وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔
”تم اسے اندر لے کرجاؤ، میں ابھی پولیس کو اطلاع کرتا ہوں۔” یہ کہہ کر صائم اندر چلا گیا اور اس نے چپ چاپ اسے اٹھا لیا۔
مناہل اندر آئی تو صائم کو فون کرنے کے بجائے ٹی وی کے سامنے کھڑا پایا۔ اس کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی اور وہ سکتے میں کھڑا تھا۔ نظر اٹھا کر اسکرین کو دیکھا تو وہ خبر دیکھ کر اس کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں، جس میں ایک نونہال بچے کے اغوا ہونے کی خبر چل رہی تھی اور ساتھ ہی اس کی ایک تصویر بھی تھی جو کہ ہوبہو وہی چہرہ تھا جو اس وقت ان کے گھر میں تھا۔
”اب کیا کریں؟”مناہل کے لبوں سے بے اختیار نکلا۔
”اب؟۔۔۔۔پتا نہیں۔”صائم کچھ کہہ ہی نہیں پا رہا تھا۔
”ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا، پھر۔۔۔پھر ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔”کہہ کر مناہل نے فون کا ریسیور اٹھا لیا، مگر صائم نے فوراً ریسیور اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
”دماغ خراب تو نہیں ہو گیا تمہارا۔۔۔دیکھ نہیں رہی کس طرح بیٹھے بٹھائے کڈنیپرز بن گئے ہیں ہم، اب ہم جس کو بھی جتنا مرضی یقین دلانے کی کوشش کریں شک ہم پر ہی آئے گا کہ اپنی اولاد کھو دینے کے بعد کسی اور کی۔۔۔”وہ کہتے کہتے چپ ہو گیا۔ اس موضوع پر دونوں اکثر ہی چپ ہو جایا کرتے تھے۔
وہ بھی سن سی وہیں کھڑی رہ گئی۔
پھر؟ پھر کیا جناب۔۔۔اگلے دن دونوں اپنے کاموں پر نکلنے لگے مناہل صُبح نکل گئی اور وہ رہ گیا۔ بس روز کی طرح آج ان کی لڑائی نہیںہوئی تھی۔ دونوں ہی چُپ تھے۔
جانے سے پہلے اُسے یاد آیا کہ ایک ضروری فائل نہیں مل رہی مگر وہ فائل نہ تو اوپر والی منزل پر موجود آفس میں تھی نہ ہی اس کے کمرے میں۔ وہ ڈھونڈتا ڈھونڈتا لونگ ایریا میں آیا جہاں صوفے پر وہ ننھا منا سا بچہ اپنے ہی کپڑوں سے اٹکھیلیاں کر رہا تھا۔ فائل اس کے نیچے تھی۔
وہاں سے فائل کھینچی تو اس کا ذہن بھک سے اُڑ گیا۔ وہ مکمل طور پر بھیگ چکی تھی اور اب کسی کام کی نہیں رہی تھی۔ اس کا منہ کُھلا کا کُھلارہ گیا، جب کہ بچہ مُسکرا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ غصے سے لال پیلاہوتے اس نے جیب سے فون نکال کر مناہل کا نمبر ملایا۔
”کیا ہے؟” مناہل کی بے زار آواز ابھری۔
”مناہل۔۔۔فوراً گھر واپس آؤ۔” آواز اتنی اونچی تھی کہ مناہل کو فون اپنے کان سے دور لے جانا پڑا۔
”کیوں؟ اب کیا مسئلہ ہے؟”
”مسئلہ؟ تمہاری آنکھیں بچپن سے خراب تھیں یا اب ان میں کالا موتیا اتر آیا ہے؟ اس بچے کو یہاں لٹانے سے پہلے تمہیں میری فائل نظر نہیں آئی کیا؟”وہ بہت غصے میں بول رہا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”تو تم بچپن ہی سے بے وقوف تھے یا اب عقل پہ پردے پڑنا شروع ہو گئے ہیں؟ تمہیں صوفے سے بہتر اپنی فائل رکھنے کی کوئی اور مناسب جگہ نہیں ملی تھی کیا؟”
وہ ایک دم لاجواب ہوا، مگر پھر سنبھل کر بولا: ”م۔۔۔مجھے کچھ نہیں پتا۔۔۔تم ابھی اسی وقت گھر آؤ اور آکر اسے صاف کرو۔”
”میں تمہاری ملازمہ نہیں ہوں، خود ہی کرو۔”کہہ کر اس نے ٹھک سے فون رکھ دیا۔
اس کے بعد بھی بہت سی چیزوں کو اس بچے کے ہاتھوں بھیگنے کا شرف حاصل ہوا۔ مناہل کے کپڑے، صائم کا بیڈ، مناہل کی پینٹنگز اور پھر طلاق کے کاغذات۔ دونوں کے جھگڑوں اور مسز عابد کی بیلز میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ کبھی اس بچے کے کپڑے تبدیل کرنے پر تو کبھی اسے نہلانے پر، کبھی اس کے لیے دودھ تیار کرنے پر تو کبھی رات میں اسے سلانے پر ان کی جھڑپ ہوتی یہاں تک کہ ایک دن صائم بول اٹھا۔”بس۔۔۔بہت ہو گیا۔۔ہم اس طرح مزید نہیں چل سکتے۔۔۔”
”اچھا تو اب کیا کرنا چاہیے؟” مناہل بھی اکتا چکی تھی۔ کئی راتوں سے جاگ جاگ کر اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑنے لگے تھے۔
”ہم کام بانٹ لیتے ہیں تاکہ کسی پر بھی بوجھ نہ پڑے۔۔۔مجھے کچھ وقت چاہیے اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے۔”
اور اس دن کے بعد سے دونوں نے واقعی کام تقسیم کر لیے تھے اور نتائج خاصے خوش گوار تھے۔ مناہل اسے نہلاتی اور کپڑے تبدیل کرواتی جب کہ صائم اس کے کھانے پینے کا انتظام کرتا۔
کسی بھی آیا کو گھر میں اس بچے کی دیکھ بھال کے لیے رکھنا ممکن نہ تھا، لہٰذا وہ خود ہی اس کا خیال رکھتے۔ دونوں ہی دوپہر میں دو سے تین بجے کے درمیان گھر آ جاتے تھے۔ مناہل صبح نکلنے سے پہلے اسے تیار کر کے دودھ وغیرہ پلا دیا دیتی۔ دونوں کے لیے ہی نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھنا ممکن نہ تھا، مگر فری لیکچرز کے دوران دونوں میں سے کوئی نہ کوئی گھر کا چکر لگا لیتا۔
کہنے کو انہوں نے اس کا نام ‘فہد’ اپنی آسانی کے لیے رکھا تھا، مگر دونوں ہی رفتہ رفتہ اس سے مانوس ہونے لگے۔ گھر سے باہر جتنا بھی وقت گزارتے وہ اس کی فکرمندی میں ہی گزرتا۔ مناہل نے اب تک اس بچے سے ایک فاصلہ رکھنے کی کوشش کی تھی، مگر اب اس کا دل فہد کے ساتھ لگنے لگا۔
کبھی وہ زیادہ رونے لگتا، تو دونوں باری باری اسے گود میں اٹھا کر اچھالتے یا جھلانے لگتے، تو وہ ہنس دیتا۔ وہ ایک بن بلایا مہمان تھا جس نے ان کے گھر میں جگہ بنا لی، مگر کب ان کے دلوں میں بھی جگہ بننے لگی اس کا انہیں اندازہ ہی نہیں ہوا۔
کچھ اور بھی بدلا تھا جس کا انہیں پتا ہی نہیں چلا۔ ان کے لڑائی جھگڑوں میں کمی آگئی تھی۔ اب ان کے در و دیوار ان کی لڑائی سے کم اور فہد کے چہکنے سے زیادہ گونجتے تھے اور اس کی ہنسی کے ساتھ وہ دونوں بھی ہنسنے لگتے۔
آج مناہل نے چھٹی کی تھی۔ سارا دن گھر کی صفائی اور فہد کی دیکھ بھال میں گزارنے کے بعد وہیں اس کے قریب صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے سو گئی ۔ ٹی وی اب تک چل رہا تھا۔
یہاں گھڑی نے تین بجائے اور ادھر صائم گھر میں داخل ہوا۔ لونگ ایریا میں مناہل کو سوتا پایا اور فہد کو چہکتا۔ اسے گود میں اٹھا کر وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں لے گیا واپس آیا، تو اس کے ہاتھ میں ایک چادر تھی۔ ریموٹ کنٹرول اٹھا کر ٹی وی بند کیا اور چادر مناہل پر ڈال کر وہیں کھڑا ہو گیا۔ اسے آج بھی یاد تھا کس طرح مناہل شادی والے دن پارلر سے واپس گھر آکر سو گئی تھی۔ وہ شروع ہی سے ایسی تھی، اپنی نیند پر اس کا اختیار نہیں تھا۔
وہ بدل رہا تھا، آج اس نے اسے جگانے کے لیے کوئی شور و غل نہیں مچایا۔ اس کے ساتھ مناہل بھی بدل رہی تھی۔ اب وہ بھی ریفریجیریٹر پر بریک فاسٹ کا نوٹ لگا کر جاتی اور صائم بھی پوری شرافت سے بنا نقص نکالے اس کا بنایا ہوا ناشتا کر لیتا، مگر فہد کی قربت اور زندگی کو بہتر بناتے بناتے بھولتے جا رہے تھیکہ فہد ان کی اپنی اولاد نہ ہوتے ہوئے بھی ان کے گھر میں رہ رہا تھا۔۔۔مگر کب تک؟
ایک دن مناہل کیمپس سے گھر واپس آرہی تھی۔ گیٹ کے سامنے پہنچی تو جھٹ سے بریک لگا دی اور نہایت مضطرب ہو گئی۔
مسز عابد ان کے گھر کے باہر کھڑی لونگ ایریا کی کھڑکی سے اندر جھانک رہی تھیں۔ مناہل کے تو ہاتھ پیر پھول گئے۔ وہ گاڑی سے نکل کر ان کی طرف بھاگی۔
”خیریت ہے مسز عابد؟ کوئی…”
”یہ تو آپ بتائیں مسز صائم، اندر سے کسی بچے کے مسلسل رونے کی آوازیں آرہی ہیں اور جہاں تک میں جانتی ہوں آپ لوگوں کی تو کوئی اولاد نہیں۔ سب خیریت ہے نا؟”
اس سوال پر مناہل کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔
”و۔۔۔وہ۔۔۔دراصل۔۔۔”
”دراصل آج غلطی سے ہم ٹی وی آن ہی چھوڑ گئے تھے ۔”اس سے پہلے کے مناہل کے لبوں سے کچھ اُلٹا سیدھا نکلتا صائم اچانک آن پہنچا اور اس معاملے کو بڑی چالاکی سے گول کرگیا۔
مسز عابد کو اس کی بات کا یقین ہوا یا نہیں، مگر وہ بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں،تو صائم نے سکھ کا سانس لیا۔
”اب یہیں کھڑی رہو گی یا اندر بھی چلو گی؟” صائم نے مناہل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
دروازہ کھولتے ہی دونوں تیزی سے اندر کی جانب بھاگے۔ جسے وہ دو گھنٹے پہلے بیڈ پر سلا کر گئی تھی وہ زمین پر بیٹھا بُلند آواز میں رو رہا تھا۔ بھاگ کر مناہل نے اسے اٹھایا اور چوٹ یا زخم کے ڈر سے اس کے جسم پر نظر دوڑائی پھر سینے سے لگا لیا۔
”کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟” صائم نے بھی بے چینی کے عالم میں اس کے قریب آتے پوچھا۔
”نہیں اللہ کا شکر ہے۔” اس نے سکون کا سانس لیا اور اسے لیے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”میں اس کے لیے دودھ لے کر آتا ہوں۔” یہ کہہ کر صائم کمرے سے نکل گیا اور وہ اسے اپنے سرہانے لٹائے تھپکنے لگی۔ فہد اب چُپ ہو چکا اور اس پر غنودگی چھانے لگی۔ مناہل غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”آئم سوری فہد۔” اس نے سرگوشی کی۔
”تم جا کر میرے کمرے میں آرام کرلو میں یہاں اس کے پاس رُکتا ہوں۔” صائم نے کمرے میں داخل ہو کر کہا۔ مناہل نے کوئی جواب نہ دیا، تو وہ بیڈ کی دوسری جانب سے فہد کے دائیں طرف آکر بیٹھ گیا اور ایک کتاب اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگا۔
کچھ دیر بعد اس نے مناہل کی طرف دیکھا، تو وہ سوئے ہوئے فہد کو ابھی تک تھپک رہی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});