زندگی تو باقی ہے — مائرہ قیصر

”تم اب تک جاگ رہی ہو؟”
چند لمحے گزرے تو وہ بولی۔
”ہاشم بھی اسی طرح میری انگلی پکڑ کر سوتا تھا۔”
صائم کتاب پڑھتے پڑھتے رکا۔
”مگر اس کے بالوں کا رنگ بھورا تھا، وہ اس کی طرح کے گہرے سیاہ نہیں تھے۔”
وہ پڑھ نہیں رہا تھا بس صفحے کو گھور رہا تھا۔
”اور۔۔۔وہ بھی اسی طرح بیڈ سے گر جایا کرتا تھا۔”مناہل سے بولنا مشکل ہو رہا تھا۔
صائم نے کتاب بند کر دی۔ اب وہ فہد کی پلکوں کو چھو رہی تھی۔
”اس کی۔۔۔۔اس کی پلکیں بھی بڑی بڑی تھیں۔” اس کا گلا رُندھ گیا اور چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔ صائم جانتا تھا وہ رو رہی ہے۔
”میں نے ہاشم کے اس دنیا سے جانے کے بعد اس کے کپڑے، کھلونے اور باقی سب چیزیں لوگوں کو دے دی تھیں۔۔۔تمہاری وجہ سے، مگر یہ تصویر تم نے کیوں چُھپا کر رکھی؟” وہ اس فوٹو فریم کو اپنے ہاتھ میں لیے دیکھ رہا تھا جو آج تک مناہل کی سائیڈ ٹیبل پر اس کے سرہانے پڑا رہتا تھا۔ دونوں اس تصویر میں مُسکرا رہے تھے اور ان کے درمیان بیٹھا ان کا چھوٹا سا بیٹا اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے سر اٹھائے کیمرے کے بجائے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ بلاشبہ وہ کبھی ایک خوش حالفیملی ہوا کرتی تھی۔
”چیزیں نکال دینے سے جانے والوں کی یاد میں کمی آ سکے تو کتنا ہی اچھا ہو۔”
صائم نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
”تم کب تک اس کا سوگ مناتی رہو گی۔ وہ وجود اس دنیا میں آیا اور چلا گیا، مگر ہم زندہ ہیں اور ہمیں زندوں کی طرح رہنا ہو گا۔ کسی کے دنیا سے چلے جانے میں زندہ رہ جانے والوں کا قصور نہیں ہوتا۔ انہیں بس جانا ہوتا ہے اور وہ چلے جاتے ہیں۔”
”کاش ایک بار۔۔۔بس ایک بار میں اس کا ہاتھ پکڑ سکتی۔” بس یہ کہنا تھا اور وہ زار و زار رونے لگی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

صائم نے بیڈ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔ کاش آنکھیں بند کرنے سے سب پریشانیاں غائب ہو جاتیں۔
اگلے دن کا سورج اپنے ساتھ ایک بھیانک منظرلایا تھا۔
کیمپس میں وہی معمول کا دن تھا۔ مناہل اسٹور روم سے کچھ ڈبے نکال کر انہیں اٹھائے کاریڈور میں جا رہی تھی جب سامنے سے اسے تین وردی پوش پولیس آفیسرز آتے دکھائی دیے۔ قدم، سانس اور دل ایک ساتھ رکے اور ریورس گیئر لگائے وہیں کاریڈور میں کھلے ایک دروازے سے اندر ہوگئی۔ ڈبے اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئے۔
یہ یہاں کیوں اور کس لیے آئے تھے، یہ سوچ کر اس کا ذہن سن ہو رہا تھا۔ اس نے فوراً اپنی جینز کی جیب میں سے فون نکالا اور کپکپاتے ہاتھوں سے صائم کا نمبر ملایا۔ دوسری گھنٹی کے بعد فون اٹھا لیا گیا، تو مناہل نے اسے ہیلو کہنیکی بھی مہلت نہ دی۔
”پولیس میرے ڈیپارٹمنٹ تک پہنچ گئی ہے ۔۔۔ہم پکڑے گئے تو؟ صائم تم فوراً یہاں آجاؤ…میں اکیلی جیل نہیں جاؤں گی۔۔۔تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا۔۔۔دیکھو اس مصیبت میں ہم ایک ساتھ پھنسے تھے تو۔۔۔۔”
”اچھا میری بات تو سنو…”اس نے گھبرائی ہوئی مناہل کو حوصلہ دیا۔ ”تم وہیں رکو، کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں میں آرہا ہوں۔” وہ وہیں کھڑی خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ کچھ لمحے وہیں کھڑی سوچتی رہی ”ہم سچ بول دیں گے تو یہ لوگ ہمارا پیچھا چھوڑ دیں گے۔۔۔اور فہد؟ کیا وہ۔۔نہیں۔ میں کچھ نہیں بولوں گی زیادہ سے زیادہ مجھے جیل لے جائیں گے نا۔”
اس نے آنکھیں بند کیں اور ہتھ کڑی لگوانے کا پورا ارادہ کیے وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔ ”میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔میں سچ بتاؤں گی۔” آنکھیں کھلیں، تو سامنے پولیس کوئی نہیں تھی صائم ایک ابرو اٹھائے اسے دیکھ رہا تھا۔
”کہاں ہے پولیس؟”
”وہ۔۔۔وہ پتا نہیں اسی طرف تو آ رہے تھے۔” مناہل کی بات بہ مشکل ہی پوری ہوئی تھی کہ ان کے سامنے ایچ او ڈی کے کمرے کا دروازہ کُھلا اور پولیس آفیسرز باہر نکل آئے۔ مناہل کی ساری ہمت اور حوصلہ ایک پل میں ہی ہوا ہو گیا اور وہ اچھل کر صائم کے پیچھے چھپ گئی۔ مسٹر فیاض، جن کا چہرہ سیاہ پڑ رہا تھا، اسی وقت نکلے، ان دونوں کو کھڑے دیکھا اور فوراً تاثرات بدلتے ہوئے اس طرف آئے، پولیس وہاں سے جا چکی تھی۔
”صائم آپ یہاں؟ کیسے ہیں آپ، کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے آپ سے” انہوں نے اپنی ازلی بشاشت سے پوچھا۔
”جی میں بالکل ٹھیک ہوں، پولیس یہاں خیریت سے آئی تھی؟”
”جی۔۔۔جی کسی کیس کی تفتیش کے لیے آئے تھے، لیکن شاید کسی نے یہاں کی غلط معلومات دے دی اور آپ سنائیں، اپنی بیگم کو لینے آئے ہیں؟”
دونوں نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی اور صائم نے ایک دم سے مناہل کی گردن کے گرد اپنا بازو حمائل کرتے ہوئے دانت نکالے۔ ”جی جی اصل میں اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی، مگر میرے اتنا کہنے کے باوجود اس نے چھٹی نہیں کی تو سوچا آج اسے جلدی گھر لے جاؤں۔”
مناہل کو محسوس ہوا جیسے وہ اس کی گردن دبوچ رہا تھا۔
”اوہو مناہل اگر آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو آپ کو آج نہیں آنا چاہیے تھا، اب آپ گھر جا کر آرام کریں۔”مسٹر فیاض نے کہا تو وہ مُسکرا کر رہ گئی۔
باہر نکلے تو صائم نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی ”یہ کیا بے وقوفی تھی، پولیس ہمارے لیے تھوڑی آئی تھی، تم نے تو میری جان ہی نکال دی۔”
”میں نے کیا کیا، پولیس آئی تھی تو میں ڈر گئی کہ کہیں مجھے اکیلے ہی نہ لے جائیں۔” مناہل نے غصے سے کہا۔
”اور میرا گلا کیوں دبایا تم نے؟” وہ پھر سے مڑی۔
”شکر کرو ابھی زیادہ زور سے نہیں دبایا، اب چلو۔”
مگر ابھی مصیبت ٹلی نہیں تھی۔ گھر پہنچے تو وہاں کا منظر ہی بدل چکا تھا۔ ان کا گیٹ کُھلا تھا اور اردگرد پولیس کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ آس پاس لوگوں کا ہجوم تھا۔
ہوش و حواس تو ان کے تب ہی اُڑ گئے تھے جب انہوں نے ایک عورت کی گود میں فہد کو دیکھ لیا تھا۔ اس عورت کے ساتھ ہی آفیسر سے بات کرتیں مسز عابد تھیں۔ مناہل نے فوراً گاڑی کا دروازہ کھولا اور بھاگ کر فہد کو اس عورت کی گود سے لینا چاہا، مگر صائم نے اسے روک لیا۔ اب ان کے ہاتھوں سے سب کچھ نکل چکا تھا۔ اس کے بعد کیا ہونا تھا۔ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد دونوں پولیس اسٹیشن بیٹھے تھے۔
”میں آخری بار پوچھ رہا ہوں، تم دونوں سیدھی طرح بتا دو کہ بچے کو اغوا کیوں کیا۔ کیا چاہتے تھے تم لوگ؟ اچھے بھلے پڑھے لکھے ہو، کماتے ہو اور پھر بھی ایسی گھناؤنی حرکت۔” حوالدار ہاتھ میں چھڑی گھماتا ہوا ان کی کرسیوں کا طواف کرتا انہیں خوں خوار نظروں سے گھور رہا تھا۔
”میں بھی ہزار بار بتا چکا ہوں اور ایک بار پھر بتا رہا ہوں کہ ہم نے اسے اغوا نہیں کیا۔۔۔کوئی خود اسے ہمارے دروازے پر چھوڑ گیا تھا۔” صائم نے اپنی بات دہرائی جب کہ مناہل سر جھکائے خاموش بیٹھی تھی۔ کمرے میں کچھ خاص روشنی نہیں تھی۔ ایک میز اور دو کرسیاں موجود تھیں جن پر وہ دونوں بیٹھے تھے۔
”اتنے معصوم نہ تم لوگ ہو، نہ اتنا بیوقوف میں۔ بھلا ایسا کوئیکیوں کرے گا؟ اس کی ماں؟ تمہارا مطلب ہے اس بچے کی ماں نے خود اسے تم لوگوں کے دروازے پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور پھر خود ہی اس کے اغوا ہونے کی رپورٹ درج کروانے یہاں پہنچ گئی۔ چلو مان لیتے ہیں کہ کسی نے اسے تم لوگوں کے پاس چھوڑ دیا، تو تم لوگوں نے پولیس کو کیوں نہیں بتایا؟ کیوں میڈم آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟”وہ مناہل کی طرف مڑا۔
مناہل نے سر اٹھایا، مگر صائم پہلے بول پڑا: ”کیوں کہ ہمیں معلوم تھا تب بھی وہی ہو گا ہمارے ساتھ جو اب ہو رہا ہے۔”
”وہ تو اب بھی ہو رہا ہے۔ ارے اپنی اولاد کیا کھو دی تم لوگوں نے کہ دوسروں سے حسد کرنے لگے؟”
”ایک بات ایک بار ہی کی جاتی ہے مسٹر حوالدار، آپ کو دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی حق نہیں۔ ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ ہم نے اسے اغوا نہیں کیا، اب کوئی اتنے ننھے معصوم وجود کو آپ کے دروازے پر چھوڑ جائے تو کیا آپ پکڑے جانے کے ڈر سے اسے وہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیں گے؟ ہو سکتا ہے آپ چھوڑ دیں، مگر ہم نہیں، کیوں کہ ہم میں انسانیت ابھی باقی ہے۔”مناہل طیش میں آکر بولتی چلی گئی۔
”اپنی آواز نیچی رکھو۔ ایک تو جرم کرتے ہو اوپر سے اتنی بے باکی؟”حوالدار غرّایا۔
صائم کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتا اس سے پہلے ہی کسی آفیسر نے حوالدار کو آواز دی اور وہ انہیں ایک بار پھر گھورتا وہاں سے چلا گیا۔ مناہل نے پھر گھٹنوں میں سر دے دیا۔
”جب میں بات کر رہا ہوں، تو تمہیں بولنے کی کیا ضرورت تھی؟” وہ آہستگی سے بولا، مگر مناہل نے جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر تک اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد صائم نے اسے شانوں سے پکڑ کر اٹھایا۔ کمرے میں اندھیرا ضرور تھا، مگر اتنا نہیں کہ وہ اس کے آنسو نہ دیکھ پاتا۔ وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۴ آخری قسط)

Read Next

تم میرا نصیب نہ تھے — سلمیٰ خٹک

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!