ایک تھا فلسفی۔ پڑھتاکم، لکھتا زیادہ تھا بلکہ لکھنے پڑھنے سے بھی بڑھ کر وہ سوچنے کا زیادہ شوقین تھا۔ ایک دفعہ اس شخص کے جی میں آئی کہ کائنات کے راز سے پردہ اٹھایا جائے۔ اس فکر میں اس نے اپنے دن رات ایک کر دیے۔ لمبے پریشان بال، بکھری ڈاڑھی، آنکھوں میں ایسی گہرائی جو صرف ان لوگوں کی آنکھوں میں پیدا ہوتی ہے جو دوسروں کو دکھائی نہ دینے والی دنیا دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
وہ دوسرے انسانوں کے درمیان کچھ ایسے روحانی دبدبے سے چلتا جیسے ہرکولیس چلا کرتا تھا۔ اسے دیکھ کر لوگ حیرت سے کہتے:
”اس شخص کے پاس ضرور کوئی جادو ہے۔ اسے ہمارے بارے میں ہم سے بھی بڑھ کر علم ہے۔”
فلسفی لوگوں سے پوچھتا:
”تم لوگ اس قدر بے چین کیوں رہتے ہو؟”
ہزاروں لوگ یک زبان ہو کر جواب دیتے:
”ہمارا پیٹ خالی ہے، ہماری روح اندھیروں میں بھٹک رہی ہے، ہمیں محبت کی تلاش ہے۔”
فلسفی بولتا چلا جاتا۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں شعلے بھڑکنے لگتے:
”لوگو! اپنی نظریں اپنے دلوں کی طرف پھیر کر تاریک دل روشن کرو۔ اپنے خیالات سے اپنی روحیں گرمائو۔ وہ قوت جو تمہاری انگلیوں میں حرکت پیدا کرتی ہے، اسی میں محبت تلاش کرو۔”
لوگ فلسفی کی باتوں پر عمل کرنا چاہتے، مگر انہیں کسی طرح خوشی نہ ملتی۔ وہ یہی گلہ کرتے کہ:
”ہمارے پیٹ خالی ہیں، ہم بھوکے ہیں، ہماری روح محبت کے بغیر اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔”
آخر لوگ اس کی لمبی لمبی لٹوں، کھوئی کھوئی نگاہوں اور غیر معجزانہ آنکھوں سے تنگ آگئے۔ انہوں نے اس کی بات پر توجہ دینا چھوڑ دی، یہاں تک کہ ان کی عدم دل چسپی ان کے دلوں میں نفرت کے جذبات پیدا کرنے لگی اور وہ برملا کہنے لگے:
”آخر یہ شخص ہے کیا چیز؟ ہمارے سامنے بس لمبی لمبی تقریریں جھاڑتا رہتا ہے، لیکن ہمارا مسئلہ تو خالی پیٹ کا ہے۔ اس سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔”
لوگوں کی نفرت اتنی بڑھی کہ انہوں نے فلسفی کو شہر چھوڑ کر جنگل میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔
فلسفی نے جنگل میںپہنچ کر کائنات کے راز سے پردہ ہٹانے کی کوشش ترک نہیں کی۔ وہ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے یہی سوچتا رہتا۔ اس کے ذہن میں جو کچھ آتا، وہی دھیمی آواز میں منہ سے بھی بڑبڑاتا رہتا۔ اس کی بڑبڑاہٹ سن کر جنگل کے کتے اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے۔ فلسفی کے اندر دبی ہوئی تقریر کرنے کی حسرت اس کی آنکھوں میں جگمگا اٹھتی۔ چناںچہ ایک روز اس نے بے بس ہو کر کتوں سے خطاب شروع کر دیا:
”اے کتو! میری باتیں غور سے سنو۔ میری آواز تمہاری خوابیدہ روحوں میں روشنی پھونک دے گی۔ تم دنیا ایک نئے پہلو سے دیکھنے لگو گے، بلندیوں کی جانب پرواز کرنے لگو گے، ہدایت پالو گے۔ تمہارا کتا پن ختم ہو جائے گا اور تم اس سے نجات پالو گے۔”
کتوں نے وجد میں آکر کان کھڑے کر لیے، دُمیں ہلانا شروع کر دیں۔ فلسفی نے تقریر جاری رکھی۔ بولتا گیا، بولتا گیا اور جوش میں آتا گیا۔ کتے اس کی آواز کے جادو سے کھڑے ہو گئے۔ ان کے چہروں کے تاثرات سے پتا چلتا تھا کہ وہ فلسفی کی تقریر کا ہر لفظ سمجھ رہے ہیں۔ فلسفی کہہ رہا تھا:
”اے کتو! اپنے جسم کی قید سے اپنے آپ کو آزاد کر لو۔ کائنات کا راز سمجھنے کی کوشش کرو۔ تم اسی راز کا ایک حصہ ہو۔”
معلوم ہوتا تھا کہ ابھی کوئی معجزہ ظہور پزیر ہوگا اور کتے فلسفی کی باتوں کا جواب دیں گے، لیکن قادر مطلق کو فلسفی کی یہ مافوق الفطرت طاقت ایک آنکھ نہ بھائی۔ کتے فلسفی کی باتوں سے متاثر ہو کر قوت ناطقہ حاصل کرنے ہی کو تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ جنگل میں اتارا، اس نے آتے ہی ایک ہڈی کتوں کے سامنے پھینک دی۔ ہڈی پھینکنا تھا کہ فلسفی کے تمام سامعین کی جبلت عود کر آئی اور وہ سب ہڈی پر پل پڑے۔ فلسفی اکیلا تقریر کرتا رہ گیا۔
ہڈی پر لپکتے، غراتے اور آپس میں الجھتے کتوں کو دیکھ کر آخر فلسفی مسکرایا اور بے ساختہ اس نے یہ نعرہ مارا:
”پا لیا، پالیا، میں نے کائنات کا راز پالیا۔ وہ راز کیا ہے؟ کتوں کے لیے بس ایک ہڈی۔”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});