جب ہم بے وجہ یا کسی چھوٹی سی بات پر خواہ مخواہ روتے تھے تو امی سے کرارا تھپڑ پڑتا تھا کہ لو اب رو، اب تمہارے پاس وجہ ہے رونے کی۔ تو بس زندگی بھی آپ کے ساتھ یہی کرتی ہے۔ آپ چھوٹی باتوں پر شکایت کرتے ہیں تو بڑی مصیبت کی طرف آپ کو دھکیل دیتی ہے کہ بھئی لو۔ اب تمہارے پاس وجہ ہے رونے کی۔ لیکن دوستو ہم میں سے کتنے اس اصول کو اپنی زندگی پر لاگو کرتے ہیں؟ اور اگر لاگو کرنا چاہیں تو کس طرح کریں؟ “The Secret” ہمیں اس کا طریقہ بتاتی ہے۔ کتاب کہتی ہے کہ جو چیز آپ کو چاہیے اس کا تصور کریں اور تصور میں خود کو اس چیز کا مالک دیکھیں۔ پھر بے حد یقین سے قادرِ مطلق (آپ جو بھی سپریم طاقت کو کہنا چاہیں) کا شکریہ ادا کریں اور کہیں: ”تھینک یو مجھے معلوم ہے کہ آپ نے یہ چیز میرے لیے مقدرکر دی ہے۔ بس ابھی مجھ تک نہیں پہنچی لیکن میں ابھی سے اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور تمام عمر کرتا رہوں گا۔” یہ عمل تب تک دوہرایئے جب تک وہ چیز مل نہیں جاتی۔ ہر سانس کے ساتھ تھینک یو کہیے اور یقین کو متزلزل نہ ہونے دیجئے۔
تو دوستو میں نے اس تھیوری کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ یہ تب کی بات ہے جب تین چھوٹے بچے تھے اور میں سکول میں پڑھایا کرتی تھی۔ میرے پاس میرے سسر کی چھوڑی ہوئی گاڑی تھی جو اب کھٹارا ہو چکی تھی اور آئے دن سکول سے واپسی پر گرمی سردی میں عین سڑک کے بیچ کھڑی ہو جاتی تھی۔ اس کا سخت سٹئیرنگ اور شیشے چڑھانے کے ہینڈل گھما گھما کر میری گردن اور کندھے جواب دے جاتے تھے۔ میں بہت تنگ تھی۔ مالی حالات تب اتنی اجازت نہ دیتے تھے کہ نئی گاڑی خریدی جاتی اور اگر خرید بھی لیتے تو FX یا مہران سے آگے نہ بڑھ پاتے۔ اور بات پھر اسی طرح کے سٹئیرنگ اورہینڈلوں پر آ پڑتی۔
ایک دن میں اور میرے بچے سخت گرمی میں اپنی کھٹارا گاڑی کو دھکا سٹارٹ کرتے دھکیلتے ایک شوروم کے آگے سے گزرے۔ میں نے اندر کھڑی گاڑیوں کو دیکھا اور کہا: ”یااللہ بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے یہ گاڑی دی۔ لیکن اب آپ مجھے پاور سٹیئرنگ اور پاور ونڈوز والی زبردست سی گاڑی دیں۔ مجھے یقین ہے آپ نے مقدر کر دی ہے، اس کے لیے شکریہ قبول کیجئے۔”
مصطفی نے حیران ہو کر کہا: ”یہ کیسی دعا کر رہی ہیں؟ انسان اپنے حالات دیکھ کر مانگتا ہے۔”
میں نے ہنس کر کہا: ”نہیں! میں اپنی اوقات دیکھ کر نہیں ، اس کی شان دیکھ کر مانگتی ہوں۔”
چھ مہینے تک میں نے اس یقین اور شکرگزاری کا وظیفہ جاری رکھا۔ اٹھتے بیٹھتے، ہر سانس کے ساتھ۔ پورے چھ مہینے بعد زیرومیٹر ہونڈا سٹی کی چابی میرے ہاتھ میں تھی۔ پیسے کہاں سے آئے، گاڑی کیوں کر خریدی گئی، یہ معجزہ تھا۔
اس سے کہیں بڑی بڑی (اور چھوٹی بھی) نعمتیں اسی شکر گزاری کے وظیفے سے میں نے پائیں۔ اس شکرگزاری نے مجھے خوش رہنا سکھایا، معمولی سے معمولی چیز ملنے اور چھوٹی سے چھوٹی خواہش پوری ہونے پر بھی میں بے انتہا مسرت سے ہمکنار ہوئی۔ جیسے آج میں انارکلی دیکھنے پر ہو رہی تھی۔
واک کرتے ہوئے لبنیٰ آپا سے ملاقات ہوئی جو ہمارے ہمسائے میں رہتی ہیں اور جن کے گھر ہم درسِ قرآن میں جایا کرتے تھے۔ دور دور سے انہیں سلام کیا۔
”Nice dress”انہوں نے نقاب کے پیچھے سے کہا۔
خوش خوش میں آگے چلی۔ اپنے گھر کی سڑک پر مڑی تو ایک دوسری پڑوسن نظر آئیں جو اپنی دو عدد موٹی ترین بلیوں کے ساتھ واک کر رہی تھیں۔ ان سے سلام دعا کی، ان کی بلیوں کی تعریف کی اور گھر کی طرف چلی۔ وہاں فریدہ آنٹی اپنی بہن ریحانہ آنٹی کے ساتھاپنے گیٹ کے باہر کھڑی تھیں۔ میں کھڑے ہو کر ان سے گپیں لگانے لگی۔ ساتھ ہی دل میں خوش ہو رہی تھی کہ شکر ہے آج اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ صرف شبیر ہی نہیں، آج تو کئی ہمسائیوں نے بھی دیکھ لیے۔ فریدہ آنٹی نے مجھے اپنے باغ کی سیر کرائی اور میٹھی خوشبو والے honey suckle کے پھول توڑنے اور گھر میں سجانے کی دعوت دی۔ دعوت تو قبول کر لی، پھول بھی توڑ لیے لیکن پھر چہرے پر وہ کھجلی ہونا شروع ہوئی کہ پوچھیے مت۔ میں پھول توڑ رہی تھی تو باغ کے پچھلے حصے پر نظر پڑی۔ وہاں ایک لچکیلا نازُک اندام درخت آب و تاب سے کھڑا تھا۔ اس پر لگی خوبصورت کیسری کلیاں یوں کھلی تھیں گویا مسکرا رہی ہوں۔ اور ہر کلی ہوا کے نرم جھونکوں سے یوں لہراتی تھی گویاکہتی ہو، ”میں انارکلی ہوں، اسی لیے خوش رہتی ہوں۔”
اس وقت میں اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھی یہ ڈائری لکھ رہی ہوں۔ سمبا میرے قدموں میں لیٹا ہے۔ اب ہم پھر سے شیروشکر ہو چکے ہیں۔ ساتھ والے کمرے میں سمبا کو نہلانے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ عمر اور ابراہیم بحث کر رہے ہیں کہ اسے کس شیمپو سے نہلایا جائے۔ نہلایا بھی جائے یا صرف اس پر پانی پھینک دیا جائے۔ ان سازشوں سے بے خبر سمبا ایک آنکھ کھول کر مجھے دیکھتا ہے۔ میں پائوں سے اسے سہلاتی ہوں۔ وہ نرمی سے پررررکی آواز نکالتا ہے اور کاہلی سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ بند آنکھوں کے باوجود اس کی دم پیار کے اظہار میں ہلتی رہتی ہے ۔
تو اے میرے مہربان رب! میں اپنی ڈائری کا اختتام اسی دعا سے کرتی ہوں جو میں نے پہلے دن مانگی تھی۔
اے اللہ! زندگی تیری امانت ہے۔ تو نے دی، تیرا شکر، واپس لے گا تو بڑی عاجزی اور شکرگزاری سے تیری چیز تجھے لوٹا دیں گے۔ اے سترمائوں سے زیادہ محبت کرنے والے! تو نے جو دیا اس کا شکر، جو نہیں دیا اس کا بھی شکر۔ جو دے کر لے لیا اس کا ہزار ہا شکر اور جو دوسرے جہان میں دے گا اس کا کروڑ ہا شکر۔ بس تو ہمارا نام بھی راضی برضا رہنے والوں میں، شکر گزاروں میں اور محبت کرنے والوں میں لکھ لے۔ اے دونوں جہانوں کے مالک!ہم تیری بخشش، کرم اور نعمتوں کے امیدوار ہیں۔ ہمیں ہماری اوقات کے مطابق نہیں، اپنی شان کے مطابق دے۔ اے پروردگار! اس وبا کو ہم پر سے ٹال دے اور ہم پر رحم کر۔ وہ رحم جو تیری تمام صفات میں سے خود تیری پسندیدہ ترین صفت ہے۔ آمین یا رب العالمین۔