رین کوٹ — ہاشم ندیم

کاجل کی شادی کے بعد نعمان کا بھی اس شہر میں دل نہ لگا اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کسی دوست کی وساطت سے امریکا چلا گیا۔ وہاں اس کے دل کے زخم تو نہ بھرے پر اس کی جیب بھرتی چلی گئی۔ اسے نیا کاروبار راس آگیا اور پانچ سال میں ہی نعمان خود اپنے گھر اور فیکٹری کا مالک بن گیا، لیکن اب اس کا دل اس پر دیس سے بھی اچاٹ ہونے لگا تھا۔ اسے اپنا گھر اپنے دوست اور گھر والے یاد آنے لگے تھے۔ لہٰذا اس نے تین ماہ کی چھٹی لی اور اپنے ملک چلا آیا۔ اس کا شہر اب بھی ویسا ہی تھا۔ بارش کے بعد در و دیوار سے اب بھی ویسی ہی سوندھی مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ نعمان شہر سے باہر کوئی بڑی سی خالی جگہ دیکھ کر اپنی فیکٹری لگانا چاہتا تھا اور آج اسی سلسلے میں وہ اپنے ڈرائیور کو لے کر سائٹ ایریا کی طرف نکلا تھا کہ راستے میں گاڑی خراب ہوجانے کی وجہ سے آج وہ پھر دل کے اس حادثے سے دوچار ہوگیا تھا جسے سنگین کہا جاسکتا تھا اور نہ حسین۔ کاجل کی حالت بھی صاف بتا رہی تھی کہ وہ وہاں اچانک نعمان کو اپنے سامنے پاکر کس قدر شدید اندرونی کشمکش کا شکار ہے۔ آخر کار نعمان ہی سڑک نے پار کر کے کاجل کی جانب قدم بڑھائے۔ دوسری جانب کے بس اسٹاپ پر بھی صرف چند ہی لوگ تھے اور ان میں سے کئی اس آخری آنے والی پرانی سی ویگن میں سوار ہوکر جاچکے تھے۔ نعمان کو یہی فکر تھی کہ کسی بھی لمحے کاجل کی بس آتی ہی ہوگی اور وہ اس سے بات کیے بنا چلی گئی، تو یہ کسک اس کے دل میں ہمیشہ کسی کانٹے کی طرح چبھتی رہے گی، لیکن جب وہ تیز برستی بوندوں سے خود کو بچاتا سڑک کی دوسری جانب پہنچا تو کاجل کچھ گھبرا سی گئی۔ نعمان کو اس کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے ایک ایسی التجا آمیز پر چھائی نظر آئی جیسے وہ نعمان سے کہنا چاہ رہی ہو کہ ”خدا کے لیے میرے شوہر کے سامنے مجھے نہ پکارنا۔”
نعمان کے ہونٹ کھلنے سے پہلے ہی سل گئے۔ بارش رُخ بدل چکی تھی اور اب تیز بوچھاڑ کی پھوار سب کو بھگونے لگی تھی۔ اچانک کاجل کا شوہر غصے میں دھیرے سے بڑبڑایا۔ نعمان کے کان کھڑے ہوگئے۔ وہ کاجل کو ڈانٹ رہا تھا۔
”میں نے کہا بھی تھا ذرا جلدی گھر سے نکل پڑو، لیکن تم میری سنتی ہی کب ہو۔ چھوٹ گئی نا پہلی بس۔ اب کھڑی بھیگتی رہو، اپنے ساتھ مجھے بھی خوار کردیا، لعنت ہے ایسی زندگی پر۔” نعمان کے دل پر جیسے کسی نے گھونسا مار دیا ہو۔ نائلہ تو کہہ رہی تھی کہ کاجل کا شوہر اس کا بہت خیال رکھتا ہے، تو پھر یہ سب کیا ہے؟ کاجل سر جھکائے اپنے شوہر کی ترش باتیں سنتی رہی۔ جانے اس کے ماتھے پر چمکتے قطرے بارش کے تھے یا شرمندگی کے ؟ وہ کومل سی لڑکی جس کی جبیں پر بل آتے ہی نعمان تڑپ اٹھتا تھا اور جس کی راہوں کی دھول وہ اپنی پلکوں سے صاف کیا کرتا تھا آج وہ خود کسی کے تلخ اور تندوتیز لہجے کے سامنے خس و خاشاک کی طرح بہ رہی تھی۔ کاجل کا شوہر اسے جلی کٹی سنانے کے بعد قریب کھڑے خوانچے والے سے کسی سستے برانڈ کا سگریٹ خریدنے لگا۔ کاجل نے ایک لمحے کے لیے نظر اٹھا کر نعمان کی طرف دیکھا اور اس ایک نظر ہی میں اس نے سب کہہ دیا۔ اپنی بے بسی، مجبوری، تڑپ اور اپنے درد کا ہر افسانہ بیان کردیا۔ نعمان کے دل کو آج تک یہی سو چ کر ذرا سا قرار ملا تھا کہ کاجل اپنی دنیا میں خوش اور مگن ہے۔ ایک بار پھر وہ غم اور کسک کے اسی پرانے سمندر میں اتر گیا جس کے بھنور نے بڑی مشکل سے اس کا پیچھا چھوڑا تھا۔ کاجل کا شوہر بارش میں بری طرح بھیگ چکا تھا اور سرد ہو ا سے اس کا بدن دھیرے دھیرے کانپ رہا تھا۔ نعمان نے کاجل کے لباس کو غور سے دیکھا تو وہ بھی ایک سستے جوڑے میں ملبوس تھی۔ اس نے دھیرے سے اپنے شوہر سے کہا۔
”آپ بھیگ گئے ہیں، چھجے کے نیچے آجائیں ورنہ سردی لگ جائے گی۔” شوہر نے تلخی سے طنز کیا۔ ”تووہاںتم نے کون سی میرے لیے برساتی ٹانگ رکھی ہے، وہاں بھی یہی پانی برسے گا مجھ پر…”
کاجل چپ ہوگئی۔ اتنے میں نعمان کو اپنی گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا ڈرائیور گاڑی ٹھیک کروا چکا تھا۔ نعمان کو احساس ہی نہ ہوا کہ وہ کتنی دیر سے وہاں کھڑ اہے۔ کاجل نے بھی نعمان کی گاڑی کی طرف نظر بھر کر دیکھا۔ کبھی اس نے نعمان کو کہا تھا کہ اسے سرخ رنگ کی گاڑیاں بہت پسند ہیں اور آج نعمان کے پاس ویسی ہی سرخ رنگ کی چمچاتی گاڑی تھی۔
نعمان نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے کاجل پر ایک بھرائی اور الوداعی نظر ڈالی۔ کاجل بھی اسی کو دیکھ رہی تھی۔ بارش نے نعمان کے آنسو چھپا لیے تھے۔ گاڑی نے ایک جھٹکا لیا اور پانی کے چھینٹے اڑاتی آگے بڑھ گئی۔ کاجل اور نعمان کی نظر آخری بار ملی۔ وہ دونوں جانتے تھے کہ یہ شاید ان کے نصیب کی آخری نظر ہے، مگر جن کے مقدر پہلے ہی چوک گئے ہوں وہ بھلا اس آخری نظر میں ایک دوسرے کو کیا نہار پاتے؟ گاڑی گزرنے کے بعد بھی کاجل بہت دیر تک اسی جانب دیکھتی رہی، جہاں بہت دور جاکر نعمان کی سرخ گاڑی کہر میں گم ہوگئی تھی۔ اچانک اسے عقب میں اپنے شوہر کی ہیجانی آواز سنائی دی۔
”ارے… یہ دیکھو ! گاڑی والے صاحب اپنا رین کوٹ تو یہیں بھول گئے۔ واہ مولا! آج ہی تجھ سے مانگا تھا۔”
کاجل چونک کر پلٹی، اس کے شوہر کے ہاتھ میں وہی نیلا رین کوٹ تھا جو کبھی خود اس نے نعمان کو تحفے میں دیا تھا۔ نعمان جاتے ہوئے جان بوجھ کر وہ رین کوٹ بس اسٹاپ کی ریلنگ پر چھوڑ گیا تھا۔ کاجل نے دھیرے سے خود کلامی کی۔
”ہاں !شاید وہ اسے آپ کے لیے ہی چھوڑ گئے ہیں۔ اس رین کوٹ کا سفر بس یہیں تک تھا۔”
ریحان اپنی دھن میںمگن رین کوٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔ اُسے پتا ہی نہیں چلا کہ کب کاجل کی آنکھ سے دو آنسو ٹپک کر زمین پر بہتے بارش کے پانی میں مل کر امر ہوگئے۔

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بارِ گراں — افشاں علی

Read Next

جنّت — طارق عزیز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!