زندگی تو باقی ہے — مائرہ قیصر

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان ہینڈسم لڑکا جسے ایک حسینہ سے محبت ہو گئی۔ دونوں نے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔ ماں باپ کو راضی کیا اور پھر خوشی خوشی زندگی گزارنے لگے۔ یہ تھی ایک خوش باش جوڑے کی کہانی۔ ایسا ضرور ہوتا ہو گا مگر محض فلموں میں۔ مناہل اور صائم کی کہانی میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ حیران ہیں کہ یہ محبت کی کہانی کیسے ہے؟ تو پھر سُنیئے کہانی۔
کہانی وہیں سے شروع ہوئی جہاں سے ہر رومیو جولیٹ کی ہوتی ہے۔ صائم اور مناہل نیویارک کی ایک ہی یونیورسٹی کے دو انتہائی مختلف بلکہ مخالف ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم تھے۔ صائم نیوروکیمسٹری میں گریجویشن کے آخری سال میں تھا اور وہ فائن آرٹس میں تھی۔
شکل و صورت، محنت اور ذہانت کے اعتبار سے دونوں ہی اپنی اپنی جگہ بہت اچھے تھے۔ اِن دونوں کی ملاقات خاصی ڈرامائی تھی۔
آرٹسٹک ذہانت کے موضوع پر ریسرچ کی خاطر صائم اور اس کے گروپ فیلوز کو فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ کے طلبا کے ساتھ کچھ وقت گزارنا اور انٹرویوز بھی لینا تھے۔ بس یہیں دونوں کی ملاقات ہوئی اور پھر دوستی جو رفتہ رفتہ محبت کے رنگوں میں ڈھلتی چلی گئی پھر؟ پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ اپنی اپنی تعلیم مکمل کرتے ہی دونوں پاکستان آگئے اور ماں باپ کو رضامند کرنے کے بعد شادی کر لی۔ اس وقت مناہل کی عمر اکیس اور صائم کیبائیس سال تھی۔ ہیپی اینڈنگ؟ جی نہیں۔
تین سال بعد۔۔۔
باہرگھنٹی کا بج بج کر گلا بیٹھ سا گیا تھا، مگر کوریڈور میں آمنے سامنے موجود ان دو کمروں کے دروازوں میں سے ایک بھی نہیں کھلا۔
”صائم دروازہ کھولو جا کر۔” ایک دروازے کے اندر سے بالآخر ایک زنانہ آواز ابھری۔
”خود چلی جاوؑ۔” اب ایک مردانہ آواز دوسرے کمرے سے آئی۔
”میں ملازمہ نہیں ہوں تمہاری۔۔۔ جا کر دیکھو کون دروازہ توڑ رہا ہے۔”
مگر اب کی بار کوئی جواب نہیں آیا۔ چند لمحے مزید گزرے تو ایک کمرے کا دروازہ کھلا۔ ہوڈی اور ٹراؤزر میں ملبوس چڑیا کے گھونسلا نما بالوں والی ایک لڑکی آنکھیں ملتی اور بڑبڑاتی ہوئی باہر نکلی۔ فرش پر بکھرے جرابوں اور کپڑوں کے ڈھیر میں سے سلیپرز ٹٹول کر پیروں میں گھسیٹتی باہر چلی گئی۔ اندر آ کر دودھ کا لفافہ لونگ ایریا کے ساتھ موجود کچن کاوؑنٹر پر اچھالا اور صائم کے کمرے میں داخل ہو گئی۔
باہر نکلی تو ایک ہاتھ میں مردانہ نیلی شرٹ اور دوسرے میں قینچی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”اب میں تمہیں مزہ چکھاتی ہوں۔” لبوں پر شیطانی مسکراہٹ سجائے مناہل نے صائم کی شرٹ کے چاروں طرف ایسے نفیس کٹس لگائے کہ وہ ایک خوبصورت فرِل بن گئی پھر شرٹ کے وسط میں دل کی شکل کا ٹکڑا کاٹا اور پھینک دیا گویا شرٹ کے سینے میں دل کی شکل کا سوراخ ہو۔ اس کے بعد اس نے اس شرٹ کو ہینگر پر لٹکا کر رکھ دیا اور اپنی تیاری میں مصروف ہو گئی۔
کچھ دیر گزری تو صائم جمائی لیتا باہر نکلا تو سامنے لٹکے ماسٹر پیس کو دیکھ کر اس کا کھلا منہ کھلا ہی رہ گیا اور چودہ کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔
”مناہل!”وہ زور سے چلایا، تو وہ جو مست سی اپنے کپڑے استری کر رہی تھی منظر میں آئی۔
”یہ۔۔۔یہ کیا تم نے؟ یہ۔۔۔یہ شرٹ مجھے میری کولیگ نے تحفے میں دی تھی۔۔۔ یہ کیا کیا تم نے؟”
”اوہو ڈارلنگ میں جانتی ہوں یہ تمہیں تمہاری فیورٹ کولیگ نے تحفے میں دی تھی مگر دیکھو تو یہ اب زیادہ اچھی لگ رہی ہے۔۔۔ ہے نا؟”مناہل نے شرٹ کے ”دل”میں سے جھانکتے ہوئے بلا کی معصومیت سے کہا۔
”آئی ہوپ اب تم صبح صبح مجھے ڈسٹرب کرنے سے پہلے لاکھ بار تو ضرور سوچو گے۔”
صائم نے دانت پیستے ہوئے چنگھاڑتی نظروں سے اسے گھورا اور زور زور سے پیر زمین پر مارتا باتھ روم میں گھس گیا۔
اس کے نکلنے کے بعد مناہل اندر چلی گئی۔ ابھی ٹوتھ برش منہ میں رکھا ہی تھا تو صائم نے دروازے سے اندر جھانکا۔ وہ آفس کے لیے بالکل تیار تھا۔
”اپنا خیال رکھنا سوئٹ ہارٹ۔”
مناہل نے منہ میں برش رکھے ایک ابرو اُٹھا کر آئینے میں اس کے عکس کو دیکھا جو بہت زور لگا کر مُسکرا رہا تھا۔
”وہ کیا ہے کہ آج مجھے تمہارے برش پہ بہت پیار آیا، تو میں نے باتھ روم کی تھوڑی سی صفائی کرلی، لہٰذا اپنا خیال رکھنا اوکے بائے۔”
فاتحانہ مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ گاڑی میں بیٹھا اور آفس کے لیے نکل گیا جب کہ گھر کے اندر مناہل کی چیخیں گونج رہی تھیں۔
ان دونوں کے درمیان ہمیشہ ہی اتنا پیار محبت اور سلوک رہتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو اتنا چاہتے تھے کہ ناشتا بھی الگ کرتے اور اجنبیوں کی طرح رہتے تھے۔ لڑائی جھگڑے تو عام سی بات تھی اور ان لڑائیوں کے نتیجے بڑے دلچسپ ہوتے تھے۔
کبھی صائم کی پرفیوم میں پرفیوم کے بجائے پانی پایا جاتا تو کبھی مناہل کی بنائی ہوئی پینٹنگز پر اسی کی لپ سٹکس سے مختلف نقش و نگار بنے ہوئے نظر آتے۔ بس ایسی ہی قابلِ رشک محبت تھی ان دونوں کی۔
اب آپ سوچتے ہوں گے اگر اتنا ہی حسنِ سلوک تھا دونوں میں، تو طلاق ہی کیوں نہ لے لی، تو اس کا قصّہ بھی سُن لیجیے۔
طلاق کی کہانی کچھ یوں ہے کہ اس کے کاغذات تقریباً تین بار بن کر ان دونوں کی ایسی ہی ننھی منی لڑائیوں کی نذر ہو چکے تھے۔ کبھی وہ ان کی کسی کش مکش کے دوران کچن سنک میں بہ کر ضائع ہو جاتے، تو کبھی مناہل کے انتقام کے دوران صائم کی فائلز آگ کا ایندھن بن جاتیں یا پھر مناہل کے پیپر ورک سمیت صائم کے ہاتھوں ردی کے ڈھیر میں سوار ہو کر خیرباد کہہ جاتے۔
وہ دونوں ایک ہی یونیورسٹی کے سائنس اور فائن آرٹس کے شعبوں میں جاب کر رہے تھے۔ مناہل کی نئی گیلری کا افتتاح ہوئیکچھ عرصہ ہی گزرا تھا جس میں وہ اپنے اور اپنے طلباء کے آرٹ ورک کی نمائش کیا کرتی تھی۔ اس گیلری کی تعمیر سے لے کر افتتاح تک کے سفر میں مسٹر فیاض نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا۔
مسٹر فیاض اس کے ڈپارٹمنٹ کے بتیس تینتیس سالہ ایچ او ڈی تھے اور اپنے نام کی طرح سخی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت نرم دل انسان تھے۔
دوسری طرف صائم ٹیچنگ کے ساتھ ساتھ اسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے نیروکیمسٹری کے شعبے میں ریسرچ بھی کر رہا تھا اور اس کام میں مس انیتا بھی اس کے ساتھ تھیں۔ اس کے علاوہ وہ دونوں انٹرنیٹ بلاگز بھی لکھتے تھے۔ مس انیتا ایک کم گو مگر سلجھی ہوئی شخصیت رکھتی تھیں، لیکن چند دنوں سے وہ کافی بیمار اور خاموش نظر آنے لگی تھیں جسے صائم نے بھی نوٹ کیا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں مسٹر صائم مجھے کیا ہونا ہے۔”صائم کے پوچھنے پر وہ اکثر ہنس کر یہی جواب دیتی تھیں۔
صائم اور مناہل کی زندگی دنیا کے اکثر شادی شدہ جوڑوں سے خاصی مختلف تھی۔ کہنے کو تو دونوں ہی دوپہر دو سے تین بجے کے درمیان گھر آجایا کرتے تھے، مگر اپنی اپنی گاڑی پر اور گھر آ کر بھی نوک جھوک میں ہی بسر ہوئی تھی۔ ان کی اس نوک جھوک میں ان کی ایک اور ساتھی بھی تھیں۔
مسز عابد ان کی پڑوسی جو پورے محلے کی کیمرے کی آنکھ تھیں اور اکثر ہی ان کے اونچی آواز میں لڑنے جھگڑنے سے ایک حد تک مستفید ہونے کے بعد شکایت کرنے ان کے گھر کی گھنٹی بجاتی رہتیں، مگر ان دونوں پر اس چیز کا اثر آخر کیوں ہونا تھا۔
ایک اتوار روز مرّہ کی لڑائیوں کی طرح عام جنگ چل رہی تھی جس میں ہتھیار کشنز اور مظلوم ایک مرتبہ پھر طلاق کے کاغذات تھے جن پر مناہل سائن کرنے لگتی تو کبھی صائم کا فون بجنے لگتا کبھی اس کا اپنا، چوتھی کاوش میں اس نے بالآخر سائن کرنے کا پختہ ارادہ کرتے ہوئے ایک بار پھر پین اٹھایا اور سائن کرنے ہی والی تھی کہ باہر دروازے کی گھنٹی بجی۔
اب دونوں ہی کڑھتے ہوئے باہر نکلے کہ مسز عابد کی شکایتوں کو آج بریک لگا ہی دیں، مگر دروازہ کھولا تو سامنے کوئی بھی نہ تھا ۔ تذبذب کا شکار ہوتے دونوں نے دروازہ بند کرنے کا سوچا ہی تھا کہ نظریں اور قدم وہیں جم گئے اور پھر یوں لگا جیسے اب وہ یہاں سے ہل نہیں پائیں گے۔
ان کی دہلیز پر ایک بے بی کوٹ میں ایک شیرخوار بچہ بڑی بڑی آنکھیں کھولے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ دونوں چند لمحے کے لیے ہل نہ سکے۔ پھر ایک دوسرے سے خالی خالی نظروں کا تبادلہ کرنے کے بعد اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔
صائم دروازے سے نکل کر سڑک پر آیا اور ارد گرد نظر دوڑانے لگا، مگر آس پاس کوئی نہ تھا۔
”اب کیا کریں؟”صائم ایک بار پھر دروازے میں کھڑے ہو کر اس بچے کو دیکھنے لگا۔
مناہل نے جواب نہیں دیا، وہ بھی بچے کو ہی دیکھ رہی تھی۔
”ہم اسے یہاں نہیں چھوڑ سکتے۔”
”یہیں چھوڑ دو۔”مناہل ہلکی سی آواز میں کہہ کر اندر جانے کے لیے مڑی تو صائم نے اسے روکا۔
”پاگل ہو گئے ہو۔ اگر کسی نے اسے یوں ہمارے دروازے پر دیکھ لیا، یا کوئی اور اٹھا کر لے گیا تو؟”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۴ آخری قسط)

Read Next

تم میرا نصیب نہ تھے — سلمیٰ خٹک

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!