رول ماڈل — ماہم علی

نادیہ ہیلو ہیلو کہتی رہ گئی ۔
”اف اللہ ! کیا کروں میں ؟ ” اس نے پریشانی سے کنپٹی سہلائی ۔
”نادیہ بیٹا ! باہر آؤ بچیاں کب کی آئی ہوئی ہیں … پھر ان کے مسجد جانے کا وقت ہو جائے گا۔”
نادیہ شام کے وقت برابر والی عذرا باجی کی دو بیٹیوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی ۔ دونوں بچیوں کو پڑھنے کا بے حد شوق تھا تب ہی وہ اسکول سے آ کر سیدھا اس کے پاس چلی آتیں ۔
”آئی اماں۔”
جلدی جلدی بکس رکھ کر وہ باہر آ گئی ۔ دونوں بچیاں چار پائی پر بیٹھ کر لکھ رہی تھیں۔
”کل میں نے جو کام دیا تھا ، وہ لکھ کر لائی ہو تم دونوں؟”
”جی باجی!”
”اچھا! یہ اگلا یاد کرو ، میں سنتی ہوں پھر ۔ ”
اس نے دونوں کو اگلا کام دیا ۔
بے دھیانی سے کتاب دیکھتے ہوئے وہ شاہد کی باتوں کے متعلق سوچ رہی تھی ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔ تب ہی چھوٹی اقرا نے اس کا ہاتھ ہلایا ۔
”ہوں ۔ ” وہ چونکی۔
”نادیہ باجی ! فضا گھر میں کہہ رہی تھی ، میں نادیہ باجی کی طرح بنوں گی ۔ ”
” اچھا ! میری طرح کیسے بنے گی ؟ ” اس نے پیار سے فضا کا ہاتھ پکڑا ۔
” میں بھی آپ کی طرح بڑے اسکول میں پڑھوں گی … پھر پڑھ کر چھوٹے چھوٹے بچوں کو پڑھاؤں گی جیسے آپ پڑھاتی ہیں ۔ ” فضا شرما کر بولی ، تو اسے بھی ہنسی آ گئی۔
” باجی ! میں آپ کی طرح بنوں گی … اچھی والی باجی بنوں گی … ”
باجی کو ہنستے دیکھ کر اقرا نے دانت نکوسے ۔
” اچھا اچھا بن جانا … پہلے یہ سبق تو یاد کر لو جو ابھی دیا ہے ۔ ” اس نے پیار سے اقرا کے سر پر چپت لگائی ۔
” ٹوں ٹوں ۔ ”
میسج کی بیپ بجنے پر اس نے میسج کھولا ۔ شاہد کا میسیج تھا جو کسی دوست کے گھر پارٹی پر ملنے کا کہہ رہا تھا ۔
اس نے کوفت سے موبائل کو دیکھا اور پھر بند کر دیا ۔ شدید سر درد کی وجہ سے اس نے بچیوں کو جلدی چھٹی دے دی ۔
سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹ رہا تھا … آخر ملنے کی ہامی بھر کر اس نے شاہد کو میسیج کیا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ رات کو جلدی سو گئی ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

صبح اماں کے جاگنے پر اس کی آنکھ کھلی تو پہلا خیال اسے شاہد کا ہی آیا … وہ اُٹھ کر جلدی سے باہر آئی… آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے ۔ جلدی جلدی تیار ہو کر وہ اماں کے پاس باورچی خانے میں چلی آئی …
”آج چھٹی کر لو نادیہ ! موسم بھی اتنا خراب ہے ۔ ” اماں نے کہا تو چائے کا کپ پکڑتے پکڑتے اس کے ہاتھ رک گئے ۔
” نہیں اماں آج جانا بہت ضروری ہے … ” اس نے پھیکے پن سے کہا ۔ اماں کو کیا بتاتی کہ اس کا آج جانا کیوں ضروری ہے …
”تیری اماں صحیح کہہ رہی ہے بیٹا ! آج چھٹی کر لو ۔ ”
بابا جانے کب وہاں آ گئے تھے … نادیہ کا سر جھک گیا ۔
”نہیں بابا! آج جانا ضروری ہے … امتحان شروع ہونے والے ہیں تو آج سہیلی سے کتابیں بھی لینی ہیں۔” وہ جلدی سے بولی مبادا ابو اسے روک نہ لیں …
”اچھا چل جیسے تیری مرضی … ویسے بھی چھٹی سے تیری پڑھائی کا حرج ہو جائے گا ۔ ”
” جی ۔ ” وہ محض سر ہلا کر رہ گئی ۔
جلدی جلدی چائے پی کر اس نے گھڑی پر وقت دیکھا پھر فوراً باہر بھاگی … ان کے گھر کے پاس ہی تانگوں کا اڈا تھا… اس لیے وہ اکیلی ہی چلی جاتی ۔
بڑی سی چادر اوڑھ وہ اماں کو سلام کر کے باہر چلی گئی … بادل زوروں سے گرج رہے تھے … اس نے ایک نظر آسمان کو دیکھا پھر نقاب کر کے باہر نکل گئی ۔
”یا اللہ ! اس بارش کو بھی آج ہی ہونا تھا ۔ ” تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس نے کوفت سے سوچا …
جلد ہی ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی ۔ وہ اپنے دھیان میں مگن جا رہی تھی جب اچانک سامنے پڑے پتھر سے اسے ٹھوکر لگی ۔ وہ بلبلا کر رہ گئی ۔
” ہائے اماں … ” اس کے منہ سے فوراً نکلا ۔
دوسرے ہی لمحے اس کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔
” درد ہونے پر مجھے اماں یاد آ گئی ، لیکن گھر سے نکلتے وقت مجھے ان کا خیال کیوں نہیں آیا ۔ ”
ڈبڈبائی آنکھوں سے پاؤں کو پکڑتے ہوئے اس نے سوچا ۔
” اماں بابا مجھے کالج پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں اتنا اعتماد ہے کہ گاؤں سے اتنا دور شہر بھیجتے ہیں اور میں ان کے ساتھ کیا کر رہی ہوں ۔ ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کے کالج کے بہانے ویلنٹائن منانے جا رہی ہوں … اف ! میں یہ کیا کرنے جا رہی ہوں … خاندان والے پہلے ہی میرے پڑھنے کے خلاف ہیں انہیں تو تعلیم کو برا بھلا کہنے کا موقع مل جائے گا… چند ایک بچیاں پڑھ رہی ہیں انہیں بھی والدین گھر بٹھا دیں گے … میں نے لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہے ان کی سوچ پر مہر ثبت نہیں کرنا… اگر بابا کو پتا چل جائے کہ میرا آج جانا کیوں ضروری ہے تو کیا وہ یہ بات سہہ سکیں گے؟”
وہ اُلٹے قدموں مڑی…
”سب خاندان والوں کی ناراضی مول لے کر بابا مجھے پڑھا رہے ہیں … اگر ذرا سی بھی بھنک کسی کے کان میں پڑ گئی کہ میں پڑھائی کے بہانے شاہد سے ملنے جاتی ہوں تو میرے بابا کے جھکے ہوئے کندھے مزید جھک جائیں گے…”
بے دردی سے آنکھوں کو مسلتے ہوئے وہ گھر میں داخل ہوئی ۔ بابا بکریوں کو چھپر تلے باندھ رہے تھے اسے دیکھ کر رک گئے۔
”کیا ہوا تم واپس کیوں آگئیں … تانگا نہیں آیا ہوا تھا کیا ؟ ”
” نہیں بابا ! باہر کیچڑ بہت تھا میں نے سوچا کپڑے گندے ہو جائیں گے ۔ ” اس نے سر جھکا کر کہا ۔
پھر اس نے دل میں سوچا ۔
” جو لڑکیاں پڑھائی کے بہانے غیر محرموں سے ملنے جاتی ہیں وہ اپنے والدین کی عزتوں پر داغ ہی لگاتی ہیں۔”
”اچھا ٹھیک کیا تم نے … میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا ۔ چلو تم اندر جا کر کپڑے بدل لو ورنہ بیمار پڑ جاؤ گی … ” بابا نے فکر مندی سے کہا تو وہ فوراً اندر چل دی۔
بیگ رکھ کر اس نے اماں کو دیکھا ، وہ چھت پر کپڑے اتار رہی تھیں … وہ موبائل لے کر کمرے میں چلی گئی ۔ شاہد کو کال ملائی، جو دوسری بیل پر شاہد نے اٹھا لی …
”ہیلو شاہد۔”
”کہاں ہو تم، میں کب سے اڈے پر انتظار کر رہا ہوں … تم آئی کیوں نہیں ابھی تک ۔ ” شاہد کے لہجے میں بے چینی تھی …
”سوری شاہد !میں نہیں آ سکتی… تم میرا انتظار مت کرو۔” وہ دھیمے پن سے بولی۔
”کیوں کیا ہوا… دماغ تو ٹھیک ہے ، میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں… جلدی آؤ میں نے دوستوں سے شرط لگائی ہے تم آؤ گی۔” انکار سن کر شاہد غصے سے بولا۔
”کہا ہے ناں، میں نہیں آ سکتی… تم اپنی شرط ہار چکے ہو خواہ مخواہ انتظار مت کرو۔”
”سچ تو یہ ہے کہ تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتیں۔”
”ہاں! میں اپنے والدین کا اعتبار نہیں توڑنا چاہتی۔ ” اس نے آہستگی سے کہہ کر فون بند کر دیا ۔
اچھی بیٹی وہ ہوتی ہے جو خود تو ٹوٹ جاتی ہے لیکن ماں باپ کا اعتبار کبھی بھی نہیں توڑتی…
ماں باپ کی عزتوں کو پامال کر کے جو لڑکیاں غیر محرموں سے باہر جا کر ملتی ہیں ، ان کے ہاتھ میں سوائے بدنامی اور پچھتاوے کے کچھ نہیں آتا…
میں عام لڑکی نہیں ہوں مجھ پر بہت ساری نظریں مرکوز ہیں … میں نے پڑھ لکھ کر مثال قائم کرنا ہے کہ تعلیم بری نہیں ہوتی ، نہ لڑکیوں کو برا بناتی ہے بلکہ تعلیم تو انسان میں شعور اور آگاہی پیدا کرتی ہے … مجھے بھی اپنے بابا کا فخر بننا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گاؤں کی دوسری بچیوں کا رول ماڈل بننا ہے…”
ایک عزم سے ڈائری لکھ کر اس نے کرسی سے ٹیک لگا لگا کر آنکھیں موند لیں ۔ باہر بادل خوب گرج برس رہے تھے۔
****************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

لالچ — سونیا چوہدری

Read Next

احساس — ثمینہ طاہر بٹ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!