دِیا جلائے رکھنا
غلام محی الدین ترک
بچے جسے ہی باہر آئے ایک حیرت انگیز منظر ان کا منتظر تھا۔ جشن آزادی پر ایک خوب صورت کہانی!
یہ ایک اجلی سہانی صبح تھی۔ یوم آزادی میں ابھی پورا ہفتہ باقی تھا۔افتخار احمداپنی بیکری میں گاہکوں کو نمٹارہے تھے۔ ایسے میں شاہین پبلک اسکول کے چند طالب علم بیکری میں داخل ہوئے۔
”انکل! ہم چودہ اگست کی تقریب کے لیے اکہتر پونڈ کا کیک بنوانا چاہتے ہیں۔” کامران نے افتخار احمد کو سلام کرکے اپنا مدعا بیان کیا۔
”اکہتر پونڈ؟” افتخار احمد کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
”جی انکل! اس سال پاکستان کے قیام کی اکہترویں سال گرہ ہے، اسی لیے ہم اکہتر پونڈ کا کیک کاٹنا چاہ رہے ہیں تاکہ اس بار کچھ منفرد کرسکیں۔”
”بیٹا! آپ کے خیالات سن کر خوشی ہوئی۔ جس ملک کے بچے اپنے وطن سے اتنا پیار کرتے ہوں، یقینا اس کا مستقبل بہت تاب ناک ہوگا۔”
”جی انکل! آپ درست کہہ رہے ہیں۔ ہم اپنے وطن سے بہت پیار کرتے ہیں، اسی لیے اسکول کے بچوں نے پیسے جمع کیے ہیں۔ آپ یہ بتائیے کہ کیک کتنے پیسوں میں تیار ہوجائے گا۔”
”بیٹا! بڑا کیک بنوانے میں آپ کے بہت پیسے خرچ ہوں گے، آپ کوئی چھوٹا کیک بنوالیں۔” افتخاراحمد نے انہیں مشورہ دیا۔
”نہیں انکل! اسکول میں سینکڑوں بچے پڑھتے ہیں۔ ہم سب مل کر مزید پیسے جمع کرلیں گے۔ آپ فکر نہ کریں۔” کامران نے جواب دیا۔
کامران کی بات سن کر افتخار احمد نے اسے پیسے بتائے تو اس نے کچھ رقم ایڈوانس جمع کرواتے ہوئے کہا: ”ابھی یوم آزادی میں کچھ دن باقی ہیں۔ باقی رقم بھی میں آپ کو جلد پہنچا دوں گا۔”
بچوں کے جانے کے بعدافتخار احمد اپنے بچپن کی سنہری یادوں میں کھوگئے جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پورا محلہ سجایا کرتے تھے۔”چہرے بدل گئے مگر جذبہ وہی ہے۔ اللہ کرے یہ جذبہ ہمیشہ سلامت رہے۔” انہوں نے دل سے دعا مانگی۔
یوم آزادی سے ایک دن قبل وہ حسبِ معمول بیکری میں گاہکوں کو نمٹا رہے تھے کہ شاہین پبلک اسکول کے وہی بچے بیکری میں داخل ہوئے۔ ان کے چہروں سے فکرمندی صاف ظاہر ہورہی تھی۔
”انکل!” کامران نے انہیں مخاطب کیا۔
”جی بیٹا! کچھ پریشان نظر آرہے ہو۔” انہوں نے کامران کے چہرے کو بہ غور دیکھتے ہوئے کہا۔
”جی انکل! ایسی ہی بات ہے ۔ ہم مشکل میں پھنس گئے ہیں۔” اس نے جواب دیا۔
”اللہ خیر کرے، ایسی بھی کیا بات ہے ۔”افتخار احمد نے پوچھا۔
”انکل! اسکول میں پڑھنے والے کئی بچے بہت غریب ہیں۔ وہ فیس بھی بڑی مشکل سے اداکرتے ہیں، اس لیے ہم پورے پیسے جمع نہیں کرسکے اور ابھی تو اسکول بھی سجاناباقی ہے۔ اگر آپ ایک مہربانی کردیں تو…!” کامران کہتے کہتے رک گیا۔
”مہربانی، وہ کیا؟” افتخار احمد نے پوچھا۔
”انکل! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب کیک نہیں کاٹیں گے اور صرف اسکول سجائیں گے۔اگر آپ ہمارے پیسے واپس کردیںتو اسکول سجانے کے لیے جھنڈیاں اور دوسری چیزیں خرید سکیں گے۔”کامران نے جلدی سے اپنی بات مکمل کی اور افتخار احمد کی طرف دیکھنے لگا۔
”یہ بات تو آپ کو پہلے سوچنا چاہیے تھی۔ میں نے مشورہ بھی دیا تھا کہ کیک بنوانے میں کافی پیسے خرچ ہوں گے۔ اب تو کیک تیار ہونے والا ہے ۔” افتخار احمد کا جواب سن کر بچوں کے منہ لٹک گئے۔
”اب کیا کریں؟” کامران نے فکر مندی کے ساتھ باقی بچوں سے پوچھا۔
”اسکول چلتے ہیں، میڈم ہی کوئی حل بتائیں گی۔” ایک بچے نے کہا تو سب نے باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔
”ٹھہرو!” افتخار احمد کی آواز سن کر بچے رک گئے۔
”یہیں رکو! میںکچھ دیر میں گھر سے ہوکر آتا ہوں۔” ایک ملازم کو بیکری سنبھالنے کی ہدایت دے کر وہ چلے گئے۔ گھر پہنچتے ہی ایک کمرے میں الماری کی طرف بڑھے۔ اس الماری کی ایک دراز میں انہوں نے گلک رکھی ہوئی تھی، جس میں وہ ایک سال سے پیسے جمع کررہے تھے۔ افتخار احمد نے گلک توڑ کر پیسے نکالے اور انہیں گنناشروع کیا۔ جوں جوں وہ پیسے گن رہے تھے، ان کی آنکھوں کی چمک بڑھتی جارہی تھی۔
”یااللہ! تیرا شکر ہے۔” انہوں نے دل میں کہا۔
افتخار احمد رقم گن کر بیکری کی طرف آئے۔ ان کے قدم ایک آواز سن کر رک گئے۔ ”اگر ہم یوم آزادی کی تقریب میں کیک کاٹتے تو اچھا ہوتا۔” انہوں نے کامران کی آواز سنی۔ ”افسوس ، مگراب ایسا نہیں ہوسکے گا۔” دوسرے بچے کی آواز آئی۔ افتخار احمدبیکری میں داخل ہوئے تو انہیں دیکھ کر بچے چپ ہوگئے اور پُر امید نظروں سے انہیں دیکھنے لگے۔ انہوں نے کاؤنٹر سے پیسے نکال کر ان کی طرف بڑھائے۔
”انکل! بہت بہت شکریہ، کاش! ہم پورے پیسے جمع کرسکتے۔” کامران نے بے چارگی سے کہا اور سب بیکری سے باہر نکل آئے۔
٭…٭…٭
اگلے روز بیکری سے گھر جاتے ہوئے شاہین پبلک اسکول کے پاس پہنچ کر افتخار احمد کے قدم رک گئے۔ وہ برسوں بعد اس طرف آئے تھے۔ اچانک ہی ان کی نظریں اسکول کے سامنے والے پارک پر پڑیں، دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث یہ پارک اجڑ چکا تھا۔ پارک کی یہ حالت دیکھ کر وہ عجیب سی بے چینی محسوس کرنے لگے۔ وہ بچپن میں گرمیوں کی تیز دھوپ سے بچنے کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ اس پارک میں آجاتے اوریہاں لگے ہوئے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں کھیلا کرتے تھے مگراب یہ ویران ہوچکاتھا۔
پارک کے بارے میں سوچتے ہوئے انہوں نے شاہین پبلک اسکول کی طرف قدم بڑھائے۔ پرنسپل صاحبہ انہیں دیکھتے ہی چونک پڑیں۔
”اوہ! لگتا ہے آپ بچوں کی شکایت کرنے آئے ہیں۔ یقین جانیے یہ بچوں کا اپنا فیصلہ تھا اور مجھے یا باقی ٹیچرز کو اس بات کاعلم نہیں تھا۔” پرنسپل صاحبہ نے انہیں دیکھتے ہی صفائی پیش کی۔
”نہیں! میں بچوں کی شکایت کرنے نہیں آیا، میں تو ایک اور کام سے آیا ہوں۔” افتخار احمد کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
”وہ کیا؟” پرنسپل صاحبہ نے پوچھا تو افتخار احمد انہیں بتانے لگے۔
”اوہ! آپ درست کہہ رہے ہیں۔ باتیں کرنے یا دوسروں پر چھوڑنے کے بجائے یہ کام ہمیں خود ہی کرنا چاہیے۔ آخر کسی کو تو پہلا قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔”پرنسپل صاحبہ نے ان کی بات سن کر پُر جوش انداز میں کہا۔
”آپ کی حمایت پر مجھے خوشی ہوئی۔” افتخار احمد ان کا شکریہ اداکرکے باہر نکل آئے۔
٭…٭…٭
چودہ اگست کی صبح ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ افتخار احمد شاہین پبلک اسکول کے سامنے پارک میں کھڑے تھے۔ ملی نغموں اور بچوں کی تقریروں کی آوازیں پارک تک آرہی تھیں ، ان آوازوں کو سن کر وہ اپنے اندر جوش اور ولولہ محسوس کررہے تھے ۔تھوڑی دیر بعدان کا موبائل بجنے لگا۔
”افتخار صاحب! پروگرام ختم ہوچکا ہے۔” پرنسپل صاحبہ کی آواز آئی۔
”جی میں بھی اسکول کے باہر ہی ہوں۔آپ بچوں کو باہر لے آئیے۔” انہوں نے جواب دیا۔
شاہین پبلک اسکول کے بچے جیسے ہی باہر آئے تو ایک حیرت انگیز منظر ان کا منتظر تھا۔ پارک کے ساتھ ہی سینکڑوں پودے ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔بچوں کو دیکھتے ہی افتخار احمد نے کہنا شروع کیا: ”پیارے بچو! زندہ قومیں اپنے یومِ آزادی کو جوش و خروش سے مناتی ہیں۔ اچھے اچھے اور منفرد کام کرتی ہیں۔ ہم بھی آج دو منفرد کام کریں گے۔ سب سے پہلے ہر بچہ اپنے اپنے حصے کا ایک پودا اٹھاکر پارک میں جائے۔” جب سب بچے پارک میں آگئے تو افتخار احمد نے انہیں پودا لگانے کا طریقہ بتایا۔ انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ پارک میں کھاد اور پانی وغیرہ ڈال دیا تھاتاکہ پودے لگانے میں آسانی ہو۔ اب بچوں نے پودے لگانا شروع کیے۔
پودے لگنے کے بعد پارک کی خو ب صورتی میں اضافہ ہوچکا تھا۔”اب ہم ایک اور منفرد کام کریں گے۔” افتخار احمد کے اعلان نے سب کو چونکا دیا۔ اعلان ختم ہوتے ہی بیکری کے ملازم اکہتر پونڈ وزنی کیک لیے ہوئے پارک میں داخل ہوئے۔یہ دیکھ کر کامران تیزی سے افتخار احمد کی طرف بڑھا۔
”اوہ! انکل! آپ نے تو ہمارے دل جیت لیے لیکن یہ کیا…؟ ہمیں پیسے بھی واپس کردیے اور کیک بنانے کے ساتھ پودے بھی خرید لائے، کیا آپ کے لیے یہ نقصان کا سودا نہیں؟”
”نہیں بیٹا! یہ ہرگز نقصان کا سودا نہیں، میں روزانہ اپنی بیکری کے منافع میں سے کچھ حصہ ایک گلک میں جمع کرتا ہوں اور ہر سال ایسے کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں جن سے میرے وطن کو فائدہ پہنچے۔ یہی پیسے میں نے کیک اور پودے منگوانے میں استعمال کیے ہیںاور کیا آپ کو معلوم ہے کہ پودے کیوں لگائے گئے؟” سب نے نفی میں سرہلایا۔
”اس لیے کہ پودے اور درخت ہمیں گرمی سے بچاتے ہیں۔ ہمیں تازہ آکسیجن پھل اور سبزیاں بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہی پودے چند سالوں میں درخت بن جائیں گے۔ اگر ہمارے ملک میں سبھی لوگ ایسا کریں تواس پارک کی طرح ہمارا پاکستان بھی ہرابھراہوجائے۔ اب بتائیے، یہ نقصان کا سودا کیسے ہوا؟”افتخار احمد نے کہا تو کامران سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
”آپ سب وعدہ کریں کہ اس باغ کو کبھی اجڑنے نہیں دیں گے اور اپنے اپنے گھروں میں بھی پودے لگائیں گے۔” انہوں نے بچوں سے وعدہ لیا۔
”وعدہ، پکا وعدہ انکل!” سب بچوں نے مل کر بلند آواز میں کہا۔ تھوڑی دیر بعد سب پاکستان کی سالگرہ کا کیک کاٹ رہے تھے۔ دور کہیں ملی نغمہ گونج رہا تھا۔
موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے
سب بچے مل کر یہ نغمہ پڑھتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭