”ہمارے احتجاج کرنے سے کچھ نہیں ہو گا مناہل۔ ہمارے پاس اپنے دفاع کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔”
”لیکن کیوں؟ ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ کیا ہمارا گناہ یہ ہے کہ ہم نے اسے دھتکارنے کے بجائے چھت دی اور اتنے دن سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھا؟”
صائم نے کوئی جواب نہیں دیا کچھ کہنے کو تھا ہی نہیں وہ دوبارہ میز پر سر ٹکائے رونے لگی۔ کچھ دیر بالکل خاموشی چھائی رہی پھر صائم بولا:
”میں یہ بات تم سے کبھی نہیں کہہ سکا مگر۔۔۔” وہ بولتے بولتے رُکا تو مناہل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ”تم اس طرح روتے ہوئے۔۔۔بالکل چڑیل لگتی ہو۔”صائم اسے سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا۔
آج وہ کچھ نہیں بولی، کوئی احتجاج نہیں کیا، نہ ہی ہمیشہ کی طرح جواباً اسے بُرا بھلا کہا۔
صائم منتظر سا اسے دیکھ رہا تھا”لڑو گی نہیں مجھ سے؟ میں نے ابھی تمہیں چڑیل کہا۔”
مناہل سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور اپنے آنسو پونچھ لیے۔
”تمہیں یاد ہے جب ہاشم پیدا ہوا تھا، تو اس کی ایک انگلی پر سیاہ رنگ کا چھوٹا سا نشان تھا۔ تم اسے سائنس کی زبان میں محض ایک برتھ مارک قرار دیتے تھے، مگر میں کہتی کہ اللہ ایک مصور ہے اور یہ بھی اسی کا ایک آرٹ ہے اور اس کے ہر آرٹ میں خوبصورتی ہے۔ ہمارے نظریے کتنے ہی مختلف تھے۔ مگر حقیقت تو ایک ہی تھی کہ ہم ہاشم سے ہر حال میں محبت کرتے تھے۔ اولاد بھی کیا چیز ہوتی ہے ؟” صائم اسے خاموشی سے سُن رہا تھا۔
”وہ تو چلا گیا، مگر پھر فہد آگیا۔ مجھے اپنی ممتا کو کھونے کا غم بھولنے لگا ، دو سالوں سے دل پر پڑی گرد چھٹنے لگی اور میں نے اسے قبول کر لیا۔ کہیں نہ کہیں میں یہ بات اچھی طرح جانتی تھی صائم کہ وہ ہمیشہ میرے پاس نہیں رہے گا، مگر میں اس کے قریب جانے سے خود کو کیسے روک لیتی، یہ کیسا امتحان ہے ہمارے لیے؟”
اسے اپنے دائیں ہاتھ پر صائم کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔
”میں جانتا ہوں تم ہاشم سے بہت پیار کرتی تھی اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تم فہد سے بھی مانوس ہوچکی ہو، مگر جانے والوں کے ساتھ اپنی زندگی ختم نہیں کی جا سکتی، ہم زندہ ہیں ہمیں اور زندوں کی طرح رہنا ہے۔” اس نے اپنے ہاتھ میں موجود مناہل کے ہاتھ کو دیکھا۔ ”اولاد بلاشبہ ایک بہت بڑی نعمت ہوتی ہے مناہل، مگر میاں بیوی کا بھی ایک رشتہ ہوتا ہے جو پہلے آتا ہے۔ اگر اس کی بنیادوں میں ہی دراڑیں ہوں، تو ایک خوش باشفیملی کی بنیاد کیسے مضبوط ہو سکتی ہے؟”
اب کی بار وہ اس کا چہرہ دیکھتی غور سے اس کی باتیں سُن رہی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”ہم بلاشبہ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے، مگر شادی ہم نے اتنی جلد بازی میں کی کہ ہم ایک دوسرے کو تو اچھی طرح جان ہی نہ پائے اور پھر شادی کے بعد ہم نے اپنی ساری خوشیاں اور امیدیں اپنی اولاد سے وابستہ کر لیں۔ اس سب میں، میں اور تم تو کہیں بھی نہیں تھے۔” وہ نہایت نرمی سے اس سے کہہ رہا تھا۔
کم عمری اور فرطِ جذبات ایک ایسا باوردی مجموعہ ہے جو زندگی میں وقتی پھل جھڑی اور ازلی ایٹم بم کا کام کرتا ہے اور انسان پھر ساری زندگی ہی اس کے شعلوں سے متعجب ہوتا رہتا ہے۔
ان دونوں کو آج بہت سی ایسی باتوں کا احساس ہوا جس کے بارے میں انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا، جس میں سرِ فہرست یہ بات تھی کہ اب نہ تو وہ دونوں بچے تھے اور نہ شادی کوئی کھلونا۔
مناہل نے اپنا سر صائم کے کندھے سے ٹِکا دیا۔
”اب کیا ہمیں ساری زندگی جیل میں کاٹنی پڑے گی؟”
”ہاں”جواب صائم نے نہیں بلکہ دروازے میں کھڑی اس خاتون نے دیا جس کی گود میں انہوں نے فہد کو دیکھا تھا۔ وہ دونوں اُٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
”تم لوگوں نے جو جرم کیا ہے اس کے لیے تم اسی سزا کے مستحق ہو کہ ساری زندگی جیل میں سڑتے رہو۔ جانتے ہو اس بچے کی ماں کا کیا حال ہو گیا ہے اتنے سے عرصے میں؟” وہ عورت غصے میں تیز تیز بولتی چلی جا رہی تھی کہ پیچھے سے ایک اور آواز آئی۔
”اس میں ان دونوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔” اس بار آواز جانی پہچانی تھی۔ وہ خاتون چل کر اندر آئی تو صائم کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔
”مس انیتا؟”
”یہ میری بہن ہے حنا۔” حنا نے مُڑ کر انیتا کو حیرت سے دیکھا۔
”آئم سوری صائم اور مناہل، مگر مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنی اس حرکت کے بعد آپ دونوں کا سامنا کروں۔ اتنے دن آپ لوگوں نے جسے اتنے پیار سے اپنے گھر میں رکھا وہ میرا بیٹا زین ہے اور اسے وہاں آپ لوگوں کے دروازے کے باہر چھوڑنے والی بے رحم ماں بھی میں ہی تھی۔”
حنا نے گھوم کر اس کا زرد ہوتا چہرہ دیکھا، انیتا پہلے سے بہت کمزور ہو چکی تھی۔
”یہ تم کیا کہہ رہی ہو انیتا، پاگل ہو گئی ہو تم؟”
”یہی سچ ہے حنا، میں نے اپنے شوہر سے بھاگ کر شادی کی تھی اور اس کی محبت میں اس حد تک اندھی ہو گئی تھی کہ اس کے اولاد کی خواہش نہ ظاہر کرنے پر میں اس سے یہ کہہ کر کچھ عرصے کے لیے حنا کے پاس آگئی کہ میں اپنی پھپھو کے ہاں چند ماہ کے لیے لندن جا رہی ہوں پھر جب زین پیدا ہوا، تو میں اسے آپ لوگوں کے دروازے پر چھوڑ کر اپنے شوہر کے پاس واپس چلی گئی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ مجھ سے دور نہ ہو جائے۔ حنا کو معلوم ہوا کہ زین غائب ہو گیا ہے، تو اس نے فوراً نیوز چینلز سے رابطہ کیا اور اس کے اغوا کی خبر نشر کروا دی۔ میں بھی اسے نہیں روک سکی ۔۔۔۔کیا کہتی میں اس سے؟”وہ زار و زار رو رہی تھی۔
”حنا اب تک آپ لوگوں کو ہی گناہ گار سمجھتی آئی ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ اصلی گناہ گار میں ہوں اور وہ بھی اپنے بیٹے کی اور آپ دونوں کی۔ میں آپ سب سے بہت شرمندہ ہوں، میں نہ تو ایک اچھی ماں بن سکی اور نہ ایک اچھی بیوی۔” انیتا نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ لیے تو مناہل آگے بڑھی۔
”مس انیتا میں آپ کو زیادہ تو نہیں جانتی، مگر رشتوں میں سے کبھی بھی کسی ایک کا انتخاب نہیں کیا جا سکتا، ہر رشتے کی اپنی جگہ ہوتی ہے اور کوئی کسی دوسرے کی کمی پوری نہیں کر سکتا۔ ہم کسی بھی ایک رشتے کی طرف سرجھکا دینے پر صرف دوسروں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ بھی زیادتی کرتے ہیں۔ آپ کے ان دونوں رشتوں کو آپ کے پیار کی ضرورت ہے۔”یہ کہہ کر اس نے انیتا کے جڑے ہاتھوں کو کھول دیا۔
یہ وہ باتیں تھیں جس کا خود مناہل کو آج احساس ہوا تھا۔
ان کی ضمانت ہو گئی تھی، وہ سب آہستہ آہستہ چلتے باہر آئے۔ حنا شرمندہ شرمندہ سی انیتا کے ساتھ چل رہی تھی۔ مناہل نے آخری بار فہد کو انیتا کی گود سے لیا اور اس کی پیشانی چومی، صائم نے اس کے بال سہلاتے ہوئے اسے پچکارا۔ ان کے قدم ابھی پولیس اسٹیشن سے باہر ہی پڑے تھے کہ سامنے سے ایک سیاہ رنگ کی گاڑی آتی دکھائی دی جو عین ان کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ گاڑی کا دروازہ کھلا اور جو شخص باہر نکلا اسے دیکھ کر مناہل دنگ رہ گئی۔
”مسٹر فیاض، آپ؟”اب حیران ہونے کی باری مناہل کی تھی۔ مسٹر فیاض وہیں دروازے میں کھڑے تھے۔
”مس مناہل، صرف انیتا ہی نہیں بلکہ میں بھی آپ لوگوں سے معذرت چاہتا ہوں، یہ میری بیوی ہے اور زین میرا بیٹا۔” جسے آپ نے فہد کا نام دیا۔
سب خاموش ہو گئے۔
”میں انیتا سے بہت محبت کرتا تھا، مگر اولاد کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھا اور اسی وجہ سے انیتا نے مجھے زین کی پیدائش کے حوالے سے کبھی کچھ نہیں بتایا۔ اس لیے جب حنا کو زین کے غائب ہونے اور میرے اور انیتا کے تعلقات کی خبر ملی، تو اس کا پہلا شک میں ہی تھا اور اسی لیے اس دن پولیس میرے دفتر تک پہنچ گئی تھی۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ میرا ایک بیٹا بھی ہے اور تب ہی آپ لوگوں کی ہمسائیوں میں سے ایک خاتون نے پولیس کو آپ کے بارے میں بتا دیا۔”
انہوں نے مناہل کی گود میں موجود زین کو دیکھا۔
”آپ لوگوں نے زین کے حقیقی والدین نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا اتنا خیال رکھا اور اتنا پیار دیا۔ اس احسان کو میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔” وہ آگے بڑھے اور زین کو اپنی گود میں لیا۔
”میں نے اتنی خوبصورت نعمت کی ناشکری کی، اب اسے اپنی گود میں لیا ہے، تو احساس ہو رہا ہے کہ یہ بوجھ نہیں، نعمت ہے۔” انیتا کی آنکھوں میں آنسو اب بھی تیر رہے تھے۔
جب وہ دونوں گھر پہنچے، تو شام ہو چکی تھی۔ ہر طرف ایک عجیب سی خاموشی کا راج تھا۔ اب کسی بچے کے رونے کی آوازیں سنائی نہیں دے رہی تھیں۔
وہ وہیں کھڑی درو دیوار کو تکنیلگی اور اسے پتا ہی نہیں چلا کب صائم اس کے پیچھے سے آیا اور اپنا بازو اس کے دائیں شانے کے گرد حمائل کر دیا۔ اسے آج پہلی بار صائم کے بازو سے تحفظ کا احساس ہوا۔ اس نے نظر اٹھا کر صائم کو دیکھا، وہ مسکرایا اور انگلیوں سے اس کے ناک کی ہلکی سی چٹکی بھری۔ وہ بھی مسکرا دی۔
زندگی کا اختتام ابھی باقی تھا۔ وہ دونوں ابھی جوان تھے اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ان کے پاس لگن بھی تھی اور طاقت بھی۔
صائم کچھ سوچنے لگا، تو مناہل نے اس سے پوچھا۔
”کیا سوچ رہے ہو؟”
”میں سوچ رہا تھا، کہ جب تم بوڑھی ہو جاؤ گی تو پھر تمہارا خیال بھی مجھے ہی رکھنا پڑے گا۔”
مناہل کی پیشانی پر بل پڑگئے، اس نے فوراً اس کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹایا۔
”کیا مطلب؟ جب میں بوڑھی ہو جاؤں گی، تو تم بھی تو بوڑھے ہو جا گے نہ۔”
”ہا۔۔۔یہ تمہاری غلط فہمی ہے، میں بہت دیر تک جوان رہنے والا ہوں جب کہ تمہا رے چہرے پر بہت جلد جھریاں پڑنے لگیں گی۔”
ایک لڑکی کے لیے اس کے بڑھاپے کا خیال ہی بہت اُداس کر دینے والا ہوتا ہے۔ وہ دانت پیستے ہوئے وہاں سے جانے لگی، تو صائم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا اور اُسے سینے سے لگالیا۔
”اگر تم جلد بوڑھی ہو گئی تو بھی میں تمہارا خیال رکھوں گا۔ تمہارے نقلی دانت برش کیا کروں گا، بال بنایا کروں گا اور تمہیں واک پر لے کر جایا کروں گا۔” وہ آنکھیں بند کیے مسکرا رہی تھی، اس کا دل ہلکا ہو گیا تھا اور آج تین سال بعد اسے اپنا آپ تہی دامن محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});