۳۔ ٹھیکے والے دَر و دیوار
یہ دروازے اور دیواریں ٹھیکے داروں نے بنائی ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض دیواریں تو آدھی بنی ہوتی ہیں اور بعض کی تعمیر تک مکمل ہو چکی ہوتی ہے لیکن یہ بنتی ہی ٹوٹنے کے لیے ہوتی ہیں۔ عموماً ٹھیکے دار حضرات پیسے تو پورے سامان (میٹریل)کے لے لیتے ہیں لیکن استعمال کرتے وقت ڈنڈی بلکہ ڈنڈا مارتے ہیں اور بقیہ سامان(میٹریل)کے پیسے اپنی جیب میں ڈال دیتے ہیں تاکہ مرنے کے بعد دوزخ میں ایک عظیم الشان محل کی تعمیر کی جا سکے۔
اسی لیے ٹھیکے والی دیواریں ایسی ہوتی ہیں کہ ذرا کسی نے ٹیک لگائی اور یہ دھڑام سے نیچے۔ ان دیواروں پر اگر غلطی سے کوئی کوا آ کر بیٹھ جائے تو یہ اس کی زندگی کا چراغ گل کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ ہم نے ایک بار مشہور مفکر چُپ شاہ سے پوچھا کہ یہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹا گون کی عمارتیں جہازوں کے ٹکرانے سے کیسے گریں؟ تو انہوں نے انکشافی انداز میں ہمیں بتایا کہ جہاز تو جہاز اگر کوئی اڑتا مچھر بھی ان عمارتوں سے ٹکرا جاتا تو بھی ان عمارتوں نے زمین بوس ہو جانا تھا۔ ہم نے وجہ پوچھی تو بتانے لگے کہ دراصل یہ عمارتیں ٹھیکے پر تعمیر کی گئی تھیں۔ ٹھیکے پر تعمیر ہونے والی عمارتوں کے اندر ایک اور کجی رہ جاتی ہیں اور وہ یہ کہ ہوا کے دباؤسے ایسی عمارتوں کی دیواریں ٹیڑھی ہو جاتی ہیں۔
چُپ شاہ کے نزدیک پیسا ٹاور کا ٹیڑھا ہونا اس کی ٹھیکے پر کی گئی تعمیر کی پہچان ہے۔ ہم ساری ٹیڑھی دیواروں کو ٹھیکے داروں کی غلطی نہیں قرار دے سکتے کیوں کہ کئی دیواریں اتنی نیک ہوتی ہیں کہ وہ رکوع و سجود کے لیے کعبے کی سمت جھک جاتی ہیں اور ہم لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ شاید ٹھیکے دار نے دیوار کی تعمیر میں کوئی ڈنڈی ماری ہوئی ہے۔ کچھ یہی حال ٹھیکے پر بنائے دروازوں کا ہے۔کبھی زنگ آلود لوہے کو پینٹ(رنگ و روغن) کرکے فروخت کیا جاتا ہے تو کبھی اس پرانی لکڑی کو جسے اندر سے کیڑوں نے کھا لیا ہو، رنگ و روغن کرکے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں۔ ایسے دروازے اکثر موت کے ہر کارے کے ساتھ مل کر اپنے مالک سے دغا کر جاتے ہیں اور انسان کو زمین کی پستیوں سے بلند آسمان کی وسعتوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ ان دروازوں سے توسوچ کے دروازے زیاد مضبوط ہوتے ہیں۔
۴۔ وی آئی پی دَر و دیوار
یہ دَر و دیوار اپنی اہمیت کے حوالے سے سب سے منفرد اور ممتاز ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر پائی جانے والی اعلیٰ مقتدر شخصیات اور اہم اداروں کے ارد گرد اسی قسم کے دروازے اور دیواریں ہوتی ہیں۔ یہ دیواریں تمام دیواروں سے اونچی ہوتی ہیں اور دروازے ہوشیار اور حسّاس۔ دیواروں نے خار دار تاروں والا لباس پہنا ہوتا ہے۔ عام دیواروں کے بر عکس ان دیواروں کے کان نہیں ہوتے البتہ آنکھیں ہوتی ہیں اور ان گنت تعداد میں جن کے اندر عقاب کی نظروں سے زیادہ پُھرتی ہوتی ہے۔ وی آئی پی دروازے بھی دوسرے دروازوں سے کچھ الگ ہی شان رکھتے ہیں۔ وہاں بے شمار سیکیورٹی گارڈز ان کی حفاظت پرمامور ہوتے ہیں اور یہ دروازے باز بان ہوتے ہیں۔ یہ بول کر بتا سکتے ہیں کہ آنے والا انسان کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ دلہن کی خاموشی اقرار کی علامت سمجھی جاتی ہے جب کہ ان دروازوں کی خاموشی انسان کے پر امن اور سادہ ہونے کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔ اگر ان دروازوں میں سے کوئی ایسا ویسا آدمی گزر جائے تو یہ چیخ چیخ کر آسمان بادلوں سمیت اپنے سر پر اٹھا لیتے ہیں اور نتیجتاً پورا ماحول سنگینوں کی زد میں آ جاتا ہے اور اگر بات کچھ زیادہ شدید ہو تو پستولوں کی گھن گرج کے ساتھ گولیوں کی بوندا باندی بھی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ دروازے عام دروازوں سے کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ ایسے در و دیوار VIPsکو عام لوگوں کی پہنچ اور رسائی سے دور رکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے دواؤں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے اور رکھا جاناچاہیے۔
۵۔ تاریخی دَر و دیوار
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ان دَر و دیوار کی اہمیت مسلمہ ہے چاہے غیر مسلموں کے دیس ہی میں کیوں نہ ہوں۔ پہلے تذکرہ کرتے ہیں دیواروں کا تو صاحبو! دیوارِ برلن اور دیوار عراق (جو امریکا نے2003ء میں عراق پر قبضے کے بعد بنائی تھی) بہت مشہور ہیں۔ ان دیواروں کا یہی کام ہے کہ وہ بنی نوع انسان میں تفریق پیدا کر سکیں اور ان کے درمیان نفرت کے بیج بو سکیں لیکن ایک ایسی تاریخی دیوار بھی ہے، جو بنی نوع انسان کی حفاظت کے لیے تعمیر ہوئی وہ ہے دیوارِ چین۔۔۔! تا تاریوں کے حملوں سے بچنے کے لیے یہ دیوار بنانے والوں کے علم میں بھی نہیں تھا کہ لوگ چاند سے جا کر اس دیوار کو تکتے رہیں گے۔ ایک دیوار ان دنوں انڈیا بھی لائن آف کنٹرول پر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک تاریخی دیوار سکندر نے بھی بنائی تھی جس میں یا جوج ماجوج کو قید کر دیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے سیاستدان کیسے اس دیوار کو پھلانگ آئے۔ باقی قوم ابھی قیامت کی منتظر ہے۔ دروازوں یعنی گیٹوں کے حوالے سے ہمیں پچھلے زمانوں میں کچھ روایات ملتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ہر شہر پناہ کا ایک بلکہ کئی گیٹ ہوتے تھے۔ لیکن آج کل کے دور میں صرف چند ہی شہروں کے دروازوں کا تذکرہ سننے کو ملتا ہے۔ جیسے لاہور میں لوہاری گیٹ، بھاٹی گیٹ، موچی گیٹ وغیرہ موجود ہیں۔ یہ سارے گیٹ انگریزوں سے بھی پہلے کے بنے ہوئے ہیں اور مغلیہ سلطنت کی یادگار ہیں۔
۶۔ عام دَر و دیوار
اس قسم کے در و دیوار آپ کو ہر طرف نظر آئیں گے۔ یہ دیواریں اتنی ہی کمزور ہوتی ہیں جتنے ان کے مکین غریب ہوتے ہیں۔ یہ گھر کی حفاظت کی خاطر تعمیر کی جاتی ہیں لیکن چور حضرات ان سے مک مکا کرنے کے بعد ان کو پھلانگ کر گھر والوں کو ان کے سرمائے سے محروم کر دیتے ہیں۔ پھر لوگ پولیس کو رپورٹ تک نہیں کروا سکتے۔ اس لیے کہ چوروں نے اتنی رقم چھوڑی ہی نہیں ہوتی کہ مظلوم بے چارہ پولیس والوں کو تحفے میں دے سکے اور تحفے کے بغیر تو ہمارے ہاں پولیس والے صرف ”کمال“ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری پولیس اور جاپانی ایک ہی فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ صرف ایک چھوٹا سا فرق ایسا ہے جو ہماری پولیس کی عظمت کی مثال پیش کرتا ہے۔ وہ یہ کہ جاپانی حضرات تحفے لینے اور دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور ہماری پولیس صرف تحفے لینے کی مشتاق ہے۔
کچھ اسی قسم کی دیواریں اور گیٹ سڑکوں کے بھی ہوتے ہیں۔ سڑک کی دیواریں مفرور مجرم جیسی ہوتی ہیں تبھی تو ان کو لوہے کی سلاخوں سے باندھا ہوتا ہے یا پھر سٹیل یا ایلومینیم کی تاروں سے۔۔۔! چُپ شاہ کا کہنا ہے کہ شاید دروازوں کی اہمیت یہیں تک محدود رہتی لیکن بھلا ہو امریکا کے صدر نکسن کا جس نے واٹر گیٹ سکینڈل کا حصہ بن کر گیٹوں کو ایک نئی زندگی دی۔ اسی طرح دروازے حسین حقانی اور منصور اعجاز کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے میمو گیٹ سکینڈل تخلیق کیا اور اکیسویں صدی میں بھی دروازوں کا بول بالا کیا۔
٭٭٭٭