دوسرا حصّہ ۔ الف نگر

دوسرا حصّہ

نذیر انبالوی

آزادی کا دن یوں بھی منایا جاسکتا ہے؟ یومِ آزادی کے حوالے سے ایک خوب صورت کہانی!

چپکے سے، ہاں چپکے سے، آزادی دبے پاؤ چلتی ہوئی بچہ نگر میں بچوں کے درمیان آبیٹھی تھی، بچوں کے ہاتھوں میں پیارے وطن کا جھنڈا تھا۔ یہ بچے مذہبی تہواروں اور اہم قومی دنوں میں بچہ نگر میں جمع ہوتے اور اُس دن کی اہمیت پر بات کرتے۔ آزادی کے دن بھی سب بچہ نگر میں موجود تھے۔

ہانیہ نے اپنی سُریلی آواز میں ایک ملی نغمہ پیش کیا۔ اسعد نے جوشیلے انداز میں وطن سے محبت کا اظہار ایک تقریر کی صورت میں کیا۔ تقریر سنتے ہوئے بچوں نے پاکستان زندہ باد، آزادی زندہ باد کے نعرے خوب بلند کیے۔ آزادی بھی ایک طرف بیٹھی ان نعروں کا جواب دے رہی تھی۔ وہ نعروں کو سنتے ہوئے بڑبڑاتی۔ ملک میں ہر طرف یہی تو ہورہا ہے، نعرے ہی نعرے لگائے جارہے ہیں۔ عملی قدم کہیں اٹھتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ بچے بھی بڑوں کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔

اسعد کی تقریر کے بعد ذہنی آزمائش کا مقابلہ ہوا، جس میں بچوں سے تحریکِ پاکستان کے حوالے سے سوالات کے جوابات پوچھے گئے۔ بچوں کے جوابات سن کر آزادی کو اچھا لگا۔ ذہنی آزمائش کے بعد مصوری کا مقابلہ شروع ہوا۔ بچوں نے قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خاں، محترمہ فاطمہ جناح اور دیگر شخصیات کی تصاویر نہایت عمدہ انداز میں بنائی تھیں۔ اس مقابلے میں عبداللہ کو انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ تقریب کے اختتام پر سب بچے کھڑے ہوکر مقبولِ عام ملی نغمہ ”دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان” باآواز بلند گانے لگے۔ بچوں کی آوازوں میں آزادی نے بھی اپنی آواز شامل کرلی۔ تقریب اب ختم ہونے کے قریب تھی۔ پرچم لہرایا گیا، تقریر ہوئی، ملی نغمات پیش کیے گئے اور بس… یہی ہے یومِ آزادی، سب یہی خیال کرتے ہیں کہ یہی یومِ آزادی ہے لیکن آزادی اس وقت چونکی جب اسعد نے سب بچوں کو مخاطب کیا:

”لو بھئی! اب یومِ آزادی کا پہلا حصّہ مکمل ہوا، اب دُوسرا حصّہ شروع ہوگا۔”

”دُوسرا حصّہ؟” آزادی زیرِ لب نے دہرایا۔

”پہلے بچہ نگر میں یومِ آزادی کے موقع پر صرف پہلا حصّہ منایا جاتا تھا، اس سال سے ہم دُوسرا حصّہ بھی بھرپور طریقے سے منائیں گے۔” اسعد نے دُوسرے حصے کی تفصیل بچوں کو بتائی تو سب بچے یک زبان ہوکر بولے:

”ہم ایسا ہی کریں گے۔ ایسا کرنے سے آزادی ہم سے بہت خوش ہوگی۔”

”اگر تم سب بچے دُوسرے حصّہ پر عمل کرو گے تو مجھے خوشی ہوگی، اب میں دیکھتی ہوں کہ کون کون سا بچہ مجھے خوش کرتا ہے، میں ایک ایک بچے کے ساتھ ہوں۔” آزادی نے آہستگی سے کہا۔

بچے، بچہ نگر سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑے۔

”ارے وہ دیکھو! پانی ضائع ہورہا ہے۔” عبداللہ نے پارک کے ساتھ لگے ایک نل کو دیکھا، جس کی ٹونٹی کھلی ہوئی تھی۔ پانی بہ کر سڑک پر آرہا تھا۔ عبداللہ نے اپنے دوستوں کی مدد سے ٹونٹی بند کرکے پانی کو ضائع ہونے سے بچایا۔ آزادی بھی اُن کے ساتھ تھی۔ پانی کو ضائع ہونے سے بچا کر بچوں نے آزادی کو خوش کر دیا تھا۔

گول باغ کے قریب ایک نرسری تھی، جس میں ہر طرح کے پودے دستیاب تھے۔ سب بچوں کی جیب میں پیسے تھے۔ نرسری کے مالک نے بچوں کے جذبے کو دیکھ کر پودوں کی قیمت بہت کم کردی۔ اب ہر بچے کے ہاتھ میں ایک پودا تھا۔ جب وہ نرسری سے باہر نکلنے لگے تو اس کے مالک رضوان الٰہی نے کہا: آپ سب نے ان پودوں کی حفاظت بھی کرنی ہے تاکہ یہ درختوں کی صورت اختیار کرجائیں۔

بچے نرسری سے یہ عزم لے کر چلے کہ وہ ان پودوں کی بھرپور حفاظت کریں گے۔ بچے اپنا اپنا پودا زمین میں لگا چکے تو پانی دے کر سب نے دُعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ آزادی نے بھی دُعا کے لیے ہاتھ بلند کردیے۔

ایک سال بعد چپکے سے ایک بار پھر آزادی دبے پاؤں چلتی ہوئی بچہ نگر میں بچوں کے درمیان آبیٹھی تھی۔ پھر ہر سال کی طرح اس بار بھی پرُ جوش انداز میں تقریب کا آغاز ہوا اور اپنے مقررہ پروگرام کے مطابق ختم ہوا۔ آزادی کو اس پروگرام سے زیادہ دل چسپی نہیں تھی۔ اس کا دل تو چاہتا تھا کہ تقریب کا دُوسرا حصّہ جلد از جلد شروع ہو۔ واقعی پھر دُوسرا حصّہ پچھلے سال کی طرح شروع ہوا۔ بچوں نے پچھلے سال پانی کو بچانے کا جو شعور دیا تھا تقریباً سارے ہی لوگ اُس پر عمل کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ امجد نے جب بتایا کہ وہ پہلے نہاتے ہوئے سارا وقت شاور کھلا رکھتا، جس سے بہت سا پانی ضائع ہوجاتا تھا، مگر اب نہاتے ہوئے وقفہ وقفہ سے شاور کو بند کرتا اور کھولتا ہے۔ یہ سن کر سب بچوں نے امجد کو شاباش دی تھی۔ آزادی بھی شاباش دینے والوں میں شامل تھی۔

پھر سب بچے اپنے لگائے ہوئے پودوں کی طرف بڑھ گئے۔ بچوں کی محنت رنگ لے آئی تھی۔ پودے زمین سے خاصے بلند ہوگئے تھے۔ مسلسل دیکھ بھال اور بروقت پانی کی دستیابی سے پودے خاصے بڑے ہوگئے تھے۔ ان کے لہلہاتے سبز پتے دیکھ کر جہاں بچے خوش تھے وہیں آزادی بھی بہت خوش تھی۔

وقت اپنی مقررہ رفتار سے چلتا رہا۔ پانچ سال بعد یومِ آزادی کی تقریب بچہ نگر کے بجائے ان گھنے درختوں کے نیچے منعقد ہوئی جنہیں بچوں نے پودوں کی صورت میں لگایا تھا۔ پودے اب تناور درخت بن چکے تھے۔ اُس تقریب میں آزادی چپکے سے، دبے پاؤں چلتی ہوئی نہیں بلکہ بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے، اُن کا نام پکارتے ہوئے داخل ہوئی۔ روشن، پیاری اور اُجلی اُجلی آزادی کو دیکھ کر بچوں نے جوشیلے انداز میں نعرے بلند کیے۔ آزادی نے انہیں بتایا کہ اُسے تقریب کے دونوں حصّوں سے دل چسپی ہے۔ مگر دُوسرا حصّہ اس کا پسندیدہ حصّہ ہے۔ یہ گھنے درخت اسی دوسرے حصّہ پر عمل کرنے کی وجہ سے یہاں سایہ اور ٹھنڈی ہوا مہیا کررہے ہیں۔ پانی بچانے اور درخت لگانے کی جس مہم کا آغاز آپ نے پانچ سال پہلے کیا تھا۔ اب سب اس کا حصّہ بن رہے ہیں۔ آپ نے سب کو یہ پیغام دے کر اچھا کام کیا ہے کہ آزادی کا دن یوں بھی منایا جاتا ہے۔ ٹھنڈی چھاؤں والے درختوں تلے یومِ آزادی کی تقریب کا پہلا حصّہ ختم ہوا تو دُوسرے حصّہ میں اپنا حصّہ شامل کرنے کے لیے نرسری کا مالک رضوان الٰہی پودوں سے بھری وین لے کر وہاں آگیا۔ وہ شجرکاری کی مہم میں بچوں کو مفت پودے فراہم کرکے آزادی کی شاباشی کا حق دار قرار پایا تھا۔ اب پانچ سال پہلے اس مہم کو شروع کرنے والے بچے قدرے بڑے ہوگئے تھے۔ اب اور بھی بہت سے بچے اس اچھے کام میں ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ بچوں کے ہاتھ میں ننھے ننھے پودے تھے۔ وہ اس چٹیل میدان کی طرف بڑھے جو ایک عرصہ سے بچوں اور پودوں کا انتظار کررہا تھا۔ بچوں نے جیسے ہی چٹیل میدان میں پودے لگائے، میدان ایک خوب صورت سبزہ زار کا منظر پیش کرنے لگا تھا۔ یہ دیکھ کر تو آزادی کے پاؤں بھی خوشی سے زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ پودے لگا کر بچوں اور آزادی نے دُعا کے لیے ہاتھ بلند کردیے۔

آپ سب پیارے پیارے بچے آزادی کے دن کا پہلا حصّہ تو بھرپور طریقے سے منا رہے ہوں گے، دُوسرا حصّہ بھی آپ کا منتظر ہے، دیکھیے کہیں کوئی چٹیل میدان، کہیں کوئی بہتی ہوئی ٹونٹی تو آپ کا انتظار نہیں کررہی؟ یومِ آزادی کے دُوسرا حصّہ کا ہاتھ پکڑے آپ اپنا کریں گے تو آزادی خوش ہوجائے گی، جب آزادی خوش ہوجائے تو یومِ آزادی منانے کا مزا تو تبھی آتا ہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

دِیا جلائے رکھنا ۔ الف نگر

Read Next

گُلّو کی واپسی ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!