داستانِ محبت — ندا ارشاد

آٹھواں باب
لالہ صاحب کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ہسپتال سے فون آتے ہی وہ ہاں پہنچی۔ لالہ صاحب آئی۔ سی۔ یو میں تھے۔ حادثے میں ان کا کافی خون بہ گیا تھا۔ اُنہیں خون کی ضرورت تھی۔ بلڈ گروپ بی نیگیٹو تھا اور ہسپتال کے بلڈ بینک میں یہ نایاب خون نہیں تھا۔ ڈاکٹرز نے اسے خون کا انتظام کرنے کا کہا’تو وہ ایک دم سے پریشان ہوگئی۔ اس کا اپنا بلڈ گروپ Oنیگیٹو تھا۔ اس لیے وہ خون دینے آئی۔ سی۔ یو سے ملحق کمرے میں آگئی۔ اسی وقت ردا بھی ہسپتال پہنچی۔ ردا کی والدہ اسی ہسپتال میں ڈاکٹر تھی۔ انہوں نے ہی ردا کو بلوایا تھا کیوں کہ اُس کا بلڈ گروپ بی نیگیٹو تھا۔ اس نے لالہ صاحب کو خون دیا۔ غرنیق کو اپنی کچھ دن پہلے والی سوچ اور رویے پر سخت شرمندگی ہو رہی تھی۔ ردا اس کی سچی دوست تھی۔
”ردا آج تم نے دوستی کا حق ادا کردیا ۔ تم نے ثابت کردیا کہ سچے دوست انمول نگینے ہوتے ہیں اور انہیں پا لینے والے خوش قسمت ترین لوگ ہوتے ہیں۔” وہ بھیگی آنکھوں سے بولی تھی۔
”رونا بند کرو ورنہ مہرداد سر کی کہی بات جھوٹ ثابت ہو جائے گی۔”
”کون سی بات؟”
”یہی کہ تم بہادر بنتی ہو اور پھر سوچتی ہو کہ تم کمزور ہو حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ونڈر لیڈی جتنی بہادر دکھتی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہادر ہے۔”
”ونڈر لیڈی؟”




”ہاں ونڈر لیڈی اگر تم انہیں اینگری برڈ بلا سکتی ہو’ تو وہ کیوں نہیں۔ اس بات پر غرنیق بھیگی آنکھوں سے مُسکرا دی۔ اتنے گھنٹوں میں وہ پہلی بار مسکرائی تھی۔ وہ بھی اس شخص کے دیے گئے خطاب پر۔ لالہ صاحب کی حالت اب خطرے سے باہر تھی۔ ردا کی مما نے لالہ صاحب کی خواہش پر انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی ۔
لالہ صاحب کے ایکسیڈنٹ کو ایک مہینہ ہوگیا تھا اور کچھ دن مزید آرام کے بعد وہ بالکل ٹھیک ہوگئے۔ غرنیق نے ان کے تمام معاملات اپنی نگرانی میں کروانے شروع کردیے تھے۔ چاہے وہ دوا ہو یا پرہیزی کھانا۔ یہاں تک ان کے گاڑی چلانے پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ آج لالہ صاحب ایک میٹنگ کے سلسلے میں آفس گئے اور ان کی جلد واپسی کا امکان تھا۔ اس لیے وہ کچن میں کھڑی اُن کے لیے چکن کارن سوپ بنا رہی تھی۔
”غرنیق بی بی یہ کوئی بندہ دے کر گیا ہے۔” نذیراں بی بی کے ہاتھ میں کچھ لفافے تھے۔ غرنیق ان لفافوں کو لے کر باہر لائونج میں آگئی۔یہ ہسپتال سے آئے تھے۔ ایک میں تو لالہ صاحب کی رپورٹس تھیں اور دوسرے میں بلڈ ٹرانسمیشن کے پیپرز متوقع تھے۔ ردا کی مما نے اسے کچھ دن پہلے فون پر بتایا تھا کہ جو بلڈ غرنیق نے دیا تھا وہ انہوں نے کسی ہارٹ پیشنٹ (دل کے مریض) کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ غرنیق کو اس بات پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا’ مگر آپریشن کے دوران اگر مزید خون کی ضرورت پڑتی تو انہیں غرنیق کی مدد چاہیے تھی۔ جیسے ہی اس نے لفافہ کھولا اسے پہلی بار پتا چلا کہ پیروں سے زمین نکل جانا کسے کہتے ہیں۔
ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے اس کی روح کھینچ لی ہو۔ اس کے تاثرات خطرناک حد تک عجیب تھے۔ آنکھوں میں ایک انجانا سا خوف اور دل تو جیسے دھڑکنا بھول گیا ۔
”یہ… یہ جھوٹ ہے یہ سب… دھوکا ہے، فریب ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔ بھلا میرے ساتھ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اسے یک دم جیسے ہوش آیا تھا۔ میں… میں نہیں… ہر گز نہیں… آخر کیوں… میں ہی کیوں؟ ایسا سخت امتحان… میں نے… تو کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا… پھر…ایسی بدعا… الفاظ ٹوٹ رہے تھے اور شاید وہ خود بھی اچانک ہی اُس کا سر چکرایا اور کاغذ کا ٹکڑا جانے کب اسے ہاتھوں سے پھسل کر گر چکا تھا۔ آخری منظر جو اس نے دیکھا وہ کوئی شخص تھا جو اندر داخل ہورہا تھا کون تھا وہ؟
٭…٭…٭
اسے ہوش آیا’ تو وہ ہسپتال میں تھی۔ لالہ صاحب اس کے سرہانے کھڑے تھے۔ وہی اسے یہاں لائے تھے۔ مسز زیدی (ردا کی مما) نے انہیں جو خبر سنائی تھی وہ اس قدر دہلا دینے والی تھی کہ اگر وہ مضبوط اعصاب کے مالک نہ ہوتے’ تو شاید اب تک اس دنیا سے جاچکے ہوتے۔ غرنیق کو بلڈ کینسر تھا۔ کینسر کی تشخیص اس بلڈ سے ہوئی تھی جو غرنیق نے اس دن دیا تھا۔ یہ ابتدائی اسٹیج کا کینسر نہیں تھا’ مگر حالات اس قدر بھی نہ بگڑے تھے کہ علاج نہ ہوسکے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ علاج فوری شروع کردیا جائے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ یہ تمام باتیں انہیں مسز زیدی نے بتا دی تھیں۔ انہوں نے ہی مشورہ دیا کہ غرنیق امریکہ چلی جائے وہاں کینسر کے ماہر معالج ڈاکٹر زنک البرٹ کو مسز زیدی پہلے ہی غرنیق کی رپورٹ بھجوا چکی تھیں اور انہوں نے غرنیق کے علاج کے پچاس فیصد امکانات کا اظہار کیا تھا۔ کینسر کی کئی اقسام میں بلڈ کینسر بھی ایک ہے۔ بعض دفعہ مریض کو بہت بعد میں اس مرض کا پتا چلتا ہے۔ کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی اور بعض دفعہ شروع ہی میں پتا چل جاتا ہے۔ غرنیق کا شمار اوّل الذکر لوگوں میں تھا’ مگر اس کی قسمت اچھی تھی جو حالات زیادہ بگڑنے سے پہلے اس مہلک مرض کی تشخیص ہوگئی۔ غرنیق نے لالہ صاحب کی حالت دیکھ کر خود کو مضبوط بنالیا۔ اگر مہرداد نے اسے بہادر کہا تھا ‘تو اسے بہادر بن کر دکھانا تھا۔ اس شخص کی کہی گئی ہر بات اب غرنیق کے لیے زندہ رہنے کا سہارا تھی۔
٭…٭…٭




پچھلے ایک ہفتے سے اس کی حالت عجیب ہورہی تھی۔ غرنیق کے بارے میں وہ بے حد پریشان تھا۔ اکثر ان بادامی آنکھوں میں اسے ایک انجانی سی تکلیف محسوس ہونے لگتی جسے وہ کوئی نام نہیں دے پا رہا تھا۔ تنہائی کم کرنے کے لیے آج وہ اسٹور روم میں چلا آیا جہاں گھر کا پرانا سامان بکھرا پڑا تھا۔ اتنے بڑے گھر میں اسے اسٹور روم بالکل اپنے جیسے لگتا۔ تنہا اور ویران، یہ بچپن سے اس کی عادت تھی جب بھی تنہائی محسوس کرتا وہ اسٹور میں چلا آتا تھا۔ آج بھی اسٹور میں آکر وہ خود کو تنہا نہیں محسوس کررہا تھا۔ غرنیق کی یادیں یہاں بھی اس کے ساتھ تھیں۔ پھر اس کی بادامی آنکھوں میں اسے اشک نظر آئے۔ پژمردگی کے انداز میں اُٹھتے ہوئے اس کا پائوں لکڑی کے ڈبے کو لگا اور وہ ایک جانب سے کھل گیا۔ وہ ایک کالے رنگ کا بیگ تھا۔ بیگ کھولنے پر اسے اس میں سے ایک ڈبیا اور ایک فائل ملی۔ مہرداد نے تجسس سے ڈبیا کھولی’ تو بے ساختہ اُس کے منہ سے نکلا:
”ارے یہ کیا۔ یہ تو وہی ”فارمولا بیج” ہے جسے میرے بابا جانی نے بنایا تھا اور پھر ان کے جانے کے بعد کبھی نہیں ملا۔” اس فارمولا بیج کے بارے میں اُسے زیادہ نہیں پتا تھا بس اتنا جانتا تھا کہ اس فارمولا بیج کو بنانے کے جرم میں اس کے باباجانی کو جان سے مار دیاگیاتھا۔ آغا جان اسے ہمیشہ بہت کم باتیں بتایا کرتے تھے۔ انہیں مہرداد کی جان بہت عزیز تھی لہٰذا وہ اس معاملے کو اللہ کے سپرد کرچکے تھے۔ اس نے فائل کھولی’ تو اس میں کسی شعیب خان کی غداری کے تمام ثبوت اور ایک خط بھی تھا۔
”یہ بیگ جس کسی کو بھی ملے اسے آئی ایس آئی تک پہنچا دے۔ کچھ غدار پاک سرزمین میں رہ کر دشمن ملک سے وفا نبھا رہے ہیں۔ شعیب خان بھی ان دشمنوں کا اہم مہرہ ہے۔ جسے وہ ہمارے وطن کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ ہمارے بہت سے راز دشمن کے ہاتھ بیچنے والے اس غدار کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے یہی میری درخواست ہے۔”
ایک محبت وطن
ڈاکٹر جہاں زیب عالم
مہرداد فوراً سمجھ گیا کہ جو راز اس کے بابا جانی نے اپنی جان پر کھیل کر بھی فاش نہیں ہونے دیا ‘ اسے بھی اس کی حفاظت کرنی ہے۔ اسے یہ بیگ صحیح ہاتھوں تک پہنچانا تھا۔ وہ بیگ لے کر سیدھا شہریار کے پاس آیا۔ شہریار اس کا بااعتماد ساتھی تھا۔ شہریار کے پاس جانے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی اسلام آباد ریسرچ لیبارٹریز میں سائنس دان تھا۔ شہریار مہرداد سے عمر میں بڑا تھا’ مگران کی دوستی عمروں کی محتاج نہ تھی اور وہ مہرداد کا واحد دوست تھا۔
”یہ وہی ”فارمولا بیج” ہے جو جہاں زیب انکل نے بنایا تھا۔ تم نہیں جانتے مہرداد یہ ”فارمولابیج” ہمارے وطن کی خوش حالی میں کتنا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس وقت بھی جہاں زیب انکل اس ”فارمولا بیج” کو صحیح ہاتھوں میں دینا چاہتے تھے کہ کسی اپنے نے غداری کی اور انکل کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ اب ہمیں اسے فوراً صحیح ہاتھوں میں پہنچانا ہوگا۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ آمنہ کے بھائی جان کے یہاں چلتے ہیں وہ پاک آرمی میں میجر ہیں اور ان دنوں چھٹی پر گھر آئے ہوئے ہیں۔” شہریار نے اپنے برادرِ نسبتی کی بابت اسے بتایا۔
”ٹھیک ہے پھر میں بھی چلوں گی۔” آمنہ جو اِن کی باتیں سن رہی تھی جھٹ تیار ہوگئی۔
وہ تینوں گاڑی میں سوار میجر حمزہ کے گھر کی طرف چل پڑے’ مگر وہ اس ان جانے خطرے سے بے خبر تھے جو ان کے تعاقب میں اور بہت جلد انہیں تباہ کرنے والا تھا۔
٭…٭…٭
کام ہوگیا صداقت…
جی جناب! گاڑی کو کھائی میں دھکیل دیا تھا۔ وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ تینوں لاشیں بھی پولیس کو مل چکی ہیں’ مگر… مگر کیا… شعیب خان غصے سے بولا۔
سر وہ بیگ کہیں نہیں ملا۔ شاید دھماکے میں وہ بھی تباہ ہوگیا۔ اس بیگ میں میرے خلاف تمام ثبوت تھے۔ بیگ کا تباہ ہوجانا میرے حق میں بہتر ہے۔ رہا ”فارمولا بیج” تو ہماری لیب میں دنیا بھر کے قابل سائنس دان اسے بنانے میں مصروف ہیں اور وہ بہت جلد کامیاب ہو جائیں گے ۔ شعیب خان نے مکاری سے مسکراتے ہوئے کہا ۔
صداقت کے آدمی جو ہروقت مہرداد کے گھر کی نگرانی پر مامور تھے۔ انہوں نے مہرداد کو ایک کالا بیگ لے جاتے دیکھ لیا تھا۔ وہ بیگ اسے اسٹور سے ملا تھا’ لہٰذا شک کی گنجائش نہیں تھی۔
شعیب خان کے حکم پر شہریار کے گھر کے باہر سے اس کی گاڑی کے بریک فیل کردیے گئے تھے اور سب کچھ ایک جھٹکے سے ختم ہوگیا۔ کیا واقعی… سب ختم کرنا اتنا آسان تھا؟
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صاحبِ حال — بلال شیخ

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!