خونی سایہ — عمارہ خان (پہلا حصہ)

فلک جو روانی میں ایشل کا نام لے گیا تھا اب احساس ہونے پر گھبرا گیا اور گھبراتے ہوئے بات بنانے کی کوشش کرنے لگا۔
” وہ وہ… سر وہ…”
سکندرصا حب نے ناگواری کے ساتھ اسے گھورا اور رک رک کے اپنی بات پر زور دے کے پوچھا۔
”تم … میری بیٹی کو کیسے جانتے ہو فلک شیر؟”
فلک نے سر جھکاکے دھیمی آواز میں اعتراف کیا ۔
”ایکچوئلی سر ہم ساتھ پڑھتے تھے۔ وہ اب ایم اے کررہی ہے اور میں تعلیم ادھوری چھوڑ کے جاب کی تلاش میں…یونو…”
سکندر صاحب نے اسے بہ غور دیکھتے ہوئے گہری سانس لی اور فون اٹھا کے ایشل کو تسلی دی۔
”بس بے بی رکو گاڑی آرہی ہے۔ سوری بچے ۔” فلک کو اندازہ ہوگیا، ایشل غلط نہیں کہتی کہ اس کے پاپا کتنی محبت کرتے ہیں۔
”تم کو اعتراض تو نہیں ہے نا۔” سکندر صاحب نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا، تو فلک نے چونک کے اُنہیں کو دیکھا ۔
”جی سر… کس بات پر ۔”
سکندر صاحب اپنی گاڑی کی چابی فلک کی جانب بڑھاتے ہوئے رسانیت سے ایک بار پھر اپنا سوال دہرانے لگے۔
”بے بی کو پک کرنے پر فلک…” ابھی تو تم کو بتایا ہے ۔
فلک اپنی ہی سوچوں میں گھرا ہوا تھا ، کب سکندر صاحب نے کہا اِسے احساس تک نہیں ہوا۔
”وائے ناٹ سر۔”
”تو یہ لو چابی اور فیز ٤ سے اسے پک کرکے ادھر ہی لے آؤ۔ سکندرصاحب نے مسکراتے ہوئے فلک کو دیکھا۔
”امید ہے تم مائنڈ نہیں کرو گے۔ میرا پرسنل کام کرتے ہوئے۔”
فلک نے چابی اٹھائی اور سر نفی میں ہلاتے ہوئے اُنہیں یقین دلانے لگا۔
”ارے نہیں سر۔ اٹس اوکے، لیکن یہ فائل؟”
”اوہو بھئی… ایسی پچاسوں فائلز ہم اپنی بیٹی کے سرسے وار کے پھینک دیں۔ وہ پچھلے بیس منٹ سے ویٹ کررہی ہے اور تم فائل کی بات کررہے ہو۔ جاوؑ جاوؑ بھاگو جلدی ورنہ وہ پھر فون کرنے لگے گی۔” سکندر صاحب کے ایک ایک جملے سے بیٹی کی محبت چھلک رہی تھی۔
فلک اُٹھ کے مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”اُفف اتنی دیر لگا دی تم نے …کہاں تھے؟” ایشل جو کب سے گاڑی کے انتظار میں یونی ورسٹی کی کار پارکنگ میں انتظار کررہی تھی۔ سکندر صاحب کی گاڑی دیکھ کے فوراً اس کی طرف لپکی اورڈرائیونگ سیٹ کی جانب دیکھے بغیر بیٹھتے ہی سوال پوچھنا شروع کردیے۔
”معلوم بھی تھا میں انتظار کررہی ہوں پھر کہاں غائب ہوگئے تھے تم…”
”آئی ایم سور ی میڈم، لیکن سزا کے طور پر آئس کریم کھلا سکتا ہوں۔” فلک نے شرارتی انداز سے ایشل کوگردن موڑ کے دیکھا۔
”تم؟ ادھر کیسے ، ڈرائیور کہا ں گیا اور تم…”ایشل فلک کو دیکھ کے حیران رہ گئی۔
”ایٹ یور سروس میڈم۔” فلک نے دو انگلیوں سے ماتھے کو چھوتے ہوئے کہا۔
”کہاںجانا پسند کریں گی؟”
”واٹ اے سرپرائز…”ایشل کا موڈ ایک دم خوش گوار ہوگیا۔
”اوہ مائی گاڈفلک…”
”آپ کے پاپا نے بھیجا ہے تاکہ ان کی بیٹی کو فوراً پک کرکے فیکٹری ڈراپ کردیا جائے۔”
ایشل جو ابھی تک خوش گوار حیرت میں ہی گھری ہوئی تھی ایک دم چپ ہو گئی۔
”اوہ…”
”کیا ہوا؟” فلک نے واضح طور پر اس کا بدلتا موڈ محسو س کیا۔
”کچھ نہیں…” ایشل نے لب بھینچ کے باہر کی جانب اپنی توجہ کرنی چاہی ۔
”سکندر صاحب نے آفس بلایا ہے۔ اسی بہانے دیکھو تم سے ملاقات بھی ہوگئی۔فلک نے بات کرنے کی کوشش کی۔
”ہاں آج پاپا کے ساتھ لنچ کرنا تھا۔” ایشل نے سرسری ساجواب دیا۔
فلک نے ایشل کا انداز دیکھتے ہوئے کندھے اُچکائے اور خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا اس بات سے انجان کے پیچھے بیٹھی ایشل اپنی آنکھوں سے بہتے سیال کو مسلسل صاف کررہی ہے۔ اسے ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھے دیکھ کے۔
٭…٭…٭
”کچھ کرو بابا جی بس میرا شوہر دوسری شادی نہ کرے۔” خستہ حال عورت عامل کے پاس بیٹھی ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ عامل نے اسے غصے سے گھورا…
”میں مرجاوؑں گی۔ کچھ ایسا کرو وہ باز آجائے۔ ”
”اب کچھ نہیں ہوسکتا سارا کام خراب ہوچکا ہے۔” عامل نے ناگواری سے اس عورت کا رونا دیکھا۔
”اتنی مشکل سے اس رات چھپ کے وہ تھالی قبرستان میں دفنائی تھی اور کیا کرنا تھا۔” عورت نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
”میں اس سے پہلے کبھی قبرستان ہی نہیں گئی تھی جی اور آپ ایسا بول رہے ہو، اس پتلے کو بھی ادھر گاڑا تھا۔”
”اگر تم اسے ذرا اور گہرائی میں دفن کردیتی، تو ایسے نہ رورہی ہوتی بے وقوف عورت۔” عامل نے عورت کے تیور دیکھتے ہوئے ماتھے پر بال ڈالے۔
”میری مانی ہوتی تو آج ادھر نہ بیٹھی ہوتی بلکہ اپنے گھر راج کرتی کیوں کہ تیرے من کی مراد پوری ہوجاتی۔بیٹا مل جاتا تجھے بیٹا۔”
”اب کیا کروں میں۔” عورت نے ایک بار پھر روتے ہوئے دوپٹے سے ناک صاف کی۔
”میرا شوہر اگلے ہفتے دوسری شادی کررہاہے ، میں تو تباہ ہوگئی نا۔”
عامل نے سامنے بیٹھی تباہ حال عورت کو ناراض نظروں سے دیکھاا ور بڑبڑاتے ہوئے سر جھٹکا۔
”اُنہہ دوسری شادی کی پڑی ہے اس کو، ادھر میرے برسوں کا انتظار غارت ہوگیا۔ نادان عورت، کم عقل نا ہوتو…”
”کچھ تو حل بتادو بابا جی ۔بڑی آس لے کے آئی تھی۔” اس عورت نے آس بھری نگاہوں سے عامل سے منت کی۔
”آپ تو سب کرسکتے ہو بہت پہنچے ہو ئے ہو۔”
”جو قسمت میں لکھا ہے وہ تو ہوکے رہے گا۔ اب جا اور صبر سے کام لے۔ جیسے میں لے رہا ہوں۔” عامل نے جان چھڑانے والے انداز میں اس عورت سے منہ پھیرا۔ اچانک جھگی میں کالے بلے کے آنے کی آہٹ ہوئی۔ عامل نے اس آہٹ کو محسوس کرتے ہوئے عورت کو جانے کا اشارہ کیا۔ بیٹے کی آس میں دکھی عورت نے اپنے نجات دہندہ کے انداز دیکھے اور روتی دھوتی جھگی سے باہر نکل گئی۔ اس کے نکلتے ہی عامل نے ایک طرف دیکھتے ہوئے بلے سے سوال پوچھا۔
”ہاں ، کیا خبر ہے؟”
سوال ختم ہونے سے پہلے ہی، ایک کونے میں کالا بلا نمودار ہوگیا۔
”ہوں ، نظر آنا شروع ہوگیا وہ؟”
چلو دیکھتے ہیں و ہ لڑکا کیا فیصلہ کرتا ہے۔ عامل کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ سکون سے تو رہنے نہیں دوں گا میں اس کو…

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بلا عنوان — ثناء شبیر سندھو

Read Next

کچن میں ایک دن — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!