سرپرست — فوزیہ احسان رانا

وشمہ چت لیٹی خالی الذہنی کی سی کیفیت میں کمرے کی چھت کو گھور رہی تھی۔ وہ سوچوں کی اندھیر نگری میں بھٹک رہی تھی لیکن اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ ہانیہ کو وہ خوشی دینا چاہتی تھی جو اس کے من کی مراد تھی۔ اسم شاپنگ کرکے ابھی تک نہیں آیا تھا۔ دو دن بعد اُس کی فلائٹ تھی اور جہاں اکیلی زہریلی سوچوں کے ساتھ لڑتے لڑتے نڈھال ہورہی تھی۔ جب وہ چھت کی کڑیاں ملاتے ملاتے تھک گئی تو اس نے پژ مردہ لمبی سی سانس خارج کی۔
ابھی دو دن پہلے کی ہی تو بات ہے جب ہانیہ کچن میں اس کے پاس آئی تھی۔
”بھابی! مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔” وہ گھبرائی ہوئی سی تھی۔
”ہاں بولو ہانیہ۔ ” وشمہ نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔
” میں …وہ …بھابی…”اس کی پیشانی پر پانی کی بوندیں پھوٹیں تو وشمہ چونکی۔ اب ایسی بھی کیا بات ہے جو ہانیہ کہتے ہوئے یوں ہچکچا رہی ہے۔وشمہ نے ہانیہ کو کندھوں سے پکڑا اور اُسے اپنے کمرے میں لے آئی۔ جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا اور ہانیہ کو تھما دیا۔ وشمہ نے اے سی کی کولنگ بڑھا دی اور ہانیہ کے عین سامنے بیٹھ گئی۔
”اب بتائو ایسی بھی کیا بات ہے جو تم اتنی بوکھلائی ہوئی ہو۔”
”بھابی میں اور زین ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔” آخر کار ہانیہ نے اپنے دل کی بات کہہ ہی ڈالی۔ وشمہ کا دماغ بھک سے اڑا ۔ وہ خالی بے تاثر نگاہوں سے ہانیہ کو دیکھے گئی۔
” یہ تم کیا کہہ رہی ہو ہانی جب کہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔”وشمہ نے اپنی بات ادھوری چھوڑی۔
” جی میں جانتی ہوں کہ ہمارے خاندان میں برادری سے باہر شادیاں نہیں کی جاتیں۔ ” ہانیہ کی آواز کسی گہرے کنویں سے نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جووشمہ کو چبھتا ہوا سا محسوس ہوا تھا۔
” سب جاننے کے باو جود تم نے اتنی احمقانہ بات کیسے کی ہانی؟تمہاری نسبت بچپن سے طے ہے۔” وشمہ نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”جی مجھے اس بات کا اچھی طرح علم ہے مگر میں کسی ایسے رشتے کو نہیں مانتی جو زبر دستی طے کیے جاتے ہیں۔ ” وہ بھڑکی۔
”ہانی تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت بدل تو نہیں جائے گی نا، اور برادری والے کیا کہیں گے۔ ہم چاچا نواز کو رشتے سے انکار کیسے کر سکتے ہیں اور تمہارے بھائی بھی نہیں مانیں گے۔” وشمہ پتا نہیں اسے کیا سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی اور ہانیہ دل میں جو ٹھانے بیٹھی تھی۔ وشمہ اسے اس غلطی سے باز رکھنا چاہتی تھی مگر ہانیہ پر کسی بات کا اثر نہیں ہورہا تھا۔ ہانیہ وشمہ کو عجیب جتاتی سی نظروں سے دیکھتی سر نفی میں جھٹکتی رہی۔ ہانیہ کی آنکھوں سے سلگتے انگارے برس رہے تھے جس کی تپش کی آنچ میں وشمہ کا دل لپٹتا جا رہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”مجھے برادری سے کچھ نہیں لینا دینا بھابی اوکے؟ مجھے صرف ا سم بھیا کی پروا ہے اور اُنہیں بات کرنا اور ان کو منانا آپ کا کام ہے۔ ورنہ میں سمجھوں گی کہ آپ نے میرا مقدمہ لڑا ہی نہیں۔ بنا لڑے ہی ہار گئیں۔ ” ہانیہ نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا تو وشمہ روہانسی ہو گئی۔
”ٹھیک ہے، میں اسم سے بات کرتی ہوں شاید کوئی راہ نکل آئے۔” وشمہ نے ہولے سے کہا تو ہانیہ کے چہرے کے تنے ہوئے اعضا کچھ ڈھیلے پڑے، مگر ابھی بھی وہ وشمہ کو عجیب سی نگاہوں سے تکے جارہی تھی۔
”مجھے پوری امید ہے کہ آپ بھیا سے ہر بات منوا سکتی ہیں۔آپ بھی تو ہمارے خاندان کی نہیں ہیں۔ آپ اور بھیا بھی تو محبت کرتے تھے اور بھیا نے امی جی کو جان دینے کی دھمکی دے کر بالآخر منا ہی لیا تھا۔ کیا تب ہماری خالہ ہم سے خفا نہیں ہوئی تھیں؟ آپ نے تب ہماری خیر خواہی کا کیوں نہیں سوچا تھا کہ آپ کے آنے سے ہمارے سارے ننھیالیوں نے ہمیں چھوڑ دیا اور آج تک کبھی دوبارہ کوئی ہمارے گھر نہیں آیا۔ تب آپ کو ہمارے خاندان کی عزت کا احساس کیوں نہیں تھا؟ میری زین سے شادی کی صورت میں ہمارے ددھیالی ہم سے روٹھ جائیں گے اور آپ کو بہت فکر ہو رہی ہے۔ واہ بھابی واہ، کیا کہنے آپ کے۔اپنے لیے کچھ اور سوچا اور میری باری آپ کو نصیحتیں کرنا یاد آ گیا۔ میں شادی زین سے ہی کروں گی سنا آپ نے ۔” وہ دو ٹوک اور اٹل لہجے میں کہتی پا ئوں پٹختی اپنے کمرے میں چلی گئی اور وشمہ کا سانس وہیں اٹکا رہ گیا۔ وہ اسے بغیر لگی لپٹی کیسے کھری کھری سنا گئی تھی اور وشمہ کی تو بولتی ہی بند ہو گئی تھی۔ وہ جو بڑی معتبر بن کر ہانیہ کو مشورے دے رہی تھی ہانیہ الٹا اسے ہی آئینہ دکھا کر گویا اسے اس کی اوقات یاد دلا گئی تھی۔ ہانیہ نے کچھ غلط تو کہا بھی نہیں تھا۔ وشمہ چند ثانیے گم صم سی ہاتھ رخسار پر ٹکائے لمبے لمبے سانس لیتی رہی۔
٭…٭…٭
”اسم میری بات تو سنیں پلیز۔ ” وشمہ رو دینے والی ہو رہی تھی۔
”مجھے نہیں سننی یہ فضول بات۔ ” وہ غصے سے بولا۔
”وہ مجھ سے بد گمان ہو جائے گی اسم اور میں ایسا نہیں چاہتی۔ میں اس کی نظر میں اپنے لیے شک نہیں دیکھ سکتی۔”وشمہ رونے لگی۔
”میں اس ٹا پک پر بات ہی نہیں کرنا چاہتا اور ہاں، ہانی کو اپنی زبان میں سمجھا دینا کہ دوبارہ اس لڑکے سے نہ ملے ورنہ…”
”ورنہ کیا۔ ” وشمہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”ورنہ میں اسے دوبارہ یونیورسٹی نہیں جانے دوں گا۔ ” وہ قطعیت سے کہتا ڈسٹ بن کو ٹھوکر مارتا کمرے سے نکل گیا اور تب سے وشمہ ایسے ہی بے حس لیٹی تھی۔ ہانیہ کے زہر میں بجھے جملے اس کی سماعتوں میں دہکتے انگاروں کے مانند برس رہے تھے۔ آنسو وشمہ کا تکیہ بھگو رہے تھے وہ ڈر رہی تھی کہ وہ ہانیہ کو کیا جواب دے گی۔ کوئی امید کوئی آس کچھ بھی تو نہیں۔ وہ پہلے ہی شاکی نگاہوں سے تکنے لگی تھی ۔ اب اور زیادہ متنفر ہو جائے گی۔ وہ دکھتے سر کے ساتھ روئے جا رہی تھی۔ پتا نہیں آنے والا وقت کیسے شک و شبہات ہانی کے دل میں ڈال دے گا۔ وشمہ نے کبھی ہانیہ سے روایتی بھابیوں والا سلوک نہیں رواں رکھا تھا۔ وہ اسے ایک ماں کی طرح محبت کرتی تھی۔ ہانیہ بھی اچھی لڑکی تھی، مگر اب زین والا معاملہ بہت گمبھیر تھا۔ کیا کرے کیسے سلجھائے۔ اسم کوئی بات ماننا تو درکنار سننے تک کا روادار نہیں تھا۔ اس نے تھک کر سر تکیے پر گرادیا۔ اس کے آنسو بے دریغ بہے جا رہے تھے۔ اسم غصے میں اکیلا ہی شاپنگ کرنے چلا گیا تھا۔ وہ رات کب واپس آیا وشمہ کو کچھ پتا نہیں چلا۔ وہ کر وٹیں بدلتے بدلتے نہ جانے کب سو گئی۔ اسم جب گھر آیا تو اس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ و شمہ کے گالوں پر ابھی بھی اشکوں کے نشان تھے۔ وہ وشمہ کو اتنا چاہتا تھا کہ رونا تو درکنار وہ وشمہ کی پلکوں پر نمی تک بر داشت نہیں کرتا تھا۔اسم بیڈ پر لیٹا تا دیر محویت سے اُسے دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
اسم کے آفس جانے کے بعد وشمہ اس کا بیگ تیار کر رہی تھی جب ہانیہ آندھی اور طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوئی۔اُسے دیکھتے ہی وشمہ کا خون خشک ہو گیا وہ جس لمحے سے کترا رہی تھی وہ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ اس کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔
”بات کی آپ نے بھیا سے؟” ہانیہ نے کھردرے لہجے میں پوچھا۔
”ہاں کی تھی۔” اس نے کسی مجرم کے مانند سر جھکائے رکھا تھا۔ اس میں ذرا بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ ہانیہ کی طرف دیکھ سکے۔
” پھر؟” ہانیہ نے غضب ناک نظروں سے اسے گھورا۔
” وہ نہیں مان رہے ہانی۔” وشمہ کانپتے لبوں کے ساتھ قدرے مضطرب تھی۔
”ہاں! میری ماں نہیں ہے نا جس سے میں ضد کر کے اپنی بات منوا سکوں۔ ” ہانیہ ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ وشمہ کا دل اتنی زور سے دھڑکا گویا آخری بار دھڑک رہا ہو۔ وہ عجلت میں اٹھی اور ہانیہ کو گلے لگانے کے لیے آگے بڑھی مگر ہانیہ نے اس کا ہاتھ بے دردی سے جھٹک دیا۔ اتنا انسلٹنگ انداز، ایسی سبکی وشمہ چور سی اپنی نگاہیں چرانے لگی۔ اس نے بھی وہی کام کیا تھا جو ہانیہ کرنا چاہ رہی تھی۔ اب وشمہ کس برتے پر اسے سمجھاتی اور وہ سمجھنا چاہتی بھی کب تھی۔ محبت کرنے والے کب کسی کی سنتے ہیں ۔
”جب بھیا نے خود محبت کی، آپ کو پانا چاہا پا لیا اور میری باری آئی تو خاندان والے یاد آ گئے۔ اس لیے نا کہ میرے ماں باپ نہیں ہیں۔ اس لیے نا کہ میں آپ لوگوں کے ساتھ ایک بوجھ بن کے رہ رہی ہوں ۔” وہ بے تکان بولے جا رہی تھی۔ اس بات سے بے خبر کہ اسم نے اس کی ساری باتیں سن لی تھیں۔ وہ کسی کام سے گھر آیا تھا اور اس نے ہانیہ کو یہ سب کہتے سنا تو ایک لمحے کے لیے اس کا دل پگھلنے لگا مگر دوسرا پل زیادہ خوف زدہ کر دینے والا تھا، بدنامی کا خوف ۔لوگ کیا کہیں گے، برادری خاندان اور روایات وغیرہ۔
”ایسے مت کہو ہانی، اسم تم سے بہت محبت کرتے ہیں اور میں بھی۔”
”بس کر دیں یہ ڈھکوسلے ۔بہت ہو گیا، اسم بھائی کی منافقت دیکھ لی میں نے۔اتنا تضاد، یہ رویوں کا تضاد بہت ہی تکلیف دے ہوتا ہے۔ میں مانتی ہوں کہ وہ سر پر ست ہیں میرے، مگرمیری تر جیح کیا ہے، میں کیا سوچتی ہوں، یہ انہوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ انہوں نے کبھی میری خوشی کا خیال نہیں رکھا۔ بس حکم صادر کیا اور میں ان کی ہر بات بنا چوں چرا کیے مانتی چلی گئی۔ کبھی سر نہیں اٹھایا۔ میں کیا پڑھوں گی کہاں پڑھوں گی سب فیصلے انہوں نے ہی کیے اور میں نے کوئی اعتراض کیے بنا مانے، مگر یہ میری زندگی کا سب سے خاص اور اہم فیصلہ ہے جس پر میری آنے والی پوری زندگی کا دارو مدار ہے۔میں اپنے اس فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ اب میں کسی کی نہیں سنوں گی۔ اسم بھیا کی بھی نہیں۔ ” وہ چیخ چیخ کر بھڑاس نکال رہی تھی، مگر ایک زناٹے دار تھپڑ نے اسے چپ کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ گال پر ہاتھ رکھے دم سادھے دکھ کی نہ جانے کون سی سیڑھی پر کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں حیرت جم کر رہ گئی تھی۔ وہ یک ٹک ششدر سی اسم کو تکے جا رہی تھی۔ کیا کچھ نہیں ٹوٹا تھا اس کے اندر۔وہ سسکی اور شکوہ کناں نگاہوں سے اسم کو دیکھتی ہوئی بے طرح رو دی۔ اس کے رونے میں اتنی تڑپ تھی کہ ایک لمحے کے لیے اسم کا دل بھی رک سا گیا مگر وہ کمزور پڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اسی لیے اسم نے چنداں پروا نہیں کی۔
”اتنی زبان درازی؟ مجھے یقین نہیں آ رہا ہانیہ کہ یہ تم ہو؟ دفع ہو جائو میری نظروں سے اور سنو کل سے تم یونیورسٹی نہیں جائو گئی۔ ” وہ کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وشمہ ابھی بھی زمین پر نظریں گاڑے ساکت کھڑی تھی اور وہ جو پٹر پٹر بول رہی تھی اس قدر شاک میں تھی گویا اسے سکتہ ہو گیا ہو۔وہ اندر تک چھیدتی کاٹتی نظروں سے وشمہ اور آسم کو دیکھتی زارو قطار روتی اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔ وشمہ اپنی جگہ چور سی بنی زمین میں گڑی جا رہی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پہیہ —- نوید اکبر

Read Next

مٹی کے پتلے — قرۃ العین خرم ہاشمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!