سرپرست — فوزیہ احسان رانا

اسم کی اپنی خالہ زاد سے نسبت اس وقت سے نانی اماں نے طے کر رکھی تھی جب وہ بہت چھوٹا تھا۔ جب وہ انجینئرنگ کر رہا تھا تب اسے وشمہ اچھی لگنے لگی۔ وہ اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کو ٹیوشن پڑھانے ان کے گھر جایا کرتا تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں والی سادہ سی وشمہ اس وقت فائنل ائیر میں تھی۔ دوستی محبت میں کب بدلی ان کو خود پتا نہیں چلا۔جب اسے جاب مل گئی تو امی کو ہر ماں کی طرح اسم کی شادی کا ارمان ستانے لگا۔ تب اسم کو پتا چلا کہ وہ منگنی شدہ ہے مگر اس نے صاف انکار کر دیا اور ماں کے آگے ایسی مرنے کی جذباتی بلیک میلنگ کی کہ وہ وشمہ کو بیاہ کر لانے پر مجبور ہو گئیں۔ کچھ عرصے بعد وہ فوت ہو گئیں۔ اب ہانیہ کی تعلیم اور شادی کی ذمہ داری اسم پر تھی۔
بیس ممالک کی ایک کانفرنس ساؤتھ کوریا میں منعقد ہو رہی تھی اور اپنے محکمے کی طرف سے بطور سفیر اسم کو بھیجا جا رہا تھا۔ اسے پاکستان کی نمائندگی کرنا تھی۔ اپنے وطنِ عزیز کا بہت اچھا تاثر قائم کرنا تھا۔ چوں کہ وہ بہت اچھا مقرر بھی تھا اس لیے ساؤتھ کوریا جانے کے لیے اسے چنا گیا تھا۔ پندرہ دن کا پروگرام تھا اور وہ اس عزت افزائی پر بہت خوش تھا مگر ہانیہ کی اس اوٹ پٹانگ حرکت نے سارا مزہ کر کرا کر دیا تھا۔ اسم نے جوش میں آ کر اسے ایک تھپڑ مار تو دیا تھا مگر اسے ساری رات چین نہیں آیا تھا۔ وشمہ الگ اسے شر مندہ کرتی رہی۔ صبح اٹھ کر اسم نے سب سے پہلے ہانیہ سے معافی مانگی تھی۔ ہانیہ میں اتنا لحاظ مروت تو تھا کہ وہ اسم کے سامنے ایک لفظ بھی نہیں بولی تھی۔اسم کو اپنے دل سے بوجھ سر کتا ہوا محسوس ہوا۔
شام کو اسم کی فلائٹ تھی اور اسے پندرہ دن بعد واپس آنا تھا۔ وشمہ اداس اور ڈبڈبائی نظروں سے اسم کو دیکھتی رہی۔ وہ پہلی بار اتنے دنوں کے لیے وشمہ سے دور جا رہا تھا اور وشمہ بولائی بو لائی پھر رہی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اسم وہاں جا کے بہت خوش تھا۔ شاپنگ کے دوران خوب گھوم پھر رہا تھا۔ وہ روز وشمہ اور ہانیہ سے بات کرتا۔ وہ اپنی دو سالہ بیٹی انیہ کو بہت مس کر رہا تھا۔ وہ روز وہاں کی روداد وشمہ کو سناتا اور اپنی تصویریں واٹس اپ کرتا۔ وشمہ بھی انیہ کی تصو یریں بھیجتی رہتی۔ وہ اندر ہی اندر بہت پر یشان تھی مگر اسم کو ذرا بھی بھنک نہیں پڑنے دیتی تھی کہ کہیں وہ پر یشان نہ ہو جائے۔
اسم وہاں جتنا خوش تھا، وشمہ یہاں ہانیہ کی وجہ سے اتنی ہی اپ سیٹ تھی مگر اسم کے سامنے کوئی بات نہیں کرتی تھی۔ بس ہوں ہاں کرتی رہتی۔ وہ ہانیہ سے بھی بات کرتا تو وہ بجھے ہوئے دل کے ساتھ بات کرتی، اس کے دل میں بدگمانی کی گرہ سی لگ گئی تھی۔ وہ جتاتی نگاہوں سے وشمہ کو گھورتی اور کمرا بند کر کے روتی رہتی۔ اس کا کھانا پینا برائے نام رہ گیا تھا۔ وہ دنوں میں لاغر ہوگئی تھی۔ اس کی رنگت برسوں کے کسی مر یض کے مانند پڑ گئی تھی۔ وشمہ ہانیہ کو دیکھ کر ہولتی رہتی۔ اس کا کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ وشمہ جب بھی ہانیہ کو دیکھتی تو سہم جاتی۔ اسے اللہ سے ڈر لگتا۔ ہانیہ کی بروقت روئی روئی آنکھیں وشمہ کے دل میں دراڑیں ڈال دیتیں۔ وہ شر مندہ سی تھی ۔
دوپہر کھانے کا وقت تھا۔ وشمہ ابھی کچن سے فارغ ہوئی تھی ۔
”انیہ جائو پھپھو کو بلا کے لے آؤپھر کھانا کھاتے ہیں۔” انیہ سر ہلا کے ہانیہ کے کمرے میں چلی گئی۔
انیہ کو گئے کافی دیر ہو گئی تو وشمہ دبے پاؤں ہانیہ کے کمرے میں داخل ہوئی۔ ایک چرر کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا تو وشمہ نے دیکھا کہ انیہ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے ہانیہ کے آنسو صاف کر رہی ہے اور ہانیہ زور زور سے ہچکیاں لے کر رو رہی ہے۔ اس کے دل پر لگنے والی چوٹ گہری تھی، من میں اترنے والا گھاؤ شدید تھا۔ ہانیہ کے چہرے پر چھائی مردنی دیکھ کے وشمہ کا دل منوں بوجھ تلے دب گیا۔ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے ۔وہ چپکے سے باہر نکل آئی۔ اس کے پاس دو حرف تسلی کے نہیں تھے جو وہ ہانیہ سے کہہ سکتی۔ اسے کوئی آس امید وہ کس برتے پر دلا سکتی تھی۔ کیا کرے، کیا نہ کرے۔ وہ غم کی تفسیر بنی سوچوں میں مدغم بیٹھی رہی۔ کھانا ٹھنڈا ہوتا رہا۔ اس دن کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ بہت دل شکن اور اداس کر دینے والی ساعتیں تھیں جو گزر جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ اعصاب ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔ہانیہ ایسی تو نہ تھی، وہ تو بہت ہنس مکھ لڑکی تھی۔ ہر وقت گھر میں رونق لگاے ٔ رکھتی اور وہ ایسی اجڑی حالت میں تو کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ تو ہر وقت نک سک سے درست رہا کرتی۔
انیہ گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ ہانیہ کی تو انیہ میں جان تھی۔ ہر وقت اسے اپنے ساتھ چمٹائے رکھتی تھی۔ یونیورسٹی سے واپسی پر وہ روز انیہ کے لیے ڈھیروں چاکلیٹس لے کر آ تی تھی اور اب تو وہ اتنے دنوں سے یونیورسٹی بھی نہیں جا رہی تھی۔
وشمہ گھٹنوں پر سر گرائے گہری سوچ میں گم جانے کیا کیا سوچے جا رہی تھی۔ کب گھر کے درو دیوار پر شام اتری اور کب شام نے رات کے آنچل میں پناہ لی۔ اسے کچھ خبر نہیں تھی۔
”ہانیہ میں خائن نہیں ہوں، بدنیت بھی نہیں۔میں تمہارا مقدمہ ہر حال میں لڑوں گی اور جیت جائوں گی۔ مجھے یقین ہے،تمہارے حصے کی ساری خوشیاں تمہیں ہر حال میں ملیں گی۔ ورنہ میں خود کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گی۔” وشمہ کی خود کلامی میں ایک عزم اور ایک مصممارادہ تھا۔
٭…٭…٭
اسم کا وائس میسج آیا تھا۔ ٹرن کی آواز کے ساتھ کلک ہوا تو وشمہ نے بے دلی سے میسج اوپن کیا۔
” کیسی ہو وشمی جان! آج میں نے آخری سپیچ کی اور اٹامک انرجی والوں کو پیغام ریکارڈ کروایا۔ میں جلد آ رہا ہوں۔”
جواباً ایسا ہی میسج وشمہ نے بھی بھیجا تھا، مگر اس کے دل سے لپٹی اداسی اور بھی بڑھ گئی۔ اسے رہ رہ کر یہی خیال آتا تھا کہ ہانیہ اس کے بارے میں کیا سوچتی ہوگی۔ وہ دل ہی دل میں شرمسار ہوتی رہتی۔اگلے دن ہی اسم آ گیا۔ وہ بہت خوش تھا اور سب کے لیے بہت سارے گفٹس لے کر آیا تھا۔ وہ اتنا مگن اور اپنی کامیابی پر سر شار تھا کہ اس نے وشمہ کی سرد مہری نوٹ ہی نہیں کی۔ وہ انیہ کو بار بار خود سے لپٹا رہا تھا اور وشمہ مصروف سی اِدھر اُدھر کام کرتی پھر رہی تھی۔وہ کچن میں تھی تبھی اسم اس کے پاس آن کھڑا ہوا۔
”یار وشمہ مجھے بہت مزہ آیا۔ ٹور بہت شاندار رہا اور یار کورین لڑکیاں، میں تو اُن کی ول پاور دیکھ کر حیران رہ گیا اور ان کا اعتماد، واؤ فنٹاسٹک۔” اسم کورین لڑکیوں کی تعریفوں میں رطب اللسان تھا۔ وشمہ نے ایک کٹیلی نظر اس پر ڈالی۔
” یار وہ دو میل پیدل ہمارے ساتھ چلتی تھیں اور مجال ہے کہ کبھی تھک جائیں، بہت انر جیٹک لڑکیاں تھیں۔ بھئی واہ میں تو دل سے متاثر ہوا۔” وشمہ کو غصہ آیا تھا مگر چپ رہی، اسم نے اٹھتے بیٹھتے کورین لڑکیوں کی شان میں قصیدے پڑنے شروع کر دیے۔ اکتا کر وشمہ پھٹ پڑی تو اسم ٹھٹکا۔
” جیلس ہو رہی ہو۔ ” ایک پل حیرت میں رہ کر اس نے بات کو یہ رنگ دے دیا۔
”میں اتنی گئی گزری دکھائی دیتی ہوں آپ کو، کہ آپ کسی لڑکی کی تعریف کریں گے تو میں جیلس ہو جاؤں گی؟ حد ہے ویسے۔” وشمہ نے تیکھی نظروں سے اسے گھور کر کہا۔ اسم نے مسکرا کر کندھے اچکائے۔
” پھر اتنی اکھڑی اکھڑی کیوں ہو یار؟ ”
”پاکستانی لڑکیوں میں نہ ہی ٹیلنٹ کی کمی ہے اور نہ ہی وہ ول پاور میں کسی سے کم ہیں۔ رہی بات اعتماد کی تو وہ لڑکیوں کے گھر والے ان کو دیا کرتے ہیں، کم یا زیادہ یہ گھر والوں کی مرضی ہوتی ہے۔” وہ بولتی چلی گئی۔
”اگر تم کورین لڑکیوں سے پاکستانی لڑکیوں کو کمپیئر کر رہی ہو تو معذرت کے ساتھ کوئی مقابلہ بنتا نہیں ہے۔ کہاں وہ لڑکیاں اور کہاں پاکستان کی ڈری سہمی سی لڑکیاں۔” اسم کا جوشِ خطابت عروج پر تھا۔وشمہ استہزائیہ ہنسی۔
” ہاں ٹھیک کہا آپ نے، کورین لڑکیوں کے گھر کے مرد حاکمیت پسند نہیں ہیں جو گھر کی عورتوں پر صرف اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہوں اور ان پر زبر دستی اپنی پسند اور اپنی مرضی مسلط کر کے اُنہیں زندہ درگور کرنے والے ہوں۔ ” وہ بلند آواز میں بولی۔
”یہ تم نے بات کو کیا رنگ دے ڈالا؟وشمہ تم دل میں کیا لے کے بیٹھی ہو؟ ”
”جو آپ کر رہے ہیں۔ یہ باتیں ہیں محض باتیں ،دکھاوا اور کچھ بھی نہیں۔ مجھے بتائیے کیا آپ اپنی بہن کو رات دو بجے تک گھر سے باہر رہنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ ” وشمہ نے جتا کر پوچھا۔
” کیوں دوں گا میں اجازت ،میں اس گھر کا سر پر ست ہوں۔ اس گھر کی عورتوں کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے۔” وہ گڑبڑایا۔
” تو خدارا یہ کورین لڑکیوں کی تعریفیں بند کریں یا پھر ان کے بھائیوں اور باپ جیسے مرد بن کے دکھائیے، باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔”
”دماغ خراب مت کرو، پتا نہیں کیا کہے جا رہی ہے۔” وہ اپنی جھینپ مٹانے کے لیے کہنے لگا۔
”پاکستان کا مرد کسی لڑکی سے محبت کرے، تو وہ اسے اپنے گھر میں بسا سکتا ہے، شادی کر سکتا ہے مگر اس کی بہن نہیں، اس لیے کہ وہ لڑکی ہے۔ کیا وہ لڑکی کورٹ میں جا کے شادی نہیں کر سکتی؟ کر سکتی ہے، مگر وہ باپ بھائی کا مان رکھتی ہے، روتی ہے، تڑپتی ہے مگر بھائی کا سر نہیں جھکاتی۔ اتنی تابع دار ہو سکتی ہے کورین لڑکی ؟ ہونہہ آئے بڑے۔ ” وہ اس کو آئینہ دکھا کر وہاں سے جاچکی تھی۔
٭…٭…٭
”وشمہ یہ ہانی یونیورسٹی کیوں نہیں جا رہی۔ ” اس وقت وہ ناشتا کر رہا تھا جب اس نے پوچھا۔
”شاید آپ بھول گئے منع کیا تھا آپ نے۔”وشمہ نے کٹ دار لہجے میں کہا۔
” غصے میں کہہ دیا تھا یار، اس کا یہ مطلب تھوڑی تھا کہ وہ،،اور ہانی کتنی کمزور ہو گئی ہے۔ کیا وہ بیمار رہی ہے؟” اسم الجھا۔
”اسم خدا کے لیے مت کریں ایسا۔ روزِ محشر اپنے ماں باپ کو آپ کیا منہ دکھائیں گے۔ وہ بن ماں باپ کی بچی ہے، یہ ظلم مت کر یں۔” وشمہ اس کے آگے ہاتھ باندھے رو دی۔ اسم نے اس کے بندھے ہاتھوں کو دیکھا اور اس کے ہاتھ تھام لیے۔
”جو چیز آپ کے لیے ٹھیک ہے۔ وہ ہانی کے لیے کیوں نہیں؟ اُسے چپ لگ گئی ہے۔ وہ اندر ہی اندر گھلتی جا رہی ہے۔ بھاڑ میں جائے خاندان اور برادری آپ صرف اپنی بہن کا سوچیں۔ پلیز اسم آپ کو ہماری محبت کی قسم آپ کو انیہ کی قسم آپ ہانی کی شادی اسی لڑکے سے کر دیں جسے وہ پسند کرتی ہے، اسے دل سے جینے دیں۔ ”وشمہ تڑپ کے کہہ رہی تھی۔ اس کی آواز بلند تھی۔
”مجھے میری پرانی والی ہانی چاہیے، ہنستی مسکراتی۔جس کے دم سے اس گھر میں قہقہے گونجتے تھے۔ مجھے میری بیٹی دوبارہ ویسی چاہیے۔ میں ہانی کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی۔ میں مر جاو ٔں گی۔ اسم میں سچ کہتی ہوں وشمہ شرم سے مر جائے گی۔ میں اس کی ماں ہوں اور اپنی بیٹی کا حق آپ سے مانگ رہی ہوں۔” وشمہ زور زور سے رو رہی تھی۔ اپنے کمرے کی دہلیز میں کھڑی ہانیہ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اس نے خود کو مارے خجالت کے زمین کے اندر دھنستے محسوس کیا۔ ایک دھڑام کی آواز کے ساتھ وہ گری اور بے ہوش ہو گئی۔
٭…٭…٭
مسلسل بھوکا رہنے سے ہانیہ کو نقاہت ہو گئی تھی اور اتنے دن کی ٹینشن نے اس کی یہ حالت کر دی کہ وہ اسپتال ایڈمٹ تھی۔ اس کو انر جی ٹانکس دیے جا رہے تھے۔ وشمہ اور اسم اس کا کسی نازک سی گڑیا کی طرح خیال رکھ رہے تھے۔ وشمہ کے دل سے سارے بوجھ اتر گئے تھے۔ اس نے اسم کو منا کے ہی چھوڑا تھا۔ ہانیہ گھر آ گئی تھی۔ ایک دن جب وشمہ ہانیہ کو سیب کاٹ کاٹ کر کھلا رہی تھی تو ہانیہ نے بے ساختہ وشمہ کا ہاتھ تھام لیا۔
”بھابی مجھے معاف کر دیں، میں بلا وجہ آپ سے بدگمان ہو گئی تھی۔”
” ارے نہیں میری جان! اٹس اوکے۔ محبت چیز ہی ایسی ظالم ہے کہ سوائے ایک محبوب کے سب اپنے دشمن لگتے ہیں۔ ” وشمہ مسکرائی۔
”میں نے آپ سے بد تمیزی بھی کی تھی۔ ” ہانیہ نظریں جھکا گئی۔
” کوئی بات نہیں بیٹا ہو جاتا ہے اکثر ایسا بھی۔”وہ کسی ماں کی طرح ہی اس سے برتائو کررہی تھی۔
”بہت شکریہ بھابی۔”
”اچھا اب جلدی سے بستر چھوڑو۔ بہت آرام کر لیا۔ کل سے یونیورسٹی جوائن کرو، اسٹڈی کا بہت حرج ہو گیا ہے۔”
”جی بھابی۔” ہانیہ وشمہ سے لپٹ گئی بدگمانی کے بادل چھٹے تو محبت مسکرانے لگی۔
٭…٭…٭
اگلا دن اپنے ساتھ بہت سی خوشیاں لے کر آیا تھا۔ تازگی سے بھرے چہرے ۔یہاں سے وہاں چکراتی وشمہ۔ خستہ پراٹھوں کی مہک ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ تبھی ہانیہ ہنستی مسکراتی ناشتے کی میز پر آئی اور خوش گوار ماحول میں ناشتا کیا گیا۔
”بھائی مجھے بھی یونیورسٹی ڈراپ کر دیجیے گا۔ ”وہ اپنا بیگ لینے کمرے میں بھاگی۔اسم زیر لب ”اللہ حافظ بھابی۔ ” ہانیہ وشمہ کے گلے لگی تو وشمہ نے اس کے کان میں سر گوشی کی۔
”اپنا نمبر آن کر لو، تمہارے دیوانے نے مجھے میسج کر کر کے …”وشمہ کی ادھوری بات پرہانیہ شرمائی۔
”سنو! زین سے کہنا بھائی اور بھابی تم سے ملنا چاہتے ہیں، اسے ساتھ لے کے آنا آج۔”
اسم نے بھی محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وشمہ بھی مسکرا دی۔ ان کی زندگی واقعی حسین ہوگئی تھی۔

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پہیہ —- نوید اکبر

Read Next

مٹی کے پتلے — قرۃ العین خرم ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!